Laaltain

سفید دھاگہ

9 ستمبر، 2015

سفید چکن کے کرتے پاجامے میں ملبوس، ایک ہاتھ میں بچوں کی کاپیوں سے بھرا شاپنگ بیگ، دوسرے ہاتھ میں شولڈر بیگ اور آنکھوں پر سن گلاسز لگائے وہ رکشے سے اتری۔ تھکے قدموں کے ساتھ چلتی ، چار سیڑھیاں چڑھ کر اس نے چابی ، فلیٹ کے دروازے کے تالے میں گھمائی اور کمرے میں داخل ہوئی۔ ابھی اس نے ایک پاوں کا جوتا اتارا ہی تھا کہ اس کی نظر ڈور میٹ پر ایک لمبے سے سفید دھاگے پر پڑی۔ اس نے جوتے کا اگلا حصہ بار بار اس دھاگے پر مارا لیکن وہ سانپ کی طرح بل کھا کر میٹ کے اور ساتھ چپک گیا۔ اس نے ایک بار اور کوشش کی تو دھاگہ ہاتھی کی سونڈ کی شکل بنائے، ایک طرف سے لمبا ہوا اور میٹ کے بالوں میں نیم پوشیدہ ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ اسے ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دے لیکن اس کی بجائے اس نے اپنے جوتے اٹھائے اور جھاڑ کر شو ریک میں رکھ دئے۔ ہینڈ بیگ میز پر الٹا کر اس نے سیل فون تلاش کیا اور اسے چارجنگ پر لگا دیا-

اس کا جسم پسینے میں شرابور تھا ۔اسے ایسے لگ رہا تھا کہ سکول کے مختلف کاغذات، اسباق کی تفصیل، پلینرز اور بچیوں کی ہوم ورک کی کاپیاں اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں۔ کمرے میں لگے وال کلاک کی سوئیاں چار بج کر پچیس منٹ بجا رہی تھیں۔ صبح سکول جاتے وقت جو کپڑے اس نے اتارے تھے وہ اسی طرح پڑے تھے۔ اس نے ایک بار پھر ڈور میٹ کی طرف دیکھا۔ سفید دھاگہ اب چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی طرح جگہ جگہ سے ابھرا نظر آرہا تھا۔ اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ بیڈ روم میں گئی اور دیواروں کے تمام پردے برابر کر کے عادت کے مطابق قمیض وغیرہ اتار کر، پنکھا فل سپیڈ پر چھوڑ کر عین اس کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ پنکھے کی ہوا اگرچہ گرم تھی لیکن عریاں جسم کو اس سے خاصی آسودگی ملی۔ کچھ دیر بعد اس نے تولیہ پکڑا اور غسل خانے میں لٹکا دیا مگر ابھی اس کا نہانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ باورچی خانے میں چلی آئی، ماچس کی ڈبیا پکڑی اور چولہا جلانے ہی لگی تھی کہ اس کا ارادہ بدل گیا۔ اس نے فریج کھولا اور ایک دوست کے گھر سے لائی خوبصورت کٹ والی بوتل سے ٹھنڈا پانی اپنے حلق میں انڈیلا اور کمرے سے باہر آگئی۔ کمروں میں گھس آنے والی چھپکلی تو اسے تنگ کیا ہی کرتی تھی لیکن یہ سفید دھاگہ آج خوامخواہ کی پریشانی بن رہا تھا۔ اس نے ڈور میٹ کی طرف دیکھا ، اسے ڈرتے ڈرتے، دو انگلیوں سے اٹھایا، دھاگہ اس وقت کسی کی ای سی جی کی مانند تھا۔ اس نے دروازے کے سوراخ سے باہر دیکھا، ہوا چلنا شروع ہو چکی تھی۔ اس نے خاموشی سے دروازہ کھولا اور ایک پاوں باہر نکالا اور ایک اندر ہی رہنے دیا اور دروازے کی آڑ سے دہلیز پر میٹ کو زور سے جھٹکا۔ اس نے میٹ کو اتنے زور سے جھٹکا کہ اسے کھانسی آگئی ۔ دھاگہ اب بھی میٹ کے ساتھ کسی جونک کی طرح چمٹا تھا۔ اس نے میٹ کو زوردار جھٹکا دینے کی خاطر بے خیالی میں دوسرا پاوں بھی باہر نکال لیا۔ اس نے ڈور میٹ کو دروازے کے برابر سیڑھیوں کی ریلنگ کے ساتھ زوردار طریقے سے جھٹکا دیا ، میٹ اس کے ہاتھ سے پھسل کر نیچے گرا اور ٹھیک اسی لمحے زوردار دھماکے کے ساتھ وہ دراوزہ بند ہو گیا جس کے بند ہونے سے بچنے کے لئے اس نے ایک پاوں اندر کر رکھا تھا۔ ” اوہ۔۔۔ نہ مالک کو وقت ملے گا نہ اس دروازے کا تالہ بدلا جائے گا ” غصے کی لہر اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ اس نے اپنے آپ کو غور سے دیکھا۔ وہ اپنے فلیٹ کے باہر، ٹانگیں چوڑی کئے کھڑی تھی اور اسنے صرف پاجامہ پہن رکھا تھا۔ اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ جانتی تھی کہ مستری کو بلائے بغیر یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ اپنی اس ہیئت کذائی پر کوئی گرم سیال مادہ اس کے جسم میں دوڑ گیا۔ اس نے اوپر کے فلیٹ کی جانب دیکھا تو اسے ایک کھڑکی کے پٹ پورے کھلے نظر آئے اور اسے ایسے لگا کہ یہ تو اسے کھانے کے لئے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ خوف کی ایک لہر آئی۔ اسے دل کی دھڑکن کن پٹیوں میں بجتی محسوس ہوئی۔ اس کی نظریں بار بار بند دروازے، میٹ ، کھڑکی اور نصف عریاں جسم کا طواف کر رہی تھیں۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے عریانی ڈھانپنے کی کوشش کی مگر ایک حصہ چھپاتی تو دوسرا نمایاں ہو جاتا۔ کچھ دیر وہ اسی کشمکش میں رہی اور پھر بڑی بے بسی سے اس دیوار کے ساتھ جس پر سوئچ بورڈ لگے تھے متھلا مار کر بیٹھ گئی۔ ڈور میٹ اس کے سامنے پڑا تھا اور دھاگہ اب مسکراتے ہونٹوں کی شکل بنائے ہوئے تھا۔

فلیٹ کے باہر نیم عریاں حالت میں ایسے بیٹھنا— اس کی ریڑھ کی ہڈی میں گرم موسم میں بھی سردی کی ایسی لہر اٹھی کہ اسے شدید درد محسوس ہوا۔ اسے ایسے لگا کہ جسم کا سارا خون اسکے چہرے اور کن پٹیوں میں جمع ہو کر منجمد ہو گیا ہے۔ یہ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے اس نے دکھ سے سوچا۔ عمارت کی پرلی طرف، تنگ گلی کی نکڑ والی مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز آئی تو اس نے صدق دل سے دعا مانگی کہ کوئی اسے اس حالت میں نہ دیکھ پائے۔ وہ تو صبح سکول کے لئے نکلتے وقت بھی پہلے دروازے کی درز سے باہر جھانکتی ہے اور یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ گلی میں کوئی علیک سلیک کرنے والا نہیں تو جلدی جلدی قدم اٹھاتی گلی کے کونے پر پہنچتی ہے جہاں رکشے والا ٹھیک سوا سات بجے موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے بیگ اور لنچ باکس کے ساتھ رکشے میں سوار ہوتی ہے اور اندر بیٹھ کر ایک گہرا سانس لیتی ہے تو ایک ووف کی آواز نکلتی ہے جو رکشے کی تیز پھٹ پھٹ کے باوجود صاف سنائی دیتی ہے۔ سکول سے اس کی واپسی اکثر ایسے اوقات میں ہوتی ہے جب عمارت کے مکین دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے ہیں یا کچھ بد تمیز بچے دوپہر برباد کرنے کے بعد گلی میں شور شور کھیل رہے ہوتے ہیں، ہاں اس نے ان کے اس کھیل کو شور کا نام ہی دے رکھا تھا کہ تنگ سی گلی میں کرکٹ یا فٹ بال یا کچھ بھی کھیلنا محض شور مچانے کے مترادف تھا۔

شکر ہے کہ بچے آج کھیل کر جا چکے تھے ورنہ وہ جس حالت میں تھی اس میں کوئی اسے دیکھ لیتا تو نہ جانے زمین آسمان کے کون کون سے قلابے ملاتا۔ سکول سے فلیٹ میں داخل ہونے کے بعد وہ تو کبھی چہل قدمی کے لئے بھی نہیں نکلی تھی حالانکہ اڑوس پڑوس کی عورتیں اور بچے اکثر رات کو ملحقہ خاموش سڑک پر سیر کرتے پائے جاتے تھے لیکن اس کے اندر ایک خوف بس چکا تھا اور یہ خوف اس کے اس شوہر کی دین تھا جس نے اس کی ازدواجی زندگی جہنم بنا ئی اور اب اسے علیحدہ ہوئے کافی عرصہ بیت چکا تھا۔ اوپر تلے بیٹیوں کو جنم دینے کے بعد کسی اولاد نرینہ کو جنم دینے کی کوشش میں وہ پیٹ کے اندر بیٹے اور زچگی کی صلاحیت دونوں ہی کھو بیٹھی۔ مردوں کو ہمیشہ نر وارث کی ضرورت ہوتی ہے چاہے پلے کچھ ہو نہ ہو (اس مرد کے خیال میں عورت چاہے ماں ہو، بیٹی ہو یا بیوی، کسی منصب کے لائق نہیں )، سو اس نے ایک اور شادی کر لی اور اس کے ساتھ کچھ ایسا برتاو کیا کہ وہ ایک خوف زدہ فرد میں تبدیل ہو گئی جسے ہر وقت کسی حادثے کا ڈر رہتا۔انہیں حالات میں وہ ماں باپ کے گھرواپس پہنچ گئی ۔کچھ عرصہ ماں باپ کے ساتھ رہی لیکن بھایئوں کی شادیوں کے بعد اس گھر میں بھی اس کے لیے جگہ نہ رہی تو اس نے اس عمارت میں ایک مناسب فلیٹ مناسب سے کرائے پر لے لیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ اکیلے رہنے کا اتنا بڑا اقدام اٹھا کر اس کے اندر کا خوف کچھ کم ہوتا لیکن یہ خوف شاید اس کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا۔ سکول میں ملازمت اسے ایک واقف کار کی سفارش پر ملی لیکن وہ اپنی محنت اور لگن کے ساتھ وہ اب وہاں ایک اچھی پوزیشن پر تھی۔ اس کے ساتھی، اس کے ماتحت اور مالی ، چوکیدار، بلاوی سب کے سب اس کی بے حد عزت کرتے تھے اور اس کے دوست ہمیشہ مدد گار اور دکھ درد میں شریک پاتے تھے۔

لیکن اس وقت یہ مسئلہ در پیش تھا کہ کسی نے اس حالت میں دیکھا تو کیا کہے گا اور کہنے والوں کی زبانیں بند کرنے کا کوئی نسخہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ پسینے میں شرابور وہ دیوار کے ساتھ متھلا مارے بیٹھی تھی اور بازووں سے عریاں جسم ڈھانپنے کی کوشش میں اس نے اپنی بانہوں کی رگیں دیکھیں جو ابھری ہوئی نیلی اور کالی نظر ارہی تھیں اور اسے ایسے لگا کہ یہ اس کے بازو نہیں بلکہ کسی اور کے ہیں یا شاید وہ اپنے آپ کو اتنی تفصیل سے پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ بے خیالی میں اس نے اپنے معدے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو اسے یوں لگا جیسے پیٹ کے اندر کوئی چھوٹا سا لجلجا سا تھیلا ہے۔ اس نے ایک ہاتھ سے اپنے سینے کو ڈھانپا کہ دوسرے ہاتھ سے بالوں میں اٹکے کلپ کو دوبارہ لگائے کیونکہ بال بار بار ماتھے پر گر رہے تھے کہ اچانک اسے ایک خیال آیا اور اس نے کلپ ہی اتار کر پھینک دیا۔ کافی عرصے سے اس نے بال نہیں کٹوائے تھے اس لiے وہ اتنے لمبے تو ضرور تھے کہ انہوں نے جسم کا کچھ ابھار ڈھانپ لیا۔ کچھ شام کے جھٹ پٹے نے اس کی مدد کی۔ ہمت کر کے وہ اٹھی اور اس نے ڈور میٹ کو دیکھا۔ سفید دھاگہ اب اس کے بازووں کی رگوں کی مانند نظر آنے لگا۔ اسے قریب ہی سے کسی کے قدموں کی آواز آئی تو وہ ساری جان سے کانپ گئی اس نے میٹ کو ایک چادر کی مانند اپنے سینے پر لپیٹ لیا جیسے کوئی بہترین قیمتی لباس ہو۔ خوف اور پریشانی کی ایک اور لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی لیکن قدموں کی آواز کہیں غائب ہو گئی۔

ڈور میٹ کے بال اس کے جسم میں پیوست ہو کر بری طرح چبھ رہے تھے۔ اس نے میٹ اتار کر پھینک دیا۔ اب تو اس کی خواہش تھی کہ کوئی مدد کو آ ہی جائے، بھلے وہ ایک دفعہ اسے اس حالت میں دیکھ کر ششدر تو ضرور ہو گا لیکن وہ وضاحت کر کے اس سے کسی کپڑے، کسی چادر کی درخواست کر سکے گی۔ اس نے ایک اندازہ سا لگانے کی کوشش کی کہ سات فلیٹوں والی اس عمارت میں اگر فی فلیٹ تین باسی بھی ہوں تواکیس لوگ تو ہوئے۔ کم از کم آدھے تو گھروں سے باہر دفتر، یونیورسٹی، کاروبار سے اب واپس نکل پڑے ہوں گے کہ اس وقت تو پرندے بھی اپنے گھونسلوں کو لوٹ آتے ہیں۔ کاش کوئی بچہ ہی آ جائے۔ آخر وہ سارے بدتمیز بچے کہاں دفع ہو گئے جو ساری دوپہر گلی میں اودھم مچاتے ہیں۔ کاش وہ خاکروب ہی آ جائے مگر وہ تو مالک کے کہنے پر ہفتے میں صرف ایک بار، باہر کی صفائی کرنے آتا تھا۔ اسے کمرے میں فون کی گھنٹی بجنے کی آواز آئی ۔ یقیناً یہ اس کی بڑی شادی شدہ بیٹی ہوگی۔ اس کے فون کرنے کا یہی وقت ہے اور وہ فون پر سارے دن کی روداد سنا کر کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ بھی بیان کر دیتی کہ ماں اور پریشان ہو جاتی اور کچھ نہ کر پانے کی بے بسی میں ہاتھ ملتی رہ جاتی۔

تھک کر وہ پھر دیوار کا سہارا لے کر کسی مدد کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ معا ًاسے خیال آیا کہ دو فلیٹوں کی بیچ کی دیوار کو ہی تھپ تھپا کر دیکھے شاید کوئی سن پائے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی کہ ساتھ والے فلیٹ کے باسی اسے کبھی بھی اچھے نہیں لگے تھے۔ ان کی سرگرمیاں مشکوک سی تھیں اور ایک انجانا سا خوف ان کے بارے میں اس کے دل میں شروع ہی سے تھا۔ قدموں کی آواز ایک بار پھر آئی۔ اس نے اپنے آپ کو سختی سے دیوار کے ساتھ لگا لیا اور ڈور میٹ اٹھایا تاکہ اپنے گرد لپیٹ لے، قدموں کی آواز رک گئی۔ سفید دھاگہ اب انگریزی حرف وی کی شکل بنا رہا تھا۔ اس نے عمارت کے میں گیٹ کے دھندلے سے شیشے میں کوئی چہرہ ابھرتا دیکھا، پھر دروازہ کھلنے کی آواز سنی اور دوڑ کر سیڑھیوں کے پیچھے جا چھپی، آنے والا نہ جانے کون سے فلیٹ میں چلا گیا تب اسے خیال آیا کہ اس نے موقع کھو دیا ہے۔ یہ وقت چھپنے کا نہیں مدد کے لیے پکارنے کا تھا اور کوئی پردہ کوئی چادر کچھ بھی مانگا جا سکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں خوف اور جھجک اس پر مسلط ہوا اور اس کے دماغ نے مدد مانگنے کی بجائے ٹانگوں کو دوڑنے کا حکم دیا۔

باہر اب کافی اندھیرا ہو چکا تھا۔ دیوار کے ساتھ کھڑی وہ اپنے آپ کو خاصا محفوظ سمجھ رہی تھی ،اس نے آنکھیں اتنے زور سے بھینچ رکھی تھی کہ ان میں آنسو نکل آئے۔ ہوا بھی اب کافی تیز تھی اور لگ رہا تھا کہ دن میں جتنی گرمی پڑی ہے اس کا اثر برابر کرنے یہ ہوا آندھی میں تبدیل ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا، تیز ہوا کا ایک جھکڑ مٹی سمیت اسکے بدن سے ٹکرایا اور پھر فلیٹ کے دروازے سے اور دروازہ ایک دم کھل گیا۔ اس سے پیشتر کہ دروازہ پھر بند ہوتا وہ ایک ہی جست میں کمرے کے اندر پہنچی اور خود کو زمین پر گرا دیا۔ ۔ اطمینان کا ایک طویل سانس لے کر وہ اٹھی۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ کمرے کی بتی جلائی۔ بیڈ کی کریم کلر کی چادر، اسی رنگ کے سرہانے، ہلکے نیلے رنگ کی پوشش والی کرسی، جھولنے والی آرام کرسی، خوبصورت گلدان، تیز ہوا سے اوپر اٹھتے پردے، سنگھار میز—– اسے ہر چیز ایسے نئی لگ رہی تھی گویا وہ آج پہلی بار اس کمرے میں آئی ہو۔ اس نے ڈور میٹ کی طرف دیکھا جو آدھا کمرے میں اور آدھا دروازے میں پھنسا تھا۔ اس نے ڈور میٹ کو اندر کی جانب کھینچا—- سفید دھاگہ اب وہاں نہیں تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل جھک گئی، اس نے غور سے دیکھ، واقعی دھاگے کا نام و نشان نہیں تھاَ۔

4 Responses

  1. کیا ہی خوبصورت تحریر ہے.مصنف یقیناً منٹو سے بے انتہا متاثر نظر آتا ہے یہاں تک کہ انکا اپنا انفرادی رنگ بهی مدہم پڑگیا ہےبہرطور مجموعی طور پر ایک اچهی کوشش کہی جاسکتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

4 Responses

  1. کیا ہی خوبصورت تحریر ہے.مصنف یقیناً منٹو سے بے انتہا متاثر نظر آتا ہے یہاں تک کہ انکا اپنا انفرادی رنگ بهی مدہم پڑگیا ہےبہرطور مجموعی طور پر ایک اچهی کوشش کہی جاسکتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *