آج صبح ستیہ پال آنند کے انتقال کی خبر ملی۔ موت کی ہر خبر پہلے ہمیں خاموش کرتی ہے، پھر ایک دم ہمارے اندر، دنیا سے گزر جانے والی کی موجودگی بھر دیتی ہے۔
کئی بار ہم مرنے والے کو پہلی بار پوری شدت اور پوری سچائی سے محسوس کرتے ہیں۔ کئی شخصی یادوں کے علاوہ، اس کی تحریریں ہمارے اندر، جیسے شور مچانے لگتی ہیں۔
مجھے سب سے پہلے ستیہ پال آنند کی نظم ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ کا پہلا ٹکڑا یاد آیا۔
’’ایک مردہ تھا جسے میں خود اکیلا
اپنے کندھوں پر اٹھائے
آج آخر دفن کر کے آ گیا ہوں
بوجھ بھاری تھا مگر اپنی رہائی کے لیے
بے حد ضروری تھا کہ اپنے آپ ہی اس کو اٹھاؤں
اور گھر سے دور جا کر دفن کر دوں‘‘
اکثر تخلیق کاروں نے اپنے تعزیت نامے لکھے ہیں (عقیل عباس جعفری نے جنہیں مرتب بھی کیا ہے۔) آنند صاحب نے محض اپنا تعزیت نامہ نہیں لکھا، بلکہ اس بنیادی دکھ کو بھی لکھا ہے، جس سے آدمی جیتے نجات پاسکتا ہے، نہ اپنے خاتمے کا تصور کرتے ہوئے۔
’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘ کا خوف ،آدمی کو عجب تشویش میں مبتلا رکھتا ہے۔ اور اسی دکھ نے ان سے بعد میں ’تتھا گت نظمیں‘ لکھوائیں۔
ستیہ پال آنند پنجابی تھے۔ ۱۹۳۱ء میں چکوال کے قصبے کوٹ سارنگ میں پیدا ہوئے۔ انیسویں صدی کے اواخر سے پنجاب میں اردو ذریعہ تعلیم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سب خواندہ پنجابی، مذہب وقومیت کے فرق کے باوجود، دو قسم کے لسانی اشتراک رکھتے تھے: پنجابی اور اردو۔ وہ بولتے پنجابی، لکھتے اردو میں تھے۔
جدید اردو افسانے کا نہایت ممتاز نام سریندر پرکاش ہے۔ وہ بھی تقسیم کے بعد فیصل آباد (تب لائل پور) سے ہجرت کرکے پہلے دہلی، پھر ممبئی گئے۔ ستیہ پال آنند کا خاندان تقسیم کے بعد، چندی گڑھ پہنچا۔ آنند صاحب نے انگریزی میں ایم۔اے کیا اور اسی کو ذریعۂ روزگار بنایا، مگر اردو ہی کو اپنے اظہار کی بنیادی زبان بنایا۔
ان کی کچھ کتابیں، پنجابی، ہندی اور انگریزی میں ضرور ہیں، مگر ان کی بنیادی پہچان، ایک اردو ادیب و شاعر ہی کی تھی۔ انھوں نے فکشن کی ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں، اپنی آپ بیتی (کتھا چار جنموں کی) لکھی، مضامین لکھے، مگر نظم، ان کے تخلیقی اظہار کا سب سے معتبر وممتاز ذریعہ تھی۔
غزل میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن غزل مخالفت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کلیم الدین احمد کے بعد، غزل کی جس شدت سے مخالفت آنند صاحب نے کی، شاید ہی کسی نے کی ہو۔ انھوں نے حالی، جوش، عظمت اللہ خاں کو بھی اس ضمن میں پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ غزل مخالفت میں، اس ثنویت کا شکار تھے، جس کی بنیاد انیسویں صدی میں انجمنِ پنجاب اور حالی سے پڑی۔ غزل تخیل کو اسیر کرتی، جب کہ نظم شعری تخیل کی آزادی یقینی بناتی ہے۔اس رائے کے حامی اور مخالف، اب تک چلے آتے ہیں۔
۱۹۸۸ء میں امریکا منتقل ہونے اور تقابلی ادیبات کی تدریس شروع کرنے کے بعد (دو برس ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۴ء سعودی عرب میں بھی رہے،) انھو ں نے یکے بعد دیگر نظموں کے کئی مجموعے شائع کیے۔ دست برگ، وقت لاوقت، آنے والی سحر بند کھڑکی ہے، مجھے نہ کر وداع۔ وہ جدید نظم کی شعریات، نظم کے ارتقا اور اس کی معاصر صورتِ حال کا غیر معمولی بصیرت رکھتے تھے۔
۱۹۹۰ء کے بعد کے پاکستانی نظم گو شعرا کے انھوں نے انگریزی تراجم اور مطالعات بھی کیے۔ انھوں نے ایک بار روالپنڈی کے تین شعرا: علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور رفیق سندیلوی کو امیجسٹ شعرا قرار دیا تو اس رائے کی گونج کئی برس رہی۔ ایک طرف یہ رائے ان تینوں شعرا کی سنجیدہ تفہیم کی بنیاد بنی، اور دوسری طرف، اسی شہر کے بعد کے اچھے شعرا، اس رائے کے سبب، توجہ سے محروم بھی رہے۔ خود آنند صاحب کی نظم امیجری کا استعمال کثرت سے کرتے تھے، یعنی بتانے سے زیادہ ’مصورانہ اظہار‘ سے کام لیتے تھے۔
وہ اردو کو گنگا جمنی تہذیب کے قریب رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی اردو شاعری میں مسلم اور ہندی تہذیبی دھارے پہلو بہ پہلو بہتے تھے۔ ان کی نظمیں ’بوعلی اندر غبار ناقہ گم‘، ’فتکلموا تعرفوا‘ اور ’انی کنت من الظٰلمین‘ اس امر کی اہم مثالیں ہیں۔
آزادی سے پہلے پیدا ہونے والی ادیبوں کی نسل، ’اپنی تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘ کی قائل تھی۔ ستیہ پال آنند کو بھی اس امر سے گہری دل چسپی تھی کہ ان کے نام کے ساتھ آنند کہا ں سے آیا؟ انھیں یہ تو یقین تھا کہ ان کے خاندانی نام آنند کا تعلق تتھا گت کے پہلے چیلے آنند سے رشتہ سے تو ہے، مگر اس رشتے کی نوعیت کیا ہے؟ یہ معلوم نہیں تھا۔
اس کے لیے انھوں نے چندی گڑھ جاکر خاص تحقیق کی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا تعلق کھشتریوں کی ذیلی شاخ ککھرائن سے تھا۔ یہ ککھرائن، اسلام قبول کرنے کے بعد کھوکھر بن گئے۔ چکوال کے ککھرائن، گندھارا تہذیب کے علاقے میں مقیم تھے، جہاں کئی بدھ ویہار اور دوسری یادگاریں تھیں۔ یہیں بھکشوؤں کی ایک جماعت ایک اور آنند کی سربراہی میں پہنچی تھی۔
ستیہ پال، اسی آنند سے اپنا نسلی تعلق قائم کرتے ہیں۔ یہ تحقیق، ان کی خاندانی شناخت تک محدود تھی، مگر اس کا ایک ضمنی نتیجہ، اہم اچھی کتاب ’تتھا گت نظمیں‘ (۲۰۱۵ء) کی صورت میں نکلا۔ یہ نظمیں تتھا گت کے پہلے، چہیتے چیلے کی زبانی لکھی گئی ہیں۔ اردو میں بدھ اور بدھ مت پر خاصی مگر منتشر شاعری لکھی گئی ہے۔ فوراً دھیان، میراجی کی ’اجنتا کے غار‘ اور اسلم انصاری کی ‘گوتم کا آخری وعظ‘ یاد آتی ہیں۔
ستیہ پال کی یہ کتاب، کم پڑھی گئی، مگر نہایت اہم کتاب ہے۔ یہ تَتھا گت، آنند اور بودھی فلسفہ زیست و نروان کی کہانی ہے، جسے اکیسویں صدی کے آنند نے لکھا ہے۔
اسی کتاب سے ایک نظم کا ایک حصہ:
’’پیڑ کاٹو گے ،کیا ملے گا تمھیں؟
صرف لکڑی ،جلانے کی خاطر
جھاڑ جھنکار، مردہ پتوں کا
کونپلیں، پتیاں، گھنی شاخیں
چاروں جانب زمیں پہ بکھر ی ہوئی
گھونسلے بکھرے، ٹوٹے پھوٹے ہوئے
ان پرندوں کے جو ہیں اب بے گھر!
پیڑ کاٹو گے ،کیا گنواؤ گے؟
چھاؤں جو دھوپ کی تمازت میں
ایک چادر کی طرح بچھتی تھی‘‘
اردو ، مشترکہ تہذیب کے ایک ممتاز نمائندے سے محروم ہوگئی ہے۔