ہدایت کار: صائم صادق
اداکار: علینہ خان، علی جونیجو، راستی فاروق، ثروت گیلانی، سلمان پیر، ثانیہ سعید
کل دوستوں کے ہم راہ فلم جوائے لینڈ دیکھی۔ دیکھی اس لیے کہ اسے بین کیا گیا تھا اور خدشہ تھا کہ پھر سے بین نہ ہو جائے۔
تو بھئی یہ فلم میری توقعات سے بہت بڑھ کر نکلی۔ میں اسے ایک صنفی مبدل یعنی ٹرانس جینڈر کی کہانی سمجھا تھا اور شروع میں یہ لگی بھی لیکن پھر تو اس فلم کی پٹاری سے موضوعات نے وہ پر پُرزے نکالے کہ میں نوجوان ہدایت کار صائم صادق کو داد دینے کے لیے مجبور ہو گیا۔ جس وجہ سے اسے بین کیا گیا وہ ایسی فضول ثابت ہوئی کہ بین کرنے والوں، دونوں معنی میں، پر ہنسی آئی۔
موضوع: فلم کی کہانی تو مجھے بتانی نہیں چاہیے مگر اس میں بہ یک وقت کئی موضوعات ہیں۔ گھر کا چھوٹا بھائی ایک صنفی مبدل سے قریب ہو جاتا ہے۔ اس کے گھر میں ایک بیوی ہے جو اس کی بے رغبتی کا شکار ہے، ایک والد ہے جو روایتی والد کی طرح اپنے بچوں پر روایتی اخلاقیات نافذ کرنے کا کام کرتا ہے۔ چھوٹے کا بھائی ہے جو نمازی بھی ہے اور رات کو وڈیو کال پر کسی محبوبہ کو دیکھتا بھی ہے اور اسے حیا کی تلقین بھی کرتا ہے۔ ایک پڑوسن ہے جسے لڑکے کے تھئیٹر میں کام کرنے کی بھنک پڑتی ہے تو وہ شکایت لے کر چھوٹے کے والد کے گھر آ جاتی ہے مگر وہ پڑوسن خود بھی ادھیڑ عمری میں بے توجہی کا شکار ہے۔ گھر میں دو بیاہتائیں ہیں جو گھٹن کا شکار ہیں اور ایک دن سسر کو ادھیڑ عمر پڑوسن کے حوالے کر کے جوائے لینڈ کی سیر کرتی ہیں۔ ان سب کے علاوہ تھئیٹر کا ماحول ہے جہاں ایک صنفی مبدل آگے نکلنے کی سرتوڑ جدوجہد کر رہا ہے۔
کاسٹنگ اور اداکاری: اس فلم کی کاسٹ میں تقریباً ہر کردار ہیرے کی طرح جڑا ہوا ہے۔ چھوٹے بھائی کے کردار میں علی جونیجو نے بہت ہی فطری اداکاری کی ہے۔ اس کی شخصیت دبی ہوئی ہے اور وہ بڑے بھائی کو اور باپ کو جب بھی دیکھتا ہے نیچے سے دیکھتا ہے۔ ایسا کیمرہ اینگلز کی وجہ سے بھی ممکن ہوا۔ یہی چھوٹا بھائی جب زوردار شخصیت کے مالک صنفی مبدل سے ملتا ہے تو اس کے اثر تلے بھی آ جاتا ہے۔ یہ کردار اپنی بیوی کی جاب کرنے کا بھی حامی ہے لیکن جب اس کا والد اس کی بیوی کی جاب چھڑوا دیتا ہے تو اسے بچا نہیں پاتا۔ اس کردار میں شاید کچھ جنسی مسائل بھی ہیں جنھیں صرف سجیسٹ کیا گیا ہے اور یوں فلم اور بھرپور ہو گئی ہے۔ صنفی مبدل بیبا کے کردار میں علینہ خان نے خوب رنگ بھرا۔ اس کردار کے لیے علینہ کا انتخاب بہت موثر ثابت ہوا۔ علینہ کی آواز، اس کی جانب سے خواجہ سراوں کی مخصوص زبان کا استعمال اور اردو کی جگہ پنجابی کا استعمال خوب رہا۔ ممتاز کے کردار میں راستی فاروق نے بھی بہت کفایتی اداکاری کی، یعنی اوور ایکٹنگ نہیں کی۔ وہ اپنے کرب کو چہرے پر نمایاں کرنے میں کام یاب رہیں۔ باپ کے کردار میں سلمان پیر بھی خوب رہے اور نُچی کے کردار میں ثروت گیلانی نے بھی موثر کردار ادا کیا۔
سنیماٹوگرافی: اس فلم کے اصل ہیرو اس کے ہدایت کار صائم صادق ہیں۔ لاہور کے اندرون شہر کی گلیوں کو انھوں نے خوب فلمایا اور شاٹس بنانے کے لیے بہت تخلیقی انداز اپنایا۔ چھوٹے بھائی کی بیوی کی خودکشی کا منظر انھوں نے ایک واش روم میں فلمایا۔ یہ کمال کا سین ہے۔ بیوی ہاتھ میں واش روم صاف کرنے کا تیل لیے کموڈ پر بیٹھی ہے، اس کا شوہر آتا ہے، ٹوتھ پیسٹ کر کے چلا جاتا ہے اور یہ دیکھتا تک نہیں کہ اس کی بیوی کے ہاتھ میں زہر کی بوتل ہے۔ پھر شادی سے پہلے ممتاز کے گھر کی کھڑکی پر اس کے ہونے والے شوہر سے ملاقات کا شاٹ۔ پھر وہ ٹو شاٹ جس میں صنفی مبدل بیبا اور علی جونیجو ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ بیبا علی جونیجو کو شراب دیتا ہے جس کا گلاس گر کر ٹوٹ جاتا ہے اور چھوٹا علی جونیجو ایک کپڑے سے فرش صاف کرنے لگتا ہے۔ تھئیٹر کے اندر بیبا اور اس کے ساتھیوں کے اسٹیج پر ڈانس کا منطر، جسے کوئی کم زورڈائریکٹر اسٹیج کے سامنے سے فلماتا، مگر صائم صادق کا کیمرہ ڈانسروں کے درمیان گھومتا پھرتا رہا جس سے تھئیٹر کے پاگل پن کا تاثر اور گہرا ہو کر سامنے آیا۔ ڈائریکٹر نے چھوٹے چھوٹے سٹل شاٹس کو تھوڑا تھوڑا طویل فلمایا ہے، جس سے تاثر میں گہرائی اور ٹیکسچر آیا ہے۔ کلوز شاٹس بھی کام یابی سے فلمائے گئے۔
پھر بیبا کے بل بورڈ کو لے جاتا ہوا علی جونیجو جس کا منھ بیبا کی ٹانگوں کے درمیان ہے اور پھر وہ آئی کونک منظر جس میں بیبا موٹر سائیکل چلا رہا ہے اور علی جونیبو اس کا بچہ سا بنا اس کے پیچھے بیٹھا ہے۔ ہدایت کار اس چھوٹے کے کردار کے کئی شیڈز کو بڑی نزاکت سے پکڑنے میں کام یاب ہوا ہے۔ ممتاز کی وفات کے بعد گھر کے مناظر بھی بڑے عمدہ زاویوں سے فلمائے گئے ہیں جن سے پورے منظر میں حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے اور پھر مکالمے ایسے جینوئن انداز میں ادا کیے گئے ہیں جس کی الگ سے داد بنتی ہے۔ فلم میں اردو اور انگریزی مکس کی گئی ہے جس سے فلم اور بھی کارگر ہوئِی۔ اور پھر ممتاز اور نُوچی کے جوائے لینڈ میں گزرا دن اور اس دن کی اس فلم میں علامتی اہمیت۔ بھئی واہ واہ۔
ایک اور خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستانی سنیما ایسی فلموں کے باعث دنیا بھر کے سنیما سے مختلف اپنی پہچان بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سنیما میں پاکستانی معاشرے، پاکستانی پاپ کلچر، پاکستانی لسانی تحول کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اس فلم کے لیے صائم صادق کو بہت بہت داد۔ اس فلم کے متعدد موضوعات میں سے کوئی ایک بھی اس کی کام یابی کا ضامن بن سکتا تھا۔ متعدد موضوعات کو ایک فلم میں لے کر چلنا، کام یابی سے برتنا اور پھر ان موضوعات کے حساب سے عمدہ سنیماٹوگرافی، پھر کرداروں کی کاسٹنگ، ہر ہر چیز کے لیے ہدایت کار داد کا مستحق ہے اور اس نوجوان ہدایت کار سے مستقبل میں بہت توقعات ہیں۔