[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
کائنات کے متعلق ہماری تصویر
340 قبل مسیح میں یونانی فلسفی ارسطو نے زمین کے کُروی ہونے کے بارے میں دو دلائل پیش کئے۔
اول یہ کہ چاند گِرہن کے دوران جب زمین کا سایا چاند پر پڑتا ہے تو وہ ہمیشہ ہی دائروی ہوتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب زمین گول ہو۔ اگر زمین مستوی ہوتی تو اس کا سایا لمبوترہ یا بیضوی ہوتا ۔یا پھر ایسا ہو کہ جب بھی گرہن لگے اس وقت سورج عین اس مستوی طشتری (زمین) کے مرکز کے نیچے ہو۔
دوئم یہ کہ یونانی اپنی سیاحتوں سے جانتے تھے کہ شمالی ستارے کو جب جنوبی علاقوں سے دیکھا جائے تو وہ آسمان میں نیچے نطر آتا ہے بہ نسبت اس کے جب اسے شمالی علاقوں سے دیکھا جائے۔ چونکہ شمالی ستارہ قطب شمالی کے اوپر موجود ہے اس لیے جب اسے شمال سے دیکھا جائے تو یہ مشاہد کے اوپر دکھائی دیتا ہے جب کہ جب اسے جنوبی علاقوں سے دیکھا جائے تو یہ افق پر نظر آتا ہے۔ ارسطو نے شمالی ستارے کے مقام میں ظاہر تبدیلی سے زمین کا قطر بھی معلوم کیا جو کہ موجودہ قیمت سے دوگنا تھا۔
ارسطو کے مطابق زمین ساکن ہے اور کائنات کے مرکز پر موجود ہے اور ستارے زمین کے گرد دائروی مداروں میں چکر لگاتے ہیں۔ارسطو کے اس تصور کو بطلیموس(Ptolemy) نے ایک مکمل کونیاتی ماڈل میں ڈھال دیا۔ بطلیموس کے مطابق زمین ساکن ہے اور کائنات کے مرکز پر ہے جب کہ اس کے گرد چاند، سورج ،پانچ سیارے ،جو اس وقت معلوم تھے(عطارد، وینس، مریخ، مشتری اور یورینس)، اورجامد ستارے آٹھ مداروں میں چکر لگاتے ہیں۔ جامد ستاروں کا آپس کا درمیانی فاصلہ تبدیل نہیں ہوتا جب کی زمین کے لحاظ سے ان کی جگہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ان ستاروں کے باہر کیا ہے اس سوال پر کبھی نہیں سوچا گیا۔ یہی ہماری کائنات کی حد تھی۔
بطلیموس کا ماڈل ستاروں کے مقامات کی پیش گوئی کرنے کے لیے ایک مناسب ماڈل تھا۔ لیکن ان کا صحیح مقام بتانے کے لیے بطلیموس کو یہ فرض کرنا پڑا کی چاند زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے کبھی کبھی بہت قریب آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی جسامت کافی بڑی نظر آتی ہے۔ بطلیموس کو اس غلطی کا احساس تھا لیکن پھر بھی عمومی طور پر اس ماڈل کو اپنا لیا گیا۔ مزید اس کو کلیسا (چرچ )کی بھی حمایت حاصل ہوئی کیوں کہ جامد ستاروں کے باہر جنت اور جہنم کے لیے کافی جگہ تھی۔
کائنات کاایک نسبتاً سادہ ماڈل کوپر نیکس نے 1514 میں پیش کیا۔ اس کے مطابق سورج ساکن ہے جب کہ زمین اور دوسرے سیارے اس کے گرد چکرلگاتے ہیں۔ اس ڈر سے کہ کہیں وہ بدعتی نہ کہلایا جائے کوپر نیکس نے یہ ماڈل اپنے نام سے شائع نہ کیا۔ تقریباً ایک سو سال بعد دو ہئیت دانوں، گلیلیو گلیلی اور جوہانس کیپلر نے کھل کر کوپر نیکس کے نظریے کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ بطلیموس کی تھیوری کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب گلیلیو نے دور بین نے مشتری کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا کہ اس کے گرد مزید سیارے یا چاند چکر لگا رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ زمین مرکز پر ہو اور یہ چاند زمین کے گرد چکر لگائیں جو بظاہر مشتری کے گرد گھومتے ہوے نطر آتے ہیں؟
اسی دوران کیپلر نے کوپرنیکس کے نظریے میں ترمیم کرتے ہوئے ثابت کیا کہ ساروں کے مدار دائروی نہیں بلکہ بیضوی ہیں۔ اس سے بطلیموس کا نظریہ مکمل طور پر رد ہو گیا۔ تاہم کیپلر بیضوی مداروں سے مطمئن نہیں تھا۔ دائروں میں تشاکل زیادہ تھا اور وہ زیادہ خوبصورت تھے۔
1687 میں آئزک نیوٹن نے اپنی کتاب اصولِ فطری فلسفہ شائع کی۔ اس میں اس نے نہ صرف یہ ثابت کیا کہ سیارےزمان و مکان میں کیسے گھومتے ہیں بلکہ ان کی حرکات اور مقامات کو معلوم کرنے کے لیے ریاضی بھی ایجاد کی۔ نیوٹن نے قانونِ تجاذب پیش کیا جس کی رو سے دو اجسام جتنے بھاری ہوں گے ان کے درمیان کشش اتنی ہی زیادہ ہو گی اور وہ جتنے دور ہوں گے ان کے درمیان کشش اتنی ہی کم ہو گی۔ نیوٹن نے یہ بھی ثابت کیا کہ اجسام زمین کی طرف اسی قوت کی وجہ سے گرتے ہیں اور چاند زمین اور زمین سورج کے گرد اسی قوت کی وجہ سے چکر لگاتی ہے۔
نیوٹن کے نظریے کے مطابق ایک محدود کائنات میں تمام اجسام باہمی کشش کے تحت ایک دوسرے پر گر جائیں گے۔ نیوٹن نے اس سوال کا جواب ایک لامحداد کائنات کی صورت میں دیا۔ فرض کریں کائنات لامحدود ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی نقطہ کائنات کامرکز کہلا سکتا ہے۔چونکہ اب کسی بھی جسم پر ہر طرف سے مساوی قوت لگے گی اس لیے وہ اپنی جگہ پر رہے گا۔
لیکن یہ ایک غلط دلیل ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم لامحدودیت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم ایک محدود خطہ فرض کریں۔ اب نیوٹن کی تھیوری کے مطابق اس خطے میں موجود اجسام ایک دوسرے کی طرف گریں گے۔ اب اگر ہم فرض کریں کہ اس خطے کے باہر مزید اجسام کو مساوی فاصلے پر رکھ دیاجاتا ہے تو ایسا کرنے سے پہلے والے اجسام کی حرکت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ اسی طرھ مرکز کی طرف گریں گے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ کائنات کا کوئی بھی ایسا لامحدود ساکن ماڈل بنانا ممکن نہیں ہے جس میں گریوٹی ہمیشہ کشش کی قوت ہو۔
نیوٹن کی تھیوری نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ایک لامحدود ساکن کائنات کا وجود ممکن نہیں ہے پھر بھی کسی نے اس طرف نہ سوچا کہ ہو سکتا ہے کائنات پھیل رہی ہو؟ بلکہ انہوں انہوں نے اس کے ساکن ہونے کے حق میں دلائل پیش کئے۔ایک دلیل یہ تھی کہ گریوٹی کم فاصلوں پر کشش جب کہ زیادہ فاصلوں پر دفع کی قوت کے طور پر عمل کرتی ہے۔ لہٰذا قریبی ستاروں کے درمیان کشش کی قوت دور کے ستاروں کے درمیان دفع کی قوت کو منسوخ کرتی ہے اور اس طرح سارا نظام توازن میں رہتا ہے۔ لیکن مسلہ یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی نظام غیر مستحکم ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی ایک خطے میں ستارے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوں تو کشش کی قوت دفع کی قوت پر حاوی آجائے گی اور ستارے ایک دوسری کی طرف گرنے لگیں گے وقص علیٰ ہذا۔
لامحدود ساکن کائنات پر ایک اور اعتراض 1823 میں جرمن فلسفی ہنرخ اولبرز نے اٹھایا۔ اس کے مطابق ایک لامحدود ساکن کائنات میں آپ جس طرف بھی دیکھیں گے آپ کی نطر کسی ستارے پر جا کر پڑے گی۔اور اس طرح سارا آسمان سورج کی طرح روشن دکھے گا۔ اولبرز نے اس کی جو ضد دلیل پیش کی وہ یہ تھی کہ دور دراز کے ستاروں سے آنے والی روشنی درمیان میں آنے والے مادہ میں جذب ہو رہی ہو۔ لیکن اس طرح وہ مادہ روشنی جذب کر کے ستاروں کی طرح چمکنے لگے گا۔ اس مسلے سے راہِ فرار ایک ہی تھی کہ یہ فرض کیا جائے کہ ستارے ہمیشہ سے نہیں چمک رہے بلکہ انہوں نے کسی خاص وقت پر چمکنا شروع کیا ہو۔ ایسی صورت میں درمیانی مادے نے ابھی اتنی تپش جذب نہیں کی ہو گی کہ سورج کی طرح روشن ہو سکیں۔ لیکن اس سے سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس علت نے ابتدا میں ستاروں کو چمکنے پر مجبور کیا ہو گا؟
آغازِ کائنات کا سوال ہمیشہ سے ہی زیرِ بحث رہا ہے۔ بہت ساری کائنات کے نظریات اور مذہبی صحیفوں کے مطابق اس کا آغاز کسی خاص مقام پر ہوا۔ ایسے نظریے کی ایک وجہ علتِ اولٰی کا ہونا ہے۔ کائنات میں ہرحادثے کو آپ ماضی میں ہوئے کسی واقعے سے جوڑتے ہیں۔ایسی صورت میں کائنات کے وجود کی توضیح صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے کہ کسی خاص مقام پر اس کا آغاز ہوا ہو۔ ایک اور دلیل سینٹ اگسٹین نے اپنی کتا ب خدا کا شہر میں دی۔ اس نے یہ دلیل دی کہ تہذیب ارتقا پا رہی ہے اور ہم یاد رکھتے ہیں کہ کس نے کون سا کام کیا یا کس نے کون سی تیکنیک متعارف کرائی۔ اس لیے انسان اور کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں رہے۔لہٰذا کائنات کا کسی نقطے پر آغاز ہوا ہے۔ اس نے پیدائش کی کتاب (Book of Genesis) سے اس کی عمر 5000 سال بتائی۔
ارسطو اور بہت سارے دوسرے یونانی فلسفیوں نے تخلیق کے تصور کو پسند نہ کیا کیوں کہ اس میں سماوی مداخلت کا عنصر کافی زیادہ تھا۔یونانیوں نے پہلے ہی اوپر بیان کیے گئے ارتقا والی دلیل پر غور و خوض کیا تھا اور اس کا جواب یہ دیا تھا کہ زمین پر اکثر سیلاب اور اس طرح کی آفتیں آتی رہی ہیں جن کی وجہ سے تہذیب کا خاتمہ ہو جاتا اور پھر یہ دوبارہ سے شروع ہوتی۔
اس سوال کو کہ آیا کائنات کا آغاز وقت میں کسی خاص نقطے پر ہوا یا یہ زمانے تک محدود ہے کو امینوئل کانٹ نے 1781 میں چھپنے والی اپنی کتاب تنقیدِ عقلِ محض (Critique of pure reasom)میں کافی تفصیل سے زیرِ بحث لایا ہے۔ اس کے مطابق یہ دلائل عقلِ محض کے تضادات ہیں۔ کیوں کہ اس کے خیال میں یہ دعوٰی، کہ کائنات کا آغاز ہوا تھا یا اس کا جواب دعوٰی کہ یہ ہمیشہ سے موجود تھی ، ایک جیسے وزنی دلائل ہیں۔ دعوٰی کے لیے اس کی دلیل تھی کہ اگر کائنات کا آغاز ہوا ہوتا تو کسی بھی واقعے کے ہونے سے پہلے لامتناہی وقت ہوتا اور جواب دعوٰی کے لیے دلیل یہ تھی کہ اگر کائنات کا آغاز ہوا ہو تب بھی کسی واقعے کے ہونے سے پہلے لامتناہی وقت موجود ہو گا۔اصل میں دعوٰی اور جواب دعوٰی ایک ہی دلیل ہے اور یہ اس غیر بیان کردہ مفروضے پر مبنی ہے کہ اس چیز سے بالا تر کہ آیا کائنات کا آغاز ہوا ہے یا نہیں، وقت ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے۔ بعد میں ہم یہ دیکھیں گے کہ کائنات کے آغاز سے پہلے وقت لایعنی ہو جاتا ہے۔
1929 میں ایک سائنسدان ایڈون ہبل نے دیکھا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں۔ اس کامطلب یہ تھا کہ ماضی میں وہ ایک دوسرے کے قریب قریب رہی ہوں گی اور ایک ایسا وقت بھی ہو گا جب سارا مادہ ایک ہی نقطے پر مرکوز ہو گا۔اس وقت کائنات کی کثافت لامتناہی ہو گی۔ اس کو اب بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ ہبل کے مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ اس نقطے پر کائنات لامتناہانہ چھوٹی اور کثیف ہو گی۔ اس مقام پر طبیعیات کے تمام قوانین بے اثر ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح کسی بھی چیز کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت بھی صفر ہو جاتی ہے۔ وہ تمام واقعات جو بگ بینگ سے پہلے ہوئے ہوں گے ا ن کامستقبل میں ہونے والے حوادث پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ بگ بینگ ہی وقت کاآغاز ہے۔ایک غیر تغیر پذیر ساکن کائنات میں وقت کسی بیرونی قوت کا محتاج ہوتا ہے۔کوئی بھی یہ گمان کر سکتا ہے کہ خدا نے ماضی میں کسی بھی وقت پر کائنات کو پیدا کیا ہو گا۔ دوسری جانب اگرکائنات پھیل رہی ہے تو طبیعی لحاظ سے وقت کا نقطہ آغاز ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ ایک پھیلتی ہوئی کائنات میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدا نے کائنات کو بگ بینگ پرپیدا کیا یا اس کے بعد کسی بھی نقطے پر اس طرح پیدا کیا کہ یوں لگے کہ ماضی میں کہیں بگ بینگ ہوا تھا۔ایک پھیلتی ہوئی کائنات خالق کا انکار نہیں کرتی لیکن اس چیز پر حد مقرر کر دیتی ہے کہ اُس نے اِس کو کب پیدا کیا ہو گا۔
کائنات کی ماہیت کو جاننے کے لیے ایک بات بہت واضح ہونی چاہیے کہ سائنسی نظریہ کیا ہوتا ہے۔میں اس کا ایک سادہ ورژن لوں گا کہ یہ ایک ماڈل ہوتا ہے جس میں کچھ اصول ہوتے ہیں جو ماڈل میں موجود مقداروں کو ان مشاہدات سے جوڑتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ کسی بھی نظریے کے اچھا ہونے میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے سے موجود تمام مشاہدات سے ہم آہنگ ہو اور مستقبل کے نتائج کی پیش گوئی کرے۔ مثال کے طور پر ارسطو کی تھیوری کہ مادہ آگ، پانی ، ہوا اور مٹی سے مل کر بنا ہے اتنا سادہ ہے کہ اس کو تھیوری قرار دیا جا سکے لیکن یہ مزید کسی نتیجے کی پیش گوئی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس نیوٹن کا تجاذب کا نظریہ بھی اتنا ہی سادہ ہے اور تمام مشاہدات پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ مزید نتائج کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔یعنی یہ چاند ،سورج اور دوسرے سیاروں کی حرکات کی پیش گوئی کرتا ہے۔
کوئی بھی طبیعی نظریہ عارضی ہوتا ہے، ایک لحاظ سے یہ ایک مفروضہ ہی ہوتا ہے۔آپ اسے ثابت نہیں کر سکتے۔ اس چیز سے بالائے نظر کہ کتنی مرتبہ کسی تجربے کے نتائج صحیح آتے ہیں آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اگلی بار بھی صحیح نتائج آئیں گے۔اس کے برعکس آپ کسی بھی نظریے کو صرف ایک ایسے مشاہدے سے رد کر سکتے ہیں جو پیش گوئی پر پورا نہ اترتا ہو۔ جیسا کہ سائنسی فلسفی کارل پاپر نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی تھیوری کو یہ چیز ممیز کرتی ہے کہ یہ ایسی پیش گوئیاں کرتی ہے جن کو عمومی طور پر غلط ثابت کیا جا سکتا ہو۔ جب بھی تھیوری کسی پیش گوئی پر پورا اترتی ہے تو ہمارا عقیدہ اس پر اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر جب بھی کوئی نئی تھیوری کسی پرانی کی جگہ لیتی ہے تو وہ اسی کی ہی تصحیح شدہ شکل ہوتی ہے، مثال کے طور پر نیوٹن کی تھیوری کی بنا پر عطارد کے مدار کی توضیح نہیں کی جا سکتی لیکن آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت اس کی وضاحت کرتا ہے۔ لیکن ابھی بھی نیوٹن کی تھیوری مستعمل ہے کیوں کہ اس کا آئن سٹائن کے نطریے سے فرق اتنا کم ہے کہ عام حالات میں ہم اسے نظر انداز کر دیتے ہیں اور ویسے بھی نیوٹن کا نطریہ آئن سٹائن کے نظریے سے استعمال کرنے میں بہت آسان ہے۔
سائنسدانوں کا اصل مقصد ایک ایسے نظریے کی تلاش ہے جو ساری کائنات کو بیان کر سکے۔ زیادہ تر سائنسدان اس کو دو حصوں میں بانٹتے ہیں۔ پہلے میں وہ قوانین آتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ کائنات وقت کے ساتھ کیسے تبدل پذیر ہوتی ہے۔ یعنی اگر ایک وقت پر ہمیں کائنات کی حالت کا پتا ہو تو یہ قوانین یہ بتائیں گے کہ کسی اور وقت پر اس کی حالت کیا ہو گی۔ دوسرے نمبر پر کائنات کی ابتدائی حالت (Initial state) کا سوال آتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سائنس کا فیلڈ نہیں بلکہ فلسفے یا مذہب کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا ہر شئے پر قادر ہے تو اس کی مرضی ہے کہ اس نے کائنات کو موجودہ حالت میں شروع کیا۔ لیکن یہاں پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر اس کے پاس بہت سارے چوائس تھے تو اس نے یہی حالت کیوں چنی۔چنانچہ یہ سوچنا کافی عقلی ہے کہ ایسے قوانین موجود ہوں جو کائنات کی ابتدائی حالت کو بھی بیان کریں۔
کائنات کا کوئی ایک یکساں نظریہ بنانا ایک نہایت ہی مشکل کام ثابت ہوا ہے۔ ہم اب یوں کرتے ہیں کہ اس کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کا نظریہ بنا لیتے ہیں جو کسی محدود حد میں مشاہدات کی وضاحت کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ راستہ غلط ہو لیکن یہی وہ طریقہ ہے جس کو استعمال کر کے ہم نے ماضی میں ترقی کی ہے۔ مثال کے طور پر نیوٹن کی تجاذب کی تھیوری یہ کہتی ہے کی کشش کی قوت دو اجسام کی کمیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اب ہمیں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ وہ اجسام کس شئے کے بنے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
سائنسدان کائنات کو دو نظریات کی مدد سے بیان کرتے ہیں۔ آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت اور کوانٹم میکانیات۔ نظریہ اضافیت کائنات کی ساخت کو بڑے پیمانے پر بیان کرتا ہے جو کہ کچھ میل سے لے کر اربوں میل تک ہو سکتا ہے جب کہ کوانٹم میکانیات کائنات کو بہت چھوٹے پیمانے پر بیان کرتی ہے جو کہ ایک انچ کے بھی ایک اربویں حصے سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلہ یہ ہے کہ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے ساتھ یکساں نہیں ہیں۔ سائنس دانوں کی کوشش ہے کہ ان دونوں کو ملا کر ایک ایسا نظریہ بنایا جائے جو ساری کائنات کو بیان کرتا ہو۔ سائنسدان اسے کوانٹم تجاذبی نظریہ کہتے ہیں۔ہمارے پاس ابھی ایسا نطریہ نہیں ہے لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ نظریہ کس طرح کی پیش گوئیاں کرے گا۔
Leave a Reply