گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
"یار ایک چیف کی جرات ہے کہ افسروں کو یوں بلیک میل کرے؟؟ یہ ایڈمرل سعیداللہ اور اپنے بابا جی جیسے ‘پاوے’ ہیں۔ یار یہ جرنیل لوگ ان مولویوں کے بہت ذیادہ چُوت چونچلے برداشت کرتے ہیں، پھر سونے پہ سہاگا یہ انٹیلی جنس والے ہیں۔ یار یہ انٹیلی جنس والے ہی تھے جنہوں نے دُشمن کے خلاف لڑنے کے لئے کرائے کے مجاہد بھرتی کر کر کے ہمارے پروفیشنلزم کو تباہ کیا اور ریگولر فوجوں کو لڑنے کا ڈھنگ ہی بُھلا کے رکھ دیا۔۔۔” غازی صاحب نے اپنے ‘بھاشن’ کا آغاز کیا جو قریب قریب ہر فوجی کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے، موقع ملا نہیں اور جیونیئر کی سماعتوں کی شامت آئی نہیں۔
یار یہ انٹیلی جنس والے ہی تھے جنہوں نے دُشمن کے خلاف لڑنے کے لئے کرائے کے مجاہد بھرتی کر کر کے ہمارے پروفیشنلزم کو تباہ کیا اور ریگولر فوجوں کو لڑنے کا ڈھنگ ہی بُھلا کے رکھ دیا
"میں تھوڑا ڈرا دھمکا کر حافظ کو ٹھنڈا تو کردوں گا، کوئی مذاق نہیں ہے افسر کے خلاف بلاسفیمی کا کیس آگے لے آنا۔ تُم شُکر کرو کہ ان کے ذہن میں یہ نہیں آئی کہ وہ کمانڈنگ آفیسر کی واپسی کا انتظار کر لیں۔ لیکن یار تُم بھی خیال رکھا کرو۔ ہو سکے تو حافظ کو اکیلے میں بُلا کر منافقانہ سی معذرت کر لو اور یہ پنگا ختم کرو۔ تُم اچھے خاصے خوش عقیدہ مسلمان ہو، کیوں اپنی شہرت خراب کرنا چاہتے ہو؟ میں نے سُنا ہے کہ تُم پیر مہر علی شاہ صاحب آف گولڑہ کے بھی بڑے مرید ہو، پھر تو تُمہیں چاہیئے کہ درویشوں کی طرح مُلّا سے بے نیاز رہ کر اپنے کام سے کام رکھو۔ یار آج کل مسلمان جتنی کنفیوز قوم ہیں ناں، مذہب کے معاملے میں ان کے جذبات اُتنے ہی inflammable ہیں ۔ مذہبی سوچ بنیادی طور پر سپہ گری کے لئے مضر نہیں ہے لیکن جتنا volatile مسلمانوں کا مذہبی مزاج ہو گیا ہے، یہ کسی بھی ادارے کے لئے خطرناک ہو گا، خواہ وہ جوڈیشری ہو، سیاست ہو یا صحافت۔
مُجھے اندازہ ہے کہ اس کمزوری نے خود ہمارے پروفیشنلزم پر بھی منفی اثر ڈالا ہے لیکن جہاں مُلک کی آبادی کی ایک واضح اکثریت مذہبی طور پر بُنیاد پرست ہو وہاں فوج کو سیکولر اقدار میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ تبلیغی اجتماعات اور جلسوں میں جانے والے کتنے افسر اور سپاہی، ہمارے حالیہ جنگ کے دُشمن کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں ‘اپنے لوگ’ تک کہنے سے باز نہیں آتے۔ یار مذہبی سامراج نے ہمارے فوجی کو پروفیشنل کے بجائے دوغلا بنایا ہے جو دُنیا کے سامنے تو دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کی حمایت کے دعوے بھی کرتا ہے اور دوسری طرف نیٹو کے کینٹینر لوٹنے والے پٹھانوں سے امریکی فوج کے بوٹ، وردیاں اور جیکٹ سستے داموں لے کر بصد فخر اسے مالِ غنیمت جان کر پہنتا پھرتا ہے۔ لیکن تُم، مسٹر عثمان، پریڈ گراونڈ اور مَیس کے محاذ پر ان اندر کے خطرات سے لڑ کر تُم غازی کہلاو گے ناں ہی شہید۔ اب تو یہ ایک معمولی سا مسئلہ ہے، آئندہ کے لئے محتاط رہو۔ یہ درخواست اوپر نہیں جائے گی، تُم یقین رکھو”لیفٹیننٹ کمانڈرغازی نے اپنی بات مکمل کرتے ہی اپنی پی کیپ پہنی جو اس محفل کے برخاست ہونے کا اعلان تھا۔ ساتھ ہی وہ اپنا چرمی ہینڈ بیگ اٹھا کر دفتر سے باہر نکل گئے ۔ عثمان بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔
جمعے کا روز تھا، کمانڈنگ آفیسر، کمانڈر حنیف واہلہ چھُٹی کے بعد آج پہلی بار دفتر آئے تھے ۔ لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی اُن کے پاس بیٹھے خود پہ جبر کر کے کمانڈر صاحب کی ‘دین کی باتیں’ سُن سُن کر تائید میں سر ہلائے جا رہے تھے ۔ ساتھ ساتھ ہی کمانڈر صاحب اپنے حالیہ سہ روزے کی برکات پر بھی روشنی ڈالے جا رہے تھے ۔ دونوں، فوجی کرٹسی یا مروّت میں ایک دوسرے کو سر کہہ کر مخاطب کر رہے تھے کیونکہ حنیف واہلہ اگرچہ عہدے میں اور کمانڈنگ افسر ہونے کی وجہ سے سینیئر تھے لیکن عدیل غازی سروس میں ان سے سینیئر تھے۔
اسی دوران فون کی گھنٹی بجی تو غازی صاحب نے سکون کا سانس لیا کہ شائد کچھ دیر کے لئے تو درسِ دین سے "تفریح” کا وقفہ نکل آیا۔
اسی دوران فون کی گھنٹی بجی تو غازی صاحب نے سکون کا سانس لیا کہ شائد کچھ دیر کے لئے تو درسِ دین سے "تفریح” کا وقفہ نکل آیا۔
"السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ،” کمانڈر صاحب نے فون اُٹھاتے ہی خلافِ معمول دوسری طرف پر سلام داغ دیا۔
"الحمدللہ، بہت شکر ہے ربِ ذوالجلال کا۔۔۔”غازی صاحب صرف اُن کی باتیں ہی سُن سکتے تھے لیکن چند جملوں کے بعد انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ فون کال نیول انٹیلی جنس کے مقامی انچارج لیفٹیننٹ کمانڈر خان بیگ کی طرف سے تھی اور وہ حافظ ناصر کی درخواست کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔
"الحمدللہ، بہت شکر ہے ربِ ذوالجلال کا۔۔۔”غازی صاحب صرف اُن کی باتیں ہی سُن سکتے تھے لیکن چند جملوں کے بعد انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ فون کال نیول انٹیلی جنس کے مقامی انچارج لیفٹیننٹ کمانڈر خان بیگ کی طرف سے تھی اور وہ حافظ ناصر کی درخواست کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔
"بلاسفیمی؟؟؟ یار مُجھے تو کُچھ پتہ نہیں ہے۔۔۔ ” کمانڈر حنیف نے فون پر کہتے ہوئے بھنویں تن کر غازی صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور اُن کا دوسرا ہاتھ اُن کی لمبی، چمکدار، سیاہ و سفید ڈاڑھی کی طرف بڑھ گیا۔غازی صاحب کا ماتھا ٹھنکا کہ اب ضابطے کے مطابق کارروائی ہونے کا مطلب تھا کہ عثمان کی پتلون کھینچنا ضروری ہو جانا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ تبلیغی اجتماعات اور جلسوں میں جانے والے کتنے افسر اور سپاہی، ہمارے حالیہ جنگ کے دُشمن کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں ‘اپنے لوگ’ تک کہنے سے باز نہیں آتے۔
"یہ کیا قصہ ہے سر؟؟” کال ختم ہوتے ہی کمانڈر صاحب نے سوال داغ دیا۔
"سر قصہ تو معمولی سا ہے۔۔۔ پتہ نہیں این آئی والے کس چکر میں ہیں۔ عثمان نے میس ڈسپلن توڑنے پر ایک سیلر کو تھوڑی بُل شِٹ ماری جس پہ وہ سروس افیئر کی درخواست لے کر آگیا ۔۔۔” غازی صاحب نے عامیانہ سے لہجے میں کہا کہ بات گول ہو جائے۔
"آپ وہ درخواست لے کر میرے پاس آئیں۔ اور عثمان کو بھی بُلائیں” کمانڈر صاحب نے آہستہ سے کہا اور ایک فائل پر جُھک کر کچھ پڑھنے لگے۔ ساتھ ہی گفتگو کا موضوع بدل گیا۔
Ottoman! Save your ass!! غازی صاحب نے عثمان کو فون کیا تو بغیر سلام سلیک کئے ہی نعرہ لگانے کے انداز میں بولے۔”سی او صاحب بُلاتے ہیں۔۔ "عثمان نے مریل سی آواز میں "روجر سر” کہا اور فون رکھ دیا۔
اُس نے اُٹھ کر اپنے دفتر کے آئینے میں اپنے بال درست کئے، شانوں پر اپنے عہدے کے اپالٹ آگے کی طرف ڈھلکائے اور سی او صاحب کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ سی او صاحب کے دفتر کے باہر ہی اُن سے سامنا ہو گیا۔ لیفٹیننٹ کمانڈر غازی بھی سی او کے ہمراہ تھے۔
"عثمان” سی او صاحب نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا یا تو اُس نے سلیوٹ ادھورا چھوڑ کر ہی لپک کر انہیں مصافحہ کیا اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ‘السلام علیکم سر’ کہا۔
"تُم یہاں انتظار کرو، میں کچھ دیر کو آتا ہوں۔ تم سے کچھ بات کرنی ہے” کمانڈر حنیف واہلہ کا اُردو بولنے کا لہجہ ہی بتا رہا تھا کہ پنجابی کی کون سی بولی اُن کی مادری زبان تھی۔ اُنہوں نے تحکمانہ انداز میں عثمان کو حکم سُنایا اور برآمدے کی طرف نکل گئے جس کے باہر ان کی جیپ انکی منتظر تھی۔ عثمان کو شدید کوفت ہوئی کہ اُسے انتظار کرنا سخت ناپسند تھا۔ سی اوصاحب کے جانے کے بعد عثمان جاکر لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی کے دفتر میں جا بیٹھا جہاں سب لیفٹیننٹ شہلا، جو ان دنوں سی او سیکرٹری بھی تھی،کے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔
سر قصہ تو معمولی سا ہے۔۔۔ پتہ نہیں این آئی والے کس چکر میں ہیں۔ عثمان نے میس ڈسپلن توڑنے پر ایک سیلر کو تھوڑی بُل شِٹ ماری جس پہ وہ سروس افیئر کی درخواست لے کر آگیا
"شہلا کچھ پتہ ہے کہ سی او صاحب کب تک آئیں گے؟” اس نے صوفے پر بیٹھ کر شہلا کی طرف دیکھے بغیر ہی پوچھا۔
"سر وہ نیول ہاوسنگ سوسائٹی تک گئے ہیں” شہلا نے اپنی گود میں رکھے چھوٹے سے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاتے ہوئے بتایا۔ اُس کے پلکیں جھپکنے کے دلنواز انداز نے ایک لمحے کے لئے تو عثمان کے جسم میں بجلی سی لپکا دی۔
"کہاں گئے ہیں؟”عثمان نے دوبارہ پوچھا۔ شہلا نے مسکراتے ہوئے اپنا جملہ دہرایاتو عثمان بھی مسکراہٹ پہ ضبط نہ کر سکا۔
"کہاں گئے ہیں؟”عثمان نے دوبارہ پوچھا۔ شہلا نے مسکراتے ہوئے اپنا جملہ دہرایاتو عثمان بھی مسکراہٹ پہ ضبط نہ کر سکا۔
"Bullshit”اُس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے زیر لب کہا اور اٹھ کر دفتر سے نکل آیا۔ اُسے معلوم تھا کہ اگلے ماہ ایڈمرل سعیداللہ کی بیٹی کی شادی متوقع تھی جس کے لئے ایڈمرل صاحب نے جہیز کے طور پر نیول ہاوسنگ سوسائٹی میں ایک بنگلہ صاحبزادی کو تحفہ کرنا تھا اور سی او صاحب ان دنوں بنگلے کی تیاری کےکام کو بھی دیکھنے جاتے تھے کہ یہ ان کی اضافی ذمہ داری تھی جس کا اضافی صلہ ملنا بھی عین ممکن تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ کافی دیر سے آنے والے تھے۔ عثمان باہر پریڈ گراونڈ کی جانب نکل آیا جہاں گنری انسٹرکٹر راو اکبر نوجوان سیلرز کو "Rules of engagement”یا مشکوک افرادکو للکارنے، روکنے، تلاشی لینے یا گولی مارنے کے ضوابط سکھا رہا تھا۔ پسینے میں شرابور انسٹرکٹر دھوپ میں مزید کالا پڑ گیا تھا لیکن پوری تندہی سے بآوازِ بلند بلکہ چلّا چلّا کر ہدایات دے رہا تھا۔ اس کا شمار گنری یا بحری توپخانے کے بہترین انسٹرکٹروں میں ہوتا تھا۔ عثمان پریڈ گراونڈ کے کنارے کھڑا خالی ذہن سے یہ نظارہ دیکھتا رہا۔ اس دوران صرف ایک ہی خیال اُس کے ذہن میں آیا اور اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، اور وہ تھا علامہ اقبال کا وہ شعر جو راءو اکبر جوانوں کو اکثر سُناتا تھا:
فٹنس (Fitness) ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
یہاں سے اُکتا کر وہ واپس دفتر آیا اور اور گارڈ روم پہ فون کر کے ہدایت کر دی کہ جونہی سی او صاحب واپس یونٹ میں آئیں، اُسے فون کر کے مطلع کردیا جائے۔ دفتری اوقات کا باقی وقت اُس نے لائبریری میں گُزارا تا آنکہ لائبریرین نے اعلان کیا کہ نمازِ جُمعہ کے لئے لائبریری بند کی جارہی ہے۔ وہ تیز قدموں سے نکلا تاکہ جلدی سے جامع مسجد فُرقان پہنچے جو گرد و نواح کے چند یونٹوں کی مشترکہ فوجی مسجد تھی۔”آج نمازِ جمعہ پھر وردی میں پڑھنا پڑے گی” اُس نے مسجد پہنچ کر وضو کرتے ہوئے سوچا۔ نماز کے بعد وہ مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا بوٹ پہن رہا تھا تو اپنے دائیں جانب سی او صاحب کو بیٹھا دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پہ بے ساختہ "لاحول ولا قوۃ”کا کلمہ آگیا۔”عثمان، میرے ساتھ چلو”سی او صاحب نے بھی سے دیکھ لیا تھا لہٰذا حُکم داغ دیا۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش، وہ خاموشی سے سی او کے قریب، جو کہ ہنوز اپنے سفید بوٹ کے تسمے باندھ رہے تھے، جا کھڑا ہوا۔ چند لمحوں میں وہ سی او صاحب کے ہمراہ جیپ کی پچھلی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھا تھا۔
پسینے میں شرابور انسٹرکٹر دھوپ میں مزید کالا پڑ گیا تھا لیکن پوری تندہی سے بآوازِ بلند بلکہ چلّا چلّا کر ہدایات دے رہا تھا۔ اس کا شمار گنری یا بحری توپخانے کے بہترین انسٹرکٹروں میں ہوتا تھا۔
"سر آپ میرے پاس آجائیں، حافظ۔۔۔، کیا نام بتایا ہے لڑکے کا، اُس کی درخواست کے ساتھ” سی او صاحب نے اپنی سیٹ پہ بیٹھتے ہی لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی کو فون کیا اور عثمان کو بیٹھنے کا حُکم نہ دیا تو عثمان کو محسوس ہوا کہ انگریزی محاورے کے مصداق اُس کے دل کی ایک دھڑکن قضا ہو گئی ہے۔
وہ سی او صاحب کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر خود ہی نیم ہوشیار سی پوزیشن میں ہو گیا۔ اگلے چند منٹ وہ خاموش کھڑا رہا۔ سی او صاحب نے اُسے یکسر نظر انداز کر کے اپنی میز کی دراز سے کوئی فائل نکالی اور سامنے رکھ لی۔ اسی دوران سب لیفٹیننٹ شہلا بھی خموشی سے آکر سی او صاحب کے سامنے کوئی فائل بچھانے لگ گئی۔ اسی اثناء میں لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی دفتر میں وارد ہوئے اور ان کے ہاتھ میں ایک سفید کاغذ تھا جو یقیناً حافظ ناصر کی درخواست تھی۔ غازی صاحب نے وہ کاغذ سی او صاحب کے سامنے رکھا اور کرسی کھینچ کے بیٹھ گئے۔ عثمان اس دوران بُت بن کر کھڑا رہا۔ اپنی چھے سالہ فوجی زندگی اور چارسالہ کمیشنڈ سروس میں اُس کے ساتھ تیسری دفعہ ایسا ہو رہا تھا کہ اسے ایک رنگروٹ کی طرح اپنے افسرِ بالا کے سامنے مجرم بن کر کھڑا ہونا پڑ رہا تھا۔ سی او صاحب درخواست پڑھ چکے تو اُنہوں نے چُٹکی سے اُسے ایک کونے سے پکڑکر ہوا میں لہرایا
"Did you pronounce these words?”اُنہوں نے سپاٹ لہجے میں پوچھا اور درخواست عُثمان کے ہاتھ تھما دی۔ اُس نے اسے سرسری نظر میں پڑھ کر ڈرتے ہوئے واپس میز پر رکھ دیا۔
"یس سر” عثمان منمنایا۔
"کیوں؟؟؟ تُم خود کوئی مفتیء اعظم ہو؟ یا خود کو کوئی بڑا جرنیل وغیرہ سمجھ رہے ہو؟؟؟”سی او صاحب نے باقاعدہ ڈانٹنے کے انداز میں کہا تو وہ بھانپ گیا کہ فوجی طور طریقوں کے مطابق اب "سر سر” کی گردان الاپنا ہی دافعِ بلیات نُسخہ ہو گا۔
"تُمہیں بات کرتے کوئی عقل نہیں ہوتی یا خود کو عقلِ کُل ہی سمجھنے لگ گئے ہو؟ تُم اسلامی شعائر کی توہین کرکے کیا سمجھتے ہو کہ تُم کوئی اینگلو انڈین برانڈ کے کلاسک فوجی افسر ہو، چوتیے؟؟؟؟” کمانڈر صاحب نے بلند آواز میں ڈانٹا تو دفتر میں گھمبیر خاموشی چھا گئی۔
"جوانوں میں ڈسپلن اس طرح کی حرکتوں سے پروان چڑھانا چاہتے ہو؟؟ تمہیں خود تو مہینے میں ایک دفعہ نماز پڑھنے کی توفیق ہوتی ہے، رمضان میں آدھا مہینہ تمہاری سِک رپورٹ ہوتی ہے، تُم کون ہوتے ہو پابندِ شرع قسم کے لوگوں پہ اُنگلیاں اُٹھانے والے؟؟”سی او صاحب نے اپنی ڈانٹ جاری رکھی اور اب تو غصے میں تھوک کا ایک بلبلہ ان کے ہونٹوں کے درمیان سے نکل کر ان کی ڈاڑھی میں اٹک کر ایک سیکنڈ بعد پھٹ گیا۔
"تمہارے بزرگوں کا۔۔۔ انٹیلی جنس والوں کا فون آیا تھا آج۔۔۔ رپورٹ ہو گئی ہے تمہاری اس حرکت کی بیٹا جی۔۔۔ اور میں تمہاری سائیڈ نہیں لینے والا، ڈنڈا دے سکتا ہوں حسبِ توفیق۔۔۔۔” کمانڈر واہلہ اس طرح کی زبان کم ہی استعمال کرتے تھے لیکن آج شائد ان کا غصہ بے مہار تھا اگرچہ اس معاملے میں سزا کا کُلی اختیار اُنہیں حاصل نہ تھا۔
"عثمان میاں، خطیب صاحب نے بذاتِ خود آج نمازِ جمعہ سے پہلے تمہارے رویے کی شکایت کی ہے۔ یہی کرٹسی ہوتی ہے افسروں میں؟؟؟ پتہ نہیں کس پُھدوُ نے تمہیں آئی ایس ایس بی میں افسر بننے کے لئے منتخب کیا تھا۔۔۔” اب ان کی آواز تو ویسی بلند نہ تھی البتہ غصہ شائد ویسا ہی تھا اور اس بات پہ عام حالات میں تو عثمان شائد ہنس بھی دیتا کیونکہ آئی ایس ایس بی میں واہلہ صاحب نے خود اسے "Strongly Recommend”کیا تھا۔ کچھ دیر خموشی رہی اور پھر حافظ ناصر کا ڈویژنل افسر لیفٹیننٹ تنولی، ہمراہ حافظ کے، دفتر میں آدھمکاتو عثمان کو بیٹھنے کا حُکم ملا۔
جوانوں میں ڈسپلن اس طرح کی حرکتوں سے پروان چڑھانا چاہتے ہو؟؟ تمہیں خود تو مہینے میں ایک دفعہ نماز پڑھنے کی توفیق ہوتی ہے، رمضان میں آدھا مہینہ تمہاری سِک رپورٹ ہوتی ہے، تُم کون ہوتے ہو پابندِ شرع قسم کے لوگوں پہ اُنگلیاں اُٹھانے والے؟
"حافظ، بچے اب کے میں نے عثمان صاحب کو زبانی وارننگ دے دی ہے، آئندہ ایسی بات نہیں ہوگی اور تم بھی ڈسپلن کا خیال رکھا کرو” سی او صاحب آواز میں نرمی لاکر حافظ سے مخاطب ہوئے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے درخواست پر کچھ لکھ کر اسے ڈویژنل افسر کے حوالے کیا اور حافظ کو جانے کا اشارہ کر دیا۔ اُس کے جانے کے بعد سی او صاحب نے روئے سُخن عثمان کی طرف کیا۔
"Off!” اُنہوں نے ناگوار سے لہجے میں کہا اور عثمان بجلی کی پھرتی سے اٹھا اور سلیوٹ کر کے باہر نکل گیا۔
شام تک افسران اور سیلرز میں اس تمام کارروائی کی روداد کافی مرچ مصالے کے ساتھ پھیل چکی تھی جس کا سبب عثمان خود تھا۔
شام تک افسران اور سیلرز میں اس تمام کارروائی کی روداد کافی مرچ مصالے کے ساتھ پھیل چکی تھی جس کا سبب عثمان خود تھا۔
"ہم لوگ افسر نہیں ہیں، بھی نچود تھرڈ کلاس چپڑاسی ہیں جنہیں جس طرح جی چاہے ذلیل کر دو، خوار کردو۔۔۔ چیف خطیب اور اُس لونڈے کی شکایت پر آج بابے نے میری کُتے جیسی کی ہے۔۔۔”عثمان چلّا چلّا کر لیفٹیننٹ اسد کے سامنے اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا تو کھڑکی کے باہر چند سیلر کھڑے سُن رہے تھے۔
"سر بائے دا وے سر عثمان ٹھیک کہتے ہیں، یہ مُلّا ٹائپ کے لوگ سروس ڈسپلن اور ٹریڈیشن کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ ۔۔” سب لیفٹیننٹ شہلا نے اگلی صبح غازی صاحب سے گفتگو کا آغاز ہی ایک غیر متوقع جملے سے کیا تو وہ چونکے۔ شہلا کافی دیر سے دفتر پہنچی تھی آج۔
"ہاں۔۔۔لیکن اُس کا اظہار کرنے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی پیپلز پارٹی کا جیالا ہوتا ہے، جہاں مُنہ میں آئی، بَک دی۔ یہ فوج ہے شہلا بی بی۔۔۔”غازی صاحب نے مصنوعی ناگواری سے جواب دیا۔
"سر دراصل آج مجھے بھی ایک ایسی ہی سچویشن سے واسطہ پڑا ہے، آتے ہوئے۔۔۔”شہلا نے کہا۔
"کیا؟؟۔۔” غازی صاحب نے چونک کر پوچھا۔ ہوا یوں تھا کہ ایک سیلر کو شہلا نے راہ چلتے ہوئے سلیوٹ نہ کرنے پر چیک کر لیا تھا۔ اب جب اُسے ضابطے کے مطابق کچھ سُننی پڑیں تو وہ غُصے میں آ کے بولا "میڈم، مجھے کوئی مسئلہ نہیں، آپ میرے خلاف ڈسپلن کا چارج بنائیں، جب اللہ اور اُس کے رسول نے عورت کی اطاعت کا حکم نہیں دیا تو میں کسی کا زر خرید غلام ہوں کہ ایک عورت کو سلیوٹ کروں؟؟؟” غازی صاحب نے جو یہ سُنا تو ان کا رنگ غصے سے لال پڑ گیا۔
"کہاں ہے وہ مُفتی کی اولاد جو یہ فتوے دیتا پھرتا ہے؟؟؟”اُنہوں نے پوچھا۔
"کہاں ہے وہ مُفتی کی اولاد جو یہ فتوے دیتا پھرتا ہے؟؟؟”اُنہوں نے پوچھا۔
ہم لوگ افسر نہیں ہیں، بھین چود تھرڈ کلاس چپڑاسی ہیں جنہیں جس طرح جی چاہے ذلیل کر دو، خوار کردو۔۔۔ چیف خطیب اور اُس لونڈے کی شکایت پر آج بابے نے میری کُتے جیسی کی ہے
"سر میں نے اُس کے خلاف چارج بنوا دیا ہے، خان زمان کے پاس ہے” شہلا نے بتایا لیکن اُس کے چہرے کے تاثرات یہ سب کچھ بتاتے ہوئے اس قدر ناگواری کے تھے کہ کسی لمحے رو پڑے گی۔
"خان، اُس لڑکے کو ابھی میرے پاس لے کر آو” غازی صاحب نے فوراً فون اُٹھا کر کان سے لگایا اور خان زمان کا نمبر ملا کر مذکورہ جوان کے بارے حُکم داغ دیا۔
"کیا نام ہے مولوی تمہارا؟؟”سیلر کو جونہی دفتر میں پیش کیا گیا، غازی صاحب نے سخت ناگواری سے سوال کیا۔ یہ بھی باریش سیلر تھا جسے لیفٹیننٹ کمانڈر غازی بخوبی جانتے تھے۔ یہ سیلر سروس میں حافظ ناصر سے جیونئیر تھا اور یونٹ کی والی بال ٹیم کا بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ چند ماہ قبل مہینے کے بہترین سیلر کاانعام بھی پا چکا تھا اور چیف صبور کے حلقہء ارادت میں تھا۔ "عبدالحمید، رائٹر ” سیلر نے اعتماد سے اپنا نام بتایا۔
"مولوی، تُمہارےشاندار سروس ریکارڈ کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ جو تُم نے بدتمیزی میڈم کے ساتھ کی ہے، فوج میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بتاو تُم نے یہ بکواس کیوں کی کہ میں عورت کو سلیوٹ نہیں کروں گا؟؟” غازی صاحب نے اپنے غصے پہ ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔
بحریہ کی روایات میں خواتین کے احترام کے حوالے سے یہاں تک بھی رواج ہے کہ بحری جہاز پر آنے والی کسی بھی عہدے یا حیثیت کی فوجی یا سویلین خاتون کو، عرشے پر کھڑا افسر سلیوٹ کرتا ہے خواہ وہ جہاز کا سینئر ترین افسر ہی کیوں نہ ہو اور وہ عورت ایک عام سویلین مہمان ہی ہو۔
"سر، میڈم کو سلیوٹ نہ کرسکنے کی وجہ یہ تھی کہ میری توجہ ان کی طرف نہیں تھی۔ پھر انہوں نے مجھے بُلایا تو میری غلطی ہے کہ میں نے سلیوٹ نہیں کیا۔ پھر انہوں نے میری بے عزتی کی اور مجھے کہا کہ اگر افسران کی عزت کرنے میں توہین محسوس کرتے ہو تو کوئی اور پیشہ اپنا لو۔۔۔اور اس طرح کی باتیں” اُس سیلر نے پورے اعتماد سے کہا تو ایک لمحے کے لئے شہلا کا رنگ فق ہو گیا۔
"سر، یہ ہماری افسرِ بالا ہیں، سر آنکھوں پہ، لیکن میرا جُرم یہ ہے کہ میں نے قرآن حدیث کی بات کی ہے کہ عورت اسفل ہے، اس کی حکمرانی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، عورت کی آبرو اس میں نہیں کہ وہ بے راہرو اور بے پردہ ہو کر۔۔۔” اُس سیلر نے خلافِ توقع جرح شروع کی تو غازی صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔
"شٹ اپ۔۔۔ بکواس بند رکھو اپنی۔۔۔ ” غازی صاحب اُٹھ کر اُس کے قریب آکھڑے ہوئے۔
بحریہ کی روایات میں خواتین کے احترام کے حوالے سے یہاں تک بھی رواج ہے کہ بحری جہاز پر آنے والی کسی بھی عہدے یا حیثیت کی فوجی یا سویلین خاتون کو ، عرشے پر کھڑا افسر سلیوٹ کرتا ہے
"مولوی۔۔۔ تُجھے عورت کو سلیوٹ کرنا بُرا لگتا ہے ناں؟؟ ماں کے پاوں چھونا اور بہن کے سر پہ ہاتھ رکھنا بھی چھوڑ دے پھر۔۔۔”اُنہوں نے بہت ہی دھیمی آواز میں کہا۔
"اور میں تمہاری یہ مدد کر سکتا ہوں کہ تمہیں کسی ایسے علاقے میں بھیج دوں جہاں لیڈی افسر کا ہونا تو دور کی بعد ہے، تمہیں تشریف دھونے کے لئے پانی بھی نہیں ملے گا، بلوچستان کی ساحلی ریت سے استنجے کر کر کے تمہاری یہ حالت ہو جائے گی کہ ہگنے بیٹھو گے تو مٹی کے کھلونے بن بن کے نکلیں گے۔۔۔ سمجھے؟؟؟”غازی صاحب نے سخت غصے میں آکر کہا تو سیلر سہم سا گیا اور اُس نے سر جھکا لیا۔ شہلا بھی قدرے ڈر سی گئی۔
"Now get lost, bloody rascal!!”اُنہوں نے بہت بلند آواز میں ڈانٹ کر اُسے نکل جانے کا حُکم دیا ۔ سیلر نے ایک لمحے کے لئے شدید قہرآلود نگاہوں سے اُنہیں دیکھا لیکن پھر باہر چلا گیا۔ اس کے فوراً بعد اُنہوں نے اپنے کورس میٹ، کمانڈر ڈی۔اے کو فون کر کے اُس سیلر کا تبادلہ بلوچستان کے کسی کٹھن علاقے میں کروا دیا۔
"سر لڑکے کو کچھ زیادہ سخت سزا نہیں دے دی آپ نے؟” شہلا نے کہا۔
"جس طرح یونٹ کا ڈسپلن تباہ ہو رہا ہے، کچھ بھی زیادہ نہیں ہے یہ۔۔۔” غازی صاحب نے اُٹھ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے سگریٹ سلگایا اور آہستہ سے جواب دیا۔
Leave a Reply