Laaltain

ہینگروں میں لٹکے سائے اور دیگر نظمیں (عظمیٰ طور)

28 اپریل، 2020

ہینگروں میں لٹکے سائے

کئی برس سے گرد سے اٹی پشت جھاڑی ہے
تمام بوسیدہ حوصلے رینگتے ہوئے میرے رنگوں سے لپٹ رہے ہیں
کمر سیدھی کرنے کی کوشش میں میری ریڑھ کی ہڈی میں کڑکڑاتے بے حس وقت کے سبھی بے جان لمحے زمین پہ گر پڑے ہیں
تمام سائے جنہیں میں نے کئی ریاضتوں کے بعد بے مروتی کی دیواروں سے جمع کیا تھا
میری الماری میں میرے مان اور خلوص کے ساتھ کچھ فاصلے پہ لٹکا رکھے تھے آج میں نے گرد جھاڑی
انہیں بلایا
کسی نے میرے چہرے پہ مارے طمانچوں پہ میرا تمسخر اڑایا
کسی کی بے اعتنائی نے میرے بال نوچے
کسی نے بڑھ کر ہاتھ پکڑ کر جھٹک کر واپس لے لیا سہارا
میں گر پڑی ہوں
میرے کمرے کی زمین پہلے ہی میرے بے لمس وجود سے اکتا چکی تھی
سو میرے گھٹنے پہ نیل ڈال گئی ہے
میں نے بڑھ کر دیواروں سے لپٹی وحشتوں کو پکارا تو میری چیخیں میرے گلے میں اپنے شکنجے گاڑتی مجھے بے دم کیے جانے لگی ہیں
میں ان سے ہٹ کر ایک کونے میں دبک گئی ہوں
میں سوچتی ہوں
ہینگروں میں لٹکے سائے تنہائی کا کیا چارہ کریں گے

“تخلیہ”

تخلیہ تخلیہ
درد و الم تخلیہ
میرے غم تخلیہ
دل میں اٹھتی ہر پیڑ تخلیہ
میرے نوچے گئے خوابوں کے زخم تخلیہ
امیدوں تمناؤں کے ڈھونگ تخلیہ
تخلیہ میرے درد
میرے درد تخلیہ
بس اب تخلیہ
میں بے بس ہوئی
سب رنج تخلیہ
میرے پیروں میں چھالے _ سبھی تخلیہ
آنکھوں کے نم تخلیہ
تیری آواز جن کواڑوں سے آتی ہے اب تلک
ان کواڑوں سے چھنتی روشنی تخلیہ
تخلیہ روزن
ہر در تخلیہ
میرے دل تخلیہ
تخلیہ میرے دل
تجھ کو باندھا زنجیروں سے میں نے سدا
ان کو لے جا یہاں سے اور تو بھی اب جا
سب ختم _ سب ختم _ سب ختم
تخلیہ
کوئی خواہش نہیں
فرمائش نہیں
آزمائش کر دے کرم _ کر کرم تخلیہ
میرے محبوب تک جانے والے ہر خط میں لکھو
اب آنا ضروری نہیں
سب دیواروں پہ لکھ دو
مٹادو راستوں کے نشاں
اور بجھا دو دیئے جلا دو سارے سانسیں لیتی وفاؤں کے دیپ
اب کوئی نہ قرب کی خواہش کرے
سب کرم تخلیہ
تخلیہ زندگی
تخلیہ اے وقت
اے جہاں تخلیہ

“چاہ کے دیوتا”

تمہیں دان کرنے کو سب اپنے گھروں سے قیمتی اشیاء اکھٹے کیے آ رہے تھے
میں تنہا کھڑی مجمعے سے پرے مسکراتے لبوں سے تمھیں الوہی نظروں سے تکے جا رہی تھی
میں ایسی ہی ہوں
میں ایسی ہی ہوں محبت کو دیکھوں تو لبوں سے مسکراتے ہوئے ملوں
چاہ کے دیوتا
مجھے دیواتاؤں کے چرنوں میں رکھنے کو نہ آنکھیں ملیں نہ خوابوں کے موتی
سنو چاہ کے دیوتا
مجھ کو اندازہ نہیں ہے کہ جب کوئی دیوتا محبت کی قندیلیں کو اٹھائے اندھیر بستیوں کی جانب رخ کیے پکارتا ہے
ہے کوئی جسم جس کی بلی چڑھے اور خوشدلی سے اس کے بدن پہ میں تیز نظروں سے جب جب وار کروں
وہ بدن اور میری جانب کو کھچتا ہوا میری توقیر بڑھاتا ہوا دوڑتا چلے ،، مجھے آ ملے
دیواتا چاہ کے دیوتا
مجھے کیا خبر کہ محبت بانٹنے والے کے سامنے نہ کھڑے رہو تو وہ اپنی تجوری کو خالی کرتے ہوئے کسی رہ جانے والے کے نام کو پکارتا نہیں
دیوتا !
مجھے کیا خبر کہ مجھے رقص کرتے ہوئے دیکھ کر ہی کئی مچلتی انگلیاں اپنی آنکھوں کو ملتیں تو میرا بدن بے وقعتی کی عمروں کی طوالت سے ذرا کم بڑھتا
کہ میرے بدن میں کئی خواہشوں کی چنٹیوں نے رات رات میں کئی سرنگیں بنا کر میرے بدن کو کسی غار کی شکل دے کر اپنا رزق سجھا ہوا ہے
(کہ میرا بدن رات رات بھر)
ناجانے کتنی ہی راتیں گزاری گئیں
کسی لمس کی بے خودی سے مبرا خوابوں کی ڈھیروں چونٹیوں کے تقدس میں ہلتا نہیں _ یہ میرا بے جان جسم __
سچ کے دیوتا ! مجھے کیا خبر کہ تو باقی بچا تھا
یہ بستی نئے دیوتاؤں محبت کے دیوتاؤں، چاہ رکھنے والوں پہ واری جانے کے لیے روز ہر روز نئے سرے سے سجائی جاتی رہی ہے
اور پرانے جسموں کو بڑے گھڑوں میں دبا کر نئے بدنوں کا رقص کرنا سکھایا جاتا رہا ہے
مگر میرا جلتا روشنی دیتا جسم کسی دھوکے میں دفنایا نہ گیا
اور تیری آمدوں سے میں بے خبر کسی معجزے سے قطع تعلق
میٹھے لبوں سے مسکراتے ہوئے تجھے تکتی رہی
(کہ میں سچ کی توقیر مسکرا کر کیے جا رہی تھی)
مگر تیری روشنی جوں ہی مجھ پر پڑی
میرا کھایا بدن جل اٹھا
چاہ کے دیوتا میں داسی نہیں
میری ہنسی کہیں مردہ جسموں کے ساتھ دفن ہونے چلی گئی
میں کمہلا گئی __

“خاموشی کی عمر طویل ہے “

بہت بول چکنے کے بعد
ایک مختصر لمحہ خاموشی کا
اشارہ ہے
اس خاموشی کا جو اس کائنات کے وجود سے پہلے بہت پہلے سے
خلا میں موجود ہے
اس خاموش کن کے سحر میں ڈوبی خاموشی کا
اس بولتی، چیختی ،چنگھاڑتی دنیا کے ختم ہونے پر چھا جانے والی خاموشی کا
رب نے جس سکوت کو خود توڑا اور پھر اس کی ضد میں ایک اور خاموشی طاری کرے گا
ایک بھرپور چیخ کے بعد چھا جانے والی
ایک طویل خاموشی _

“ہم “

ماں نے صبر کر لیا ہے
مگر سبھی صبر کرنے والے نہیں ہیں
بغاوت نوجوانوں کے مساموں سے پھوٹ رہی ہے
عورتوں نے اپنی چادریں ناموس سے چڑ کر اتار پھینکی ہیں
بھوکے اپنے بچوں سمیت نہر میں کود رہے ہیں
بھوک صرف پیٹ کی ضرورت نہیں رہی
اس کی جنگ اناؤں کا موجب بن چکی ہے
ننھے اور معصوم بچوں کی عزتیں محفوظ نہیں
اور غیرت والے سڑکوں پہ دندناتے پھرتے ہیں
داڑھیاں گناہوں کے پیچھے چھپنے کا بہترین طریق مانی جاتی ہیں
اور انھیں مونڈھ کر اپنی بے ایمانی کی توقیر کرنے والوں کو بہترین بہانے ملنے لگے ہیں
اب حلال حرام عمل نہیں مقابلہ کرنے کی چیزیں ہیں
اب قران گائڈ بک نہیں ہے
بلکہ ہر انسان اپنی بغل میں ایک گائیڈ بک لیے گھوم رہا ہے
جو قران کی نقل ہے اور دوسروں کو زبردستی اس پر عمل کروایا جا رہا ہے
اب مذہب انسانیت نہیں ہے __ انسانیت مذہب ہے
( اب لوگ اپنا نام کسی مذہب سے جوڑ کر پیٹر ،بشیر ،کرشن نہیں رکھیں گے ،اب لوگ اپنا نام انسان یا پھر انسانیت رکھا کریں گے )
اور انسانی عزتِ نفس اور انائیں بالائے طاق رکھ کر جنگ گروہوں کو جتوانے کی ہے
ہم جدید صدی کے بہترین انسان ہیں .

“لڑکے “

نوجوان لڑکے محبت کرنا چھوڑ چکے ہیں
ان کا رجحان کسی انقلابی مہم کی جانب ہے یا پھر وہ پٹڑیاں ڈھونڈنے میں لگے ہیں
لڑکیاں جامنی پھول اپنی جھولیوں میں جمع کیے
سفید چمکتی تاریں سروں میں پروئے بیٹھی ہیں
انھیں محبت ہی انقلاب لگتی ہے اور اس کی حد خودکشی
لڑکے اب ایک ہی رنگ کی طرف کھچتے ہیں
سرخ
مگر لڑکیوں کے سروں کی سیاہی گلاب چوستے جاتے ہیں
اور لڑکے فرقت کے فریب سے نکل کر کسی نئے خدا کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انھیں زندگی کی اصل حقیقت سانس چلنے سے پہلے سمجھا سکے
لڑکیاں اب بھی معصوم ہیں ان کے جھریوں سے بھرے چہروں پر اب بھی کسی لمس کے کھچاؤ کی امید باقی ہے
اور وہ جانتے ہوئے بھی لڑکوں کے شعروں پر جو ان کے لیے یا کسی بھی لڑکی کے لیے نہیں کہے گئے (محض بہلاوے ہیں )سر دھن رہی ہیں مگر
اندر کہیں لرز رہی ہیں
لڑکے زندہ رہنے کی کوشش میں مرتے جا رہے ہیں _

“تم”

تم خاموشی ہوتے
تو میں تمہارے چوڑے سینے پر اپنا سر رکھتی
اور مجھے کہنے اور نہ کہنے کی الجھن سے چھٹی مل جاتی
تم وحشت ہوتے تو تمھارے نوکیلے ناخنوں سے میں اپنی گردن پہ محرومی کے نقشے کھینچتی
اور تمھیں وقت بنا کر ان زخموں کو چاٹنے کا کہتی
تم تنہائی ہوتے تو میں اندھیروں میں اپنے پیر زخمی ہو جانے کے ڈر تمھارے پیروں پہ دھر دیتی
تم اندھیر مقدر ہوتے
میں اپنے ماتھے اور ہاتھوں کی لکیریں چوم کر راضی بہ رضا ہو جاتی
اداسی ہوتے تو میں تمھیں خود پہ طاری کر کے قہقہوں کے مصنوعی گھونٹ نہ بھرتی اور گالوں کے بھنور تمھاری شہادت کی انگلی سے پر کر لیتی اور تمھیں بتاتی
کہ میں نے کتنی باتیں ، ارادے ،ہنسی اور خوش رہنے کے لمحے کس مشکل میں کاٹے ہیں __

آدمی زندان ہے

آدمی زندان ہے
اور بنا روزن کے اپنے ہی بدن میں پڑا سر کو ڈھلکائے ہوئے
مغرب کی جانب جھکائے ہوئے
اپنے بڑھتے ناخنوں کو روز ترشتا بھی ہے
اور بالوں سے خاک جھاڑتا بھی ہے
مشرق سے ابھرتی ہوئی کوئی روشنی کسی ان دیکھے روزن سے وارد ہوئی
تو دھیرے سے اس کے لبوں پہ خاموشیوں کو مات نہ دے سکنے والی ہنسی نمو پانے لگی
اور جزبے اگنے لگے
پھول کی کونپلیں ابھی پھوٹی نہ تھیں
کہ زندان میں ایک چھماکا ہوا
اور سبھی سمتیں مغربی دیوار سے جا لگیں
آدمی زندان میں پڑا کا پڑا رہ گیا
ناخن تراشتا ہوا
خاک ہٹاتا ہوا
بیٹھے بیٹھے سامنے کو بڑھتا ہوا
ضعفیت کے بار اٹھائے بیٹھے بیٹھے آگے کو بڑھتا ہوا _

“آدمی زندگی کے ہیرے کو چاٹ لے “

آدمی چاہ کی راہ پر چل سکتا نہیں
آدمی زندگی کے تماشے کا حصہ بنا
آدمی جوڑا گیا جوڑ کر توڑا گیا
توڑ کر پھر جوڑا گیا
آدمی گھٹ گیا
آدمی بڑھ گیا
آدمی زندگی رکھتے ہوئے موت سے بھڑ گیا
آدمی سامنا کرنے سے گھبراتا ہے کیوں
آدمی ڈر کو کاندھے سے ٹانگے ہوئے ڈر سے بغاوت کیے اپنی ششدر آنکھوں کے طاقچوں میں شعلے بھڑکاتی ہوئی آگ کے لپکے اپنے بدن سے چمٹائے ہوئے دن بہ دن آگے کی جانب بڑھتا ہوا
آدمی زندگی کی مشقت سے اکتایا ہوا
آدمی ہار اور جیت کے مسخرے پن سے اکتایا ہوا
آدمی کو لکیروں کے سانپ ڈسنے لگیں
مقدروں کے اژدھے نگلنے لگیں
آدمی لکیروں میں بچھو کی مانند رینگتی موت کے زہر کو چکھنے کی خواہش کرنے لگے
آدمی مرنے لگے

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *