زندگی ایک طویل سفر ہے اور اس سفر میں ہم نہ جانے کتنے لوگوں سے ملتے ہیں،کتنوں کو اہم تصور کرتے ہیں، کتنوں کو غیر ضروری۔ بعض لوگ ہمیں خود سے بہتر لگتے ہیں اور بعض خود سے بد تر۔ لوگوں کو سمجھنے، انہیں آنکنے اور ان کی اہمیت کا تعین کرنے کا ہر شخص کے پاس ایک زاویہ ہوتا ہے۔ وہ کسی اور کا نہیں، بلکہ خود اس کا اپنا تشکیل کردہ ہوتا ہے، پھر خواہ وہ کسی تہذیبی دھارے کی مدد سے متشکل ہوا ہو، کسی مذہبی جذباتیت سے بنا ہو یا کسی وقتی جذباتی لہر سے۔ میں نے بھی اوروں کی طرح زندگی کے بدلتے رنگوں، لمحوں اور منظر ناموں میں بے شمار لوگوں کو دیکھا ہے، کچھ کو اچھا سمجھا ہے،کچھ کو برا سمجھا ہے، کچھ سے متاثر ہوا ہوں اور کچھ سے مرعوب۔ ایسے لاتعداد لوگوں میں مجھے زیادہ تر ان شخصیات نے اپنی طرف کھینچا ہے جو ہماری آنکھوں کے کناروں پر آباد ہوتی ہیں۔ جنہیں مرکز میں لانے کا خیال کم لوگوں کو آتا ہے، لیکن جن لوگوں کے ذہن میں کبھی یہ خیال ابھرتا ہے تو انہیں یک دم ان آنکھوں کے ساحلوں پر آباد شخصیات مرکزی اشخاص سے بدرجہا متاثر کن معلوم ہونے لگتی ہیں۔ ہماری ادبی روایت میں منظر تراشی کے ایسے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شوکت تھانوی، فرحت اللہ بیگ، اشرف صبوحی، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، سعادت حسن منٹو،محمد طفیل اور اسلم پرویزوغیرہ کے یہاں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایسی شخصیات کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ زندگی سے بھرپور اپنے آزاد اصولوں کی موج میں جیتی رہتی ہیں۔ انہیں کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہوتا اور نہ ہی احساس برتری۔ یہ ساحلی مزاج انسان کسی بھی رنگ، نسل اور ذات کے ہو سکتے ہیں، کسی بھی مرتبے پر مل جاتے ہیں، کسی شاہراہ پر ٹکرا جاتے ہیں، کسی انجان سڑک کے موڑ پر نظر آ جاتے ہیں یا کسی نفیس ماحول میں۔عین ممکن ہے کہ آپ کو محسوس ہو کہ میں یہ باتیں کیوں کر رہا ہوں؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سےایک ایسی ہی متاثر کن شخصیت سے میری بھی ملاقات ہو رہی ہے۔ حالاں کہ میری ان سے بہت زیادہ بات چیت نہیں ہوئی ہے، نہ ہی میں نے کبھی کسی مسئلے پر ان سے تبادلہ خیال کیا ہے، نہ انہوں نے مجھے کبھی اپنی ذاتی زندگی کے متعلق کچھ بتایا ہے اور نہ ہی کہیں کسی مضمون اور انشایئے میں میں نے ان کا مفصل تذکرہ پڑھا ہے۔ آپ صرف یہ سمجھ لیں کہ میں نے انہیں گاہے بگاہے دیکھا ہے۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا ہے اور اس غور کے نتیجے میں انہیں متاثر کن تصور کیا ہے۔
یہ بات کچھ چار یا پانچ برس قبل کی ہے یا اس سے بھی کچھ پرانی کہ جب پہلی بار میں کسی کام کے سلسلے میں اردو کے مشہور ادیب جناب شمیم حنفی صاحب کے گھر گیا۔ وہ کام بھی کچھ اتنا اہم نہیں تھا کہ بس ایک عزیز دوست کی ایک تحقیقی کتاب منظر عام پر آئی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ میں اسےشمیم صاحب تک پہنچا دوں۔ میں نے شمیم صاحب سے فون کر کے ملاقات کا وقت طے کیا اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ اگر آپ ہندوستان یا پاکستان کے شہری ہیں اور اردو ادب سے آپ کا دن رات کا رشتہ ہے تو یہ بات مسلمات میں شمار کی جائے گی کہ آپ شمیم حنفی صاحب سے واقف ہیں اور اگر نہیں ہیں تو اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کا ادبی ذوق ابھی بہت حد تک محدود ہے۔ بہرحال میں جب ان کے گھر پہنچا تو وہاں حسب روایت ملاقات کے اوقات میں مجھے کچھ ادیب اور تخلیق کا ر بیٹھے نظر آئے۔ شمیم صاحب نے بڑی محبت اور شفقت سے مجھ سے وہ کتاب لی، اس کے متعلق چند جملے کہے اور مجھے بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے کتاب کو الٹ، پلٹ کر دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد پھر دو ایک جملے کتاب کے متعلق عرض کیے اوراپنے احباب سے گفتگو میں مشغول ہو گئے۔ اسی وقت کمرے میں ان کی اہلیہ محترمہ صبا شمیم صاحبہ داخل ہوئیں اور انہوں نے شمیم صاحب سے کچھ باتیں کیں، موجود دیگر احباب کےجملوں پر دو،چار جملے کسے اور مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور نہایت معصومیت اور شفقت سے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا آپ چائے پیئں گے؟ ان کے پوچھنے کا انداز اتنا مشفقانہ تھا کہ میں اس ماحول میں جتنی اجنبیت محسوس کر رہا تھا وہ سب ہوا ہوگئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ شمیم صاحب نے فوراً ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ فصیح اکمل صاحب کے بیٹے ہیں۔صبا شمیم صاحبہ نے ایک اور مرتبہ مسکرا کر میری جانب دیکھا اور اندر چلی گئیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب صبا شمیم صاحبہ سے میری ملاقات ہوئی اور اس پہلی ہی ملاقات میں ان کی شفیق مسکراہٹ نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس کے بعد بہت عرصے شمیم صاحب کے گھر جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ پھر چھ، آٹھ مہینے بعد ان کے گھر دوبارہ گیا تو ایک مرتبہ اور صبا شمیم صاحبہ کی دلچسپ گفتگو سننے ان کی مسکراہٹ کو دیکھنے اوران کی ادب دوستی کو جاننے کا موقع ملا۔مجھے ان کی باتوں میں کسی جہاں دیدہ شخص کی تجربے کار ی کی جھلکیاں نظرآئیں۔ جب بھی ان کا کوئی جملہ سنتا تو یوں لگتا کے اردو زبان کے ہزاروں ادیبوں کو بے شمار محققوں، ناقدوں اور تخلیق کاروں کے بارے میں اس کا ایک فی صد بھی علم نہیں، جتنا صباشمیم صاحبہ کو ہے۔ میں ان کی گفتگو میں ادبی تاریخ کے ناتراشیدہ گوشوں کو روشن دیکھتا۔ وہ مہمانوں کے درمیان آتیں تو تہذیب کی ایک دنیا آباد ہو جاتی اور ادب و ثقافت کے دیئے جل اٹھتے۔ ان کی آواز میں اپنائیت، شفقت اور زندگی کی لازوال کھنک محسوس ہوتی۔ لگتا کہ بس اس درس گاہ میں بیٹھوں اور ادب، تاریخ، ثقافت، اور تہذیب کا درس لیتے رہوں۔ آپ کبھی اگر شمیم صاحب کے گھر گیے ہیں تو آپ کو میری اس بات سے اختلاف نہیں ہوسکتا کہ صبا شمیم صاحبہ شمیم حنفی صاحب اور ان کے احباب کی گفتگو میں کسی نہ کسی طرح شریک رہتی ہیں۔ کئی موقعوں پر خود شمیم صاحب انہیں آواز دے کر اپنی گفتگو میں شامل کر لیتے ہیں، کئی بار کسی مہمان کا کوئی کلمہ انہیں گفتگو کا حصہ بنا دیتا ہے۔ کبھی وہ خود اندر سے کسی مسئلے پر اظہار خیال کرتی ہوئی مہمانوں کے کمرے میں داخل ہو جاتی ہیں اور گفتگو کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان کے گفتار کا نقشہ کھینچنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ بس آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ادب کا ایک داستانی لحن ہے جو گزشتہ پچاس برس کی ادبی تاریخ پر بے تکان بول سکتا ہے۔
پھر جب جب میں شمیم صاحب کے گھر جاتا ہر ملاقات کے دوران صبا شمیم صاحبہ کے جملوں کا منتظر رہتا۔ کچھ خاص موقعوں پر مثلاً وہ جب اپنے بیرونی کمرے سے شمیم صاحب کو آواز دے کر بلاتیں ہیں، یا اپنی بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے محفل میں موجود لوگوں میں سے کسی خاص شخص سے مخاطب ہوتی ہیں یا حاضرین کے بیان کردہ کسی واقعے کی صحت درست کرتی ہیں تو ان کی آواز پر ایک رعب طاری ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ میں نے جتنی مرتبہ ان کی گفتگو سنی ہے انہیں کبھی کسی بات پر مباحثانہ انداز اختیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ اختلاف کر سکتی ہیں۔ نہیں نہیں کو دوبار کہتے اور اپنے چہرے کی مسکراہٹ کو بقرار رکھتے ہوئے حاضرین کی بات کاٹ سکتی ہیں۔ لیکن اپنے تہذیبی اسلوب کو ترک نہیں کر سکتیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنےدوستوں میں کچھ اس سے زیادہ بے تکلف ہو جاتی ہوں جیسا میں نے انہیں دیکھا ہے، لیکن شمیم حنفی صاحب جو مجھے ان کے بہترین دوست بھی معلوم ہوتے ہیں ان کے ساتھ صبا شمیم صاحبہ کا لہجہ مجھے کبھی اس سے الگ نہیں لگا۔
ایک مرتبہ کشور ناہید کی موجودگی میں میں شمیم صاحب کے گھر پہنچا۔ اس وقت وہاں ایک نوجوان ادیب جو میرے ہم عمر ہیں وہ بھی موجود تھے۔ ہم دونوں خاموشی سے بیٹھے کشور ناہید، شمیم صاحب اور صبا صاحبہ کی گفتگو سنتے رہے۔صبا شمیم صاحبہ کے رو برو جب کشور ناہید کو بولتے سنا تو ایسا لگا جیسے دو متضاد رویے ایک دو سرے کے آمنے سامنے آ گئے ہوں۔ شمیم صاحبہ کے لہجے میں جتنا حلم، گھلاوٹ اور ٹھہرو تھا کشور ناہید کا لہجہ اتنا ہی کرخت اور شور انگیزمعلوم ہوتا تھا۔
صباشمیم صاحبہ سے میری جتنی ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان ملاقاتوں کے تجربے کا یہ حاصل آیا کہ آپ ان سے گفتگو کیجیے اور کسی ادیب یا ادیبہ کا تذکرہ کیجیے تو وہ اس بات سے خوش ہوں گی کہ آپ ان سے واقف ہیں۔ آپ کو ان کے متعلق مزید چار باتیں بتائیں گی۔ کسی کڑوی بات کا تذکرہ نہیں کریں گی اور نہ ہی کسی برے واقعےکا۔ وہ عام عورتوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گی کہ فلاں عورت میں یہ برائی تھی، وہ اس طرح کی حرکتیں کرتی تھی یا اس کا یہ پہلو بہت خراب تھا۔ صرف اچھی اور پیاری یادیں جن کو سننے سے آپ کو کسی ادیب یا ادیبہ کی زندگی کا ایک خوشگوار پہلو معلوم ہوجائے گا۔ اس کے متعلق آپ کے دیرینہ بت ٹوٹیں گے اور آپ اس کا ایک رونق افروز مجسمہ لے کر ان کے گھر سے نکلیں گے۔ صبا شمیم صاحبہ شاعرہ نہیں ہیں نہ کوئی افسانہ نگار، نہ نقاد نہ محقق مگر اس کے باوجود میں نے ان سے بہتر ادیبہ نہیں دیکھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنے طرز گفتگو، اپنی مثبت فکر اور اپنی مسکراہٹ سے زندگی جینے کااچھوتا درس دیتی ہیں۔آپ ان سے ملیے تو وہ آپ کو اپنے افسانوی لہجے میں زندہ لوگوں کی کہانیاں سناتی ہیں،اپنوں اور غیروں کی تقسیم سے ماورا ہو کر آپ کے ساتھ مشفقانہ معاملات سے پیش آتی ہیں اور چھوٹے، بڑے کے احساس سے باہر نکل کر سب کو ایک نگاہ سے دیکھنے کا سبق دیتی ہیں۔ جنہوں نے صبا شمیم صاحبہ کو نہیں دیکھا ہے وہ ان تمام چہروں کے درمیان جیتے ہوئے اس نایاب تکلم سے محروم ہیں جن کی نگارشات نے ادب کی نئی بساط کو سجایا ہے۔
میں صبا شمیم صاحبہ سے کسی ادیب یا ادیبہ کا موازنہ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ہر ادیب جس سے میری ملاقات ہوئی پھر وہ خواہ زبیر رضوری ہوں یا کمال احمد صدیقی، محمد علوی ہوں یامظفر حنفی،مجاہد حسین حسینی ہوں یا عبداللہ کمال، گنیش بہاری طرز ہوں یا قیصر الجعفری۔ صبا شمیم صاحبہ شخصی بنیادوں پر مجھے ان سب سے زیادہ متاثر کن معلوم ہوئیں۔ ان تمام ادیبوں سے میں نے ادب کے متعلق بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ جانا، لیکن زندگی کے متعلق کچھ نہ سیکھ سکا۔وہ تمام افسانوی باتیں، آسمانی حکایتیں، پیچیدہ علمی بحثیں اور شاعرانہ لن ترانی زندگی جینے کے اس درس کے آگے مجھے بہت چھوٹی معلوم ہوئیں جو صبا شمیم صاحبہ کی گفتار اور کردار سے مجھے ملا۔
صبا شمیم صاحبہ نے ادیبوں کی تین سے چار نسلوں کو دیکھا ہے، ان کے درمیان زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا ہے،مشرق و مغرب کی دنیاؤں کا مشاہدہ کیا ہے اور علمی اور ادبی ماحول میں اصل زندگی کے معاملات سے نبرد آزماں رہی ہیں۔ان حقائق نے انہیں کسی مشاق لکھنے والے سے کہیں زیادہ اہم ادیبہ بنا دیا ہے۔انہوں نے زاہدہ حنا کی طرح افسانہ نگاری نہیں کی ہے، فہمیدہ ریاض کی طرح نظمیں اور غزلیں نہیں کہی ہیں، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کی مانند ادبی تخلیقات کا انبار نہیں لگایا ہے۔ اس کے باوجود وہ مجھے ان تمام تخلیق کاروں سے زیادہ فہیم معلوم ہوتی ہیں۔ان کے مزاج میں ادیبیت کا جو گہرا رچاؤ نظر آتا ہے،وہ متذکرہ بالا کسی ادیبہ کےمتن میں نہیں دکھتا۔ ایک ادیب یا ادیبہ زندگی کے کسی ایک پہلو کا مکمل طور پر اپنی تخلیق میں احاطہ کر لےتو وہ قابل مبارک باد ٹھہرتا ہے،لہذا وہ شخصیت جس کی طبعیت نے زندگی کے بے شمار پہلوؤں کا احاطہ کر لیا ہو اس کو مبارک باد دینے کے لیے کن الفاظ کا استعمال کیا جائے، میں یہ بیان کرنے سے عاجز ہوں۔ صبا شمیم صاحبہ ایک ایسی مکمل ادیبہ ہیں، جن کی رگوں میں اردو ادب لہو بن کر دوڑ تا ہے۔ جن کی گفتار سے نئی نسل کو ادبی جلا نصیب ہو تی ہے اور جن کی شفقت سےمجھ جیسے نو آموزوں کوزندگی اور ثقافت کا درس ملتاہے۔