سندھی زبان کے مزاح نگار اور ناول نگارحلیم بروہی نے پانچ اگست انیس سو پنتیس میں حیدرآباد کے ایک پولیس افسر عبدالعزیز کے گھر جنم لیا۔ انہوں نے ایل ایل بی کے بعد وکالت شروع کی۔ بعد میں انہوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ملازمت اختیار کی۔ حلیم بروہی نے انگریزی اور سندھی میں دس کے قریب کتابیں لکھیں۔ جن میں ’حلیم شو‘ سندھی میں ان کی مقبول ترین کتاب رہی ہے۔ انہوں نے انیس سو پچھہتر میں ’اوڑاھ‘ کے نام سے ایک ناول لکھا جو نوجوانوں میں کافی مقبول ہوا۔ ان کے انگریزی کالموں کا ایک انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔ حلیم بروہی سندھی کے وہ منفرد مصنف تھے جو اکثر اپنی کتابیں خود شائع کرواتے تھے۔ وہ ایک منفرد شخصیت اور منفرد اصولوں کے حامل ادیب تھے۔ انگریزی زبان پر انہیں غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ وہ انگریزی اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ میں اکثر کالم لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے سندھی میں لکھ کر غلطی کی اور انہیں صرف انگریزی زبان میں لکھنا چاہیے تھا۔ حلیم بروہی اپنے ادبی نظریات اور اصولوں کی وجہ سے کافی متنازع بھی رہے ہیں۔ انہوں نے طویل عرصے تک سندھی کو رومن سکرپٹ میں لکھنے کی تحریک چلائی، تاہم سندھی زبان کے کئی ممتاز ادیب ان کی اس تحریک کے مخالف رہے۔ وہ ادبی تقریبات کو وقت کا زیاں قرار دیتے تھے اور انہوں نے اپنی کتابوں کی تقاریب رونمائی یا اپنی شان میں ادبی تقاریب کی حوصلہ شکنی کی۔ نوجوان حلقوں میں مقبول ہونے کے باوجود وہ کسی ادبی محفل میں صدارتی کرسی پر نہ بیٹھے۔ ایسے ادیبوں کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’پھولوں کے ہار پہنے وہ سٹیج پر ایسے بیٹھے رہتے ہیں جیسے دولہا ہوں‘۔
تعارف: نثار کھوکھر
بشکریہ: بی بی سی
ہم حلیم بروہی کی صاحب زادی ثناء بروہی جنہوں نے ان کہانیوں کے تراجم شائع کرنے کی اجازت دی، اور نور جونیجو جنہوں نے اجازت کے حصول میں مدد دی، کے شکر گزار ہیں.
.….….…
بے اولاد بادشاہ
کسی زمانے میں کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کے ساتھ اندھیر یہ تھا کہ اس کی اولاد نہ تھی۔ بادشاہ سلامت نے کوشش بہت کی کہ اسے اولاد ہو پر اسے اولاد نہ ہونی تھی، نہ ہوئی۔ الٹا یہ ہوا کہ اولاد کے لئے بادشاہ سلامت کی، کی ہوئی الٹ سلٹ اور ٹیڑھی میڑھی کوششوں کی خبریں جو عوام تک پہنچیں تو عوام کی ہنسی چھوٹنے لگی۔ جسے دیکھو ہنسے جا رہا ہے۔ بادشاہ سلامت نے برہم ہو کر پہلے پہل ہنسنے پر بندش لگائی۔ پھر دبی دبی ہنسی اور مسکراہٹ پر کوڑے لگوانے لگا۔ پھر جب ایک پہنچے ہوئے درویش نے بتایا کہ جو لوگ گمبھیر نظر آتے ہیں، وہ بھی فقط اس کے سامنے گمبھیرتا سے رہتے ہیں اور اس سے دور جاتے ہی خوفناک قہقہوں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ تب بادشاہ سلامت آپے میں نہ رہا اور لوگوں کو کاٹنے لگا۔ پھر جب اس پہنچے ہوئے درویش نے یہ بتایا کہ اگر وہ مردوں کے بجائے صرف عورتوں کو کاٹتا تو اولاد وغیرہ کا کوئی چانس وانس ہو جاتا۔ تب بادشاہ سلامت شرما گیا اور کھاٹ اوندھی کر کے خود پلنگ پر سو گیا۔
ایسے حالات میں وہاں سے کسی درویش مرد کا گزرنا ضروری تھا۔ سو ایک دن درویش فقیر ملک ایران کا، جو اصل رہائشی ملک بغداد کا ہونے کی وجہ سے ملک ایران میں خود کو خوامخواہ نیا ایرانی بتلا کر اپنے آپ کو باور کرواتا تھا، وہاں سے گزرا۔ اسے بادشاہ سلامت پر یکدم ترس آیا۔ یہ درویش فقیر پہلا شخص تھا جسے بادشاہ سلامت پر ہنسی کے بجائے دیا آئی تھی۔ تو درویش فقیر نے بادشاہ سلامت سے پوچھا آخر تجھ پر شامت کیا ہے جو تجھے اولاد نہیں ہوتی؟ بادشاہ سلامت کی مرضی ہوئی کہ اسے لپڑ دے مارے پر لیٹے ہونے کی وجہ سے لپڑ مارنے کے لئے اٹھنا پڑ رہا تھا۔ بادشاہ سلامت غصہ پی گیا اور اسے کہا، نہیں ہو رہی تو میں کیا کروں۔ درویش فقیر جو مست اور پہنچا بھی ہوا تھا، غصے سے تپ کر لال ہو گیا اور “بھاڑ میں جا” کہہ کر پلک جھپک میں امرا، وزرا، کلرکس اور ایس ڈی ایم (سب ڈویژنل مجسٹریٹ) کے دیکھتے غائب ہو گیا۔ امرا، وزرا، کلرکس اور ایس ڈی ایم تو حیران ہو گئے اور ایس ڈی ایم تو کچھ پریشان بھی ہو گیا کہ تعلقہ میں امن امان قائم رکھنے کا خود جوابدار تھا۔ پر بادشاہ سلامت نے سکھ کا سانس لیا اور پہلو بدل کر آرام سے لیٹ گیا۔ لیکن جس بادشاہ سلامت کو اولاد نہ ہو اور اس کی الٹ سلٹ اور ٹیڑھی میڑھی کوششوں کے بعد بھی اولاد نہ ہو رہی ہو، اس کے نصیب میں سکھ کا سانس اور آرام سے لیٹنا کہاں؟
بادشاہ سلامت کچھ دیر ایسے لیٹا رہا اور پھر اُچک کر بیٹھ گیا۔ کیوں کہ اسے خیال آیا کہ درویش فقیر نے جو “بھاڑ میں جا” کہا تو اس کا مطلب کیا تھا؟ بادشاہ سلامت نے ایک دم چاروں طرف سپاہی روانہ کیے کہ فقیر جہاں بھی ہو، لے آؤ۔ پر درویش فقیر تو فقیر تھا۔ اللہ کا پیارا تھا اور شاید کوئی فرشتہ تھا جو درویش فقیر کے روپ میں آسمان سے آیا تھا اور آسمان میں غائب ہو گیا۔ اب وہ کس کے ہاتھ آئے اور کہاں سے ہاتھ آئے؟ پر بادشاہ سلامت کے سپاہی بھی سندھ پولیس کے سپاہی تھے اور ان کا کچھ واسطہ پاکستان پولیس، ایف آئی اے، سی آئی ڈی، ڈی آئی بی اور ڈی ڈی ٹی کھاتے سے بھی رہا تھا، سو معلوم نہیں کیسے اور کہاں سے اس درویش فقیر کو پکڑ کر بادشاہ سلامت کے آگے پیش کیا۔ درویش فقیر بالکل حواس باختہ اور مونجھ میں مبتلا تھا۔ حوصلے خطا اور ہوش و حواس ایسے گم تھے کہ بادشاہ سلامت کو بھی پہچان نہیں پا رہا تھا۔ فقط سپاہیوں کو پہچان رہا تھا اور ان کی چمچہ گیری میں لگا رہا۔ بادشاہ سلامت سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا کہ یہ درویش فقیر اب کس کام کا؟ سچ ہے کہ خدا نہ کرے جو درویش فقیر کا واسطہ سندھ پولیس سے پڑے۔ عبرت کا مقام ہے۔ وہی بادشاہ سلامت والا فقیر آج کل سندھ پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہے۔
پھر ایک فقیر آیا جس نے بادشاہ سلامت کو پلنگ سے اٹھا کر اوندھی کھاٹ پر سلایا۔ فقیر کے جانے کے بعد بادشاہ سلامت نے گردن موڑ کر دیکھا کہ فقیر بھی گیا یا نہیں۔ جب اطمینان ہوا کہ فقیر چلا گیا تو کھاٹ سیدھی کر کے خود اس پر الٹا لیٹ گیا۔
پھر ایک فقیر آیا جس نے بادشاہ سلامت کو ایک آم دے کر کہا کہ آدھا تو کھا اور آدھا رانی کو کھلا۔ فقیر کے چلے جانے کے بعد بادشاہ سلامت نے اس کے جانے کا اطمینان کیا اور پورا آم خود کھا گیا۔
پھر ایک فقیر آیا جس نے بادشاہ سلامت کو آیک اور آم دے کر کہا کہ آدھا تو کھا اور آدھا رانی کو کھلا۔ کچھ دیر بعد بادشاہ سلامت نے دیکھا کہ آم کو چوہا کتر گیا ہے۔ بادشاہ سلامت سمجھ گیا کہ یہ آم کھانے سے چوہا شہزادہ جنم لے گا۔ اس نے درزی منگوا کر چوہے کی ناپ پر ہزاروں لچھے اور چڈھیاں سلوا کر تیار کروائیں کہ چوہے شہزادے کو وقت پر کام آئیں مگر افسوس صد افسوس۔ بادشاہ سلامت کو اولاد نہ ہوئی۔
قدرت کے راز چند مجذوب فقیروں کے پاس پوشیدہ ہیں سو ایک دن ایک مجذوب فقیر آیا جس نے بادشاہ سلامت کو کھاٹ سے اٹھا کر پلنگ پر سلایا اور پھر کھاٹ الٹی کر کے بادشاہ سلامت کو پلنگ سے اٹھا کر پھر کھاٹ پر سلا دیا۔ پھر اِدھر اُدھر نظریں گھما کر اطمینان کیا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور پلنگ اٹھا کر کھسک گیا۔ سچ ہے قدرت کے راز جتنے بے شمار ہیں اتنے ہی انوکھے بھی ہیں۔
آخر بادشاہ سلامت بے اولاد ہی مرگیا اور نصیب کا لکھا ایسے پورا ہوا۔ بہت بعد یہ خبر پڑی کہ بادشاہ سلامت کیوں بے اولاد جیا اور کیوں بے اولاد ہی مر گیا۔ دراصل بادشاہ سلامت اولاد کے اندھے شوق میں شادی کرنا ہی بھول گیا تھا۔ جس وقت بادشاہ سلامت کا جنازہ اٹھ رہا تھا اس وقت جنگل میں وہ مجذوب فقیر بادشاہ سلامت والے پلنگ پر لیٹے گنگنا رہا تھا،
ہر ایک مسافر ہے، یہاں مکان نہیں کسی کا۔
.….……
ایک تھا بادشاہ
کسی زمانے میں کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کے ہاں بے شمار بیٹیاں تھیں۔ بادشاہ کی حسرت تھی کہ قصے کہانیوں کے مطابق اسے بھی دوسرے بادشاہوں کی طرح سات بیٹے یا فقط تین بیٹے یا فقط ایک بیٹی ہوتی لیکن معاملہ کچھ اس کے بس سے باہر تھا۔ کیوں کہ وہ رانی کی طرف دیکھتا تھا تو رانی حمل سے ہو جاتی تھی۔ ایک بار رانی کی طرف دیکھ کر فقط مسکرایا تو رانی کو جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ تو اسے ہر وقت خدشہ رہتا تھا کہ رانی کی موجودگی میں اگر اس سے کوئی قہقہہ نکل گیا تو رانی سات بچے اکٹھے جن کر اسے اپنی رعایا میں اور پڑوسی ممالک میں بھی خوار و خراب اور ذلیل کرے گی۔ محل کے جاسوسوں نے تحریری طور پر پہلے ہی رپورٹ دی تھی کہ رانی کا پروگرام کچھ اسی طرح کا ہے۔ اس لئے بادشاہ سخت پریشان اور پشیمان رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتا تو گھٹنوں کے بل چلنا شروع کر دیتا تھا۔
ویسے ایک دوسری بات بھی تھی جس کی وجہ سے معاملہ ہوا تھا۔ وہ دوسری بات یہ تھی کہ ہر حمل کے وقت دائی رانی کا پاؤں اور جوتشی بادشاہ کا پاؤں دیکھ کر کہتے آئے کہ اب بیٹا ہوگا، اب یقیناً بیٹا ہوگا، اب ہر صورت بیٹا ہوگا۔ پر ہوا یوں کہ قاعدے سے باقاعدہ نمبر کے مطابق بیٹی پیدا ہوتی رہی جس کے نتیجے میں سارے گھر میں بیٹیاں ہی بیٹیاں ہو گئیں اور بادشاہ اپنی کھاٹ اٹھا کر مہمان خانے میں جا ڈیرا ڈال بیٹھ گیا، پرا رانی نے اس کا وہاں جا بیٹھنا بھی گوارا نہ کیا۔ (یہاں کچھ میں اضافہ کر گیا ہوں۔ بادشاہ بستر وستر کھاٹ واٹ نہیں بلکہ فقط ایک کمبل اٹھا کر مہمان خانے میں صوفے پر جا سویا تھا جہاں سے رانی نے ڈانٹ ڈپٹ کر اٹھایا کہ صوفے پر سویا نہیں جاتا۔)
ایک دن بادشاہ کے پاس کچھ مہمان آئے۔ بادشاہ مہمانوں کو مہمان خانے میں بٹھا کے، خود اندر جا کے، دونوں ہونٹوں پر خاموشی کی انگلی رکھ کر رانی سے بولا،
“آہستہ بولنا اور راہ خدا غصہ مت کرنا۔ میرے دوست ہیں، میرے پاس پہلی بار آئے ہیں۔بہت اچھے دوست ہیں اور بڑی عزت والے ہیں۔ دوسری بار نہ آئیں گے، کچھ گڑبڑی ہوئی تو کبھی نہیں آئیں گے۔ فقط چار کپ چائے بنا کر بھیج، پھر یہ کام دوبارہ نہ بولوں گا۔ آج بھی میں گھر پر نہ ہوتا تو یہ چلے جاتے پر اب تو آگئے ہیں۔ خدا کا واسطہ شور مت کرنا۔ میں ہی بدبخت تھا جو دروازہ خود جا کر کھولا۔ بڑا منحوس ہوں جو اس وقت گھر پر تھا۔ میں نے سب دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ میرے گھر نہ آیا کریں پر یہ باہر سے آئے ہیں۔ پھر نہ آئیں گے، میں انہیں بھی بول دوں گا۔ آج عزت رکھ لے اور چائے کے چار کپ بنا کر بھیج۔” بادشاہ یہ کہتے کہتے رونے لگا اور رانی اسے حقارت سے دیکھتی باروچی خانے چلی گئی جہاں سے پھر برتن ٹوٹنے، توڑنے، پھینکنے اور پٹخنے کی دھوم دھڑام اور ٹھو ٹھاہ مہمان خانے میں مہمانوں تک بھی پہنچنے لگی۔
پھر ایک دن رانی نے بادشاہ کو کہا، “یہ اپنی کتابیں اٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھ۔” تو بادشاہ نے اپنی کتابیں اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیں۔ پر کچھ دن بعد رانی نے بادشاہ کو پھر کہا، “یہ اپنی کتابیں اٹھا کر کہیں اور رکھ۔” بادشاہ نے کتابیں پھر اٹھائی اور کہیں اور جا رکھیں۔ اس طرح رانی کے کہنے پر ایک جگہ سے دوسری، دوسری جگہ سے تیسری، تیسری سے چوتھی جگہ رکھتا رہا۔ ایک دن بادشاہ نے دیکھا کہ کتابیں غائب ہیں۔ اس نے چیخ کر کہا، “میری کتابیں کہاں ہیں؟” رانی بولی، “وہ میں نے اٹھوا کر چھت پر رکھوا دی ہیں۔” اس کے بعد بادشاہ اور رانی کے درمیان جو زبان استعمال ہوئی، وہ قصے کہانیوں میں لکھی نہیں جاتی۔
اور پھر ایک دن بادشاہ نہانے کے لئے غسل خانے گیا اور کپڑے اتار، دو چار لوٹے پانی کے سر پر بہا کر صابن جو ڈھونڈے تو صابن تھا ہی نہیں۔ آگ بگولا ہو کر، غسل خانے کا دروازہ ذرا سا کھول کر غصے میں چیخا، “ارے یہ صابن کہاں گیا؟” رانی نے وہیں سے چیخ کر جواب دیا، “بالٹی کے پیچھے ہوگا۔” بادشاہ نے بالٹی کے پیچھے دیکھا تو وہاں بھی صابن نہ تھا۔ وہ چیخ کو بولا، “بالٹی کے پیچھے نہیں ہے۔ میرا صابن اٹھاتے کیوں ہو؟” رانی وہیں سے چیخی، ”کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا تیرے صابن کو۔وہیں ہوگا کسی کونے میں۔ اوپر تختے پر ہوگا۔” بادشاہ نے اوپر تختے پر دیکھا، وہاں بھی نہیں تھا۔ بہت ڈھونڈھا پر گھر میں صابن ملا ہی نہیں۔ رانی نے بچے کے ہاتھ ہٹی سے صابن منگوایا۔ تب تک بادشاہ غسل خانے میں بُڑبُڑاتا رہا، “کتنی بار بولا ہے میرے صابن کو ہاتھ نہ لگاؤ اور اگر لگاتے ہو تو اسی جگہ رکھو۔” ہٹی سے صابن کے آنے تک بادشاہ تاؤ میں دو چار لوٹے پانی کے جسم پر بہا کر، ایسے ہی کپڑے پہن کر باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف گھوما تو دیکھتا ہے کہ جس صابن کی ڈھنڈیا مچی تھی، اس کے پاؤں میں پڑا تھا۔ غسل خانے کا دروازہ بند ہونے کے باوجود چاروں طرف دیکھا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں؟ سخت پریشان ہوا کہ بچوں کو اگر معلوم ہوا کہ جس صابن کے لئے اس نے شور مچا رکھا تھا، وہ اس کے پاؤں میں پڑا تھا تو بچے ٹھٹھا اڑائیں گے اور اس پر طنز کریں گے۔ اور رانی کو خبر پڑے گی کہ جس صابن کے لئے وہ گالی گلوچ پر اتر آیا تھا، وہ اس کے پاؤں تلے تھا تو رانی اسے نزدیک بٹھا کر لعنت منہ پر رکھے گی۔ اس نے یہ کیا کہ صابن اٹھا کر اپنی قمیض کی جیب میں ڈال لیا اور غسل خانہ سے نکل آیا۔ سگریٹ لینے کے بہانے گھر سے نکل کر، گلی میں دور جا کر کھوکھے سے سگریٹ لے کر، ایک سگریٹ سلگا کر، سیٹی بجاتا گھر کی طرف لوٹا جہاں رانی ویسے ہی لعنت تیار رکھے بیٹھی تھی۔
پھر ایک دن بادشاہ نے رانی سے کہا، “میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ ” رانی نے کہا، “یہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں۔ آخر کب جاؤگے؟”
تو کسی زمانے میں ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جو ایک دن ملک چھوڑ کر جنگل چلا گیا۔ کسی نے بولا دانا تھا، کسی نے کہا درویش تھا، کسی نے بولا اوتار تھا پر رانی نے فقط ایک لعنت اس طرف رکھ کر دی جس طرف بادشاہ گیا تھا۔