1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور وہاں پہنچنے کے بعد یہودیوں کے ساتھ پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اسلام لانے کے لئے پہلی دعوت دی گئی۔ چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام بھیجا تو وہ آئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: “اے جماعت یہود! تمھاری خرابی ہو، اللہ سے ڈرو۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بلاشبہ تم خوب جانتے ہو کہ یقیناً مَیں اللہ کا رسول ہوں اور تمھارے پاس حق لے کر آیا ہوں، لہٰذا تم اسلام لے آؤ۔” انہوں نے کہا کہ ہم تو اس بات کو نہیں جانتے۔ یہ بات انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین مرتبہ کہی۔”
(صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ہجر النبی صلی اللہ علیہ وسلم، و اصحابہ الی المدینۃ، رقم 3911)
2) حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: “یہود کی طرف چلو۔” ہم آپ کے ساتھ نکلے حتیٰ کہ ان کے ہاں پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، بلند آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا:
“اے یہود کی جماعت! اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔” انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (پھر) فرمایا: مَیں یہی چاہتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔” انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (پھر) فرمایا: “مَیں یہی چاہتا ہوں۔” آپ نے ان سے تیسری مرتبہ کہتے ہوئے (ساتھ) فرمایا:
“جان لو! یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ تمھیں اس زمین سے جلا وطن کر دوِ، تم میں سے جسے اپنے مال کے عوض کچھ ملے وہ فروخت کر دے، ورنہ جان لو کہ یہ زمین اللہ کی اور اس کے رسول کی ہے۔”
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، باب اجلاء الیہود من الحجاز، رقم 1765، دارالسلام 4591)
یہ حکم بعد میں پورے جزیرہ عرب کے لئے بھی دیا گیا۔ چنانچہ حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : “مَیں یہود و نصاریٰ کو ہر صورت جزیرہ عرب سے نکال دوں گا، یہاں تک کہ مَیں مسلمانوں کے سوا کسی اور کو نہیں رہنے دوں گا۔”
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، باب اخراج الیہود و النصاریٰ من جزیرۃ العرب، رقم 1767، دارالسلام 4594)
3) دعوتِ دین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کئی خطوط بھی مختلف قبائل اور بادشاہوں کو لکھے گئے۔ ایسے ہی ایک خط میں درج تھا:
“محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنی زہیر بن اُقیش کے لئے۔ تم لوگ اگر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو، نماز قائم کرو، غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) اور نبی کا خاص حصہ (صفی) ادا کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی امان میں سے امن میں ہو۔”
(سنن ابو داؤد، کتاب الخراج، باب ما جاء فی سھم الصفی، حدیث 2999 / صحیح ابن حبان بمطابق الاحسان، رقم6557 / مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم 37790)
4) عمان والوں کی جانب جو خط لکھا گیا، وہ کچھ یوں تھا: “اللہ کے رسول محمد کی طرف سے اہل عمان کی طرف، سلام ہو۔ اما بعد! تم لوگ یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں، زکاۃ ادا کرو اور فلاں فلاں طریقے سے مسجدیں بناؤ، ورنہ مَیں تم پر حملہ آور ہوں گا۔”
(اعلام السائلین لابن طولون: ص101-102، رقم 24 / معرفة الصحابة لأبي نعيم، رقم 6354)
5) رعیہ السحیمی یمامہ کا رہنے والا اور بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے بارے میں موجود ہے کہ “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رعیہ السحیمی کی طرف (چمڑے کے ٹکڑے پر) خط لکھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پکڑا اور اس کے ساتھ اپنے ڈول کو پیوند لگا لیا (مطلب کہ کوئی پرواہ نہ کی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا۔ انہوں نے (جا کر) اس کے اہل و عیال اور مال پر قبضہ کر لیا۔”
پھر یہ بڑی ندامت کے ساتھ ذلیل و رسوا ہو کر مدینہ منورہ پہنچا اور بیعت اسلام کی اور اپنے اہل و عیال بچا لئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: “اے لوگو! یہ رعیہ السحیمی ہے، جس کی طرف مَیں نے خط لکھا تو اس نے میرا خط لے کر اسی سے اپنا ڈول سی لیا، اب اسلام لے آیا ہے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 37794، دوسرا نسخہ 36639 / المعجم الكبير للطبراني، رقم 4635 / مسند احمد، رقم 22365 / مجمع الزوائد، رقم 10348 / الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، رقم 2661)
6) حضرت خالد بن ولید نے اہل فارس کے نام خط لکھا، جس میں موجود تھا کہ “ہم تمھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، اگر تم انکار کرو تو تم اپنے ہاتھوں جزیہ ادا کرو اس حال میں کہ تم ذلیل ہو کیونکہ میرے ساتھ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں قتال کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے فارسی شراب پسند کرتے ہیں۔”
(مستدرک حاکم، ج3 ص299 / المعجم الكبير للطبراني، ج4 ص105 / مسند علی بن الجعد، رقم 2304 / مجمع الزوائد، ج5 ص310)
7) حضرت جریر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم پر یمن بھیجا۔ اس تفصیلی واقعہ میں موجود ہے کہ “ذوالخلصہ یمن میں قبیلہ خثعم اور بجیلہ کا ایک گھر تھا جس میں بُت نصب تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی۔، اسے کعبہ کہا جاتا تھا۔ حضرت جریر نے اسے آگ لگا دی اور گرا دیا۔ جب حضرت جریر یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص تیروں کے ذریعے فال نکال رہا تھا۔ اسے کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد یہاں آ پہنچا ہے، اگر تُو اس کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ تیری گردن اڑا دے گا۔
چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ فال نکال رہا تھا، اتنے میں حضرت جریر وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے فرمایا: تُو فال کے ان تیروں کو توڑ کر کلمئہ شہادت پڑھ لے بصورت دیگر مَیں تیری گردن اڑا دوں گا، چنانچہ اس نے تیر توڑ کر کلمہ شہادت پڑھ لیا۔”
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ ذی الخلصۃ، رقم 4357)