“ثقافتی یکسانیت” اور تاریخی ہم آہنگی” پاکستان کے حکمران طبقات کا ایک ایسا ساختیہ منصوبہ “Construed Project” ہے، جس کی ساخت شکنی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس منصوبے کا مقصد وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو چھپانا، محنت کش طبقات کے زبردست استحصال کے خلاف ان کو متحد ہوکر طبقاتی جدوجہد سے روکنے کے لیے انھیں مذہب اور پاکستانی قوم کے عدم تکثیری نظریہ کے نام پر تقسیم کرنا۔ کئی ایک مذہبی اور نسلی گروہوں کی جانب سے ان کی پسماندگی اور محکومیت کو چیلنج کیے جانے کے سبب “ثقافتی یکسانیت اور تاریخی ہم آہنگی ” کے ساختیہ بیانیہ سے خارج کرنا اور انھیں “راکھشش” بناکر پیش کرنا وغیرہ رہا ہے۔ یہ ثقافتی یکسانیت اور تاریخی ہم آہنگی کا ایک ایسا کلامیہ/ڈسکورس تشکیل دیتی ہے جس میں ایک طرف تو مذہبی اقلیتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ریاست کی جانب سے اپنے آپ کو دوسرے درجے کی “محکوم پسماندہ/کمتر نوآبادیائے گئے گروہ” کی حثیت کو تسلیم کرلیں۔ دوسری طرف نسلی و لسانی شناختوں کے حامل وہ گروہ جن کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہوتا ہے اور مزاحمت پر انھیں قومی جبر کا سامنا ہوتا ہے انھیں مجبور کیا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، اپنی زبان، ثقافت کو جبری ساختیہ ثقافتی یکسانیت اور تاریخی ہم آہنگی کے کلامیہ/ڈسکورس کی بنیاد پر بنائے گئے بیانیہ کو تسلیم کرلیں اور اس کے آگے سرنڈر ہو جائیں۔
پاکستان کے حکمران طبقات نے ریاستی اداروں کی جابرانہ مشینری کو کام میں لاتے ہوئے پاکستانی نیشنلزم کی تشکیل دی جس کے لیے اس نے اسلام اور اردو کو استعمال کیا۔ یہ پاکستانی نیشنلزم جہاں ریاست کے معاشی نظام میں کارفرما طبقاتی استحصال اور قومی جبر کو چھپاتا اور اسے مضبوط کرتا ہے وہیں یہ لسانی ، نسلی اور مذہبی تنوع کی نفی کرتا ہے اور یہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی پر مشتمل سیکولر جمہوری ایجنڈے کو زبردستی لادینیت سے تعبیر کرتا ہے اور یہ لسانی و نسلی تنوع پر اصرار کو ملکی سلامتی کے منافی قرار دیتا ہے۔ یہ بلوچ ، سندھی، سرائیکی، پشتون اقوام اور ہندو، مسیحی، احمدی، شیعہ اقلیتوں پر جبر کرتا ہے کہ وہ اپنے “پسماندہ نوآبادیاتی” درجے کو مان لیں۔ یہ پنجابی اکثریتی قوم کے محنت کش طبقات کو حکمران طبقات کے مفادات کو اپنے مفادات سمجھنے اور انھیں بچانے کے لیے اپنی پنجابی شناخت سے دستبردار ہونے اور اس میں پائے جانے والے مذہبی تنوع کو سلبی رخ پر لیجا کر اسلام کے ایک ایسے تصور کو اپنانے کی طرف لے کر جاتا ہے جو خود پنجابی قوم میں موجود مذہبی اقلیتوں کو پسماندہ و محکوم بنائے رکھنے کا گمراہ کن شعور اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اور پنجابی محنت کشوں کو اپنے زبردست طبقاتی استحصال کو “ترقی” سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ پنجاب میں جاری اس سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل میں چھپے زبردست طبقاتی استحصال کو بھی چھپاتا ہے جس نے پنجابی محنت کش طبقات کو بھی بھوک، ننگ، افلاس سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ انھیں ایسا سیاسی شعور ودیعت کرتا ہے جو انھیں دوسری مجبور و محکوم اور قومی جبر کا شکار اقوام کی نظر میں ولن بنائے۔ پنجابی قوم میں ترقی پسند ایجنڈا ریاست کے “ثقافتی یکسانیت و تاریخی ہم آہنگی ” کے ساختیہ کلامیہ /ڈسکورس کی مخالفت ہوسکتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پنجابی قوم کے دانشور ایک تو خود موجودہ پنجاب کے نوآبادیاتی ساختیہ جغرافیائی وحدت کو چیلنج کریں۔ وہ سرائیکی قوم اور اس کے جغرافیائی تشخص کو مان لیں اور انھیں ان کا صوبہ دیں اور انھیں زبردستی “پنجابی” بنائے جانے کو مسترد کریں۔ وہ جہاں پنجابی علاقوں پر مشتمل پنجابی صوبہ کی تشکیل کا مطالبہ کریں اور پنجابی محنت کش طبقات اور اس کے حکمران طبقات کے درمیان موجود طبقاتی تضاد کو پاکستانیت کے نام پر چھپانے کی کوشش کو بے نقاب کریں اور پنجابیوں میں پنجابی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا مطالبہ کریں۔ وہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنائیں۔
پنجابی محنت کش طبقات کو ریاست کے نیولبرل معاشی ایجنڈے نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ انھیں اس قابل نہیں بنایا کہ وہ اپنے ہی صوبے میں رہ کر اپنی محنت کے ثمرات سمیٹیں اور انھیں مزدوری کے لیے جنگ زدہ علاقوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔
سی پیک جسے حکمران طبقات “گیم چینجر” اور “خوشحالی ” کا منصوبہ قرار دیتے ہیں اس نے پنجاب کے محنت کش طبقات کوکیا دیا ہے؟ اس منصوبے کے تحت جو کول پاور پلانٹ قادرآباد ساہیوال میں لگا، اس سے پھیلنے والی آلودگی تو پنجاب کے محنت کشوں کا مقدر بنی ہے لیکن یہ ان کی زندگیوں میں کوئی خوشحالی لیکر نہیں آیا- گزشتہ 76 سال میں پنجاب کے اندر جو چند بڑے شہری مراکز بنائے گئے وہ سب کے سب انتہائی آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں- وہاں غریب اور شہری نچلے متوسط طبقے کی آبادیوں کے پاس پینے کے صاف پانی، گندے پانی کی نکاسی، تعلیم کی بہتر سہولتیں ، علاج معالجے کی دستیابی نہیں ہے۔ پنجاب 76 سالوں میں گندم، چاول، کپاس، سبزیوں اور کئی ایک پھلوں پیداوار خودکفیل ہونے کے درجے سے گر کر ان کی قلت والا صوبہ بن گیا ہے اور اب یہ اپنی آبادی کے مطابق پیداوار کرنے سے قاصر ہے۔ پنجاب کے شہریوں کی اکثریت اب سستے آٹے کے لیے قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں- جہاں خیراتی کھانے کی جگہوں پر مرد اور عورتوں کی لمبی لمبی قطاریں نظرآتی ہیں- پنجاب کے زرخیز زرعی رقبوں کو رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کھا گیا ہے۔ اس میں خود ریاست کے باوردی اور بے وردی بابو اور پارلیمانی سیاست کرنے والے سیاست دان بھی شامل ہیں- رئیل اسٹیٹ کے اس کاروبار نے جنگلات اور باغات تک کو برباد کردیا ہے۔ یہ کاروبار مری اور اسلام آباد کے جنگلات کھا گیا- اس نے لاہور ڈویژن کو گنجا کیا اور اب اس نے ملتان ڈویژن میں آم ، کینو، امرود کے باغات کا صفایا کردیا ہے۔ ہر ایک بڑے شہر میں ڈی ایچ اے کی تعمیر زراعت ، جنگلات کے لیے تباہی اور بربادی کا سامان لیکر آئی اور اس سے پنجاب کا عام شہری موسموں کی شدت اور فضا میں آکسجین کی کمی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اس ماحول دشمن ترقی نے پنجاب کے ہر شہری کی اوسط عمر تین سے پانچ سال کم کردی ہے۔ پنجاب میں آج بھی زرعی رقبوں اور شہری جائدادوں کے مالکان چھوٹی سی اقلیت میں ہیں جبکہ چھوٹی اور نچے متوسط طبقے کی ملکیت میں زرعی اور شہری جائیدادیں کل ملکیت کا صرف 10 فیصد بنتی ہیں ۔ چند بڑے شہروں میں کچے اور نیم پکے محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ حکمران طبقات جو اس ملک کی آبادی کا محض ایک فیصد بھی مشکل سے ہوں گے ان کی دولت مندی، ثروت اور وسائل پر قبضے کو پنجاب کے قبضے سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ اس دولت ، خوشحالی اور وسائل پر قبضے سے پنجاب کے محنت کش طبقات کو کچھ بھی میسر نہیں آیا لیکن حکمران طبقات کی ثقافتی یکسانیت اور تاریخی ہم آہنگی کے جھوٹے پروپیگنڈے اتنا بڑا سچ پنجاب کے محنت کش طبقات کے شعور میں کوئی بہت بڑی مزاحمتی تبدیلی لانے سے قاصر ہے۔ پنجاب کے نوجوآنوں کو اس ملک کے فوجی ، نیم فوجی اور سویلین سیکورٹی اداروں میں کھپانے اور انہیں ریاست کی طرف سے چھیڑی جنگوں میں پیدل سپاہیوں کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ بلا مبالغہ ہزاروں نوجوانوں کی جان لے گیا ہے اور پھر بھی پنجاب میں “جنگ اور آپریشنوں ” کے خلاف کوئی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہاں چند سوالات بڑی اہمیت کے حامل ہیں: آخر پنجابی محنت کش طبقات حکمران طبقات اور ریاست کی نیولبرل معاشی پالیسیوں کا دفاع کس بنیاد پر کریں؟ کیا حکمران طبقات کا مالیاتی سرمایہ ، ملیں ، کارخانے اور فوجی افسر شاہی ، سویلین بابو شاہی کے قبضے میں موجود زرعی ، سکنی اور کمرشل جائیدادیں عام پنجابیوں کو مالدار بناتی ہیں ؟ کیا وہ کمرشل اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے بھاری قرضوں سے مستفید ہوئے ہیں ؟ کیا اسٹاک ایکسچینج میں لگے سرمائے کے مالک پنجابی محنت کش ہیں؟ ہیں ؟ کیا وہ 26 فیصد حکومتی اخراجات کے لیے اٹھائے گئے بلند شرح سود کے قرضوں سے مستفید ہوئے ہیں؟ کیا وہ ان دو فیصد افراد میں شامل ہیں جنھیں حکومت 90 فیصد سبسڈیز دیتی ہے؟ کیا وہ فوج کے مالیاتی، کمرشل اور بزنس وینچرز اور تازہ ترین کارپوریٹ گرین سرمایہ کاری میں حصہ دار ہیں؟ کیا فوج کے حوالے کی جانے والی 40 لاکھ زرعی زمین کے مالک ہیں ؟ کیا دو ارب چالیس کروڑ روپے کی فوڈ ایکسپورٹ میں حصہ دار ہیں ؟ کیا سیمنٹ، چینی ، آٹے کی ملوں میں ان کی حصہ داری ہے؟ کیا ان کاا آئی پیز کو دیے جانے والے پیسوں میں حصہ ہے؟ الغرض پنجاب کے محنت کش طبقات کو پنجاب کی “نام نہاد” ترقی نے کچھ نہیں دیا تو وہ کیسے حکمران طبقات کی مجرمانہ ترقی کا دفاع کرسکتے ہیں۔