Laaltain

جگہ خالی ہے (تصنیف حیدر)

13 مئی، 2019

میں اس خوبصورت سی لکڑی کی بینچ پر بیٹھ کر قریب پچیس ہزار بار خود کو سمجھا چکا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر سمجھانے اور یقین دلانے میں جو باریک سا فرق تھا، وہ مجھ پر صاف روشن تھا۔پارک میں صبح صبح لوگ جوگنگ کرنے آئے تھے، بھاگتے دوڑتے لوگوں کے ساتھ یہ سر سبز پارک بھی گویا چکر پر چکر لگا رہاتھا،آس پاس کے جھولے سنسنان پڑے تھے، جیسے ان پر کبھی کوئی بیٹھتا ہی نہ ہو۔چڑیوں کی چہچہاہٹ لگاتار جاری تھی۔اگر یہ کوئی عام سا دن ہوتا تو شاید میں اس وقت ماحول کی خوبصورتی اور موسم کی رومانیت کا مزا لے رہا ہوتا۔مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔میں نے بے خیالی کے عالم میں آس پاس گھومتی ہوئی گلہریوں کو دیکھا، ان کے سنہرے بدن پر کھنچی ہوئی بھوری لکیریں، اٹھی ہوئی ایک گول محراب نما دم اور ہاتھوں کے پنجے، مونچھوں کی تراش، سب پر ایک نگاہ ڈالی، لمبے موٹے اور گھنے پیڑوں سے چھن کر آنے والی دھوپ نے ان کے حسن کو اور نمایاں کردیا تھا۔سفیداور پتلی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے قدموں کی آہٹ پاکر یہ گلہریاں کبھی سبز گھانس پر پھرتی سے رینگ جاتیں، کبھی پیڑوں کے تنوں پر چڑھ دوڑتیں اور کچھ میرے پیر کے پاس سے ہوتی ہوئی پارک کی پچھلی دیوار کی طرف جانکلتیں۔ایک چھوٹی لڑکی نے جب دوڑتے دوڑتے میری ہی بینچ کے قریب بیر کی چار پانچ گٹھلیاں ایک پیڑ کے پاس اچھال دیں تو کچھ ہی دیر میں وہاں دو گلہریاں تیزی سے دوڑتی ہوئی آئیں اوران گٹھلیوں کو اپنے ننھے پنجوں میں اٹھاکر ان پر چسپاں بیر کو ہلکے ہلکے کترنے لگیں۔گلہریاں ایسے عالم میں بہت معصوم لگ رہی تھیں، ان کے ننھے ننھے پنجوں میں پھنسے ہوئے بیر پر ان کا منہ مارنا دیکھ کر محسوس ہوتا تھا، جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ آم کی گٹھلی پر لگی ہوئی زرد ملائی کو کشید کررہا ہو۔ان کے سینے پھولتے پچکتے تھے اور ایسے میں وہ بالکل ایک ایسی جواں سال آٹا گوندھنے والی لڑکی کی مٹھیاں لگانے کی جھلکیاں پیش کررہے تھے، جس نے ایک بڑے گلے والا لباس پہن رکھا ہو اور دور سے دیکھنے والوں کو اس روزن سے دو ہانپتی ہوئی رکابیاں صاف طور پر نظر آرہی ہوں۔پتہ نہیں ایسے میں کہاں سے ایک کوا بھی وہاں چلا آیا، جو تھوڑی ہمت دکھا کر ان سے وہ گٹھلیاں چھین لینا چاہتا تھا، اس کے زمین پر پائوں ٹکاتے ہی گلہریاں اتنی پھرتی سے گٹھلیاں چھوڑ کر بھاگیں، جیسے بھیڑ میں کسی کے اچانک فائر کردینے سے بھگدڑ سی مچ جاتی ہے۔میں نےپتھر پھینکنے کا اشارہ کرتے ہوئے کوے کو ڈرایا تو وہ تیزی سے اڑ گیا۔اسی لمحے مجھ پر پھر میرا خوف حملہ آور ہوگیا۔یہ خوف ہی تو تھا، جو میں آدھی رات سے اسی بینچ پر بیٹھا تھا، اب آٹھ بجنے آرہے تھے، لوگ پارک سے واپس ہورہے تھے، اور میں ابھی بھی کسی پتھر کی مورت کی طرح وہاں جما بیٹھا تھا۔

میں پچھلے کئی روز سے نوکری تلاش کررہا تھا۔جہاں جاتا مایوسی ہی ہاتھ لگتی۔میں نے سمپل گریجویشن کی ہے اور وہ بھی قریب قریب رعایتی مارکس حاصل کرکے پاس ہوا ہوں۔انگریزی ٹوٹی پھوٹی بول لیتا ہوں، مگر گرامر نہ جاننے کی وجہ سے اس میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔اپنی بات سمجھانے بھر کی انگریزی مجھے آتی ہے، مگر لگتا ہے کہ شاید میری زبان میں ہی کچھ ایسا نقص ہے کہ کسی کو میری بات سمجھ نہیں آتی۔پڑھائی میں کبھی میرا دل نہیں لگا، ٹھیک اسی طرح، جس طرح کام میں جی نہیں لگتا ہے۔کیا کام کروں، پہلے تو یہی سوچ پانا میرے لیے ناممکن تھا، مگر جب یہ کام بھی مجھ سے نہ ہوسکا تو دوسروں نے اس کی ذمہ داری لی۔میرے دو کزن، ایک ہی کمپنی میں اچھے عہدوں پر ملازم ہیں، انہوں نے بہتیری کوششیں کیں کہ مجھے اپنے ساتھ کام پر رکھوالیں مگر اول تو میں خود ٹالتا رہا اور جب ہامی بھری تو وہ جگہ کسی اور کو مل چکی تھی۔میں نے بھی جی ہی جی میں خدا کا شکر ادا کیا اور اوپر سے افسوس ظاہر کرتا رہ گیا۔اصل میں میرے کام نہ کرنے سے کسی کو کوئی پریشانی نہ تھی، خاندان بھر کا ہر آدمی مجھے نکما، کام چور اور نالائق کہہ کر اپنا کام چلا سکتا تھامگر مسئلہ تھا میرے بیوی بچوں کا۔چار سال پہلے میری شادی، ماں باپ کے حکم سے کرادی گئی تھی۔میرے ماں باپ کا خیال تھا کہ شادی کے بعد میری ذہنی حالت درست ہوجائے گی۔میں ایسا کاہل اور تساہل پسند انسان نہیں رہوں گا۔میرا گلیوں میں واہی تباہی پھرنا، دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر رات گئے تک گپ شپ کرنا، اوندھی سیدھی فلمیں دیکھنا اور محلے کی لڑکیوں میں ادھر ادھر منہ مارنا، سب کچھ بند ہوجائے گا۔مگر ایسا نہیں ہوا، یا شاید ایسا ہی ہوا، مگر جو کچھ ہوا وہ میرے ماں باپ کی توقع کے بالکل برخلاف تھا۔میں نے مذکورہ بالا سارے فالتو دھندے واقعی چھوڑ دیے تھے، مگر شادی کے بعد اب میرا ٹھکانہ میری بیوی کا پہلو تھا، میں دن رات اس کے ساتھ چپکا رہتا، وہ کچن میں ہوتی تو بہانے بہانے سے اس کے پاس جاکر پکارتا، کپڑے مشین میں دھونے لگاتی تو اس کی مدد کرنے کے نام پر پاس کھڑا واش بیسن کے نل سے اس پر پانی کے چھینٹے اڑاتا رہتا، چھت پر انہیں سکھانے جاتی تو خود بھی غیر ضروری ہواخوری کے نام پر اس کا پیچھا نہ چھوڑتا۔الغرض میں اس کے حق میں ایسا لستگا ہوگیا تھا کہ مجھ سے جان چھڑانا بے چاری غریب عورت کے بس کا نہ تھا۔وہ مجھے شرم دلاتی، بھرے پرے خاندان میں دوسروں کے کام کاج کا حوالہ دیتی، اور بھابیوں اور بھاوجوں کی دبی دبی مسکراہٹوں پر نظر ڈلواتی مگر کوئی بھی ٹوٹکا میرے لیے کارآمد نہ ہوتا۔

گاوں سے ناج آتا تو سب میں برابر تقسیم ہوتا، پھل، پکوان، شربت، شیرا کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی، ماں باپ کبھی کبھار احساس دلاتے کہ یہ ساری رنگ رلیاں ان کی زندگی تک ہی ہیں، جہاں ان کی آنکھیں بند ہوئی، سب دال دلیے کا بھاوپتہ چل جائے گا۔کوئی کام کا طعنہ دیتا تو میں کبھی تو چپ ہوجاتا اور کبھی غضبناک آنکھیں نکال کر کہتا کہ میں تو نوکری ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہوگیا ہوں، اب کوئی نوکری میرے حساب کی ہے ہی نہیں تو کیا کیا جائے؟ کبھی منہ بسور لیتا، تر آنکھوں سے ایک ایک کو تکتا اور سوال کرتا کہ اگر گریجویشن اتنے کم نمبروں سے پاس کرپایا ہوں تو اس میں میری کیا غلطی ہے،مجھے پڑھائی سمجھ میں نہیں آتی، میں دوسروں کی طرح ہوشیار نہیں ہوں تو کیا اس میں میرا قصور ہے، ایسے میں سب مجھے لپٹاچمٹا کر اتنا پیار کرتے کہ مجھے خود اپنی حالت پر دیا آ جاتی۔

دراصل میرے کاہل ہوجانے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ میرے والد کی اردو سے محبت تھی۔انہوں نے اپنی شادی سے پہلے ہی یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ اپنے بچے کو اردو زبان پڑھائیں گے۔ان کا خیال تھا کہ اردو زبان،اسلامی اقدار اور تہذیبی اخلاقیات کے باقی رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔انہیں میرے چاچا اور ماموں سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ زمانہ انگریزی کا ہے، آپ اردو سے بے شک محبت کیجیے، اور زیادہ سے زیادہ گھر پر کسی استاد کو لگوا کر بچے کو یہ زبان سکھوادیجیے، مگر میرے والد اس سمے اصول کے پکے ہوا کرتے تھے، ان کا اصرار تھا کہ اگر سبھی بچے انگریزی میڈیم میں پڑھیں گے تو اردو میڈیم سکول کیا رفتہ رفتہ بند نہیں ہوجائیں گے۔وہ کہتے تھے کہ انسان کی قابلیت کا زبان سے کوئی سروکار نہیں ہے، جو شخص پڑھنا لکھنا جانتا ہے، وہ کسی بھی زبان میں پڑھائی کرے،اس کی قابلیت کو سماج میں رشک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں سبھی لوگ انگریزی میں گٹر پٹر کرلیتے ہیں، ان کا بیٹا ‘آہن’ سید خاندان کی آبرو بلند کرے گا اور زبان کی حفاظت کا سہرا بھی اس کے سر بندھے گا اور پھر انہیں کیا فکر ہے، جس طرح اردو گھر میں پڑھائی جاسکتی ہے، اس طرح انگریزی بھی گھر میں پڑھی جاسکتی ہے۔اور پھر اردو سکولوں میں کیا انگریزی کی تعلیم نہیں دی جاتی ؟ اب وہ زمانہ تو نہیں کہ جہاں اردو میڈیم میں پڑھنے کی وجہ سے انگریزی کی تعلیم پانچویں یا آٹھویں جماعت سے شروع کی جاتی ہو۔ان کے ایسے مباحث سے جیتنا سبھی کے لیے غیر ممکن تھا۔چنانچہ مجھے اردو سکول میں ڈال دیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ ابتدا میں میں بہت ہوشیار تھا، اس کی گواہی تیسری چوتھی جماعت تک کے میرے سکول کے نتائج سے بھی ملتی ہے، مگر پانچویں جماعت سے میری صلاحیت کی لکڑی میں دیمک لگنی شروع ہوئی۔چھٹی ساتویں تک پہنچتے پہنچتے میری حالت یہ ہوگئی تھی کہ میں نے ایک دفعہ اپنی موج مستی کے لیے چاچا کے جیب سے راتوں رات پیسے چرانے کی بھی کوشش کی۔حالانکہ اس چوری میں میرا چچا زاد بھائی ‘امین’ بھی برابر کا شریک تھا، مگر جب ہم پکڑے گئے تو سارا الزام مجھ پر دھر دیا گیا، امین تو کونے میں ایک طرف سرجھکائے کھڑا تھا اور میری چاچی منہ بنا بنا کر میرے ابا کو طعنے دے رہی تھیں۔’اور ڈالیے اردو میڈیم میں! خوب خاندان کا نام روشن کررہا ہے یہ لڑکا، خود بگڑے سو بگڑے، اب تو میری اولاد کو بھی بگاڑنے لگا ہے، یہی سب تو سکھایا جاتا ہے ان سکولوں میں۔’میرے والد بت بنے سن رہے تھے۔ان کے خواب اسی ایک پل میں چکنا چور ہوچکے تھے، وہ رات گئے میرے پاس آئے، میں ڈرا سہما بیٹھا تھا کہ آج تو خوب ٹھکائی ہوگی مگر اس کے برعکس انہوں نے مجھے ایک کمرے میں لے جاکر بند کردیا، رات بھر میں اس مدھم روشنی والے کمرے میں پڑا خوف اور ہیبت کے عالم میں چونکتا رہا، دری کا کونا بھی پاوں سے ٹکراتا تو محسوس ہوتا جیسے ابا پٹائی کرنے آگئے ہیں، صبح کے قریب دروازہ کھلا، وہ شاید فجر کی نماز پڑھ کر آئے تھے، ان کے ہاتھ میں رس ملائی تھی، خود پیار سے بیٹھ کر مجھے کھلائی اور ہر نوالے پر سمجھاتے رہے کہ چوری بہت بڑا عیب ہے، اس سے خدا ناخوش ہوتا ہے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ آئندہ اگر میں نے چوری کی تو انہیں بمجبوری خاندان سے الگ، اپنی اس چھوٹی سی فیملی کے ساتھ کہیں اور شفٹ ہونا ہوگا۔میں نے رو رو کر ان سے معافی مانگی اور یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا۔اور پھر اس کے بعد میں نے کبھی چوری نہیں کی، نہ گھر پر نہ باہر۔بقول ابا کے، مجھے جس چیز کی ضرورت ہو، میں ان سے بلاجھجھک مانگ سکتا تھا۔اس لیے فلمیں دیکھنے جانا ہو یا تماشے، میلے ٹھیلے گھومنا ہو یا چٹورا پن کرنا ہو۔میں ہر بات بلادھڑک ان سے کہہ دیتا اور وہ مجھے پیسے دے دیتے۔

آٹھویں جماعت کے بعد انہوں نے ایک ماہانہ رقم میرے نام طے کردی تھی۔یہ رقم اتنی تھی کہ اگر میں قناعت سے کام لیتا تو اس میں سے کافی پیسے بچا سکتا تھا، مگر اب محلے میں میرے معاشقے شروع ہوچکے تھے۔لڑکیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ‘آہن’ جس کسی لڑکی پر عاشق ہوتا ہے، اس پر دھڑلے سے رقم خرچ کرتا ہے، چنانچہ لڑکیاں میرے آس پاس بھنبھیریوں کی طرح منڈراتیں۔میں بھی کبھی کسی کو ہار دلارہا ہوں، کبھی کسی کو سوٹ، کسی کو نئی شال لاکر دے رہا ہوں، کسی کو بندے۔اس کے علاوہ انہیں فلم دکھانا، میلے گھمانا اور بتاشوں سے لے کر مٹھائیوں تک سارے اخراجات کا نتیجہ تھا کہ دسویں تک پہنچتے پہنچتے رقم ملنے کے دس بارہ دن تک میرے ہاتھ میں ایک پائی بھی نہ بچتی تھی، اور پھر اسی زمانے میں مجھے سگریٹ بیڑی کا شوق بھی اپنی ایک محبت کو رجھانے کے چکر میں لگ گیا۔ایک لڑکی تھی ہمارے محلے میں، نام اس کا تھا شمائلہ، اس کی خاصیت یہ تھی کہ کبھی دوپٹہ نہ اوڑھتی تھی، ٹائٹ جینز پہنتی۔محلے میں آتے جاتے کئی لڑکے روزانہ اس کے مرض عشق میں مبتلا ہوتے، میں نے بھی بڑے حیلوں بہانوں سے اس تک رسائی حاصل کی تھی، ایسوں ویسوں کو تو وہ منہ ہی نہیں لگاتی تھی۔ پھر جب میری اس سے قربت بڑھ گئی تو اس نے ایک بار رات کا کھانا میرے ساتھ شہر کے ایک چھور پر دریا کنارے آباد سنسان جگہ پر قائم ہوٹل میں کھایا اور کھانے کے بعد ٹہلتے ہوئے اپنے بیگ سے ایک سگریٹ نکال کر جلایا۔میں اسے حیرت سے تک رہا تھا، اس نے جب سگریٹ کا دھواں میری طرف چھوڑتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں نے کبھی سگریٹ پی ہے تو میں نے نفی میں سرہلادیا۔جواب میں اس نے میری طرف سگریٹ بڑھائی، میں انکار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا، چنانچہ سگریٹ ہونٹوں میں لگا کر ناک اور منہ دونوں سے ایک ساتھ جو سانس بھری تو ایسا دھانسہ لگا کہ جان ضیق میں آگئی۔مگر اس نے تسلی دلائی اور بتایا کہ سگریٹ کس طرح پی جاتی ہے، میں ڈرا ہوا تو تھا، مگر شمائلہ کو انکار کرپانا میرے بس کی بات نہ تھی، چنانچہ میں نے دوبارہ دم بھرا، اب کہ بات کچھ بن گئی اور پھر یہ بات ایسی بنی کہ مہینے میں ملنے والے خرچ کا سارا تانا بانا بگڑ گیا، میں نے ابا سے رقم بڑھوانے کا مطالبہ کیا، جو کہ انہوں نے بڑھا بھی دی، پھر بھی حالت یہ ہوگئی کہ دس دن بعد مجھے دوستوں سے قرض لے کر کام چلانا پڑتا تھا۔

یہ بات تو طے ہے کہ شکل و صورت سے میں بالکل ہیرو نما لڑکا رہا ہوں۔ میرے اعصاب میرے نام کی ہی طرح فولادی ہیں۔چہرہ بھرا ہوا اور گورا چٹا، بازو اور رانوں کی مچھلیاں بھری ہوئی۔چونکہ میری زندگی کا زیادہ تر عرصہ فراغت میں بسر ہوا ہے اس لیے میرے بالوں میں ڈھونڈے سے بھی کوئی سفید بال کبھی نظر نہیں آیا اور باوجود اس کے کہ میں نے پابندی سے کبھی کسرت وغیرہ نہیں کی، میرا بدن کسرتی اور ڈیل ڈول جاذب نظر معلوم ہوتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ میرے زیادہ تر معاشقے کامیاب رہا کرتے تھے۔اکا دکا لڑکیاں ایسی بھی ہوتی تھیں، جن کو مجھ سے ایسا عشق ہوجاتا کہ جان چھڑانا مشکل ہوتا۔ایک لڑکی نے تو زہر کھانے کی دھمکی بھی دی تھی، وہ تو اچھا ہوا کہ جلد اس کی شادی ہوئی۔خدا کے فضل سے کوئی ایسا گھرانہ محلے بھر میں نہ ہوگا جہاں میری رسوائی ٹھیک طور پر نہ ہوئی ہو۔سب جانتے تھے کہ میں ادھر ادھر منہ مارتا ہوں، اور یہ سب میرے والد کی شہہ پر نہ سہی مگر ان کے جانتے بوجھتے ہوا تھا، مگر وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ جو بھی ہو، میرا بیٹا کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا اور چوری تو اس نے سکول کے ایک واقعے کے علاوہ زندگی میں دوبارہ کبھی کی ہی نہیں ہے۔جن دوستوں سے میں قرض لیا کرتا تھا، ان سے معاملات ہمیشہ رازدارانہ رہا کرتے تھے، قرض پر سود تو کوئی دوست نہ لیتا، البتہ جب میرے پاس پیسے آجاتے تو وہ بھی موقع دیکھ کر اضافی رقم ادھار لے لیا کرتے اور کئی دفعہ واپس ہی نہ کرتے، میں بھی یہ سوچ کر معاملہ رفع دفع کردیتا کہ وہ میرے ہم راز ہیں، ہر بات میں میرا خیال کرتے ہیں سو اگر چار پیسے ان کی طرف زیادہ بھی اٹھ جاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ظاہر ہے کہ وہ رقم میری کمائی ہوئی نہ تھی، والد خاندانی امیر تھے، میرے چچا سے عمر میں بڑے تھے اور نماز روزے کے پابند، حاجی، سو ان کی محلے بھر میں ایک الگ ہی عزت تھی۔رفتہ رفتہ گھسٹتے ہوئے ہی سہی، میں نے گریجویشن میں داخلہ حاصل کرلیا۔اب تک میں اپنے معاشقوں سے پورے محلے کا ناطقہ بند کرچکا تھا، اب گھر پر شکایتیں آنے لگی تھیں، لوگ دبی دبی مسکراہٹوں اور کبھی کبھار ضبط و تحمل کے دامن پر غصے کا پیوند لگا کر گھر بھی آن چکے تھے۔والد اور والدہ سے منتیں سماجتیں بھی کی جاچکی تھیں اور ان پر اخلاقی دبائو بھی ڈالا جارہا تھا، چنانچہ میری شادی کی تجویز پیش کی گئی۔چچا جان نے اپنے ایک دوست عمیر بھائی کی بیٹی آمنہ سے میرے رشتے کی بات ٹھہرادی اور زیادہ دن نہ گزر پائے کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ کی تعبیر عمل میں آگئی۔شادی کے پہلے سال ہی میری بیوی نے ایک لڑکی کو جنم دیا، ابا نے اس کا نام رقیہ رکھا، دوسرے سال پھر ایک اور لڑکی، جس کو زینب کا نام دیا گیا اور تیسرے سال دو لڑکیوں کے بعد ایک چاند جیسے لڑکے نے اپنی ماں کی بغل میں انگڑائی لی تو گھر کا گھر جھوم اٹھا، ابا نے اس بچے کا نام ‘ارمان ‘ رکھ دیا۔تلے اوپر کے ہونے کی وجہ سے ان تینوں بچوں نے میری بیوی کو بے حد مصروف کردیا۔میں اس کی توجہ جتنی بھی اپنی جانب کرنا چاہتا،ممکن نہ ہوپاتی، پہلے ہی گھر بھر میں لوگ بھرے پڑے تھے، میرے چچا زادبھائیوں کی شادی تو مجھ سے بھی چھوٹی عمر میں کردی گئی تھی، میں چونکہ بارہویں میں دو دفعہ فیل ہوچکا تھا، اس لیے وہ مجھ سے پہلے گریجویشن کرچکے تھے۔چنانچہ جب میری شادی ہوئی تو اس میں میری بھابھیاں بھی شریک تھیں۔میرے دونوں کزن بھائیوں کی کوئی بھی اولاد نہ تھی، ان پر کوئی ایسا دباو بھی نہ تھا اور وہ خود بھی اپنی اولاد کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔گریجویشن پاس کرنے کے بعد مجھ پر اس چیز کا دبائو زیادہ ہوگیا، جس کو ابھی تک میں ٹالتا آیا تھا، یعنی صاحب روزگار ہونے کا پریشر۔والد صاحب، اب بات بات پر اٹھتے بیٹھتے کسی نہ کسی بہانے یہ اشارہ کرنے لگے تھے کہ مجھے اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت کا بار اٹھانے کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔

چچا زاد بھائی کوشش کرکے دیکھ چکے، ابا طعنے دے کر ہار چکے، چچا اور ماموں دونوں نے ایک دو جگہ اپنے تعلقات کو استعمال کرکے مجھے چھوٹی موٹی دوکانوں پر بٹھانے کی کوشش کی، مگر میں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ جب تک میرے حساب کی نوکری نہ ملے گی، میں نہیں کروں گا۔اب یہ میرا حساب کیا تھا، اس پر ایک دن پورا گھر مجھ سے الجھ گیا، مگر میں انہیں سمجھا نہیں پایا۔میری درخواست کوئی بہت زیادہ بڑی نہ تھی، میں چاہتا تھا کہ تین بچوں کے باپ کو ایسی کوئی نوکری ملنی چاہیے، جس سے کم از کم سماج میں اس کی بے عزتی نہ ہو، جبکہ اس کے دونوں چچا زاد بھائی اچھی کمپنی میں بڑے عہدوں پر ملازم ہیں۔جب وہ لوگ مجھے ان کی اور میری تعلیم کے درمیان موجود فرق پر دھیان دینے کو مجبور کرتے تو میں کہہ دیتا کہ اس میں میرا قصور نہیں۔ابا نے مجھے کیوں انگریزی میڈیم سکول میں نہیں ڈالا۔اگر ڈالا ہوتا تو آج اس تفریق کی وجہ سےمیرے لیے دوکانوں پر بیٹھنے والے کام نہ ڈھونڈنے پڑتے، آمنہ بھی اس معاملے میں میری رفیق فکر تھی، مگر پھر بھی وہ چاہتی تھی کہ میں کوئی کام کروں، اس طرح گھر میں پڑے رہنا اسے اس کی بھابھیوں کی نظر میں مجرم بنا رہا تھا، حالانکہ چچا زاد بھائی کچھ نہ کہتے تھے، کیونکہ ان پر کسی قسم کا معاشی دبائو نہیں پڑرہا تھا، مگر پھر بھی ایک ناہمواری کا بوجھ میری بیوی کی پلکوں پر صاف دیکھا جاسکتا تھا۔

ایک شام کا واقعہ ہے کہ میں بیٹھا کھانا کھارہا تھا، دو بچے پلنگ پر سورہے تھے اور سب سے بڑی رقیہ اپنے ننھے پیروں سے، لڑکھڑاتی، چلتی پورے گھر میں یہاں سے وہاں تک دوڑ لگارہی تھی۔میرے چچا نے مجھے آواز دی، انہیں پتہ لگا کہ میں کھانے میں مصروف ہوں تو وہ خود ہی میرے پاس چلے آئے۔ان کے ہاتھ میں ایک مڑا تڑا اخبار تھا، ایک اشتہار دکھاتے ہوئے مجھے کہنے لگے کہ اس جگہ کام کے لیے کچھ لڑکوں کی ضرورت ہے، کام کی تفصیل تو زیادہ نہیں لکھی، البتہ انہیں صرف دسویں اور بارہویں پڑھے ہوئے لڑکوں کی ضرورت ہے اور تنخواہ آٹھ ہزار روپے ماہانہ ہے۔جگہ گھر سے زیادہ دور نہیں ہے، میں چاہوں تو پیدل بھی جاسکتا ہوں اور چاہوں تو سائیکل رکشہ کرسکتا ہوں، جس کے ایک طرف کا کرایہ مشکل سے دس روپے ہوگا۔میں نے ان کے ہاتھ سے اشتہار لے کر دیکھا۔کسی ‘قافلہ کمپنی ‘کا اشتہار تھا، نام سے وہ کوئی سیرو سیاحت کرانے والی کمپنی معلوم ہوتی تھی، میں نے سوچا، ایک دفعہ جانے میں کوئی حرج نہیں، کیا پتہ اس طرح ملک اور بیرون ملک مفت میں گھومنے کا کوئی راستہ نکل آئے۔میں نے دلچسپی دکھائی تو چچا جان نے خوشی خوشی ایک پرچے پر اس جگہ کا پورا پتہ اور فون نمبر درج کردیا۔رات بھر میرے حواس پر وہ اشتہار چھایا رہا، میں نے محسوس کیا کہ میں ایک ٹورزم کمپنی کا ملازم بن چکا ہوں، اور میرے ابا آتے جاتے لوگوں کو یہ بات فخر سے بتارہے ہیں۔یہ بات اس سے پہلے تو میرے دھیان میں ہی نہیں آئی تھی کہ میں سیر و سیاحت کرانے والی کمپنیوں سے ملازمت طلب کرسکتا ہوں، یہی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں زیادہ پڑھنے لکھنے کی ضرورت نہیں، البتہ مختلف شہروں، جگہوں، علاقوں کی جانکاری ضروری ہے، میرے سکول میں پڑھنے والے دو لڑکوں نے تو باقاعدہ ٹورزم کا کورس کیا تھا اور ان میں سے ایک تو نہ جانے کہاں تھا مگر دوسرے کے بارے میں سننے میں آیا تھا کہ جاپان میں ہے۔اورجہاں تک میری معلومات ہے اسے بالکل جاپانی نہیں آتی تھی۔سو جاپانی جانے بغیر اگر اس شعبے کی مدد سے جاپان تک جایا جاسکتا ہے تو انگریزی جانے بغیر کیا اپنے ہی ملک کی سیر نہیں کی جاسکتی، جہاں لوگ اردو لکھ پڑھ نہ پاتے ہوں، مگر سمجھ تو سکتے ہی ہیں۔رات گئے میں نے آمنہ کو بھی اس بارے میں خوشی خوشی بتایا۔کسی کام کے بارے میں اتنی دلچسپی سے مجھے بات کرتے دیکھنا اس کے لیے حیران کن بھی تھا اور خوش آئند بھی۔میں نے تصور کیا کہ اب چند دن بعد میں بھی دفتر سے تھکا ہارا آیا کروں گا اور میری بیوی مجھے گرم گرم روٹیاں سینک کر دے گی، بھابھیوں کی نظر میں میری عزت ہوگی، والدین بات بات پر بلائیں لیں گے، گھر کے ہر مشورے میں بڑی عزت سے مجھے شریک کیا جائے گا،مشترکہ اخراجات کی مجھے بھی فہرست دکھائی جائے گی۔نکما، کام چور اور ایسی ہی الا بلا سے پکارے جانے کا اب کوئی نام بھی نہ لے گا۔یہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی اور جب آنکھ کھلی تو بیوی جھنجھوڑ کر مجھے جگارہی تھی۔گیارہ بج رہے تھے، میں جلدی سے اٹھا، نہایا، دھویا، تیار ہوا۔الم غلم جو ملا، کھایا اور گھر سے نکل گیا۔

آدھے راستے پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ جس کاغذ پر میں نے اس کمپنی کا نام اور پتہ لکھا تھا، وہ تو میں گھر پر ہی بھول گیا ہوں، سوچا رکشہ پلٹوالوں، مگر پھر اپنی یادداشت پر بھروسہ کرکے مطمئن ہوگیا۔رکشہ کو جو منزل بتائی تھی، وہاں پہونچ کر قریب آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد مجھے ایک گلی کی جانب مڑتا ہوا بورڈ دکھائی دیا۔اس پر محض ‘قافلہ ‘ لکھا تھا۔میں گلی میں مڑ گیا۔آخری مکان تک پہنچا تو ایک پرانے لکڑی کے دروازے پر زنجیر لٹکی ہوئی نظر آئی۔دروازہ کھٹکھٹایا۔کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر کا آدمی نیلی رنگ کی نیکر اور ہاف سلیو شرٹ پہنے برآمد ہوا۔میں نے اس سے قافلہ کمپنی میں ملازمت کے اشتہار کے تعلق سے کچھ دریافت کرنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی اس نے انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ کیا، معلوم ہوتا تھا اس کا منہ کسی چیز سے بھرا ہوا ہے، جسے وہ لطف لے لے کر چبا رہا ہے اور اگلنا یا نگلنا نہیں چاہتا۔میں تیزی سے پہلی منزل پر پہنچ گیا۔کمرے کے باہر ہی ایک پرانی تختی پر ‘تشریف لائیے’ لکھا ہوا دیکھ کر میں اندر داخل ہوا۔سامنے ٹائی سوٹ میں ملبوس ایک آدمی بیٹھا تھا، اس کے سامنے طرح طرح کے کاغذ بکھرے ہوئے تھے، دور دور تک کوئی نظر نہ آتا تھا مگر کمرا صاف و شفاف تھا،آدھی دیوار پر کائلے ٹائلز لگے تھے اور آدھی دیواریں ہلکے پیلے رنگ سے پتی ہوئی تھیں۔انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ پتائی حال ہی میں ہوئی ہے۔برابر ہی ایک سٹینڈ پر ایک گھڑونچی رکھی تھی، جس پر ایک گلاس بھی اوندھا رکھا گیا تھا۔ٹائی سوٹ میں ملبوس شخص نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔میں نے گلا کھنکھارتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔

‘جی وہ اخبار میں آپ کی کمپنی کا اشتہار دیکھا تھا، آپ کو شاید لوگوں کی ضرورت ہے۔میں گریجویشن پاس کرچکا ہوں۔’
اس نے مجھے غور سے دیکھا، بیٹھنے کا اشارہ کیا اور مجھ سے کوئی دستاویز طلب کرنے کے بجائے،ایک کاغذ پر پہلے میرا نام اور پتہ لکھوایا، انہیں پڑھا، دوہرایا، ایک ہنکار بھری اور پھر یکبارگی مجھ سے پوچھا؟
‘ٹکٹ تقسیم کرسکتے ہو؟’
‘ٹکٹ؟ کیسے ٹکٹ؟’

اس نے وضاحت کی۔’دیکھو، ہماری کمپنی نئی ہے، فی الحال ہم ایسے نوجوانوں کی تلاش میں ہیں، جو مختلف مقامات کی سیر پر جانے والے ٹکٹ لوگوں کو تقسیم کرسکیں، ابھی تک ہمارے پاس پانچ لڑکے ہیں، تم چھٹے ہوگے، ہر دن ہر مقام پر ایک الگ لڑکا کھڑا ہوکر لوگوں کو ہماری کمپنی کے ساتھ سیر پر جانے کے لیے آمادہ کرتا ہے اور اس کے لیے ہم نے جگہ جگہ کے ٹکٹ تیار کروائے ہیں، مثال کے طور پر مسوری، شملہ، منالی وغیرہ وغیرہ۔تمہیں ایک دن پاکیزہ سینما کے سامنے، ایک دن ریلوے سٹیشن کے پاس، ایک دن رائل پارک میں یہ ٹکٹ فروخت کرنے ہونگے۔ایسی ہی اور بھی جگہیں ہیں جو وقت وقت پر تبدیل ہوتی رہیں گی۔’

‘اور تنخواہ؟’ میں نے سوال داغ دیا۔

‘تنخواہ، تمہاری محنت کے حساب سے طے ہوگی، یعنی ہر ٹکٹ پر تمہارا کمیشن دس فیصد ہے۔کسی ٹکٹ کی قیمت تین ہزار ہے، کسی کی پانچ اور کسی کی دس ہزار۔اب اس حساب سے تم خود ہی سوچ لو، اگر تم روزانہ تین ہزار روپے والا ایک ٹکٹ بھی فروخت کرلیتے ہو تو مہینے میں چھ ہزار ویسے ہی بن جائیں گے۔’

وہ بہت سنجیدگی کے ساتھ مجھے یہ ساری پالیسی سمجھا رہا تھا اور میرے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔میں سید عاشق علی کی اولاد نرینہ۔اب پورے شہر میں سڑکوں پر کھڑے ہوکر لوگوں سے ٹکٹ خریدنے کی درخواست کرتا پھروں گا۔ایسی واہیات نوکری اور کوئی تنخواہ بھی نہیں۔پتہ نہیں وہ کون بد نصیب ہوں گے جو اس کمبخت کے حلیے اور ٹائی سوٹ پر بھروسہ کرکے اس نوکری کے لیے ہامی بھرچکے ہوں گے۔میں اس کی بات سنتے سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔مگر وہ بدستور بولتا رہا۔اب مجھے اس پر بہت غصہ آرہا تھا۔میں نے کہا کہ یہ سب کام میرے بس کے نہیں، دفتر کے اندر کچھ لکھنے پڑھنے کا کام ہو تو میں کرسکتا ہوں۔وہ خاموش ہو گیا، کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اپنے پاس مجھے بلایا، خود اپنی کرسی سے اٹھا اور مجھے اس پر بٹھا کر کہنے لگا، میں واش روم جارہا ہوں، اتنی دیر میں اگر تم ان مختلف جگہوں کے بارے میں پڑھ کر ایسے کچھ نکات نکال سکو، جنہیں ہم اپنے سونیر (Souvenir)میں شامل کرسکیں، تو میں تمہاری درخواست پر غور کرسکتا ہوں۔لیکن یاد رہے کہ باتیں اتنی دلچسپ ہوں کہ سننے والا مبہوت ہوجائے اور ٹکٹ خریدنے پر مجبور ہوجائے۔اتنا کہہ کر وہ کمرے سے ملحقہ واش روم میں چلا گیا اور اس نے اندر سے کنڈی لگالی۔

میں نے کاغذات کھنگالے، خوبصورت جگہوں کی تصویریں بہت بہترین انداز میں کھینچی گئی تھیں۔ان کے ساتھ مختلف قسم کے نقشے اور ان سے ہی منسلک کاغذات پران جگہوں کے بارے میں معلومات دی گئی تھیں۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ ساری معلومات انگریزی میں تھیں اور وہ انگریزی،ویسی انگریزی بالکل نہ تھی، جس میں رعایتی نمبر حاصل کرکے میں نے گریجویشن کی سند حاصل کی تھی۔پھر وجہ یہ بھی تھی کہ سکول اور کالج میں انگریزی میرے لیے وبال جان ہی رہی تھی، میں بس کسی طرح اتنا پڑھ لیتا کہ پاس ہوجائوں، مجھے لگا تھا کہ ان کاغذات کے تعلق سے وہ معلومات کام آجائیں گی، میں نے بہت کوشش کی مگر آنکھوں کے سامنے چیل بلیاں سی ناچتی نظر آئیں۔کچھ الفاظ سمجھ میں تو آرہے تھے مگر مجموعی پیراگراف کا تاثر کیا ہے، بلکہ کسی سطر کا سیدھا سیدھا مطلب کیا نکلتا ہے، یہ بات پلے نہیں پڑرہی تھی۔اس امید پر پانی پھرتے دیکھ کر مجھے خود پر شرم سی آئی، مگر میں نے اس کام پر لعنت بھیج کر یہاں سے اٹھ جانا چاہا، کرسی کھسکا کر میں اٹھ ہی رہا تھا کہ ٹیبل کی دراز ذرا سی کھل گئی، غالبا اس کی چابی، جو کہ اس سے منسلک قفل سے لگی جھول رہی تھی، میرے جھٹکا دینے سے آگے کو کھسک آئی تھی۔دراز میں پانچ سو روپے کا نوٹ ایک پیپر ویٹ کے نیچے دبا ہوا رکھا تھا۔پتہ نہیں اچانک کیا ہوا کہ آن کی آن میں میں نے اپنی دو انگلیاں دراز میں ڈالیں، پیپر ویٹ کو کھسکایا اور وہ نوٹ جلدی سے اٹھا کر جیب میں اڑس لیا، اتنے میں واش روم میں فلش چلانے کی آواز آئی، میں تیزی سے اٹھا، سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے اترا اور تھوڑی دیر میں یہ جا وہ جا۔گلی سے گزرتا ہوا سڑک پر آیا اور ایک رکشے میں بیٹھ کر اسے فورا گھر کی طرف چلنے کا حکم سنا دیا۔

آدھے راستے پہنچا تھا کہ ایک خیال سے میرا پورا دماغ شل ہوگیا۔ایسا محسوس ہوا کہ پیروں تلے زمین نکل گئی ہو، مجھے یاد آیا کہ جس جگہ سے میں شاطرانہ طور پرچوری کرکے نکل بھاگا ہوں۔اسی ٹیبل پر میرا نام اور پتہ صاف صاف لکھا ہوا رکھا ہے۔ گھر کے نزدیک پہنچ کر میں نے رکشہ رکوالیا، اور ڈر کے مارے گھر نہ جاکر گلیوں گلیوں چکر کاٹتا رہا،بھوکا پیاسا، جب شام کو چھ، سوا چھ بجے کے قریب گھر کی طرف آیا تو دور سے ہی دروازے پر ایک کانسٹیبل کھڑا ہوا نظر آیا۔میرے ابا اس سے کچھ بات کررہے تھے، برابر میں ہی دونوں چچا زاد بھائی بھی موجود تھے۔میرا سر چکرا گیا، جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔اس شخص نے ضرور پولیس کو اطلاع کردی تھی، جی میں آئی کہ واپس جاکر اسے پیسے لوٹا دوں، مگر اتنی ہمت ہی نہ ہوئی۔ایک شخص مجھے نوکری دینا چاہ رہا تھا اور میں اس کے یہاں سے چوری کرکے نکل بھاگا اور وہ بھی تب، جب اس نے مجھے پورے بھروسے کے ساتھ، میری پسند کا کام دینے کا ارادہ کیا تھا۔مگر مجھ سے جو کچھ ہوا تھا وہ حادثاتی طور پر ہوا تھا، میں پیسے چرانا نہیں چاہتا تھا، اگر وہ دراز نہ کھلتی اور پانچ سو کا نوٹ مجھے نظر نہ آتا تو شاید میں ابھی اطمینان سے اپنے گھر پر لیٹا ہوا ہوتا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا یا اپنی بیوی کو اس کمپنی کی کمیشن والی روداد سنارہا ہوتا کہ کیسے یہ لوگ بے چارے غریب اور بے روزگار لوگوں کو ٹھگ رہے ہیں۔چچا کو اس ٹائی سوٹ والے کی کرتوت بتاتا، مگر اب تو میرا گھر پر جانا ہی محال ہورہا تھا۔میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا، عشا کی اذان کے بعد جب اندھیرا گھر آیا تو سوچا گھر چلاجائوں مگر ابا کی نظروں کا خیال کرکے عجیب سا خوف دل میں اتر آیا اور میں نے ایک ٹھیلے پر سے چھولے بٹورے خرید کرکھائے اور نماز پڑھنے چلا گیا۔رو دھو کر خدا کے حضور دعا کی، اپنی غلطی کی معافی مانگی اور اسے یقین دلایا کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہوگیا تو اگلے دن یہ پانچ سو روپے واپس اس شخص کو لوٹا آئوں گا چاہے وہاں کتنی ہی خفت کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔لوگ نماز پڑھ پڑھ کر واپس جارہے تھے، مگر میں بیٹھا رہا، قریب ایک سوا ایک پر وہاں سے اٹھا اور قریب ہی کے پارک میں پہنچ گیا، جہاں رات سے لے کرگیارہ بجے تک خود کو سمجھاتا رہا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

اب حالت خراب ہو چکی تھی، چنانچہ گھر جانا مجبوری تھا، میں نے دل پر پتھر رکھا اور گھر کی طرف قدم بڑھادیے۔گھر پہنچا تو دونوں بھائی نوکری پر جاچکے تھے، ابا اور چاچا جان بھی نہیں تھے۔دونوں بھابھیاں اپنے اپنے کمروں میں تھیں۔آمنہ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے لپٹ گئی، روتے روتے اس نے پوچھا کہ کل سے میں کہاں غائب ہوں، سب لوگ کتنے پریشان ہیں۔ابا اور چاچا کے ساتھ ساتھ دونوں بھائی بھی میری تلاش میں جہاں تہاں بھٹک رہے ہیں، بلکہ آج وہ اسی وجہ سے نوکری پر بھی نہیں جاپائے ہیں۔ابھی کچھ دیر میں مسجد سے اعلان کرائے جانے کی تجویز پر بھی عمل ہونے والا تھا۔میں اس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ کل جس کانسٹیبل سے ابا بات کررہے تھے وہ کیوں آیا تھا کہ اسی وقت دروازے پر کسی کے ڈنڈا بجانے کی آواز سنائی دی، پردہ سرکا تو میں نے دیکھا کہ خاکی پینٹ اور شرٹ میں ملبوس وہی کل والا کانسٹیبل دروازے پر کھڑا ہے، میری ہتھیلیوں میں پسینہ اتر آیا، میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں آمنہ کے پیچھے کسی بچے کی طرح چھپ جائوں۔مگر اسی وقت اس نے اپنے پلو میں بندھے پندرہ روپے نکال کر کانسٹیبل کو دیے اور کہا۔

”آج یہ باہر کی نالی ٹھیک سے صاف کردینا بھیا۔۔۔پھر کل کی طرح اباجی کی ڈانٹ نہ کھانی پڑے تمہیں۔”
اور جواب میں وہ مسکراکر سلام کرتا ہوا رخصت ہوگیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *