“کسی شاعر کی تعین قدر اور اس کے متن کی تحلیل سےبہت پہلے جو بنیادی سوال قائم ہوتا ہے وہ شعر کی ماہئیت اور اس کے وجودیاتی مباحث سے متعلق ہوتا ہے۔جب تک ہم شعر کے مسئلے کو حل نہ کریں کسی شاعر کی قدر کا تعین ہر گز نہیں کر سکتے۔ شعر یقیناً ایک فلسفہ ہے جس کی لا تعداد شقیں ہیں۔ جن میں سے ہر شق کی ایک طویل بحث ہے کہ کس طرح وہ شعر کی وجود کا حصہ بنتی ہے؟ کس طرح شعر کے اجزا کا نقش مرتب کرتی ہے اورکس طرح شعر کے باطن میں اپنا اثبات حاصل کرتی ہے۔ اس فلسفیانہ نظام سے شعر کی تشکیل ہوتی ہے جس کے بعد ظاہراً شعر کےاَبعاد وجود میں آتے ہیں۔اس ظاہری نظم میں جو شئے سب سے نمایاں ہے وہ شعر کااسلوبیاتی تناظر ہے۔”
(اپنے ایک پرانے مضمون سے مقبس)
کسی اچھی تخلیق کا کوئی عہد نہیں ہوتا، نہ تووہ صرف اس عہد کی ہوتی ہے جس عہد میں تخلیق کی گئی ہو، نہ اس سے قبل کی اور نہ بعد کی۔ اچھی تخلیق زمانی اور مکانی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ تخلیقیت کے اس معیار کی وجہ سے ہم ہر عہد میں ہر عہد کے شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں، اس سے محظوظ ہوتے ہیں اور اس میں موجود زندگی کے حقائق کا اپنے اطراف پر اطلاق کرتے ہیں۔کسی نوع کی تحدید یا حد بندی تخلیق کے لیے رکاوٹ کا کام کرتی ہے، اس سے معنی میں توسع پیدا نہیں ہو پاتا۔ الفاظ کی سطح پہ خواہ کوئی تخلیق کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو جائے، معنی کی سطح پہ اس کا جد ید ہونا ہی اس کی اصل شناخت ہے۔
ادبی لحاظ سے غور کیا جائے تو یہ امر ہمیں نثر اور نظم دونوں جانب دکھائی دیتا ہے، لیکن شاعری میں اس کی جلوہ سامانیوں کا ظہور زیادہ نظر آتا ہے۔ شعر کا حسن اس کی قدامت میں پوشیدہ جدت میں ہوتا ہے، اس بات کی اگرہم اپنی شاعری سے مثال پیش کریں تو میرؔ صاحب کا نام سب سے پہلے لبوں پر آئے گا۔ میر ؔصاحب کو گذرے آج تقریباً دو سو برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن ان کا بیش تر کلام ایسا ہے جس میں نئے خیالات، جنہیں ہم آج ان کے دو سو برس بعد بھی نیا کہنے پر مجبور ہیں کثرت سے موجود ہیں۔ یا پھرخواجہ میر دردؔ،سراج ؔاورنگ آبادی، ولیؔ دکنی، قلیؔ قطب شاہ، امیر خسروؔ،مولانا رومؔ اور امرالقیسؔ وغیرہ۔ان تمام لوگوں نے ایسی ہی شاعری کے نمونے وضع کیے ہیں، جنہیں ہم جدید کہہ سکتے ہیں یا کہہ رہے ہیں۔ مثلاً امیر خسرو ؔکا ایک مشہورشعر ہے:
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
اس کا استعمال عالموں کی تقریر میں اور ادیبوں کی تحریر میں کثرت سے ہوتا ہے اور ایک نہایت دلچسپ نکتے کی ترسیل کے لیے اکبرؔ الہ آبادی نے اپنی مزاحیہ نظم “مس سمیں بدن” میں بھی اس کا معقول استعمال کیا ہے۔یہ شہادتیں بتاتیں ہیں کہ اس شعر کا کوئی عہد نہیں، ہر وہ عہد جس عہد میں اس کا استعمال ہو یہ شعر اسی عہد کا ہے،لہذایہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس شعر کو تخلیق کرنے والا ذہن بھی ہر عہد میں جدید ذہن کہلائے گا۔ بالکل یہی نوعیت پنڈت ہری چند اختر ؔکے ساتھ ہے کہ ان کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو عالموں کی مجلسوں اور ادیبوں کی محفلوں میں ہمیں اکثر سنائی دیتے ہیں۔ مثلاً
شباب آیا کسی بت پر فدا ہونے کا وقت آیا
مری دنیا میں بندے کے خدا ہونے کا وقت آیا
یا
ملے گی شیخ کو جنت ہمیں دوزخ عطا ہوگی
بس اتنی بات ہے جس بات پر محشر بپا ہوگی
لہذا ہم انہیں جزوی طور پر ہر عہد میں جدید شاعر کہہ سکتے ہیں۔ ان کا جدید ہونا ان کے شعری ہنر سے ثابت ہوتا ہے، ہر اس مقام پر جہاں ان کی شاعری زمانی اور مکانی قید سے آزاد نظر آئے گی ان کی قدر کا تعین جدید شاعرانہ اصول و ضوابط سے ہوگا اور جہاں وہ زمانی و مکانی قید کی گرفت میں نظر آئیں گے اسے ہم از کار رفتہ کے ذیل میں شامل کریں گے۔
پنڈت جی کی شاعری کی یہ خاص بات ہے کہ وہ کسی بھی نکتے کو شاعرانہ لطافت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، ان کی شاعری میں مختلف نوعیتوں کے المیوں کی مقدار بہت زیادہ ہے، “کفر و ایمان” جو میرے علم کی حد تک ان کا واحد شعری مجموعہ ہے اس کے ہر صفحے پر جتنے اشعار ہیں ان سب میں الگ الگ جذبے اور احساس کی ترجمانی کی گئی ہے۔ مگر ہر شعر میں قدر مشترک ان کی شاعرانہ اظہار کی شگفتگی ہے۔ وہ باتوں کو ژولیدہ بنا کر پیش کرنے کے بجائے عام الفاظ میں سادہ لہجے میں بیان کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں بظاہر جو طربیہ نظر آتا ہے وہ ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ ان کی غزلیں ان کے مزاج اور ان کے المیہ حیات کی صداقتوں کا مرکب نظر آتی ہیں۔ مثلاً ان کا ایک مشہور شعر ہے:
خدا توخیر مسلماں تھا اس سے کیا شکوہ
مرے لیے مرے پرماتما سے کچھ نہ ہوا
یہ شعر ظاہراً ان کی بذلہ سنجی کا ثبوت معلوم ہوتا ہے، مگر اس متن کے بین السطور میں ایک نوع کا المیہ کار فرما نظر آتا ہے، جس سے زندگی کی سفاکی مترشح ہورہی ہے۔یہ معاملہ صرف ان کےایک، دو اشعار کے ساتھ نہیں ہے بلکہ کفرو ایمان میں جتنا کلام موجود ہے اسمیں سے زیادہ تر اشعار اسی نوعیت کے ہیں۔
پنڈت جی کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک اور امر کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ وہ اردو شاعری کے ایسے عہدمیں شعر کہہ رہے ہیں جہاں اردو زبان و ادب کے دو مختلف المزاج ادوار کا اختلاط ہو رہا ہے۔ مثلاًانہوں نے ترقی پسند شعرا کا عہد پایا تھا، جہاں زندگی کی جدید قدروں کو وضع کرنے کا عمل شاعری کی سطح پر مختلف انداز میں کیا جا رہا تھا۔ انسان کو اس کےحقوق کا ادراک کراتے ہوئے ادیبوں نے عوام میں انقلابی جذبے کی روح پھونکنے کا علم اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔ ایسے عہد میں اگرکسی شخص کی شاعری کلاسکی رنگ و آہنگ کے قریب نظر آ تی ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اختر ؔنے خواہ اپنے عہد کے چند واقعات سے متاثر ہو کر کچھ اشعار کہے ہوں، مگر ان کا غالب رجحان ایک ایسا اسلوب وضع کرتا ہے جس میں ہمیں اردو شاعری کا روایتی مگر تازہ کار آہنگ نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں جذبات کو زندگی کے خارجی عناصر کے بالمقابل زیادہ اہمیت دی گئی ہے مثلاً
تکلم کی خموشی کہہ رہی ہے حرف مطلب سے
کہ اشک آمیز نظروں سے ادا ہونے کا وقت آیا
یا
میں اپنے دل کا مالک ہوں مرا دل ایک بستی ہے
کبھی آباد کرتا ہوں کبھی برباد کرتا ہوں
ان کے مزاج کی شوخی اور آزاد خیالی ان کے اشعار میں جا بہ جا نظر آتی ہے۔ وہ کسی امر کے پابند ہو کر رہنا پسند نہیں کرتے اور اسی مزاج نے ان کی شاعری کو ہنر کی سطح پر جلا بخشی ہے۔ وہ روایتی الفاظ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں، نیا لفظ وضع کرنا یا اپنی ایک نمایاں لغت تراشنا ان کا خاصہ معلوم نہیں ہوتا، بعض جگہ تو اپنی فکر کا اظہار کرنے میں اتنی سادگی اور روایتی انداز کو اپناتے ہیں کہ شعر برا معلوم ہونے لگتا ہے۔ ان کے لہجے میں اقبال جیسی روانی نظر نہیں آتی۔ ا س کے باوجود کہ انہیں ایک عرصے تک اقبال کا قرب حاصل رہا، حفیظ جالندھری کی شاعری کا عکس کہیں کہیں نظر آتا ہے، مگر ادبی جلالت اورجذباتی دقت آفرینی میں وہ اپنے استاد سے کہیں زیادہ آگے نظر آتے ہیں۔ اختر کی شاعری کا مطالعہ کرو تو احساس ہوتا ہے کہ ان کا مطمع نظر خود انہی کی ذات ہے۔ وہ کسی باطنی شئے کی تلاش میں سرگرداں نظر نہیں آتے۔ یہ ہی وجہ ہے ان کے کلام میں لفظ “میں ” کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے۔مثلاً
وہ کہتے ہیں تم مجھ سے کیا چاہتے ہو
یہی کچھ تو میں جاننا چاہتا ہوں
ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں ملاقاتوں کے بعد اکثر
وہ مجھ کو بھول جاتے ہیں میں ان کو بھول جاتا ہوں
یا
بتوں کے عشق میں کھویا گیا ہوں ورنہ اے اختر
خدا شاہد ہے میں اکثر خدا کو یاد کرتا ہوں
اپنے عرفان اور اپنے اطراف کے عرفان میں غلطاں رہنا یہ ایک خلاق ذہن کی علامت ہے۔ اختر کےمزاج میں بظاہر ہمیں کیسی ہی بے تکلفی اور شوخی نظر آئے، ان کا ہنر اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ وہ ایک قسم کے مزاجی تضاد کا پیکر تھے۔ وہ ایک سوچتاہوا ذہن تھا جس کے لیے کائنات کا ادراک ان کی اپنی ذات کے ادراک میں پوشیدہ تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہیں ظاہری رسوم و قیود اسفل معلوم ہوتی تھی، جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔ان کے یہ تین شعر دیکھیے:
شیخ و پنڈت دھر م اور اسلام کی باتیں کریں
کچھ خدا کے قہر کچھ انعام کی باتیں کریں
یہ سنائیں پاک نغمے اولیں الہام کے
وہ خدا کے آخری پیغام کی باتیں کریں
ہم کھڑے سنتے رہیں اور دل میں یہ کہتے رہیں
اب یہ رخصت ہوں تو ہم کچھ کام کی باتیں کریں
پنڈت جی کی شاعر ی میں مشاہدات کی اہمیت کا معائنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ تجربات اس کثرت سے بیان کرتے ہیں غالباً یہ ہی ان کی شاعری کا اصل ماخذ ہے۔ ان کا تجربہ انہیں دوسروں سے مختلف دنیا دکھاتا ہے۔ وہ عمومی رائے کو اپنی رائے میں شامل نہیں ہونے دیتے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بعض معاملات میں ایک خاص قسم کے روایتی بیانیے سے اتنی چڑ ہے کہ اس سے اختلاف کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ بھی ان کی شاعری کی شناخت کا ایک جز ہے کہ اختلاف کو وہ بہت اہمیت دیتے ہیں، واعظ اور ملا سے اختلاف تو خیر اردو شاعری کی روایت کا حصہ رہا ہے،مگر انہوں نے بہت سے مقامات پر خود سے اختلا ف کیا ہے۔ مثلاً ان کا یک شعر ہے ؛
بڑا ارمان تھا دیکھیں کبھی غالب کا کلکتہ
خدا کا شکر ہے دامن چھڑا کر لوٹ آئے ہیں
ان کے یہاں معمولی لطیفہ گوئی اور لطیفہ بیانی کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے، وہ زندگی کے پیچیدہ مسائل میں لطیفے تلاش کر لینے میں مہارت رکھتے ہیں،یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بعض مسائل کے حقائق کی سنجیدگی کو بر قرار رکھ پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔اسے ان کے بیانیے کی کمزوری بھی کہا جا سکتا ہے۔
اختر کی چار نظمیں بھی ان کے مجموعہ کلام کفر و ایمان میں شامل ہیں جن کے عنوان اوج رسالت، فریب آزادی، گوکل کی ایک شام اور سلام شوق ہیں۔ حالاں کہ صرف چار نظموں سے ان کی نظمیہ شاعری پہ کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی، اس کے باوجود اگر ہم ان چاروں نظموں کو بغور پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کا غزلیہ انداز بیان ان کی نظموں میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یہاں بھی وہ باتوں کو شاعرانہ ابہام کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ بیانیے کا حسن زائل نہ ہو۔ نظمیہ شاعری میں جس نوع کا تسلسل پایا جاتا ہے اس کی موجودگی کے باوجود غزل کا بکھرا و اپنی شاخت قائم رکھتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا شاعرانہ طرزیکساں ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست بھی اسی نوع کی ہے۔ تشبیہات اور استعارات کی بھرمار کہیں نظر نہیں آتی۔ سادہ تلمیحاتی اشعار ہیں جن سے معنی میں کچھ خاص گیرائی پیدا نہیں ہوتی۔ اپنی دوسری نظم فریب آزادی میں اس تصور کواپنے عہد کے شعرا کے بالمقابل انہوں نے مختلف انداز نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور ان کی شاعری کا اضافی عنصر بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ جس عہد میں آزادی سے متعلق حق اور جستجو کے نعرئے لگائے جا رہے تھے اس عہد میں وہ تصور آزادی کو ایک بیماری کہتے نظر آرہے ہیں۔ یہ ان کا عمومی رائے اظہار سے اختلاف کا جذبہ ہی تھا جو انہیں اس ضمن میں سب سے الگ لا کھڑا کرتا ہے۔ لیکن گوکل کی شام میں ان پر اپنے معاصرین کا رنگ غالب نظر آتا ہے جن میں اقبال کا نام سب سے نمایاں ہے۔ سلام شوق اس مجموعے کی آخری نظم ہے جو افغانستان جانے والے ہندوستانی وفد کے نام لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں کل چودہ اشعار شامل ہیں، جس میں افغانیوں کی شرافت اور خداری کاقصیدہ پڑھا گیا ہے۔ نظم کا بیانیہ مربوط اور مسلسل ہے اور یہ واحد نظم ہے جو ان کی نظمیہ شاعری کی دلیل کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔