Laaltain

حالتِ حال

21 جولائی، 2025

1

چیخ جو اچانک گلا گھونٹنے لگی ہے
کس کس کو ای میل کروں
بھنور جو دل کو چکر دے رہا ہے
کیا اس کے ساتھ سیلفی لوں

روح کی پاتال سے ذہن کے آکاش پر تابڑ
توڑ سوال کی بارش بلی کتا کھیل رہی ہے

کیا بچ نکلوں گا میں
ہاں نہیں ہاں نہیں ہاں نہیں ہاں
بچ کے کیا کروں گا میں
آف آن آف آن آف آن آف

2

کیا یہ ایک اور اٹیک ہے
ہر دوائی کا پیکٹ نکالتا ہوں
وہم ہے ابھی دور جائے گا
یہ کس چیز کی دوا تھی بھلا
واقعی ہو کے رہے گا کیا
نہیں یہ نہیں وہ دوسری گولی
کھا نہ لوں یہ بھی وہ بھی
کیا پتا یہی کام دے جائے
جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو
پانی ہاں پانی پینا چاہئیے پانی پانی پانی

3

خیر خیر خیر ایسی بھی کیا بات ہو گئی بھلا، کیا قیامت آ گئی
ابھی سب سالا گڑبڑ گھٹالا روزمرہ محاورہ ٹھیک ہوا چاہتا ہے

مجھے لگتا ہے میں ٹھیک ہو رہا یوں
مجھے لگتا ہے میں ٹھیک نہیں ہو رہا

وٹامن سی کی آدھی ٹیبلیٹ
عرقِ گلاب ، انار دانہ
سبز الائچی کا ایک دانہ
کسی کو بلاؤں آواز دوں آواز
آواز کہاں گئی، ہیلو! ہیلو آواز!
ہیلو! ہیلو! یہ اندھیرا۔۔۔

4

مجھے کچھ نہ بتانا انہوں نے طے کیا تھا
کیسے میں نے گریبان پکڑے، گالیاں دیں
کیسے میں نے ہاتھ جوڑے، تقریریں جھاڑیں
یہ کوئی بیماری نہیں، یار، سرے سے نہیں
میں کہہ رہا ہوں نا، میں نے ایک بار پھر کہا
یہ تو بس ۔۔ ایک غیر معمولی کیفیت ہے! بس!!

اس بارے میں لکھتے ہوئے کیا لگتا چاہئے
جیسے عصابی دورہ ابھی جاری ہے
جیسے ٹرین ابھی اسپیڈ پکڑ رہی ہے
اور میں اس کے دروازے سے لٹک رہا ہوں

5

کیا فائدہ ہو گا
کسی بھی چیز کا
کسی بھی شخص کا

کوئی تو ہو
کوئی نہ ہو
کہیں چلا جاؤں
نہیں جا سکوں گا
کہیں جانا چاہئے
نہیں جانا چاہئے

6

بر آمدے میں ہمسائے باتیں کر رہے ہیں
کیا اب انہیں بھی ڈسٹرب کرو گے
شرم تو نہیں آتی خامخا تنگ کرتے
ایسی کلیشے صورتِ حال توبہ توبہ
زور لگا کربھی تم سے بولا تو جا نہیں رہا
کیا کہو گے کیا بتاؤ گے کیا سمجھاؤ گے
ان بچاروں کو کلیشے کا مطلب تک نہیں آتا

گلی کے لوگ چل پھر ہنس بول لڑ جھگڑ رہے ہیں
اور لٹکے ہوئے ہو، زندگی اور موت کے در
میان آف آن آف آن آف آن

7

وہ پوچھتے ہیں تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا کیا ہوا کیا مسئلہ ہے

کچھ بولوتو ہمیں بتاؤ یہ پانی پیو کسی نے کچھ کہا کیا ہوا کیا ہوا

جی میں تو آئی اک اک کو بڑھ کر جی سے لگاتا اور بتاتا

خاک بتاؤں سات زبانیں آتی ہوں گی ایک بھی شبد الچ نہیں پاتا

آف آن آف آن کیا قیامت کو سٹینڈ بائی پہ لگا کر چپ رہا جاتا ہے

میں فرداً فرداً مسکراتا ہوں سر اظہار کی ہر مغموم طرز پہ ہلاتا ہوں

کچھ کہہ سکتا تو ایک ہی وقت میں سب کہہ دیتا جو کہا جاتا ہے

لیکن میں کچھ بھی نہیں کہتا، اور پھر میں کچھ بھی نہیں سنتا

ایک ب لفظ ب معنی مسکراہٹ میرے لئے وقت کی آخری جگہ ہے

یہ اس منچ کا پنچم سر تھا، یہ اس نظم کا / key مصرع ہے

8

یہی ہونا رھا
ہر وقت ہر چیز ہر جگہ ہر شخص ہر مسئلے پر حل ہر سوال ہر جواب پر لڑکے ہر لڑکی ہر شاعر ہر ادیب ہر حقیقت ہر افسانے ہر ڈرامے ہر ناول ہر نظم ہر غزل ہر عشرے ہر انشائیے ہر مضمون ہر مقالے ہر دوست ہر اجنبی ہر ظالم ہر مظلوم ہر فرد پر سماج ہر لیڈر ہر عوام ہر پھول ہر ستارے ہر تشبیہ ہر استعارے ہر دریا ہر کنارے پر بندے ہر خدا ہر کتاب ہر فلم ہر گانے ہر پوسٹ ہر کمنٹ ہر خبر ہر ٹویٹ ہر کارٹون ہر لطیفے ہر چوری ہر ڈاکے ہر قتل ہر اغوا ہر امن ہر جنگ ہر جرم ہر سزا ہر مرض ہر دوا ہر کمرے ہر ہوٹل ہر مکان ہر گھر ہر دل ہر سر ہر پھر ہرگر ہرفر ہردر ہرڈر ہرپر ہرہر ہر ہر ہر
کیوں سوچتا ہوں
سب کے بارے میں
کیوں سوچتا یوں
کسی کے بارے میں
کیوں سوچتا ہوں
اپنے بارے میں
کیوں ہوں
کیوں

9

آنکھ سے اوجھل پہاڑ
میرے اوپر آن گرا ہے
باہر سے نہیں اندر سے
میں کھڑا بیٹھا لیٹا زندہ مردہ تھا ہوں
ختم ہوتی دنیا کے درمیان
میں واحد جمع حاضر غائب متکلم ہوں
بنیادی رنگوں میں تحلیل ہوتے منظروں کے بیچ
میں ایک ساکن گردش ایک موجود معدوم ہوں
گم ہوتے حافظے کے ساتھ
میں اجازت چاہتا ہوں

10

یا پھر ایک آخری کوشش کرتا ہوں
خود سے جیت گیا
تو کیا ہار جاؤں گا

آواز ساتھ چھوڑ گئی
بینائی ہاتھ سے جا رہی ہے

ایک آخری کوشش ایک آخری خواہش
میرے سختی سے بھنچے ہوئے ہونٹ
کسی طرح مسکان کا روپ دھار سکیں

جسم سے نکلتی جان کی قسم
میں نے صرف محبت کی تھی

3 Responses

  1. اچھے معاشروں میں جہاں انسان کو انسان اور زندگی کو زندگی سمجھا جاتا ہے ایسے کلام پر فوراً 911 حرکت میں آ جاتی ہے۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ ڈوب رہے ہیں اور کسی دوسرے کو بچاتے ہوئے خود اپنی غرقابی کا خوف کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ کل تیمور حسن تیمور دل کے ہاتھوں ہارے اور آج ہماری شبِ شکست ہے۔
    رہے نام اللہ کا

  2. ادریس بابر کیا نظم ہے یار ایسی پیچیدہ کیفیت بیان کرنے پر ایک دوستوفسکی قادر تھا دوسرا نام آپ کا ہے

  3. ویسے اس نظم کا مقصد ایمرجنسی میڈیکل سروس کو حرکت میں لانا نہیں تھا جیسا بعض احباب کو گمان گزرا لگتا ہے۔ شاید مجلسِ ادارت کو بھی۔ کسی بھی ادب پارے کی طرح اس کا فریم ورک بھی ایک ایشو کی تفہیم سے عبارت ہے۔ یہ الگ بات کہ مسئلہ کے پیچیدہ ہونے کے کارن مختلف پہلوؤں پر قاری سے مل کے غور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختلف پرتیں مختلف شیڈ میں رنگی گئی ہیں، یہ پراسس بجائے خود اظہار کی ناکامی کے اظہار کی کوشش ہے ، کتنی کامیاب، کہا نہیں جا سکتا۔
    کہا جا سکتا یے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

3 Responses

  1. اچھے معاشروں میں جہاں انسان کو انسان اور زندگی کو زندگی سمجھا جاتا ہے ایسے کلام پر فوراً 911 حرکت میں آ جاتی ہے۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ ڈوب رہے ہیں اور کسی دوسرے کو بچاتے ہوئے خود اپنی غرقابی کا خوف کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ کل تیمور حسن تیمور دل کے ہاتھوں ہارے اور آج ہماری شبِ شکست ہے۔
    رہے نام اللہ کا

  2. ادریس بابر کیا نظم ہے یار ایسی پیچیدہ کیفیت بیان کرنے پر ایک دوستوفسکی قادر تھا دوسرا نام آپ کا ہے

  3. ویسے اس نظم کا مقصد ایمرجنسی میڈیکل سروس کو حرکت میں لانا نہیں تھا جیسا بعض احباب کو گمان گزرا لگتا ہے۔ شاید مجلسِ ادارت کو بھی۔ کسی بھی ادب پارے کی طرح اس کا فریم ورک بھی ایک ایشو کی تفہیم سے عبارت ہے۔ یہ الگ بات کہ مسئلہ کے پیچیدہ ہونے کے کارن مختلف پہلوؤں پر قاری سے مل کے غور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختلف پرتیں مختلف شیڈ میں رنگی گئی ہیں، یہ پراسس بجائے خود اظہار کی ناکامی کے اظہار کی کوشش ہے ، کتنی کامیاب، کہا نہیں جا سکتا۔
    کہا جا سکتا یے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *