چائے کے لئے اک نظم

کپ غصے کا گواہ ہو سکتا ہے یا نفرت کا؟
کپ خاموش کیوں ہے؟
گواہی گمراہی نہیں ہے

چائے اپنے آنسو فرش کے چہرے پر مل رہی ہے
فرش کو اس سے ہمدردی ہے پر اسے پتہ نہیں چل پا رہا کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں یا غم کے؟
اگرچہ اسے معلوم ہے کہ خوشی میں زیادہ اور غم میں کم آنسو نہیں بہائے جا سکتے

شاید چائے خفا ہو کہ اسے کپ نے اپنے سینے سے نکال دیا ہے جیسے کہ درد کے دوران منہ سے کسی آہ کو نکال پھینکا جاتا ہے
یا
شاید وہ خوش ہو کہ اسے بہہ جانے کا تجربہ بھی ہو گیا ہے اور اصل زندگی تو بہنا ہی ہے
بہنا گمراہی نہیں ہے
آنسووں کو بہنے دو
لہو کو بہنے دو
پھر اس کے بعد آنکھیں اور زخم ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھیں گے کہ بہنا ان کی خوشی کا اظہار ہے یا غم کا
مگر یہ بات تو واضح ہے کہ بہنا گمراہی نہیں ہے
کپ خاموش رہے

شاعر، شاعری اور نقاد

نظم کو نیند سے جگانے والا پنچهی اسے آسمانوں کی سیر پر لے جاتا ہے
تخیل اڑن کھٹولا ہے
ملکی وے کی ساری رنگینیاں لے کر وہ اسے خلا کے حوالے کرتا ہے
تکمیل یہی سے شروع ہوتی ہے
نظم آہستہ آہستہ عروج کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی
کشش ثقل کے بانہوں میں پہنچ جاتی ہے

شاعر کی آنکھ کھلتی ہے
اور وہ خود کو زندہ پاکر خوشی سے پاگل ہونے لگتا ہے
خواب کی تعبیر شاعر کے حق میں نکلتی ہے
اور نقاد کا منہ کسی بلیک ہول کی طرح کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے

میں نرگس ہوں

انار کلی دیوار سے نکل آئی ہے
دیوار میرے سینے میں داخل ہورہی ہے
کھورہی ہے

انارکلی! نرگس میری آنکھیں چوم رہی ہے
زمیں جھوم رہی ہے
خلا پانی پانی ہوگیا ہے
میں نرگس میں بدل رہا ہوں

افروڈائٹی (Aphrodite)مجھے گلے لگانا چاہتی ہے
حق جتانا چاہتی ہے
انار کلی! دیوار میں واپس جاکر دیوار میرے سینے سے باہر پھینک دے
میری دھڑکن رکتی جارہی ہے
اور رقص ہنوز جاری ہے۔

میر تقی میر کے نام

فطرت میری سگی نہیں ہے
زمیں مجھ سے نفرت کرتی ہے
دن مجھ پر فقرے کستا ہے
دن بھر مجھے ذلیل کرتا ہے
میری نظموں کو مکروہ گردانتا ہے
میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے؟

خلا میرا بھائی ہے
آسمان مجھے پسند کرتا ہے
رات مجھے نہیں گھورتی
اور ستارے مجھے آنکھ مارتے ہیں
آنکھ مارنے والے لڑکے رات بھر میری بانہوں میں ہوتے ہیں
(خواب مجھے سے کوئی نہیں چھین سکتا)
اورستاروں کے چھپتے ہی میر اور میں پھر سے اپنی تنہائیوں میں خود کو چھپا لیتے ہیں

 

نیوٹن دامن پھیلائے کھڑا ہے

نیوٹن دامن پھیلائے کھڑا ہے

اور سیب نہیں گر رہا
ایک پنچھی آکر اس کے سر پر ہگتا ہے
کشش ثقل اسے شاہی تاج پہناتی ہے

نظم جس کا IQ لیول میری طرح کم ہے
جیلس ہوتی ہے
اور میں پہاڑ کے دامن میں پتھروں کی بارش کا انتظار کرنے لگ جاتا ہوں
ردعمل ضرور ہو گا

Leave a Reply