ولیم فنیگن "دی نیویارکر” کے لیے 1984 سے لکھ رہے ہیں۔ آپ افریقہ، وسطی امریکہ، جنوبی امریکہ، بلقان، میکسیکو، آسٹریلیا اور امریکہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔ آپ متعدد صحافتی اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔ اس مضمون کا ترجمہ آج کے شمارہ نمبر 30 میں 2000ء میں شائع ہوا تغا۔

اجمل کمال گزشتہ چار دہائیوں کے اردو ادب کا رخ متعین کرنے والوں میں سے ہے، لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی ایک نسل کے ذوق کی تشکیل آپ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ آپ اردو کے موقر ترین ادبی رسالے "آج” کے مدیر ہیں۔ آج کے اب تک 111 شمارے شائع ہو چکے ہیں جو اردو قارئین کے لیے نئے لکھنے والوں کے معیاری فن پاروں کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے شاہکار پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔

یہ ترجمہ اجمل کمال اور آج کے تعاون سے شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ تحریر اجمل کمال نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہے۔ سہ ماہی "آج” کا یوٹیوب چینل اب مختلف صداکاروں اور مصنفین کی آواز میں تحاریر کی آڈیو ریکارڈنگز اپ لوڈ کر رہا ہے۔ آج کے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کیجیے اور گھنٹی کے نشان پر کلک کیجیے تاکہ نئی ویڈیوز کا نوٹیفیکیشن مل جائے۔

سہ ماہی "آج” کو سبسرائب کرنے کے لیے عامر انصاری سے درج ذیل نمبر پر رابطہ کیجیے:
03003451649
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفرور غلاموں کو پناہ دینے کے سلسلے میں نیویارک شہر کی تاریخ ملی جلی رہی ہے۔ انقلابی جنگ کے دوران مفرور غلاموں سے پورا شہر بھرا ہوا تھا۔ پھر جارج واشنگٹن نے، اپنی فتح کے بعد، کوشش کی کہ انہیں ان کے سابق مالکوں کے پاس واپس بھجوا دیا جائے۔ انڈرگراؤنڈ ریل روڈ کے عروج کے دنوں میں سیکنڈ ایوینیو پر ایک چھوٹا سٹیشن ہوا کرتا تھا۔ سول وار کے خاتمے تک مفرور غلاموں کو پکڑنا ایک خاصا فعال مقامی کاروبار تھا۔

مختار طیب، موریتانیہ سے بھاگا ہوا ایک غلام، اب سے چار سال پہلے 1996 — میں — یہاں پہنچا۔ "یہ سب کچھ بہت خوبصورت تھا،” اس نے حال ہی میں مجھے بتایا، "آزادی، امریکہ۔۔۔ آپ تصور نہیں کر سکتے۔” میرا خیال ہے یہ سب کچھ بہت دشوار بھی تھا۔ طیب اور میں ٹرینٹی چرچ کے قریب، زیریں براڈوے پر، گویا جغرافیائی اعتبار سے عین جارج واشنگٹن کے نیویارک میں، چل رہے تھے کہ اس نے ایک عمارت کو پہچان لیا۔ "ارے!” وہ بولا، "امریکہ میں میرا پہلا ہفتہ تھا جب میں یہاں گیا تھا۔ یا شاید دوسرا ہفتہ۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی۔ کسی نے بتایا، وہاں کوئی دفتر ہے جو میری مدد کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے وہ دفتر نہیں ملا۔”

یہ ایک خوفزدہ کر دینے والا منظر تھا — ایک دبلا، ڈرا ہوا سیاہ فام شخص، کھویا ہوا اور گفتگو سے قاصر، نیویارک کے کاروباری علاقے کی سرد اور چکرا دینے والی سڑکوں پر بھٹکتا ہوا — لیکن اس یاد نے بظاہر طیب کو پریشان نہیں کیا۔ ہم وال اسٹریٹ پر مڑ گئے، اور اس نے نیویارک سٹاک ایکسچینج کے پیش رُخ کی طرف اشارہ کیا۔ "کیا یہ گرجاگھر ہے؟”

"ہاں،” میں نے کہا، "دولت کا گرجاگھر۔”

وہ خوش ہو کر ہنسا۔

نیویارک میں طیب کی زندگی اب بھی دشوار ہے۔ وہ اب بھی مفلس ہے اور اب بھی اپنی راہ کی تلاش میں ہے۔ جب میں نے پچھلے سال کے آغاز میں اس سے ملنا شروع کیا تب وہ برونکس کے علاقے میں ایسٹ ٹریمونٹ ایوینیو کے قریب، ایکو پلیس کے گراؤنڈ فلور پر ایک کمرے میں رہتا تھا۔ فطری طور پر مجھے یہ جاننے کی خواہش تھی کہ آخر یہ کس طرح ہوا کہ بیسویں صدی کے اختتام پر وہ ایک مفرور غلام ہے۔

"میں ہنگامہ کرنے والا آدمی ہوں،” اس نے سادگی سے کہا۔ "وہ لوگ یہی کہتے ہیں۔” جب سے میں نے طیب کو دیکھا ہے، سیاہ آنکھوں، نرم لہجے اور گہری شائستگی کا حامل یہ شخص مجھے ہنگامہ پسند آدمی کا بالکل متضاد معلوم ہوا ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے افریقی دوستانہ پن کے ایک چھوٹے سے حفاظتی بادل میں لپٹا ہوا طیب اپنے کمرے سے نکل کر اس سخت زندگی والے محلے کی گلیوں سے تیرتا ہوا گزر رہا ہو۔ لیکن جو فاصلہ وہ طے کر کے آیا ہے — مشرقی موریتانیہ کے دیہی علاقے سے، جہاں وہ بڑا ہوا تھا، مغربی افریقہ اور مغرب کے خطے کے مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا امریکہ تک — اسے رسمی مِیلوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں ناپا جانا چاہیے۔ اور نیویارک میں ایک اُکھڑے ہوے مفلس، بےوطن شخص کی زندگی کی گمنامی یقیناً ایک ایسے آدمی کی شخصیت میں جھانکنے کے لیے ایک ناموزوں کھڑکی ہے جو جنوبی صحارا کے ایک بربر گاؤں میں پیڑھیوں سے آشنا ماحول میں کبھی رہا ہو گا۔

"میرے گاؤں میں ہر ایک، آقا اور غلام، یہ کہتا تھا کہ میں عجیب ہوں، پاگل ہوں، گناہگار ہوں،” طیب نے کہا۔ "وہ مجھے کافر تک کہتے تھے۔ موریتانیہ میں کسی کے لیے اس سے بدتر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن میں ہمیشہ سوال کرتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہیں کچھ ضرور غلط ہے۔”

طیب کے ذہن کو جو بات غلط معلوم ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ 1959 میں ایک "عبد”، ایک غلام، پیدا ہوا تھا۔ زیادہ مخصوص طور پر یہ کہ جب وہ بڑا ہوا تو اسے کلاس روم میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ بچپن میں اس کے کاموں میں ہر صبح اپنے مالک کے بچوں کو اونٹ پر سوار کر کے سکول تک پہنچانا اور پھر اونٹ کو واپس گاؤں لانا بھی شامل تھا۔ جب کم عمر طیب سکول میں رکنے کی کوشش کرتا، کہ اسے کھڑکی میں سے کلاس روم کی آوازیں ہی سنائی دے سکیں، تو اسے بھگا دیا جاتا۔ گاؤں کے مدرسے سے بھی، جہاں قرآن کی تعلیم ہوتی تھی، اسے واپس لوٹا دیا گیا۔ جب اس نے ضد کی تو اس کے آقا نے طیب کی ماں سے اس کی پٹائی کرنے کو کہا۔ ماں نے اس کی پٹائی کی، جس کے زخم کا نشان اس کے داہنے ہاتھ پر اب بھی باقی ہے۔ "ہراتین کے لیے،” طیب نے وضاحت کی، "جنت آقا کے قدموں کے نیچے ہے۔ بیدان لوگ یہی کہتے ہیں، اور ہراتین بھی یہی کہتے ہیں۔”

بیدان، جنہیں "وائٹ مُور” بھی کہا جاتا ہے، موریتانیہ کی حکمران نسل ہیں۔ یہ عرب بربر قبائلی ہیں جن کے اجداد نے سترہویں صدی میں اس علاقے پر تسلط حاصل کیا تھا۔ ہراتین، جو "بلیک مُور” بھی کہلاتے ہیں، مغربی افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کی نسل سے ہیں جنھیں صدیوں پہلے بیدانوں نے مفتوح کر لیا تھا۔ اگرچہ بعض ہراتین نے اب آزادی حاصل کر لی ہے، لیکن بیشتر اب تک غلام ہیں۔ طیب بھی ہراتین میں سے ہے لیکن جب میں نے پوچھا کہ اس کا باپ کس نسل سے تعلق رکھتا تھا، تو وہ بولا، "آپ یہ بات نہیں سمجھیں گے۔ میرے باپ کی کوئی نسل نہیں تھی۔ وہ ایک نسل کی ملکیت تھا، جیسے مویشی کسی کی ملکیت شمار ہوتے ہیں۔ ہم ایک عرب قبیلے اولد ناصر کے غلام ہیں جو بہت طاقتور قبیلہ ہے۔ اس کے پاس بہت زمینیں ہیں، جن پر کھجور کے پیڑ لگے ہیں۔ میرا حال بھی میرے باپ کی طرح ہے۔ میرا کوئی نسلی گروہ نہیں ہے، کوئی نام نہیں ہے۔ میں صرف فلاں کے غلام کے طور پر پہچانا جاتا ہوں۔”

طیب کے بچپن میں موریتانیہ کے باشندے خانہ بدوشی یا نیم خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ (بعد میں آنے والی ایک ہولناک خشک سالی نے ملک کی بیشتر چراگاہوں کو برباد کر ڈالا جس کے باعث بہت سے خانہ بدوش مجبور ہو کر شہروں میں آ گئے۔) اس کی اولین یادیں قبیلے کے گلّوں — مویشیوں، اونٹوں اور بکریوں — کے ساتھ لمبی لمبی مسافتیں طے کرنے اور ایسے خطّوں سے گزرنے کی یادیں ہیں جہاں لگڑبگھے، گیدڑ اور ریچھ ہوتے تھے۔ "ہم گھاس کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ بیدان لوگ اونٹوں پر سفر کرتے لیکن ہم پیدل چلتے تھے یا گایوں پر سوار ہوتے تھے۔ کسی بیدان کے لیے گائے پر سوار ہونا شرم کی بات ہے۔ ان کے باقاعدہ اون کے بنے خیمے تھے جو اپنی دو چوٹیوں کے ساتھ سیدھے کھڑے ہوتے تھے۔ ہمارے، ہراتین کے خیمے، بہت ابتدائی شکل کے، پھٹی پرانی گدڑیوں کے بنے ہوتے تھے اور ان میں بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ سارے کام — پانی بھرنا، ڈھول بجانا — جن کا کرنا بیدانوں کے لیے شرم کی بات تھی، ہراتین کے ذمے تھے۔ اور جب ہم بھیڑیں ذبح کرتے تو ہراتین کو کھانے کے لیے صرف اوجھڑی اور گردن ملتی۔ باقی سب بیدانوں کا حصہ تھا۔” طیب کو، جو ایک کمزور لڑکا تھا، گھریلو نوکر کے طور پر تربیت دی گئی۔ "میں اپنے آقا اور اس کے مہمانوں کے ہاتھ دھلاتا۔ اس کے بچوں کے کپڑے دھوتا۔ میں نے چائے بنانا سیکھا۔” ایک بار ،اس نے بتایا، اسے ایک تجارتی کارواں کے ساتھ بھیجا گیا جس میں شامل بیس یا تیس اونٹ جھیل کی تہہ کا نمک لاد کر مالی لے جا رہے تھے جسے دے کر بدلے میں شورگم لیا جانا تھا۔

طیب خوابناک، سوچتے ہوے لہجے میں مجھے ان قدیم صحرائی مناظر کا حال سناتا رہا، جیسے وہ ان مناظر کا انگریزی زبان میں پہلی بار تصور کر رہا ہو۔ باہر برف پڑ رہی تھی، لیکن اس کا کمرہ گرم تھا۔ ایک خوشبودار موم بتی جل رہی تھی۔ ہمارے درمیان رکھی ایک ٹرے پر میٹھی چائے گلاسوں میں پڑی پڑی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ میں نے عربی کے کچھ الفاظ کے بارے میں دریافت کیا جو دیوار پر ٹیپ سے چپکائے گئے تھے۔ یہ قرآن کی ایک آیت ہے، طیب نے بتایا۔ اس نے آیت کا ترجمہ کر کے بتایا جو کچھ یوں تھا کہ اﷲ اپنے بندوں کو بلاسبب ہرگز سزا نہیں دیتا۔

میں نے غلاموں کی بغاوتوں کے بارے میں سوال کیا۔

طیب نے بتایا کہ ایسی بغاوتیں بہت کم، تقریباً نامعلوم ہیں۔ "ہراتین کو قابو میں رکھنے کے لیے عموماً جسمانی طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی،” اس نے کہا۔ "کبھی کبھی تو وہ اپنے آقا سے الگ کسی اور جگہ رہ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ کہیں بھی رہیں، آقاؤں سے ان کا رشتہ برقرار رہتا ہے۔ وہ غلام ہی رہتے ہیں۔ ان کا آقا انھیں کبھی بھی طلب کر سکتا ہے اور ان کو آنا ہوتا ہے۔ آقا ان کے بچے لے سکتا ہے۔ وہ ان کے بچے اپنے کسی رشتے دار یا دوست کو ہدیہ کر سکتا ہے۔ غلامی ایک ذہنی حالت کا نام ہے، اور بیشتر ہراتینوں کو یقین ہے کہ غلامی کا نظام اﷲ کے احکام کا حصہ ہے۔ وہ کسی اور قسم کی زندگی سے واقف نہیں ہیں۔ یہاں امریکہ میں اطلاعات کے اتنے سارے ذریعے ہیں: کتابیں، اخبار، ٹی وی، ریڈیو، انٹرنیٹ۔ وہاں ہمارے پاس صرف پرندے ہوتے ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ پانی کہاں مل سکتا ہے، یا پھر بیدان ہوتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کام کرنا ہے۔ اگر کوئی ہراتین اپنے آقا کا حکم نہ مانے تو، ہاں، اسے سزا دی جا سکتی ہے، قید کیا جا سکتا ہے، ہلاک بھی کیا جا سکتا ہے۔”

مجھے "اونٹوں والا علاج” یاد آیا جس کے بارے میں میں نے پڑھا تھا؛ یہ اذیت دینے کا ایک طریقہ تھا جو سرکشی پر آمادہ غلاموں کے لیے مخصوص تھا۔ موریتانیہ کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ نامی تنظیم کی ایک رپورٹ میں اس طریقے کی تفصیل بیان کی گئی تھی: "غلام کی ٹانگیں ایک ایسے اونٹ کے پہلو سے باندھ دی جاتی ہیں جسے کوئی دو ہفتوں تک پانی سے محروم رکھا گیا ہو۔ پھر اونٹ کو پانی پینے کے لیے لے جایا جاتا ہے، اور جوں جوں اونٹ کا پیٹ پھولتا ہے غلام کی ٹانگیں، رانیں اور جانگھیں آہستہ آہستہ چرتی چلی جاتی ہیں۔” رپورٹ میں ایک مقامی اطلاع دہندہ کے حوالے سے کہا گیا تھا: "میں ایک ایسے غلام سے واقف ہوں جو بوغے کے مغرب میں شرت کے مقام پر 1988 میں اس اذیت سے گزرا تھا۔ اس کے آقا کو شک تھا کہ وہ فرار ہونا چاہتا ہے، کیونکہ وہ ایک سڑک پر دیکھا گیا جہاں اس کا کوئی کام نہ تھا۔ علاوہ ازیں، وہ منھ پھٹ جوان آدمی تھا جو اپنے آقا اور اس کے گھروالوں کو جواب دیتا تھا اور اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اسے غلاموں والی زندگی پسند نہیں۔ اسے پکڑ کر اونٹوں والے علاج سے گزارا گیا۔ اُس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی۔ وہ اب بھی اپنے آقا کے خاندان کے ساتھ رہتا ہے، لیکن اب اتنا اپاہج ہو چکا ہے کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔”

طیب بھی ایسے واقعات سے واقف ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ ایسی انتہائی درجے کی بہیمیت موریتانیہ میں آقا اور غلام کے رشتے میں استثنائی صورتوں ہی میں پائی جاتی ہے۔ "یہ ایک باقاعدہ نظام ہے،” اس نے کہا۔ "اس کا آغاز بچپن ہی سے ہو جاتا ہے۔ اگر تم بیدان ہو تو ہمیشہ کوئی ہراتین بچہ تمھاری خدمت کر رہا ہو گا۔ اگر تم ہراتین ہو تو تمھارا کوئی باقاعدہ نام تک نہ ہو گا۔ اگر تمھارا نام محمد ہے، تو اسے توڑ کر ممّد کر لیا جائے گا۔” اس نے بلند آواز میں بگڑا ہوا نام پکار کر بتایا۔ "اگر کوئی ہراتین کتاب پڑھنے کی کوشش کرے، یا گھڑی باندھے یا کسی عمدہ گھوڑے پر سوار ہو تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہمارے ادب میں ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کسی ہراتین نے قرآن کی کوئی آیت سیکھ لی، جس پر اس کی اس قدر تضحیک کی گئی کہ آخرکار اسے اپنے آپ سے نفرت ہو گئی۔” طیب کہتے کہتے رکا۔ اس کے چہرے پر ایسا تلخ تاثر تھا جو عموماً نہیں ہوتا تھا۔ "اپنے آپ سے نفرت ہو گئی!” اس نے دھیمی آواز میں دہرایا۔

"یہ نظام نہایت مکمل ہے،” اس نے کہا۔ "میرا آقا بہت دولت مند نہیں ہے، لیکن وہ ایک بڑا سردار ہے۔ اور اس کا ایک بھائی سفارت کار تھا — تعلیم یافتہ آدمی۔ لیکن وہ یہاں، امریکہ میں بھی، اپنے غلام ساتھ لے کر آیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ بیدانوں کو وہ کھانا پسند نہیں آتا جو کسی غلام کے ہاتھ سے تیار نہ ہوا ہو۔ ان کو یقین ہے کہ ہر اہم آمی کے اردگرد غلام موجود ہونے چاہییں تاکہ ان کے مالدار ہونے کا اظہار ہو سکے۔ اور وہ جسمانی کام کرنے کو شرمناک بات سمجھتے ہیں۔ ان میں جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا غلامی کو پسند نہیں کرتی۔ وہ اپنے غلاموں سے کہتے ہیں کہ غیرملکیوں کو بتائیں کہ وہ ملازم ہیں، کہ ان کو اجرت ملتی ہے۔ اور اگر ہم اس پر احتجاج کریں تو ہم سے کہتے ہیں: تم ہماری مخالفت کیوں کرتے ہو؟ یہ غیرملکی اسلام کے مخالف ہیں۔ مذہب اس نظام کا بہت بڑا حصہ ہے۔ غلام کی مخالفت کو مذہب کی مخالفت قرار دیا جاتا ہے۔”

طیب اپنے بستر پر، جو کمرے کے بڑے حصے پر محیط تھا، آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ پاس ہی سبز جھالر والی ایک جانماز رکھی تھی۔ جب میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو طیب نے بتایا کہ وہ اسے اس وقت استعمال کرتا ہے جب اس کے پاس مسجد جانے کا موقع نہ ہو۔ اس نے بتایا کہ وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہے۔ کمرے مں موجود واحد میز کتابوں سے بھری ہوئی تھی: افلاطون کے مکالمات، اور فرانز فینن کی افتادگان خاک اور A 2nd Helping of Chicken Soup for the Soul۔

طیب نے بتایا کہ جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا اور تعلیم چھوڑنے سے انکار پر قائم رہا، آقاؤں کے ساتھ اس کے جھگڑے بڑھتے گئے۔ وہ احکام پر تذبذب کے ساتھ عمل کرتا تھا، اور تیرہ برس کی عمر میں سرکشی کے باعث اپنا بازو تڑوا بیٹھا۔ اس کی ماں بہت ناراض ہوئی۔ "وہ ہمیشہ کہتی: ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے باپ داد بھی اسے تسلیم کرتے تھے۔ اﷲ کی یہی مرضی ہے۔ اور پھر اس میں برائی کیا ہے؟ وہ سمجھتی ہے کہ میں باغی ہوں۔”

طیب کے باپ کا خیال مختلف تھا۔ اگرچہ اس کا کوئی نسلی گروہ نہ تھا، لیکن وہ ایک ایسے خاندان کا فرد تھا جس کی ننھیالی اور ددھیالی دونوں شاخوں کی آبائی یادداشت میں وہ وقت محفوظ تھا جب غلامی کی شروعات نہیں ہوئی تھی۔ وہ پولار اور وولوف زبانیں تھوڑی بہت جانتا تھا، جن کا تعلق جنوبی خطے سے تھا، اور اس کے خاندان کو، ہراتین ہوتے ہوے بھی، بیدان امارتوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں حصہ لینے کی بنا پر شجاعت کی نیک نامی حاصل تھی۔ "چنانچہ وہ کبھی مکمل طور پر مطیع ہونے پر آمادہ نہ ہوا،” طیب نے کہا۔ اس کا باپ جب آقا کے ریوڑ نہ چرا رہا ہوتا تو اینٹیں اور کوئلہ بنایا کرتا تھا اور کبھی کبھی وہ اینٹیں فروخت بھی کرتا تھا — جو اس کی غلام کی حیثیت سے ایک طرح کی بغاوت تھی۔ آخرکار 1970 کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں مویشیوں کو ٹرک میں دور لے جانے کے دوران وہ موقع پا کر سینیگال فرار ہو گیا۔

طیب کو بھی اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش تھی۔ لیکن اس کی تیاری راستوں کے نقشے بنانے اور حیلے ایجاد کرنے پر مشتمل نہ تھی۔ اس کے بجاے وہ چھپ چھپ کر پڑھنا سیکھتا رہا۔ وہ سکول میں آقا کے بچوں کو پڑھائے جانے والے سبق یاد کر لیتا۔ اس نے قرآن کی لمبی لمبی سورتیں حفظ کر لیں۔ سترہ برس کی عمر میں اسے تحریر سکھانے والی کچھ کتابیں ہاتھ آ گئیں اور اس نے خود کو لکھنا سکھانا شروع کر دیا۔

ایک کہاوت ہے کہ پڑھے لکھے آدمی کو غلام بنانا ناممکن ہے، اور طیب کو بچپن ہی سے کسی نہ کسی طرح اس بات کی سمجھ حاصل ہو گئی تھی کہ خواندگی، اور مویشیوں اور چیزوں کی سی غلامی کے درمیان بنیادی نوعیت کا تضاد موجود ہے۔ اس کے لیے تعلیم حاصل کرنا اور انسانیت کا درجہ پانا لازم و ملزوم ہوتے گئے۔

1977 میں طیب نے اپنے آقا کے خاندان کے سامنے نرم لہجے میں اپنے ارادے کا اعلان کیا کہ وہ استاد بننا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ آقا کی بیوی کے ساتھ، جس کے نزدیک طیب کا یہ خواب قابلِ تحقیر تھا، ایک ذلت آمیز تنازعے کی صورت میں نکلا۔ اس کے آقا نے اسے دارالحکومت نواکشوت میں ایک گھر میں کام کرنے کی غرض سے بھجوا دیا۔ لیکن شہر کی غلامانہ زندگی میں ایک دورافتادہ گاؤں کی غلامانہ زندگی کی نسبت نگرانی کچھ کم سخت تھی، اور طیب کو احساس ہوا کہ یہاں اسے فرار کا موقع مل سکتا ہے۔ جولائی 1978 میں وہ بھاگ نکلا اور ایک ٹرک میں لفٹ لے کر سرحد پر دریاے سینیگال کے قریب پہنچ گیا۔ ایک دوست سے حاصل کی ہوئی رقم سے اس نے سرحد پر متعین محافظوں کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اسے کاغذات کے بغیر موریتانیہ سے باہر نکلنے دیں۔

اس نے اپنے باپ کو وسطی سینیگال میں کاؤلاک کے مقام پر پایا۔ "میرا باپ پڑھنا نہیں جانتا تھا لیکن وہ میری تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو سمجھ سکتا تھا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔” یہ سن کر کہ آئیوری کوسٹ میں تعلیمی مواقع بہتر ہیں، طیب اور اس کا باپ مالی کے راستے وہاں روانہ ہو گئے۔ "یہ ایک دشوار سفر تھا،” طیب نے کہا۔ اس کی آواز گھٹ سی گئی۔ "ہم متعدد بار گرفتار ہوے۔” وہ رک گیا اور خاموشی سے موم بتی کے شعلے کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جوڑا۔ "آخرکار ہم آئیوری کوسٹ پہنچ گئے،” وہ بولا۔ "اور وہاں بائیس سال کی عمر میں پہلی بار، مجھے ایک کلاس روم میں بیٹھنے اور استاد سے نگاہ ملانے کی اجازت حاصل ہوئی۔”

جب امریکہ کے لوگ غلامی کا تصور کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں صرف ان غلاموں کا خیال ہوتا ہے جن سے فصلوں پر کام لیا جاتا ہے۔ لیکن غلامی، پوری انسانی تاریخ میں، بیشتر انسانی معاشروں میں بہت سی مختلف شکلوں میں موجود رہی ہے — اس اعتبار سے یہ ایک "عجیب وغریب ادارے” سے بہت مختلف چیز ہے — اور عرب دنیا، جہاں غلامی کی بنیادیں اسلام کے آغاز سے مدتوں پہلے سے مستحکم تھیں، فصلوں پر کام کی غرض سے غلامی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ غلام، جو عموماً جنگوں میں گرفتار ہو کر آتے تھے، سپاہیوں اور گھریلو ملازموں کے طور پر استعمال میں لائے جاتے تھے۔ متمول طبقوں میں غلام عورتوں پر مشتمل حرم عام تھے۔ داشتائیں رکھنے کے مقبول رواج کے باعث غلام عورتیں عام طور پر غلام مردوں کی نسبت زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی تھیں — بجز اس کے کہ غلام مردوں کا جنسی عضو کاٹ ڈالا گیا ہو، جیساکہ ان کی ہولناک حد تک زیادہ تعداد کے ساتھ ہوتا تھا، اس حد تک کہ غلاموں کی تجارت کی بڑی شاہراہوں کے پاس خواجہ سرا تیار کرنے کے باقاعدہ قصاب خانے قائم تھے۔

اسلام کی تعلیمات میں آقاؤں سے کہا گیا کہ وہ اپنے غلاموں سے بدسلوکی نہ کریں، بلکہ انھیں آزاد کرنے کے امکان پر بھی غور کریں۔ اور مسلمان عالموں اور فقیہوں کے درمیان اُس وقت سے اب تک اس موضوع پر بحث مباحثہ جاری ہے کہ کون کس کو غلام رکھ سکتا ہے اور کن حالات میں۔ اصولی طور پر مسلمان مسلمان کو غلام نہیں بنا سکتے۔ لیکن اسلام کے عرب سے باہر مختلف جغرافیائی خطوں میں پھیل جانے کے دوران یہ اصول بیچ میں کہیں گم ہو گیا، اور بہرحال اس اصول پر عمل کا انحصار مقامی تعبیرات پر ہوتا تھا۔ قرون وسطیٰ میں مشرقی یوروپ نے عرب دنیا کو بڑی تعداد میں سفیدفام غلام فراہم کیے — مسیحی، یہودی، اور دوسرے — لیکن سیاہ فام افریقیوں کی تجارت نے — جن کی نقل وحمل صحارا کے راستے یا دریاے نیل کے ساتھ ساتھ قافلوں کی شکل میں کی جاتی تھی — رفتہ رفتہ غلاموں کی مجموعی عرب تجارت پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اگرچہ تاریخی شواہد بہت کم دستیاب ہیں لیکن بہت سے تاریخ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاہ فاموں کی جتنی بڑی تعداد کو شمال کی سمت عرب دنیا میں غلام بنا کر پہنچایا گیا وہ ایک کروڑ غلاموں کی اس تعداد کے مقابلے میں زیادہ ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بحراوقیانوس کے راستے نئی دنیا (امریکہ) لایا گیا۔

مغربی دنیا میں نشاۃ ثانیہ کے دور کے بعد غلامی کے خاتمے کی جو تحریکیں چلیں، اس قسم کی تحریکوں کی کوئی مثال عرب دنیا میں نہیں ملتی۔ اخلاقی موقف رکھنے والے مسیحی فرقوں مثلا کویکر، میتھوڈسٹ یا یونی ٹیرین، جیسے فرقے بھی اسلام میں نہیں ابھرے، اور مسلمان فرمانرواؤں نے یوروپی نوآبادیاتی طاقتوں کے متواتر دباؤ کے زیرِاثر ہی غلاموں کی کھلے عام تجارت پر پابندیاں عائد کرنا شروع کیا۔ صحارا کے راستے آنے والا غلاموں کا آخری قافلہ 1929 میں لیبیا پہنچا تھا۔ خود غلامی آخرکار ہر جگہ قانوناً ممنوع قرار پائی — حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی اس پر 1962 میں پابندی لگا دی — لیکن ان کوششوں کو بجا طور پر مسلم سماجی ڈھانچے پر حملہ تصور کرتے ہوے نسبتاً زیادہ قدامت پرست ملکوں میں ان کی سخت مزاحمت کی جاتی رہی، اور عملی طور پر غلامی کے امتناع کو کسی بھی اعتبار سے مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 1960 کی ایک برطانوی پارلیمانی رپورٹ کے مطابق مختلف ملکوں سے حج کے لیے مکہ پہنچنے والے حاجی اپنے ساتھ غلام لے کر آتے تھے جو "جاندار ٹریولرز چیکس” کی حیثیت رکھتے تھے، یعنی ضرورت پڑنے پر ان کو فروخت کر کے سفر کے اخراجات پورے کیے جا سکتے تھے۔

موریتانیہ میں سرکاری طور پر غلامی کو تین بار ممنوع کیا گیا، جن میں تازہ ترین 1980 میں کیا جانے والا امتناع ہے۔ لیکن جو قوانین اس امتناع کو عملی طور پر نافذ کر سکتے تھے انھیں کبھی وجود میں نہیں لایا گیا۔ 1980 کے امتناع میں آقاؤں کو — غلاموں کو نہیں — معاوضے کا مستحق قرار دیا گیا، لیکن اس میں ایسا کوئی طریق کار طے نہیں کیا گیا جس کے مطابق معاوضے کی ادائیگی، یا اس قانون کا نفاذ کیا جا سکے، یا کم از کم اس خوشخبری کو ان آزادکردہ افراد کے کانوں تک پہنچا جا سکے جن میں سے بیشتر اب بھی غلام ہیں۔ (موریتانیہ میں غلاموں کی کل تعداد کے بارے میں کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس تعداد کا تخمینہ نوے ہزار سے تین لاکھ تک لگایا جاتا ہے۔) موریتانیہ جیسے غریب، پسماندہ اور مکمل طور پر اسلامی ملک میں جدید، سکیولر قوانین کی اہمیت براے نام ہی ہے۔ حاکمیت کی دیگر ہیئتیں — روایتی قانون، اور خصوصا مذہبی قانون جس کی تعبیر کرتے ہوے موریتانیہ کی شرعی عدالتوں نے روایتی طور پر ہمیشہ غلام رکھنے والے آقاؤں کے ملکیت کے حق کو درست ٹھہرایا ہے — عموماً مغربی طرز کے تحریری قوانین سے کہیں زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہیں۔ 1960 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے موریتانیہ یوں بھی بہیمانہ بیدان فرمانرواؤں کے زیرِتسلط رہا ہے جن کے نزدیک قانون کی حکمرانی جیسے تصورات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

تاہم بیدان حکمرانوں کو سب سے بڑا خطرہ بیدانوں کے غلام اور ملازم ہراتینوں کی طرف سے نہیں بلکہ ملک کے تیسرے بڑے گروہ کی طرف سے درپیش ہے: یعنی جنوبی خطے کے سیاہ فاموں کی طرف سے جنھیں کبھی غلام نہیں بنایا جا سکا اور جنھیں موریتانیہ میں "نیگرو افریقی” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مردم شماری کے اعدادوشمار ناقابلِ اعتبار ہیں، کیونکہ بیدانوں کی تعداد کو زیادہ کر کے ظاہر کرنے سے حکومت کا اپنا مفاد وابستہ ہے، لیکن اندازہ ہے کہ تینوں گروہ ملک کی آبادی میں تقریباً برابر کا تناسب رکھتے ہیں۔ (ملک کی کل آبادی بیس لاکھ سے تیس لاکھ تک ہے۔) نیگرو افریقی مقامی زبانیں — پولار، وولوف، سوننکے، بمبارا — بولتے ہیں اور لنگوافرانکا یا رابطے کی زبان کے طور پر فرانسیسی، نہ کہ عربی جو ملک کی سرکاری زبان ہے۔ اگرچہ انھوں نے بھی صدیوں پہلے اجتماعی طور پر اسلام قبول کر لیا تھا، ان کا تہذیبی رشتہ اپنے ہم وطن موریتانیائیوں کی بہ نسبت جنوب میں آباد دوسرے فرانسیسی گو افریقیوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ حکمران بیدانوں کا سب سے بڑا سیاسی مقصد یہ ہے کہ ملک کی ان دونوں سیاہ فام آبادیوں — ہراتینوں اور نیگرو افریقیوں — کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھا جائے۔

"جب میں بچہ تھا تو بیدان لوگ ہمیشہ بتایا کرتے تھے کہ نیگرو وحشی جانور، شیر یا ریچھ، میں منقلب ہو سکتے ہیں،” طیب نے بتایا۔ وہ خوش دلی سے ہنسا۔ "ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جنوب کے نیگرو لوگ انسانوں کو کھاتے ہیں۔ اور آئیوری کوسٹ اور ٹوگو جاتے ہوے راستے میں میرے ذہن میں باربار یہی خیال آتا رہا۔”

موریتانیہ سے نکلنے سے پہلے طیب غلامی کے خلاف چلائی جانے والی ایک زیرِزمین تحریک "الحُر” کا رکن بن چکا تھا، اور آج تک اس تنظیم میں عملی طور پر سرگرم ہے۔1974 میں قائم کی گئی الحر تنظیم بیشتر سابق یا مفرور غلاموں پر مشتمل ہے، اور ان میں سے جو لوگ موریتانیہ میں رہتے ہیں وہ سخت جبر کا شکار ہیں۔ جس اتحاد سے بیدان سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں — یعنی نیگرو افریقیوں کی حکومت مخالف تحریکوں اور ہراتینوں کی الحر جیسی تنظیموں کے درمیان اتحاد — وہ اب تک وجود میں نہیں آ سکا ہے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بیدان حکمرانوں کی طرف سے جنوبی آبادیوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں میں بڑی ہوشیاری سے ہراتین سپاہیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ 1989 میں اس قسم کی ایک تادیبی مہم میں دسیوں ہزار نیگرو افریقی کسانوں کو ان کی زمینوں سے جبراً بےدخل کر دیا گیا، اور ان میں سے بہت سوں کو کھدیڑ کر سینیگال میں جلاوطن کر دیا گیا۔ سینکڑوں لوگ ہلاک ہوے اور ہزاروں گرفتار۔ اور سرکوبی کی اس مہم میں ہراتین سپاہیوں نے جو کردار ادا کیا اس کی تلخ یادیں اب بھی تازہ اور گہری ہیں۔

تاہم طیب جیسے ہراتین کارکن سمجھتے ہیں کہ ان دونوں سیاہ فام گروہوں کے درمیان بےاعتمادی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جنوبی نیگرو افریقیوں نے ہمیشہ غلامی کے مسئلے پر غیرجانبدارانہ موقف اختیار کیے رکھا ہے۔ "اب جبکہ ان کو محسوس ہوا ہے کہ غلامی کی مخالفت سے انھیں بین الاقوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، تو وہ ایسا ظاہر کرنے لگے ہیں گویا وہ ہمیشہ سے غلامی کے مخالف رہے ہیں،” اس نے کہا۔ "اس سے پہلے ان کو اس مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔” طیب نے کہا کہ وہ بیدان افراد بھی جو کسی وجہ سے حکومت کے عتاب میں آ گئے ہوں، مغرب میں سیاسی پناہ مانگتے وقت یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں غلامی کے خلاف تحریک چلانے کے نتیجے میں موریتانیہ میں خطرات کا سامنا ہے۔ "میں ایسے کئی بیدانوں سے واقف ہوں،” وہ یوں بولا جیسے اس کے لیے یہ بات ناقابل یقین ہو۔ "خود ان کے گھروں میں اب بھی غلام موجود ہیں!”

پھر اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ "آپ کو پتا ہے، ان میں سے کئی لوگ مجھے یہاں نیویارک میں ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہمیں عفو و درگزر سکھاتا ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں: یہ عفو و درگزر کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ حقوق کا اور انصاف کا معاملہ ہے۔ اور یہ کوئی ماضی کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ سب تو آج، اس وقت بھی ہو رہا ہے! وہ مجھ سے بحث کرنے لگتے ہیں۔ وہ بہت سی احمقانہ باتیں کہتے ہیں۔ لیکن میں اپنے آپ سے کہتا ہوں: مختار! صبر کرو۔ یہ تاریخ ہے، اور تاریخ زیادہ، بہت زیادہ وقت لیتی ہے۔”

طیب نے غور سے مجھے دیکھا۔ "یہ میرا مسئلہ ہے،” آخرکار وہ بولا۔ "اور میں اس سے چھٹی نہیں لیتا۔”

میں نے میز پر ایک ٹیپ ریکارڈر رکھا دیکھ کر دریافت کیا کہ آیا اس میں موریتانیہ کی کوئی مخصوص موسیقی ہے۔ وہ مسکرایا اور مشین میں ایک ٹیپ لگا دیا۔ ڈھول کی سست رو تال، اور عربی میں نوحے جیسی آواز، اور پیٹ کی گہرائی سے نکلتی ہوئی پکار سے کمرہ بھر گیا، اور آن کی آن میں ہمیں یوں محسوس ہونے لگا گویا ہم، برونکس سے کئی ہزار میل دور، صحارا میں کسی خیمے کے اندر بیٹھے ہیں۔ "یہ بہت خوبصورت گیت ہے،” طیب نے بےاختیار ہو کر کہا۔ "یہ بہت مشہور ہے، بہت مقبول ہے۔ ہم اسے غلام عورت کا کیسٹ کہتے ہیں۔” اس نے پُرزور انداز میں ٹیپ ریکارڈر کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ میں نے اس کو کبھی اتنے جوش میں نہیں دیکھا تھا۔ "یہ بیدان ہے جو غلام عورت کو بتا رہا ہے کہ اسے کیوں بےعزت کیا گیا۔ اور اب یہ غلام عورت اسے جواب دے رہی ہے!” طیب خوشی سے بےحال تھا۔

جب ٹیپ ختم ہوا تو اس کی مسکراہٹ رفتہ رفتہ غائب ہو گئی۔ "موریتانیہ کی حکومت نے غلامی پر شرمندگی محسوس کرنا ابھی حال ہی میں شروع کیا ہے،” اس نے کہا۔ "لیکن حکومت ہمارے ادب کو، ان تمام گیتوں اور نظموں کو نہیں مٹا سکتی جن میں غلاموں اور ان کی غلامی کا ذکر موجود ہے — کیونکہ یہی وہ اصل زندگی ہے جسے ہم جیتے ہیں۔”

طیب برونکس کے کمیونٹی کالج میں ہفتے میں پانچ بار انگریزی کی رات کی کلاس میں جاتا ہے۔ ایک شام میں اس کے ساتھ وہاں گیا۔ طالب علموں نے پہلا گھنٹہ کمپیوٹر لیب میں گزارا۔ وہ سب The Great Gatsby پر الگ الگ مضمون لکھتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ طیب کے پاس اس ناول کا جو نسخہ تھا، اس کے حاشیے عربی میں لکھے ہوے نوٹس سے بھرے تھے۔ یہ عموماً الفاظ کے معانی پر مشتمل تھے، نہ صرف ناول کے متن میں موجود الفاظ بلکہ انگریزی عربی لغت میں ان کے آس پاس لکھے ہوے دوسرے الفاظ بھی جو طیب کو دلچسپ محسوس ہوئے۔ نہ صرف Perpetuate کے عربی معنی بلکہ Peripatetic کے مفہوم کے بارے میں بھی ایک مفصل نوٹ؛ نہ صرف Veteran بلکہ Vex بھی۔ یہ مجھے انگریزی سیکھنے کا ایک دلیرانہ، پُرشوق اور ادبی طریقہ معلوم ہوا۔ جو بات میں اصل میں جاننا چاہتا تھا وہ یہ تھی کہ طیب خود اس ناول کے کرداروں جے گیٹسبی اور ڈیزی بوکانن کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔ لیکن وہ کمپیوٹر پر انگریزی کے ایک ایسے سافٹ ویر کے ساتھ جدوجہد میں مصروف تھا جو اسے اپنی لغت سے باہر کے الفاظ (بشمول "گیٹسبی”) ٹائپ نہیں کرنے دے رہا تھا۔

طیب کی انگریزی کلاس کے باقی سارے لوگ لاطینی امریکی تھے۔ اور کلاس شروع ہونے سے پہلے کی گفتگو سے میں نے جانا کہ ان میں سے بیشتر ڈومینیکن، اور سب کے سب ہائی سکول پاس تھے۔ ان میں سے اکثر نے نیویارک کے ہائی سکولوں میں تعلیم مکمل کی تھی — سواے انگریزی کی مہارت کے امتحان کے، جو یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ضروری تھا۔ یہ ایک خوش باش اور زندہ دل گروہ تھا۔ ان میں سے تین چار تختۂ سیاہ پر بیک وقت، ایک دوسرے کے آگے اور پیچھے سے ہاتھ نکال کر، گرامر کے جملے لکھنے میں مشغول تھے، جبکہ ڈیسکوں پر بیٹھے ان کے ہم جماعت انھیں بلند آواز سے مشورے دے رہے تھے اور کلاس کی آخری بنچوں پر ایک لسانی بحث (زیادہ تر ہسپانوی زبان میں) جاری تھی جس کا دھیما شور پس منظر میں مسلسل سنائی دے رہا تھا۔

طیب ان سب لوگوں سے الگ دکھائی دیتا تھا، صرف اس باعث نہیں کہ وہ کلاس کا واحد افریقی طالب علم تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ پوری کلاس میں سب سے زیادہ رسمی لباس پہنے تھا: پرل گرے رنگ کا تھری پیس سوٹ، اور گرے رنگ کی نکٹائی جس کی گرہ نہایت عمدگی سے بندھی ہوئی تھی، جبکہ اس کے اردگرد سب لوگ ٹی شرٹ، سویٹ شرٹ اور ڈینم کی جینز پہنے ہوے تھے۔ وہ ہلکی سی مہربان مسکراہٹ کے ساتھ احتیاط سے نوٹس لینے میں مصروف تھا، لیکن اس نے کلاس میں ہونے والی بحث میں کوئی حصہ نہ لیا اور اس کی سنجیدگی اس کے گرد ایک ٹھوس، شفاف مخروطی حصار بنائے معلوم ہوتی تھی۔

تعلیم حاصل کرنے کا عزم طیب کے لیے رہنما ستارے کی طرح رہا تھا جس پر نظر جمائے ہوے اس نے موریتانیہ سے فرار ہونے کے بعد سینکڑوں طوفانوں کا مقابلہ کیا۔ آئیوری کوسٹ میں فرانسیسی زبان سیکھنے کے بعد طیب، نہایت اداسی کے ساتھ، اپنے باپ سے جدا ہو کر گھانا روانہ ہو گیا۔ وہاں سے پانچ بار کوشش کرنے کے بعد آخرکار ٹوگو میں داخل ہوا جہاں اس نے فرانسیسی سفارتخانے کو ایک تصدیق نامہ جاری کرنے پر آمادہ کر لیا کہ وہ موریتانیہ کا شہری ہے۔ اس تصدیق نامے کی مدد سے اس نے لیبیائی تعلیمی وظیفوں کے ایک پروگرام میں داخلہ حاصل کیا جسے صدر معمر القذافی نے عرب لیگ میں شامل تمام ملکوں (بشمول موریتانیہ) کے طلبا کے لیے شروع کیا تھا اور جو بہت کم عرصے جاری رہا۔ اس طرح طیب مغربی افریقہ سے ایک طرف کے ٹکٹ پر جنوب مغربی لیبیا کے شہر صبحہ روانہ ہوا اور وہاں اس نے خود کو واحد سیاہ فام طالب علم پایا۔ موریتانیہ سے تعلق رکھنے والے باقی تمام طلبا بیدان تھے اور طلبا کی سیاست شدید عرب قوم پرستی پر مبنی تھی۔ طیب نے سخت محنت کی اور الیکٹریکل انجنیئرنگ کی سند حاصل کر لی۔ پھر وہ ایک اور وظیفے پر مراکش کے اسی نام کے شہر میں قائم اسلامی انسٹیٹیوٹ پہنچا اور وہاں ادب اور اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہ مراکش شہر کے اعلیٰ تعلیمی معیار پر بہت خوش ہوا اور اسے تیسرے سال میں ایک اہم تعلیمی انعام ملا۔ لیکن یہاں بھی دوسرے تمام موریتانیائی بیدان نسل کے تھے اور طیب کو سیاسی مسائل کا سامنا ہونے لگا، خاص طور پر جب دوسرے طلبا پر انکشاف ہوا کہ وہ الحر تنظیم کارکن ہے۔

اس نے لیبیا واپس آ کر بن غازی کی غریونس یونیورسٹی میں قانون کی ایک ڈگری کے لیے پڑھائی شروع کی۔ اس کی روزمرہ زندگی، شخصی اور سیاسی دونوں اعتبار سے، خطرات کا شکار رہی۔ اسے متواتر خطرہ تھا کہ اس کے ساتھ پڑھنے والے بیدان طلبا کہیں اس پر عرب مخالف ہونے کا الزام نہ لگا دیں — اور لیبیائی تعلیمی نظام میں اس کا کوئی واقف کار نہ تھا جو اسے تحفظ دے سکتا۔ "میں عرب دنیا میں اپنے مقام سے واقف ہوں،” اس نے کہا۔ "میں اس بات کی قدر کرتا ہوں کہ وہ مجھے تعلیم حاصل کرنے دیتے ہیں، لیکن اس سے آگے ہمارا بہت کم باتوں پر اتفاق ہے۔” طیب رفتہ رفتہ ایک سکالر بنتا جا رہا تھا۔ وہ مختلف جریدوں میں اپنے مضامین شائع کرانے لگا لیکن غلامی کے موضوع پر اس نے کچھ نہیں لکھا۔ گنتی کے چند افراد کے سوا، جو جنوبی سوڈان کے سیاہ فام طلبا تھے، کوئی شخص ایسا نہ تھا جس سے وہ تنہائی میں بھی غلامی کے موضوع پر بات کر سکتا (سوڈان بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں عرب باشندے سیاہ فاموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں)۔ میرے سوال پر کہ اس نے بن غازی میں اپنے جسم اور جان کو کیونکر یکجا رکھا، اس نے کندھے اچکا دیے۔ "سب کچھ جدوجہد کا حصہ ہے،” وہ بولا۔ "غیرملکی طلبا کو نوکری کرنے کی اجازت نہ تھی۔ میں اکثر دن میں صرف ایک وقت کھانا کھاتا تھا، کبھی کبھار وہ بھی نہیں۔ کچھ لوگوں نے میری مدد کی۔ کتابیں حاصل کرنا دشوار تھا۔ اور کپڑے۔۔۔ میں اپنے کپڑوں کے بارے میں بہت محتاط ہوں۔ یہ سوٹ۔۔۔” طیب نے اپنے پرل گرے رنگ کے سوٹ کی طرف اشارہ کیا، "میں نے لیبیا میں خریدا تھا، بارہ سال پہلے۔” میری نظروں کو وہ سوٹ بالکل نیا معلوم ہوتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کے پاس ایک شاندار جلّابیہ بھی ہے جسے اس نے خاص موقعوں پر پہننے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ ان موقعوں کے سوا وہ کبھی اپنے کمرے سے سوٹ پہنے بغیر باہر نہیں نکلتا۔

طیب لیبیائی وکیلوں کی مہارت کا معترف ہے جو بحیرۂ روم کے کنارے آباد پڑوسی ملکوں کے ساتھ پیش آنے والے سامان کی نقل و حمل کے تنازعات کو بہت خوبی سے نمٹاتے تھے۔ اس نے بحری قانون میں اختصاص حاصل کیا اور جزیروں سے متعلق بین الاقوامی قانون کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا۔ اس نے اپنی قانون کی ڈگری 1993 میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ تیونس گیا اور وہاں سے دوبارہ مراکش۔ لیکن اسے معلوم ہوا کہ پاسپورٹ کے بغیر اسے کہیں بھی کام نہیں مل سکتا۔ بالآخر اس نے موریتانیہ واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ وہاں چھ ماہ ٹھہرا۔ اس کی صورت حال عجیب وغریب تھی۔ پولیس نے اس کے نواکشوت سے باہر جانے پر پابندی لگا دی تھی اور اسے وقتاًفوقتاً پوچھ گچھ کے لیے اٹھا لیا جاتا۔ لیکن اسے کبھی جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض موریتانیائی افسر کسی نہ کسی طور طیب کے — یا اس کے واقفکاروں کے — احسان مند تھے اور وہ تحفظ اور پاسپورٹ کے حصول کے لیے ان سے امید لگائے ہوے تھا۔ علاوہ ازیں اس کے آقا کو اسے دوبارہ حاصل کرنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ طیب کا دو بار نواکشوت کی سڑک پر اپنے آقا اور اس کے سفارتکار بھائی سے سامنا ہوا لیکن دونوں بار وہ طیب سے کنی کترا گئے۔ "وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب میں تعلیم یافتہ ہوں،” اس نے وضاحت کی۔ "وہ جانتے تھے کہ اب میں بول سکتا ہوں۔”

وہ امید بھری کہاوت — کہ تعلیم یافتہ شخص کو غلام نہیں رکھا جا سکتا — آخرکار سچ ثابت ہوئی تھی۔ بلاشبہ ہراتینوں کی تعلیم کے سلسلے میں بیدانوں کی سخت مخالفت کے پیچھے یہی منطق کارفرما ہے۔ اور یہی منطق امریکہ کی ریاست ورجینیا میں 1831 میں منظورکردہ ایک قانون کی پشت پر بھی موجود تھی جس کی رو سے سیاہ فاموں کے لیے (خواہ وہ غلام ہوں یا آزاد) سکول کی تعلیم ممنوع قرار دی گئی، اور بعد میں نافذ ہونے والے ایک اور قانون کی بھی جس کی رو سے پڑھنالکھنا سیکھنے کے لیے ریاست ورجینیا سے باہر جانے والے کسی سیاہ فام کے دوبارہ ورجینیا میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی۔ (دوسری جنوبی ریاستوں میں بھی اسی قسم کے قوانین نافذ تھے۔) اگرچہ مختلف ادوار میں مختلف قسم کے تعلیم یافتہ غلاموں کا بھی وجود رہا ہے، لیکن ان کی تعداد مستثنیات سے آگے نہیں بڑھی۔ عرب دنیا میں "عبد” یا غلام ہونے کا مطلب، سماجی معنوں میں، انسانیت کے درجے سے کمتر ہونا ہے۔ ارتقائی حیاتیات کے ماہرین اس جسمانی تغیر کا تذکرہ کرتے ہیں جس سے پالتو بنائے جانے والے جانور گزرتے ہیں — رفتہ رفتہ اپنے بڑے دانتوں، لمبے جبڑوں اور اس جبلّی جارحیت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں جو ان کے وحشی اجداد میں موجود تھی۔ غلام بنانے والی نسلیں اپنے غلاموں میں اسی قسم کے تغیرات پیدا کرنے کی خواہش مند ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ عمل ہے جس کی مزاحمت اور نفی میں طیب نے اپنی پوری زندگی صرف کی ہے۔ برونکس میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ اسے بیٹھا دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اس کی انفرادیت کا ایک عجیب اور ہیبت ناک پہلو یہ بھی ہے: کلاس روم میں موجود دوسرے لوگوں کے ساتھ اَور جو بھی ناانصافیاں ہوتی رہی ہوں، ان میں سے کسی کی پرورش کسی ایسے معاشرے میں نہیں ہوئی تھی جو اس کو باربرداری کے جانور میں منقلب کرنے پر مستعد اور منحصر ہو۔

علاوہ ازیں، اس کی جگہ کچھ اور بننا، انسان بننا، ایک کبھی نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔ طیب جانتا ہے کہ مراکش میں اس کی تعلیم نے اسے ایک تعلیم یافتہ آدمی بننے میں مدد دی جو عربی ادب، تاریخِ عالم اور اسلامی قانون سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وہ کہتا ہے "یہ جاننا دشوار، بہت دشوار تھا کہ میں کون ہوں۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ میں کتنی بڑی اذیت سے نکل کر آیا ہوں۔” وہ خاموش ہو جاتا ہے، شاید اس مقام — اس بڑی اذیت — کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جہاں سے وہ نکل کر آیا ہے اور ان سب انسانوں کے بارے میں جو اَب تک وہاں ہیں۔

نواکشوت میں اپنے چھ ماہ کے قیام کے دوران اسے ایک بار دس دن کے لیے اپنی ماں کے پاس جانے کی اجازت دی گئی۔ (اس کا باپ 1989 میں، موریتانیہ کو دوبارہ دیکھے بغیر، مر چکا تھا۔) آخرکار طیب کو پاسپورٹ مل گیا، اور امریکہ کا ویزا بھی۔ وہ ہوائی جہاز سے نیویارک آیا جہاں اس کا ایک رشتےدار اپنے سفارتکار آقا (طیب کے آقا کے بھائی) کے ساتھ غلام کے طور پر آیا ہو اتھا۔ اگرچہ طیب کے اس رشتےدار کو اس کے آقا نے امریکہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی تھی، طیب نے کہا، "لیکن آقا اور غلام کا رشتہ بدستور قائم رہا۔” اس کے پاس ایک ٹیکسی تھی اور جب کبھی اس کا آقا یا اس کا کوئی مالدار بیدان دوست نیویارک آتا تو اسے اپنی ٹیکسی ان کی خدمت کے لیے وقف کرنی پڑتی تھی۔ طیب اپنے رشتےدار کے ساتھ ہارلم میں واقع فلیٹ میں ٹھہرا جہاں یہ دیکھ کر وہ ہیبت زدہ رہ گیا کہ اس نے دیوار پر سفارتکار اوراس کے خاندان والوں کی تصویریں لگا رکھی ہیں۔ اس نے ایک بار اپنے رشتےدار کو کسی مہمان سے یہ کہتے سنا کہ تصویروں میں دکھائے گئے گوری رنگت کے لوگ اس کے "عم زاد” ہیں۔ طیب اور اس کا رشتےدار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ "وہ برین واش ہو چکا ہے،” طیب نے کہا، "بہت سے ہراتینوں کی طرح۔” جب طیب کو یمنی مالکوں کی دکانوں میں کام مل گیا تو وہ برونکس میں اپنی جگہ میں اٹھ آیا۔

اس کے فوری منصوبوں میں اپنی انگریزی کی استعداد کو بہتر بنانا شامل ہے تاکہ اسے یہاں کی کسی قانون کی درسگاہ میں داخلہ مل سکے۔ ہراتینوں کے حقوق کی جدوجہد کے لیے مور یتانیہ واپس جانا اس کا خواب ہے، اور اس کا خیال ہے کہ شاید امریکہ سے حاصل کی ہوئی قانون کی ڈگری ایک ناخوش حکومت کو اس کے خلاف قدم اٹھاتے ہوے کچھ سوچنے پر مجبور کر سکے۔ تاہم امکان یہ ہے کہ اس ڈگری سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا: الحر تنظیم کے بہت سے ارکان اور رہنماؤں کو گرفتاری، تشدد اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس قسم کے کچھ دوسرے لوگوں کو زیادہ نرم برتاؤ کے ساتھ — یعنی سرکاری ملازمتیں دے کر — خاموش کر دیا گیا ہے۔

طیب اور میں مختصر سیروں کے لیے ساتھ شہر سے باہر جانے لگے۔ اس کے ساتھ امریکہ میں گھومتے ہوے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں کسی دوسرے سیارے سے آئے ہوے پُرتجسس فرد کے ساتھ ہوں۔ ٹرین میں نیوانگلینڈ سے گزرتے ہوے ایک جنگلی قطعے میں بےترتیبی سے اِدھر اُدھر بنے ہوے مکان دیکھ کر وہ پوچھتا ہے، "یہ لوگ یہاں درختوں کے درمیان کیوں رہتے ہیں؟” مجھے اس کا کوئی جواب نہیں سوجھتا۔ ("شہروں کا پھیلاؤ؟”) پھر اسے کچھ متحرک مکان نظر آتے ہیں اور وہ ان کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ یہ جان کر کہ ان کو کہیں اور تعمیر کیا گیا تھا اور اب ٹرک کے ذریعے سے مطلوبہ جگہ پہنچایا جا رہا ہے، وہ چلّا اٹھا: "بالکل خیموں کی طرح! لوگوں کو یہ مکان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، کتنے اچھے خیمے ہیں، اور وہ ان میں رہنے لگتے ہیں۔” پنسلوینیا میں میکڈانلڈ کی ایک بہت بڑی دکان میں، جہاں بےشمار سکول کے بچے لنچ کھانے کے لیے جمع تھے، مجھے آرڈر دینے کے لیے کاؤنٹر پر پہنچنے میں سخت دقت ہو رہی ہے، اور ایک مہربان عورت مجھے پیچھے جا کر ڈرائیواَپ کھڑکی پر آرڈر دینے کا مشورہ دیتی ہے۔ یہ ترکیب کامیاب رہتی ہے اور طیب کہتا ہے، "اس خاتون کو میکڈانلڈ کا بہت تجربہ ہو گا۔ کیا یہ نیکی اس نے ایسٹر کے لیے کی تھی؟” مجھے معلوم نہ تھا کہ لوگ ایسٹر کے موقعے کے لیے نیکیاں کرتے ہیں۔

ایک موقعے پر بوسٹن میں جب ہم بہت دیر ایک نہایت وسیع و عریض زیرِزمین گیراج میں بھٹکنے کے بعد ایک لفٹ سے نکل کر راہداری میں آئے تو ایک دم ہمارا سامنا ورزش کر کے ہانپتے ہوے، پسینے میں شرابور، وحشت بھری آنکھوں والے سفیدفام لوگوں سے ہو گیا جن کے اور ہمارے بیچ محض ایک شیشے کی دیوار تھی اور وہ سب ہِپ ہاپ کی ایک تال پر اجتماعی ورزش کرنے میں مصروف تھے۔ یہ منظر مجھے اپنی بصارت پر ایک حملہ محسوس ہوا اور میں نے کسی قدر خفیف ہو کر طیب کی طرف دیکھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر بےاختیار مسکرایا اور انگوٹھا کھڑا کر کے زور سے بولا، "آزادی!”

مجھے اس سے یہ پوچھتے رہنے کی عادت ہو گئی ہے کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہا ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ اکثر اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ غلامی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ زیرِزمین ٹرین میں مین ہیٹن آتے ہوے وہ کہتا ہے، "نیویارک غریب لوگوں سے، بےگھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ ہمیں ہر وقت دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بہت ہولناک بات ہے۔ لیکن بہرحال ان لوگوں کو پھر بھی کچھ نہ کچھ حقوق حاصل ہیں۔”

معلوم ہوتا ہے کہ مقدس کتابیں کبھی اس کے ذہن سے زیادہ دور نہیں ہوتیں۔ "میں یہودیوں اور سیاہ فاموں کے متعلق عربوں کے عجیب و غریب خیالات کے بارے میں سوچ رہا ہوں،” ایک اور موقعے پر وہ کہتا ہے۔ "آپ کو حضرت ابراہیم کا قصہ یاد ہے؟ ان کی بیوی سارا یہودی تھی۔ اس سے ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی تو سارا نے ابراہیم سے کہا کہ ممکن ہے ان کی لونڈی ہاجرہ سے — جو مصر کی رہنے والی اور سیاہ فام تھی — ان کی اولاد پیدا ہو جائے۔ اور پھر ہاجرہ ان سے حاملہ ہو گئی۔ لیکن سارا کو اس سے حسد ہوا اور ہاجرہ گھر سے بھاگ گئی۔ سارے عرب ہاجرہ کے بیٹے اسمعٰیل کی نسل سے ہیں۔ اسی لیے عرب یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کے ایسے عجیب خیالات ہیں۔ آپ کو معلوم ہے، انوار سادات کی ماں کون تھی؟ ایک سیاہ فام عورت۔”

ہم دریاے ہڈسن سے اوپر کی طرف واقع نیاک میں اس کے ایک دوست سے ملنے جاتے ہیں جو ٹرینیڈاڈ کا رہنے والا ہے۔ سڑک کے کنارے سبزے کو دیکھ کر طیب خوش ہوتے ہوے کہتا ہے، "یہ جگہ بالکل گھانا میں عکرہ اور ٹوگو کی سرحد کے درمیانی علاقے جیسی لگتی ہے۔ میں اس علاقے سے کئی بار گزرا ہوں، جب میں ٹوگو میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ وہاں بہت ہریالی اور پہاڑیاں ہیں، پیڑ اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ آپ بہت دور تک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں بالکل پاگل تھا: کوئی پیسہ نہیں، کھانے کو کچھ نہیں، اور تعلیم حاصل کرنے کی دُھن۔ میں ٹیکسی میں سفر کرتے ہوے باہر دیکھ کر کہا کرتا تھا: جنت یہی ہے!”

امریکہ میں غلامی مخالف گروپ نامی تنظیم کا بانی اور صدر چارلس جیکبس ہارورڈ کے جان ایف کینیڈی سکول آف گورنمنٹ کی ایک افسر سے بات کر رہا تھا۔

"وہ فریڈرک ڈگلس کی طرح ہے اور میں ولیم لائیڈ گیریسن کی طرح،” جیکبس نے کہا۔

ہم کیمبرج میں ایک ہوٹل کے بار میں بیٹھے تھے اور جیکبس کینیڈی سکول کو معاصر غلامی کے موضوع پر ایک پروگرام کے لیے مالی امداد فراہم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں مختار طیب کو بھی شامل کیا جانا تھا۔ طیب، جس نے اس شام مضافات میں واقع بوسٹن ہائی سکول میں خطاب کیا تھا، تھکا ہوا لگ رہا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ جیکبس کی بلندآہنگ گفتگو پر دھیان نہیں دے رہا ہے۔ لیکن اس نے اپنے خطاب میں موریتانیہ میں غلامی کا نقشہ کھینچ کر طالب علموں کو حیران کر دیا تھا اور کینیڈی سکول کی افسر بھی اس منصوبے میں دلچسپی لیتی معلوم ہوتی تھی۔

جیکبس ایک سابق انتظامی کنسلٹنٹ ہے۔ وہ پچاس کے لگ بھگ عمر کا ایک لمباچوڑا، پُرجوش آدمی ہے اور خود کو زمانۂ حال میں غلامی کے خاتمے کے لیے کام کرنے والا مجاہد قرار دیتا ہے۔ اس کے خود کو گیریسن سے، جس نے انیسویں صدی میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے لیے بہت کام کیا تھا، تشبیہ دینے کا یہی سبب ہے۔ اس کی تنظیم کا پہلا دفتر اس کے اپنے گھر کے ایک کمرے میں قائم ہوا تھا۔ اس کا گھر بوسٹن کے مضافاتی علاقے میں واقع ایک قدیم اور احتیاط سے رکھی گئی وکٹورین کوٹھی ہے۔ (اب یہ محلہ مضافات کے بجاے شہر کا مرکز بن چکا ہے۔) جب تک جیکبس کی طیب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس کی تنظیم کی سرگرمیاں سودان پر مرکوز تھیں۔ طیب سے مل کر اسے محسوس ہوا کہ وہ اس کی تنظیم کا ایک بہت موثر ترجمان بن سکتا ہے اور تب سے وہ زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو موریتانیہ میں دلچسپی لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چند ہفتے پہلے وہ اور طیب لاس اینجلس گئے تھے جہاں طیب نے ایک کانفرنس میں، جو سائمن وائزنتھال سنٹر کے زیرِاہتمام منعقد ہوئی تھی، حاضرین کو اپنی تقریر سے بےحد متاثر کیا تھا۔

لیکن یوں عوامی اجتماعات میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا طیب کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اسے ابھی سے بہت سے بیدان افراد کی طرف سے دھمکیاں ملنے لگی ہیں جو ان باتوں پر ناراض ہیں جو وہ موریتانیہ کے بارے میں امریکیوں کو بتا رہا ہے۔ "حکومت مزید کمیسار بھیج رہی ہے،” اس نے کہا۔ "سکیورٹی ایجنٹ۔ سخت گیر لوگ۔ ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔” اس نے بتایا کہ الحر تنظیم حالات کی نگرانی کر رہی ہے لیکن اس ملک میں اس کا اطلاعات حاصل کرنے کا نظام کمزور ہے۔ اب تک یہ تنظیم اسی بات پر مطمئن ہے کہ اس کا پیغام امریکہ میں پھیل رہا ہے، اور طیب بھی اس کا پیغام پھیلانے کے کام سے خوش ہے۔ اس شام بوسٹن ہائی سکول کے طلبا نے موریتانیہ کے بارے میں بتائی گئی باتوں کو اپنے ذہن میں بٹھانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی۔ ان کے سوالات کچھ اس قسم کے تھے:
"کیا عرب بچوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا کہ غلامی اچھی چیز نہیں ہے؟”

"کیا آپ لوگ پیسے ادا کر کے آزاد نہیں ہو سکتے؟”

"اگر آپ امریکی شہری بن جائیں تو؟”

طیب کی کوشش تھی کہ موریتانیہ میں غلامی کے نظام کی نفسیاتی گہرائیاں سننے والوں کی سمجھ میں آ سکیں اور ان کی توجہ طیب کی انفرادی صورتحال سے ہٹ کر تمام ہراتین لوگوں کی مصائب کی طرف منعطف ہو سکے۔ "یہ کسی فرد کا مسئلہ نہیں ہے،” اس نے کہا۔ ایک اور نکتے پر اس نے کہا، "میں ایک ایسا شخص ہوں جو دو دنیاؤں کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔ یہاں بوسٹن میں میں آزاد ہوں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں غلام بھی ہوں۔”

امریکیوں — نوجوانوں اور بڑی عمر والوں، سیاہ فاموں اور سفیدفاموں — کے سامنے طیب کو غلامی کے موضوع پر بولتے ہوے سننا بہت انکشاف انگیز ثابت ہوتا ہے۔ غلامی کے بارے میں، اس موضوع پر لکھنے والے مورخوں تک کے درمیان، مجموعی طور پر دو نقطۂ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ غلامی "سماجی موت” کے مترادف ہے، یعنی ایک مطلق حالت ہے، جس کا خلاصہ ایک شمالی افریقی کہاوت کے ذریعے بخوبی کیا جا سکتا ہے: "اگر آقا نہ ہو تو غلام کا کوئی وجود نہیں۔” دوسرا نقطۂ نظر رکھنے والے غلامی کو ایک تدریجی حالت قرار دیتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غلامی کی صورتیں بےشمار اور ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اور یہ صورتیں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں، اور پھر یہ کہ غلاموں کو جو تھوڑی بہت سماجی قوت حاصل ہوتی ہے اس کو استعمال کر کے وہ اپنی حالت کو مستحکم بلکہ بہتر بھی کر سکتے ہیں۔ طیب، غلامی کی لعنت کے خلاف آزادی سے محبت رکھنے والوں کے جذبات بیدار کرنے کے لیے مطلق حالت والے موقف کا اظہار کرنے کے باوجود، ذاتی طور پر غلاموں اور آقاؤں کے درمیان طاقت کے رشتوں کو اہمیت دینے والے دوسرے موقف کا قائل ہے۔ اس کے امریکی سامعین عموماً پہلا یعنی مطلق حالت والا نقطۂ نظر رکھتے ہیں، جن کے لازمی اجزا میں زنجیروں، کوڑوں اور بدترین سفاکیوں کے تصورات شامل ہوتے ہیں۔

لیکن امریکی شہری طیب کی بات پر مختلف زاویوں سے ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ایک افریقی نژاد امریکی آرتھر فلر نے، جو کنکٹی کٹ کے ایک مڈل سکول میں ریاضی کا استاد تھا، طیب کی کہانی کے بارے میں ایک سی ڈی تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا سکول ایک متموّل بستی میں قائم ہے، لیکن وہ اندرون شہر کے ایک پسماندہ محلے کے سکول میں بھی کام کرتا ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ طیب کی کہانی غریب سیاہ فام طالب علموں کو محنت پر اکسانے کے لیے بےپناہ امکانات رکھتی ہے۔ "یہ ایک نہایت مثبت کہانی ہے،” فلر نے مجھے بتایا۔ "دیکھو، یہ شخص غلام پیدا ہوا تھا۔ اب اس کے پا س قانون کی ڈگری ہے۔ اس لیے تمھارے پاس — خواہ تمھاری صورت حال کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو، تم کتنے ہی بدحال محلے سے کیوں نہ آئے ہو — کامیاب نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ کوئی بہانہ نہیں!” فلر نے زور دار، خوشی سے بھر پور قہقہہ لگایا۔ اس کا ارادہ ہے کہ اس سی ڈی کا نام "علم کی جستجو” رکھے۔

کینیڈی سکول کی افسر نے کہا، وہ غلامی کے بارے میں اس پروگرام کی تجویز اپنے دفتر والوں کے سامنے رکھے گی۔ اس نے اور چارلس جیکبس نے ایک دوسرے سے ملاقاتی کارڈوں کا تبادلہ کیا۔ بعد میں، اپنے گھر لوٹ کر، جیکبس نے خیال ظاہر کیا کہ ملاقات اچھی رہی اور کچھ نہ کچھ مثبت نتیجہ نکلنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ "لیکن سودان کے سلسلے میں مدد حاصل کرنا اس سے کہیں زیادہ آسان ہے،” اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ "معلوم ہے کیوں؟ اس لیے کہ وہاں غلامی کا نشانہ بننے والے لوگ مسیحی ہیں۔ چنانچہ ہمیں یہاں اور یوروپ دونوں جگہ کے مسیحی گروپوں کی طرف سے بہت مدد مل جاتی ہے۔ جب غلام بنائے جانے والے لوگ مسلمان ہوں تو ایسا کوئی گروہ نہیں جو فطری طور پر ان کے ساتھ ہو۔ فراخان اور نیشن آف اسلام نے اس مسئلے پر خود کو بالکل بے وقت ثابت کیا ہے۔ لیکن اگر ہم اس بات کی طرف اشارہ کریں تو وہ فوراً کہیں گے کہ میں یہودی ہوں۔”

سودان میں غلام رکھے جانے والے بیشتر لوگ بلاشبہ مسیحی نہیں بلکہ قدیم افریقی مذاہب کے پیرو ہیں۔ لیکن اگرچہ جیکبس نے افریقہ کا کبھی سفر نہیں کیا، پھر بھی اس کی بات درست ہے: اناجیلی مسیحی گروپوں نے سودان میں غلامی کے دوبارہ رواج پانے کے عمل کو سامنے لانے کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔

طیب کے چند موریتانیائی دوست ہیں جو واشنگٹن ڈی سی میں رہتے ہیں۔ ہم جا کر ان سے ملنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں، تاریخ سے اس کے شغف کے پیش نظر، گیٹس برگ کا راستہ اختیار کرتا ہوں۔ ہم اس عظیم میدان جنگ کی نرم، سرسبز پہاڑیوں پر چلتے ہیں اور اینگل نامی مقام پر آ کر، جہاں یونین کی فوج نے پکیٹ کا حملہ روک دیا تھا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر پانچ ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ "غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے اتنا کچھ، اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا،” طیب آہستہ سے کہتا ہے۔ بعد میں ایک یادگار کی دیوار پر، جو اس جگہ کے قریب تعمیر کی گئی ہے جہاں لنکن نے گیٹس برگ کا خطبہ دیا تھا، اس خطبے کا متن پڑھتے ہوے طیب مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ تمام نامانوس الفاظ، مفہوم کے اندر چھپے ہوئے معنی، سب اس کے لیے بےحد دلچسپی کا باعث ہیں۔ تفصیلات، امتیازات، پیچیدگی اور زبان اور حافظے کی مسلّم اہمیت کے لیے اس کے دل میں عالمانہ احترام ہے۔ اور تاریخ کا یہ احساس اپنی ہولناک سنگینی کے ساتھ، ایک اور روپ میں، اگلے ہی روز ظاہر ہوتا ہے۔ ہم گھومتے ہوے واشنگٹن میوزیم کے ایک حصے میں جا نکلتے ہیں جہاں اٹھارھویں صدی کے ایک سمندری جہاز کی باقیات رکھی ہیں جو کیپ کوڈ کے قریب ڈوب گیا تھا۔ پرانی توپوں اور چاندی کی اشیا کے درمیان ہم ایک زنگ لگی آہنی بیڑی کو دیکھ کر رک جاتے ہیں جو غلاموں کی تجارت کے سلسلے میں اس جہاز کے استعمال کی شاہد ہے۔ طیب اس بیڑی کو تکتا رہتا ہے۔ "انسانی تاریخ بہت طویل ہے،” وہ دھیمی آواز میں کہتا ہے، "اور ہمیں ایک ایک قدم کر کے چلنا ہو گا۔ ایک ایک قدم۔”

ہم مبراک نامی نوجوان کے ساتھ واشنگٹن کے آفس بلاک کے کنارے پر واقع ایک کم فرنیچر والے سٹوڈیو میں ٹھہرتے ہیں۔ اگرچہ طیب کا گرمجوشی سے خیرمقدم ہوتا ہے، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ہماری آمد غیرمتوقع ہے۔ "فکر مت کیجیے،” طیب مجھے بتاتا ہے۔ "یہ افریقیوں کا گھر ہے۔ ایک کھلا گھر۔ یہاں کون آئے گا، کون یہاں سوئے گا، اس پر کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ ہمیں آنے والوں کا خیرمقدم کرنا ہی ہوتا ہے۔ ہم نومادی ہیں۔” اس لفظ پر میرے تاثر سے نہ سمجھ پانے کا اظہار ہوا ہو گا۔ طیب ہنستا ہے۔ "خانہ بدوش!”

مبراک فوراً گلاسوں میں چائے پیش کرتا ہے جو چھوٹے کالے ریچھوں کی شکل کے بنے ہوے ہیں جن کے سر ہلکے زرد رنگ کے ہیں۔ پھر وہ کھانے کی تیاری میں لگ جاتا ہے۔ دو اور موریتانیائی بھی آ جاتے ہیں جو طیب کے دوست ہیں۔ تیز لہجے میں بولی جانے والی عربی اور بےتحاشا قہقہوں سے ساری فضا بھر جاتی ہے۔ طیب کی شخصیت حیران کن طور پر منقلب ہو گئی ہے، بالکل اسی طرح جیسے "غلام عورت کا کیسٹ” سنتے وقت ہوا تھا۔ انگریزی زبان بولتے وقت احتیاط اور تامّل سے بات کرنے والا طیب عربی بولتے ہوے پُرجوش اور پُراعتماد، بلکہ باتونی، بن جاتا ہے۔ اس کے لطیفے سن کر اس کے دوست بےاختیار قہقہے لگاتے ہیں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ یہ لو گ کس بات پر ہنس رہے ہیں۔ مبراک بڑی سی قاب میں بھیڑ کے گوشت، پاستا، سلاد اور خس خس پر مشتمل کھانے لے کر آتا ہے اور اسے فرش پر کمرے کے بیچوں بیچ رکھ دیتا ہے۔ ہم سب مل کر ایک ہی قاب میں ہاتھوں سے کھاتے ہیں، اور گفتگو کی رفتار دھیمی ہونے پر میں اس کے کچھ حصے کی ترجمانی کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔

معلوم ہوتا ہے کہ طیب کے عوامی سطح پر مہم شروع کرنے کے بارے میں ملی جلی رائے پائی جاتی ہے۔ اس کے دوستوں میں سے کم ازکم ایک یہ جان کر خاصا فکرمند ہے — اور غالباً ناخوش بھی — کہ میں صحافی ہوں۔ اس گروپ کے تقریباً سب لوگ ہراتین نسل کے ہیں، اور سب کے سب، کسی نہ کسی سطح پر غلامی کے خلاف تحریک میں شامل ہیں۔ طیب واضح طور پر الحر تنظیم کا ایک سینئر رکن ہے لیکن دوسرے افراد اس میں اگر کوئی مقام رکھتے ہیں تو اس کی توضیح نہیں کی جاتی۔ ان میں سے ایک شخص ایک معروف آزاد ہراتین خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ درحقیقت اس کا چچا مختصر سی مدت کے لیے امریکہ میں موریتانیہ کا سفیر بھی رہ چکا ہے۔ اس واقعے کو تاسف آمیز ہنسی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ "حکومت تعلیم یافتہ ہراتینوں کی تلاش میں رہتی ہے تاکہ دنیا کو دکھا سکے کہ ہم لوگ اب غلام نہیں ہیں،” طیب وضاحت کرتا ہے۔ "اس طرح انھوں نے نے ایک ہراتین کو سفیر بنا کر یہاں بھیج دیا۔ یہ ان کے لیے بہت عمدہ پروپیگنڈا تھا۔ مگر پھر وہ نافرمان ہو گیا۔ امریکی اخباروں سے غلامی کے بارے میں بات کرنے لگا! حکومت نے سال پورا ہونے سے پہلے اسے ہٹا دیا۔”

اس گروپ کا ہر شخص، کم ازکم جزوقتی طور پر، طالب علم ہے اور ان مواقع پر اور اس آزادی کے بارے میں جو ان کو یہاں دستیاب ہے، واضح طور پر پُرجوش ہے۔ لیکن موریتانیہ کے بارے میں امریکی پالیسی کا معاملہ دوسرا ہے۔ ایک وقت میں، مجھے بتایا جاتا ہے، امریکہ موریتانیہ میں غلامی کے رواج کی متواتر مذمت کرتا تھا، اور وہاں کی حکومت کو باقاعدگی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مجرم ٹھہراتا تھا۔ اقتصادی دباؤ بھی ڈالا گیا اور غلامی مخالف تحریک کو محسوس ہونے لگا کہ اسے امریکی حمایت حاصل ہے۔ پھر یہ ہوا کہ وہاں کی حکومت نے، جو مدتوں سے صدام حسین کے نزدیک رہی ہے، بلکہ خلیج کی جنگ کے دوران عراق کی حمایت بھی کر چکی ہے، 1995 میں یکایک یہ فیصلہ کیا کہ اسے امریکی امداد کی ضرورت ہے اور اس نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں امریکہ کی حمایت اور صدام حسین کی مخالفت میں ووٹ دینا شروع کر دیا۔ "بلاشبہ صدام کے ہم بھی خلاف ہیں،” طیب کہتا ہے، "ہم بھی مشرق وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں۔ مگر اب اچانک امریکی محکمۂ خارجہ نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ موریتانیہ میں غلامی کا کوئی وجود نہیں، صرف غلامی کی باقیات موجود ہیں۔” مبراک اور اس کے دوست منھ بنا کر تلخی سے "باقیات” کا لفظ بڑبڑاتے ہیں۔ "یہ موریتانیہ کی حکومت کے لیے صدام کی مخالفت کرنے کا انعام ہے۔”

پس منظر میں ٹی وی چل رہا ہے۔ جب گفتگو دوبارہ عربی میں شروع ہو جاتی ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ ٹی وی پر نکولس کیج اور لارا ڈرن ایک قدیم زمانے کی کنورٹیبل میں لہراتے پھر رہے ہیں، ہر چند منٹ بعد مباشرت کرتے ہیں، اور جب مباشرت نہ کر رہے ہوں تو اپنی مباشرت کی شعریات اور مابعدالطبیعیات پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ مبراک کے کمرے میں موجود کوئی اور شخص ٹی وی کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ ان کے لیے یہ محض مغربی لذت پسندی ہے جس کے دلکش، بےباک مناظر ہمیشہ کچھ دوری پر دکھائی دیتے رہتے ہیں۔

یا شاید یہ مناظر اتنے دلکش بھی نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ طیب نے مجھے بتایا تھا کہ کس طرح اسے ہارلم میں اپنے رشتےدار کے ساتھ رہتے ہوے رَیپ میوزک سے نفرت ہو گئی تھی کیونکہ وہ دن رات اونچی آواز میں بجایا جاتا تھا۔ "گندے الفاظ!” اس نے کہا تھا، "کوئی تہذیب نہیں، کوئی موسیقی نہیں۔” میں نے اس کے سامنے گینگسٹر رَیپ میوزک کی بہیمیت کی وہی توجیہہ پیش کی جو عموماً پیش کی جاتی ہے، یعنی یہ کہ یہ ایک بہیمانہ دنیا کا ایماندارانہ عکس ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ اس توجیہہ سے مطمئن نہ ہوا۔ "دکھ اٹھا کر لوگ حسین موسیقی بھی تو پیدا کرتے ہیں،” اس نے کہا۔ "خود اس ملک میں غلامی نے خوبصورت موسیقی پیدا کی ہے — گوسپل، بلوز، جاز۔ یہ موسیقی خوبصورت نہیں ہے۔” افریقی انقلابی — کیونکہ طیب موریتانیہ کے تناظر میں ایک انقلابی ہے — تہذیبی اعتبار سے قدامت پسند بھی ہے، میں نے سوچا۔

اور اس کا وطن واپسی کا منصوبہ بھی کسی طرح عظیم الشان نہیں ہے۔ اس نے ایک بار مجھے بتایا تھا، کہ وہ اعیون العطروس کے دیہی علاقے میں، جہاں وہ پیدا ہوا تھا، خاموش اور پُرسکون زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہے۔ وہ قانون کی پریکٹس کرنا چاہتا ہے تاکہ مفلس ہراتینوں کے مقدموں کی سول اور شرعی عدالتوں میں پیروی کر سکے، ان کو آزاد لوگوں کے حقوق دلوا سکے، جن میں ان زمینوں کے مالکانہ حقوق بھی شامل ہیں جن پر وہ محنت کرتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹا سا مکان بنائے گا، اور اس میں بجلی کی فٹنگ خود کرے گا، اور اس کو کتابوں سے بھر دے گا۔

طیب اور اس کے دوستوں کو باتیں کرتا دیکھ کر مجھے اچانک خیال آیا کہ اگرچہ یہ لوگ یہاں بس کنڈکٹر، پلمبر اور ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں — یعنی امریکہ کے سماجی حفظِ مراتب میں تقریباً زیریں ترین مقام پر مشقت کرنے والے افریقی تارکینِ وطن میں شامل ہیں — ان سب کو ایک نہ ایک دن وکیل، تاجر یا انتظامی ماہر بن کر موریتانیہ واپس جانے کی امید ہے۔ لیکن ان کے ہراتین نسل سے تعلق کے باعث ان کی کامیابی کا سارا دارومدار وطن میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں پر ہے۔ اور پھر ان میں سے ہر ایک طیب کی طرح شناخت کے قدیم جامد ساختوں کے خلاف کشمکش، یعنی اپنے ذہن سے صدیوں کی غلامی کے اثرات دور کرنے کی جدوجہد، میں بھی مصروف ہے۔ اب بھی طیب کو ہر صبح نیویارک میں یمنی مالکوں کی دکانوں پر انتہائی عامیانہ اور گہری عرب نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ "وہ اب بھی مجھے عبد کہتے ہیں،” اس نے ایک بار مجھے بتایا تھا۔ "وہ ناخواندہ ہیں۔ میں ان کے بہت سے ایسے کام کرتا ہوں جو وہ خود نہیں کر سکتے، لیکن وہ اب بھی تمام سیاہ فاموں کو غلام ہی سمجھتے ہیں۔”

سکرین پر ڈینس روڈمین کی شکل دکھائی دیتے ہی سب کی توجہ ٹی وی کی طرف ہو جاتی ہے۔ اس کی حرکات پر تعریفی ہنسی کا ردعمل ہوتا ہے۔ "موریتانیہ میں بھی اس قسم کے مسخرے ہوتے ہیں،” طیب وضاحت کرتا ہے۔ "وہ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر چیز ان کی مخالف ہے، جبکہ درحقیقت وہ خود ہر چیز کے مخالف ہیں۔ یہ لوگ بہت مضحکہ خیز ہیں۔”

رفتہ رفتہ لوگ شب بخیر کہہ کر رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ مبراک موبائل فون اور ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول لے کر اپارٹمنٹ کے واحد بستر پر دراز ہو جاتا ہے۔ طیب کاؤچ پر لیٹ جاتا ہے، جو میرے لیے بہت چھوٹا ہے۔ میں ایک پتلا سا گدّا بچھا کر، جو مجھے کونے میں لپٹا ہوا دکھائی دیا تھا، فرش پر سو جاتا ہوں۔ صبح کے وقت، نیم بیداری میں، میں طیب کو، جو بہت سحرخیز ہے، اپنے معمول کے کاموں میں تیزرفتاری، خاموشی اور انہماک کے ساتھ مصروف دیکھتا ہوں۔ وہ نہاتا ہے، شیو کرتا ہے، کپڑے بدلتا ہے: بے داغ کوٹ اور ٹائی۔ پھر کونے میں جا کر خاموشی سے نماز پڑھتا ہے۔ اس کے بعد اپنے وِنائل کے سفری تھیلے میں سے دعاؤں کی سبز کتاب نکال کر آدھ گھنٹے تک اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ آخر میں وہ اپنی جیبوں اور اپنے بیگ سے بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے کاغذوں کے پرزے برآمد کرتا ہے اور انھیں کاؤچ پر اپنے چاروں طرف پھیلا کر ان کا بغور جائزہ لینے لگتا ہے۔ میرا تجسس بیدار ہو جاتا ہے اور میں نیم غنودہ آواز میں پوچھتا ہوں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ "ووکیبلری!” وہ کہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چارلس جیکبس چاہتا تھا کہ طیب مستقل طور پر بوسٹن منتقل ہو جائے اور غلامی مخالف گروپ میں کل وقتی مصروفیت اختیار کر لے۔ اس نے لوگوں سے کہنا بھی شروع کر دیا کہ طیب بوسٹن آنے والا ہے۔ طیب اس پر حیران رہ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ جیکبس اس کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بےتکلفی برت رہا ہے، اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بےشمار لوگوں سے طیب کے ماضی (بطور غلام) اور مستقبل (بطور اس کی تنظیم کے ترجمان) کا تذکرہ کرتا پھر رہا ہے۔ جیکبس کو خود بھی مبہم سا ہی اندازہ تھا کہ طیب کا اس کی تنظیم میں قطعی طور پر کیا کردار ہو گا۔ طیب نے اسے اس کی پیشکش کی شرائط کاغذ پر لکھ کر دینے کو کہا: عہدہ، ذمے داریاں، تنخواہ وغیرہ۔ اب حیران ہونے کی باری جیکبس کی تھی۔ اس کے ذہن میں جو خیال تھا وہ خاصا غیررسمی نوعیت کا تھا۔ اور یہی وہ بات تھی جس کا طیب کو سب سے زیادہ خوف تھا۔ وہ بالکل غریب تھا اور اسے ان تقریروں کا معاوضہ درکار تھا جن کا انتظام جیکبس کر رہا تھا۔ اور وہ یہ بات بھی یقینی طور پر معلوم کرنا چاہتا تھا کہ امریکیوں کو اپنے غمناک بچپن کا حال سنانے کے علاوہ اس کی دوسری ذمےداریاں کیا ہوں گی۔ اس کی اس کہانی کو دہراتے رہنے کی خواہش محدود تھی۔ یہ ایک دردناک کہانی تھی، اور وہ خود ایک مفرور غلام کے علاوہ کچھ اور بھی تھا۔ وہ ایک وکیل، سکالر اور سیاسی کارکن تھا۔ علاوہ ازیں، خود اس کی تنظیم الحر کی پالیسی اپنے ارکان کو ان کی انفرادی کہانیوں پر زور دینے سے باز رکھنے کی تھی۔

جیکبس نے طیب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ امریکی حاضرین صرف انفرادی کہانیوں کو سن کر ہی متاثر اور کسی ناانصافی کے شکار لوگوں کی مدد پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ اپنے زخموں کی نمائش کرنے سے طیب کا احتراز قابل فہم ہے، لیکن اس طرح اسے غلامی کے خاتمے کے لیے مدد حاصل کرنے کا ایک ناقابل یقین موقع مل رہا ہے۔ جیکبس کی مدد سے یہ ممکن ہے کہ وہ اعلیٰ ترین حلقوں تک رسائی حاصل کر سکے اور وہاں اس کی بات سنی جائے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی اکیلے یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔ طیب کے پاس محض ایک سیاسی کارکن ہونے سے کہیں آگے جانے کا موقع ہے۔ وہ گاندھی، فریڈرک ڈگلس اور کوامے نکروما کی طرح ایک مثالی کردار بن سکتا ہے۔

طیب نے جیکبس کے دلائل کو دلچسپی سے سنا لیکن یہ دلائل خود اس کے ان خیالات کو تبدیل نہ کر سکے کہ اسے اپنے لوگوں کی مدد کیونکر کرنی ہے۔ وہ بوسٹن منتقل نہیں ہوا۔ وہ اب بھی جیکبس اور اس کی تنظیم کے ساتھ کام کرتا ہے، اور عوامی مجمعوں سے خطاب بھی کرتا ہے، لیکن اپنی شرائط پر، اور شاید الحر کی شرائط پر۔ جیکبس نے جو بات دریافت کی وہ میرے خیال میں وہی تھی جس کا انکشاف اعیون العطروس میں طیب کے آقا پر ہوا تھا، یعنی یہ کہ طیب ایک انتہائی ضدی اور مشکل مخلوق ہے۔ (اگر وہ ایسا نہ ہوتا تو اب تک ایک ناخواندہ غلام کی زندگی گزار رہا ہوتا۔) اس میں تیسری دنیا کی آزادی کی تحریکوں کے وابستہ مثالی کرداروں — گاندھی اور نیلسن منڈیلا — کے ساتھ ایک طرح کی مشابہت موجود ہے: یہ دونوں بھی مضبوط ذہن والے وکیل تھے جو اپنے حریفوں کے ساتھ حددرجہ شائستگی سے پیش آتے تھے جس کی تہہ کے نیچے ایک فولادی عزم کی سختی چھپی ہوئی تھی۔ اور طیب کو آپ زیرِزمین ریل میں سفر کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ وہ وہی دبلاپتلا، سیاہ رنگ والا تارک وطن ہے، پسماندہ لوگوں کے نیویارک میں تقریبا گمشدہ، جو اپنی قیمتی ووکیبلری پر نگاہ جمائے، اپنے کام پر جا رہا ہے جہاں دکان کے مالک اب بھی اسے "عبد” کہہ کر پکارتے ہیں۔

Leave a Reply