’’ اللہ اکبر…. اللہ اکبر‘‘ مسجد کے مینار وں سے شمس العارفین کی آواز بلند ہو کر محلے میں گونج رہی تھی۔
فضل کریم چاچا نے اپنا بھاشن بند کردیا تھا،ان کے ہلتے ہونٹ اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ وہ اذان کا جواب دے رہے ہیں۔ اذان کے اختتام پر فضل کریم چاچا نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کےلیے بلند کر کے منہ پر پھیر لیے اور’’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے الفاظ ادا کرنے کے بعد مجھے مخاطب کیا:
’’ اب اگر ہمت ہے تو دے میرے سوال کا جواب؟ ‘‘
’’ کون سے سوال کا جواب؟؟‘‘
’’ ارے وہی تیری ملالہ کے ڈرامے کا‘‘
فضل کریم چاچا کی طویل من گھڑت حکایتوں، واہموں، اور شکوک و شبہات اور غیر منتطقی سوالوں کا بھلا میرے پاس کیا جواب ہوسکتا تھا،میں جب بھی اس کی دکان پر دوائی لینے جاتا تو وہ اپنی ہی ’’ عینک‘‘ سے میرا جائزہ لینا شروع کر دیتا ۔ کبھی کالر اور لباس کی بحث تو کبھی فرنچ کٹ اور چھوٹی بڑی داڑھی کے بالوں میں مجھے الجھا دیتا۔ سن 80 ء میں ایف ایس سی اور اس کے بعد ڈسپنسر کا کورس کرنے والا فضل کریم چاچا اپنی ذات میں ان تمام افراد کی زہنیت کا غماز تھا جو سازشی مفروضوں پر ایمان لے آتے ہیں۔
’’ چاچا! میں تو آپ کی لمبی روایات پر مبنی تقریر سے پہلے بتا چکا ہوں کہ تعصب کی عینک اتار دیجئے‘‘۔
’’ او جی ، کیا مطلب؟‘‘ چاچا بڑ بڑانے لگے ’’ عینک اتار دیجئے‘‘۔
’’ میں تو آپ کو صراطِ مستقیم دکھا رہا ہوں۔ تحقیق، تجسس، غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد دلیل سے بات کی جاسکتی ہے‘‘۔ میرا لہجہ دو ٹوک ہونے لگا تھا۔
’’ بچے! مانو یا نہ مانو، میں لکھ کر دینے کے لئے تیار ہوں کہ یہودیوں کا سرپرست امریکہ ملالہ کو پاکستان کی وزیر اعظم بنا کر دم لے گا‘‘۔
’’ ہاہاہا… امریکہ… ملالہ….ہاہاہا‘‘۔
’’ آج میری باتوں پر ہنس رہے ہو… کل رو رہے ہوگے‘‘۔
’’ چاچا! آپ بھی عمران خان کی طرح لکھ کر دینے کی بات کرنے لگے، ویسے آپ لوگوں کا نیا پاکستان کب بنے گا؟‘‘
’’ زیادہ بک بک نہ کر…. خنزیر کی اولاد….. اپنی دوائی اٹھا، میری نماز کا وقت ہورہا ہے‘‘۔
’’ جس منہ سے گالی دی ہے، اسی سے اب خدا کا نام بھی لو گے؟‘‘
میرے ترکش میں کافی تیر تھے لیکن شاہ دولے کے چوہوں پر تیر برسانا بھی انہی کے مفاد میں ہوتا ہے اس لئے میں اس حبس آلود اور گھٹن زدہ ماحول سے باہر نکل آیا ۔
فضل کریم چاچا نے اپنا بھاشن بند کردیا تھا،ان کے ہلتے ہونٹ اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ وہ اذان کا جواب دے رہے ہیں۔ اذان کے اختتام پر فضل کریم چاچا نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کےلیے بلند کر کے منہ پر پھیر لیے اور’’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے الفاظ ادا کرنے کے بعد مجھے مخاطب کیا:
’’ اب اگر ہمت ہے تو دے میرے سوال کا جواب؟ ‘‘
’’ کون سے سوال کا جواب؟؟‘‘
’’ ارے وہی تیری ملالہ کے ڈرامے کا‘‘
فضل کریم چاچا کی طویل من گھڑت حکایتوں، واہموں، اور شکوک و شبہات اور غیر منتطقی سوالوں کا بھلا میرے پاس کیا جواب ہوسکتا تھا،میں جب بھی اس کی دکان پر دوائی لینے جاتا تو وہ اپنی ہی ’’ عینک‘‘ سے میرا جائزہ لینا شروع کر دیتا ۔ کبھی کالر اور لباس کی بحث تو کبھی فرنچ کٹ اور چھوٹی بڑی داڑھی کے بالوں میں مجھے الجھا دیتا۔ سن 80 ء میں ایف ایس سی اور اس کے بعد ڈسپنسر کا کورس کرنے والا فضل کریم چاچا اپنی ذات میں ان تمام افراد کی زہنیت کا غماز تھا جو سازشی مفروضوں پر ایمان لے آتے ہیں۔
’’ چاچا! میں تو آپ کی لمبی روایات پر مبنی تقریر سے پہلے بتا چکا ہوں کہ تعصب کی عینک اتار دیجئے‘‘۔
’’ او جی ، کیا مطلب؟‘‘ چاچا بڑ بڑانے لگے ’’ عینک اتار دیجئے‘‘۔
’’ میں تو آپ کو صراطِ مستقیم دکھا رہا ہوں۔ تحقیق، تجسس، غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد دلیل سے بات کی جاسکتی ہے‘‘۔ میرا لہجہ دو ٹوک ہونے لگا تھا۔
’’ بچے! مانو یا نہ مانو، میں لکھ کر دینے کے لئے تیار ہوں کہ یہودیوں کا سرپرست امریکہ ملالہ کو پاکستان کی وزیر اعظم بنا کر دم لے گا‘‘۔
’’ ہاہاہا… امریکہ… ملالہ….ہاہاہا‘‘۔
’’ آج میری باتوں پر ہنس رہے ہو… کل رو رہے ہوگے‘‘۔
’’ چاچا! آپ بھی عمران خان کی طرح لکھ کر دینے کی بات کرنے لگے، ویسے آپ لوگوں کا نیا پاکستان کب بنے گا؟‘‘
’’ زیادہ بک بک نہ کر…. خنزیر کی اولاد….. اپنی دوائی اٹھا، میری نماز کا وقت ہورہا ہے‘‘۔
’’ جس منہ سے گالی دی ہے، اسی سے اب خدا کا نام بھی لو گے؟‘‘
میرے ترکش میں کافی تیر تھے لیکن شاہ دولے کے چوہوں پر تیر برسانا بھی انہی کے مفاد میں ہوتا ہے اس لئے میں اس حبس آلود اور گھٹن زدہ ماحول سے باہر نکل آیا ۔
نماز ایک ایسی حالت اور کیفیت کا نام ہے جس میں ہمیشہ رہنا چاہئے…. غصے، نفرت اور تشدد کا راستہ ترک کردینابھی نماز جیسا ہی ضرور ی ہے‘‘۔
گھر پر بے بے جی دوائی کی منتظر تھی۔ داجی جمعے کی نماز کے لئے تیاری میں مگن تھے۔
’’ آج جمعۃ المبارک ہے… کم از کم جمعہ ہی پڑھ لیا کر!‘‘
’’ نماز تو دن میں پانچ بار فرض ہے…. پھر صرف جمعہ پڑھنے پر اصرار کیوں؟‘‘
داجی کا پارہ چڑھنے کو تھا کہ میں نے پھر چڑھائی کردی!” نماز پڑھی نہیں جاتی بلکہ قائم کی جاتی ہے۔ نماز ایک ایسی حالت اور کیفیت کا نام ہے جس میں ہمیشہ رہنا چاہئے…. غصے، نفرت اور تشدد کا راستہ ترک کردینابھی نماز جیسا ہی ہی ضرور ی ہے‘‘۔
’’ کیا اول فول بک رہے ہو….. اپنا فلسفہ اور بقراطیت اپنے پاس ہی رکھ…. دین میں اپنی سمجھ سے کام نہیں لیا جاتا‘‘۔ داجی وضو کی حالت میں بھی غصے سے لال پیلے ہورہے تھے۔
مسلک؟؟فرقہ؟؟ ایک ہی دین میں کہاں سے آگئے؟ وہابی، دیوبندی، بریلوی، سنی، شیعہ، اثنائے عشری؟؟ ہر مسجد پر تختی جڑی ہے کسی مسلمان مسجد کا پتہ بتادیجئے‘‘۔
’’ چلیں، میں نماز پڑھ ہی لیتا ہوں قائم نہیں کروں گا لیکن مسجد بلالؓ یا پھر مسجد ابو زر غفاریؓ میں پڑھوں گا‘‘۔
’’ پاگل مت بنو…. کیوں اپنی نماز ضائع کررہے ہو؟ ان دونوں مساجد کا تعلق ہمارے مسلک سے نہیں ہے‘‘۔
’’ مسلک؟؟فرقہ؟؟ ایک ہی دین میں کہاں سے آگئے؟ وہابی، دیوبندی، بریلوی، سنی، شیعہ، اثنائے عشری؟؟ ہر مسجد پر تختی جڑی ہے کسی مسلمان مسجد کا پتہ بتادیجئے‘‘۔
’’ استغفر اللہ تم سے تو بات کرنا ہی بے کار ہے، شیطان نے تم پر خوب محنت کی ہے۔ لاحول ولا قوۃ‘‘ داجی سے جواب نہ بن پڑا تو مجھے شیطان کا ساتھی قرار دے کر مسجد کی راہ لی۔
مسجد میں کافروں کے ایجاد کردہ لاؤڈ اسپیکر پر مفتی سبحان اللہ اپنے مقتدیوں کے جذبات کو برانگیختہ کررہا تھا:
’’ سیکولر ازم کا نعرہ دین کے خلاف سازش ہے‘‘۔
’’ توکل کا راستہ اپنانا چاہئے عقل پر زور دینے والے اغیار کی سازش کا شکار ہو چکے ہیں!‘‘
’’ اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم سے بچانا ضروری ہے، اور اپنی عورتوں کو بے حیائی سے دور رکھنا واجب ہے۔عورت ذات کے لیے یا تو گور ہے اور یا پھر کور (گھر) اگر انہیں گھروں میں محصور نہ کیا گیا تو بے حیائی اور بے دینی بڑھ جائے گی‘‘۔
’’ دین میں روشن خیالی کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ کوئی بھی نئی بات یا کسی نئی چیز کا اضافہ بدعت ہے‘‘۔
’’ فوٹو گرافی حرام ہے اور شرعی ضرورت کے بغیر گھر میں تصاویر رکھنا جائز نہیں‘‘۔
’’ ٹیلی وژن شیطانی ڈبہ اور فحاشی کا مرکز ہے اور یہود و نصاریٰ اس کے ذریعے فحاشی عام کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’ روس کی مدد سے پاکستان اسٹیل مل کا قیام پاکستان کے خلاف کمیونسٹوں کی بہت بڑی سازش تھی‘‘۔
’’ قوم پرست اور بائیں بازو کی جماعتیں روس، ہندوستان اور افغانستان کی مدد سے پاکستان میں فسادات اور سازشیں کرتے رہتے ہیں!!‘‘
’’ بی بی سی کے لئے گل مکئی کے نام سے ملالہ کی ڈائری بہت بڑی سازش ہے!!‘‘
’’ ملالہ پر حملہ امریکی سازش اور ایک بہت بڑی چال ہے‘‘۔
’’ پاگل مت بنو…. کیوں اپنی نماز ضائع کررہے ہو؟ ان دونوں مساجد کا تعلق ہمارے مسلک سے نہیں ہے‘‘۔
’’ مسلک؟؟فرقہ؟؟ ایک ہی دین میں کہاں سے آگئے؟ وہابی، دیوبندی، بریلوی، سنی، شیعہ، اثنائے عشری؟؟ ہر مسجد پر تختی جڑی ہے کسی مسلمان مسجد کا پتہ بتادیجئے‘‘۔
’’ استغفر اللہ تم سے تو بات کرنا ہی بے کار ہے، شیطان نے تم پر خوب محنت کی ہے۔ لاحول ولا قوۃ‘‘ داجی سے جواب نہ بن پڑا تو مجھے شیطان کا ساتھی قرار دے کر مسجد کی راہ لی۔
مسجد میں کافروں کے ایجاد کردہ لاؤڈ اسپیکر پر مفتی سبحان اللہ اپنے مقتدیوں کے جذبات کو برانگیختہ کررہا تھا:
’’ سیکولر ازم کا نعرہ دین کے خلاف سازش ہے‘‘۔
’’ توکل کا راستہ اپنانا چاہئے عقل پر زور دینے والے اغیار کی سازش کا شکار ہو چکے ہیں!‘‘
’’ اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم سے بچانا ضروری ہے، اور اپنی عورتوں کو بے حیائی سے دور رکھنا واجب ہے۔عورت ذات کے لیے یا تو گور ہے اور یا پھر کور (گھر) اگر انہیں گھروں میں محصور نہ کیا گیا تو بے حیائی اور بے دینی بڑھ جائے گی‘‘۔
’’ دین میں روشن خیالی کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ کوئی بھی نئی بات یا کسی نئی چیز کا اضافہ بدعت ہے‘‘۔
’’ فوٹو گرافی حرام ہے اور شرعی ضرورت کے بغیر گھر میں تصاویر رکھنا جائز نہیں‘‘۔
’’ ٹیلی وژن شیطانی ڈبہ اور فحاشی کا مرکز ہے اور یہود و نصاریٰ اس کے ذریعے فحاشی عام کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’ روس کی مدد سے پاکستان اسٹیل مل کا قیام پاکستان کے خلاف کمیونسٹوں کی بہت بڑی سازش تھی‘‘۔
’’ قوم پرست اور بائیں بازو کی جماعتیں روس، ہندوستان اور افغانستان کی مدد سے پاکستان میں فسادات اور سازشیں کرتے رہتے ہیں!!‘‘
’’ بی بی سی کے لئے گل مکئی کے نام سے ملالہ کی ڈائری بہت بڑی سازش ہے!!‘‘
’’ ملالہ پر حملہ امریکی سازش اور ایک بہت بڑی چال ہے‘‘۔
دوسری مسجد میں قاری امام دین کسی علمی اور دینی مسئلے کے بجائے پولیو کے قطروں پر بحث کررہا تھا:‘‘
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے سارے یہودی، عیسائی اور ہندو لرزہ بر اندام ہیں، سب مل کر بھی میدان جہاد میں مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکتے،اس لئے انہوں نے پولیو کے قطروں میں ہماری امت کی نسل کشی کا سامان مہیا کر رکھا ہے۔
’’ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے سارے یہودی، عیسائی اور ہندو لرزہ بر اندام ہیں، سب مل کر بھی میدان جہاد میں مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکتے،اس لئے انہوں نے پولیو کے قطروں میں ہماری امت کی نسل کشی کا سامان مہیا کر رکھا ہے۔ اس سازش کو سمجھ۔خبردار! اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے مت پلانا، ان قطروں میں ایسا زہر ہے جو لڑکوں میں مردانہ قوت کو مار دیتا ہے اور لڑکیوں کو بانجھ کر دیتا ہے۔ کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ آخر یہ قطرے آئے روز کیوں ہمارے بچوں کو پلائے جارہے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت۔اہل مغرب اگر ہمیں پولیوں کے قطرے مفت فراہم کر سکتے ہیں، تو دیگر ادویات کیوں مہنگے داموں دیتے ہیں؟
’’مسلمانو! مغرب کا بائیکاٹ کرو ، ورنہ مٹ جاؤ گے۔مفتی سبحان اللہ اور قاری امام دین کی گھن گرج سے بچنے کے لئے میں نے تیسری مسجدمیں پناہ لی۔
جماعت کے بعد مساجد سے نکلنے والوں میں انسان کم اور “مسلمان” زیادہ تھے۔میرے دل و دماغ پر افسردگی، یاسیت اور مایوسی کا قبضہ تھا۔ شہر کی گلیوں پر خوف و دہشت کا راج تھا۔ دیواروں پر زہر آلود اور نفرت انگیز نعرے نمایا ں تھے، ہر دوسرے شخص کے چہرے پر غم و اندوہ کا بسیرا تھا۔
جماعت کے بعد مساجد سے نکلنے والوں میں انسان کم اور “مسلمان” زیادہ تھے۔میرے دل و دماغ پر افسردگی، یاسیت اور مایوسی کا قبضہ تھا۔ شہر کی گلیوں پر خوف و دہشت کا راج تھا۔ دیواروں پر زہر آلود اور نفرت انگیز نعرے نمایا ں تھے، ہر دوسرے شخص کے چہرے پر غم و اندوہ کا بسیرا تھا۔
چار سدہ کے بس اڈے پر مسافر نہ ہونے کے برابر تھے لیکن کنڈیکٹروں کی پر امید آوازیں کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہی تھیں:
’’ پشاور، مردان، تخت بھائی…….. تخت بھائی،
مردان، پشاور….‘‘ ۔
صوبائی حکومت کی ہدایت پر ایک جانب پویلو کے قطرے پلانے کاسٹال لگا تھا۔
’’ بالکل نہیں… ہر گز نہیں… کبھی نہیں!‘‘ احتجاج اور مزاحمت سے بھرپور یہ آواز ایک ادھیڑ عمر شخص کی تھی جس کے ہمراہ تین خواتین اور کئی چھوٹے بڑے بچے تھے۔ پولیو ٹیم کے افراد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو قطرے پلانا چاہتے تھے۔
’’ پشاور، مردان، تخت بھائی…….. تخت بھائی،
مردان، پشاور….‘‘ ۔
صوبائی حکومت کی ہدایت پر ایک جانب پویلو کے قطرے پلانے کاسٹال لگا تھا۔
’’ بالکل نہیں… ہر گز نہیں… کبھی نہیں!‘‘ احتجاج اور مزاحمت سے بھرپور یہ آواز ایک ادھیڑ عمر شخص کی تھی جس کے ہمراہ تین خواتین اور کئی چھوٹے بڑے بچے تھے۔ پولیو ٹیم کے افراد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو قطرے پلانا چاہتے تھے۔
میں سڑک پار کرکے رحمان ٹی اسٹال میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ کر چائے پینے لگا۔ تازہ دم ہو کر میرا ذہن ایک بار پھر فضل کریم چاچا کی باتوں میں الجھنے لگا۔
بے بے جی کی بیماری ا ور داجی کی بے جا لعنت ملامت پر فکر کے گھوڑے دوڑا ہی رہا تھا کہ رحمن ٹی اسٹال کی پیالیاں اور پیتل چینک لرزنے لگے،اور پل بھر میں دھویں، گرد و غبار اور چیخ و پکار میں سب کے اعصاب جکڑ لئے ۔ خود کش حملے نے در و دیوار ہلا کر رکھ دیئے تھے۔ ایدھی کی ایمبولینس ، پولیس اور رضا کاروں کے پہنچنے کے بعد بھی عام لوگ سہمے کھڑے تھے۔ خود کش حملہ آور کا ہدف پولیوں ٹیم کی خواتین ارکان اور ان کی حفاظت پر مامور اہلکار تھے۔ حواس باختہ فضل کریم چاچا اپنے جواں سال بیٹے اور چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی فضل حلیم کے چیتھڑے سمیٹ رہا تھا۔
عصر کی اذان ہورہی تھی اور مسجد کے میناروں میں شمس العارفین کی آواز گونج رہی تھی: ’’ اللہ اکبر…. اللہ اکبر‘‘
بے بے جی کی بیماری ا ور داجی کی بے جا لعنت ملامت پر فکر کے گھوڑے دوڑا ہی رہا تھا کہ رحمن ٹی اسٹال کی پیالیاں اور پیتل چینک لرزنے لگے،اور پل بھر میں دھویں، گرد و غبار اور چیخ و پکار میں سب کے اعصاب جکڑ لئے ۔ خود کش حملے نے در و دیوار ہلا کر رکھ دیئے تھے۔ ایدھی کی ایمبولینس ، پولیس اور رضا کاروں کے پہنچنے کے بعد بھی عام لوگ سہمے کھڑے تھے۔ خود کش حملہ آور کا ہدف پولیوں ٹیم کی خواتین ارکان اور ان کی حفاظت پر مامور اہلکار تھے۔ حواس باختہ فضل کریم چاچا اپنے جواں سال بیٹے اور چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی فضل حلیم کے چیتھڑے سمیٹ رہا تھا۔
عصر کی اذان ہورہی تھی اور مسجد کے میناروں میں شمس العارفین کی آواز گونج رہی تھی: ’’ اللہ اکبر…. اللہ اکبر‘‘
3 Responses
Reflection of current scenario
معروف براڈکاسٹر اور جرنلسٹ کے طور پر ارشد سلیم صاحب
شمالی اور جنوبی پختون خوا میں جانے پہچانے جاتے ہیں مگر افسانہ نگار
کی حیثیت سے کم ہی لوگ جانتے ہوں گے۔ بہترین اور تازہ اردو افسانے پر
ہماری مبارک باد ارشد سلیم صاحب تک پہنچا دیجئیے گا۔
Thanks Mona & Zeeshan sahab……!