Laaltain

بکر بیتی: صحرا کی داستان غم

6 جنوری، 2019
Picture of تالیف حیدر

تالیف حیدر

بن یامین کے ناول Goat Daysکاتجزیاتی مطالعہ

تمہید:

اگر آپ نے بن یامین کا ناول Goat Daysنہیں پڑھا ہے، تو پڑھ لیجیے، اصل متن ملیالم میں ہے، مگر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں اس کاترجمہ موجود ہے۔ آج کے شمارہ نمبر 101 میں اس کا اردو ترجمہ موجود ہے، عاصم بخشی نے نہایت صاف اور سلیس زبان میں انگریزی سے اس ناول کا ترجمہ کیا ہے۔
اس ناول کو کیوں پڑھنا چاہیے؟

اگر یہ سوال آپ کے ذہن میں آتا ہے تو میں اپنے تجربے کو آپ کے ساتھ بانٹ سکتا ہوں کہ مجھے اس ناول کو پڑھ کر کیا حاصل ہوا اور کسی بھی شخص کو یہ ناول کیوں پڑھنا چاہیے۔

سب سے بنیادی بات تو یہ کہ فکشن کا مطالعہ کسی بھی انسان کو اپنے محدود دائرہ نگاہ سے باہر نکال کر ایک ایسی دنیا میں لاتا ہے جہاں زندگی کی بے شمار تصویریں موجود ہوتی ہیں۔ لاتعداد آئینے جن میں زندگی کا عکس الگ الگ انداز میں پایا جاتا ہے۔ ہم اور آپ جب تک فکشن کی دنیا میں داخل نہیں ہوتے اس وقت تک اپنی معمولی معمولی خواہشوں کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سمجھتے رہتے ہیں۔ اپنے فیصلوں، صداؤں، المیوں اورعمومی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جذباتی انداز میں سوچنے کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور زندگی کی ان سچائیوں سے ناواقف رہتے ہیں جو موجود تو ہیں، مگر ہمارے تجربے کا حصہ نہیں بنی ہیں۔

میں بھانت بھانت کا فکشن زیادہ تر انہیں وجوہات کی بنا پر پڑھتا ہوں، کیوں کہ زندگی کے اس پھیلاو سے آشنا ہونا چاہتا ہوں جس کا ہم خواب دیکھتے ہیں یا جس کا ذکر سنتے رہتے ہیں۔

دنیا حقیقت میں کوئی چھوٹی جگہ نہیں اور نہ اتنی معمولی ہے جتنا اسے مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں۔ دنیا کے لا تعداد رنگ ہیں، بے شمار چہرے، جن کا احساس ہمیں فکشن کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ آپ کسی شخص کو جاننا چاہتے ہیں تو کہانی آپ کی مدد کر سکتی ہے، کسی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو بھی کہانی آپ کی مدد کر سکتی ہے، کسی سے نزدیک یا دور ہونا چاہتے ہیں تو ان معاملات میں بھی کہانیاں ہی آپ کی سب سے بڑی مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ انہیں آپ کسی کے دل کا غبار کہیں، جھوٹ کہیں، تجربہ کہیں، افسانہ کہیں یا کچھ اور کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہانی تو بس کہانی ہے جس سے اگر آپ کو عشق ہے تو آپ زندگی کے اس پھیلاؤ سے آشنا ہوتے چلے جائیں گے جہاں انسانی احساس،جذبات، شعوراور ادراک کا ٹھاٹھے مارتا سمند ر موجود ہے۔آپ کو بڑی سے بڑی حقیقت افسانہ معلوم ہونے لگے گی اور بڑے سے بڑا افسانہ حقیقت۔

بکر بیتی کا قصہ:

اس سے پہلے کہ میں یہ بتاوں کہ یہ کہانی ہمیں کیوں پڑھنا چاہیے، مختصراً اس ناول کا قصہ بیان کیے دیتا ہوں:
بکر بیتی ایک شخص نجیب محمد کی کہانی ہے جو بنیادی طور پر مالابار کا رہنا والا ایک غریب مسلمان ہے۔ اس کے بہت سے خواب ہیں، بہت سی خواہشیں ہیں، مگر وہ ان خواہشوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ اس کے حالات اور کمائی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان خوابوں کو پورا کر سکے۔ نجیب ایک شادی شدہ شخص ہے جس کی بیوی سینو ایک صابر اور سمجھ دار عورت ہے۔نجیب کو ایک روز اپنے ایک ساتھی سے خلیجی ملک جانے کے ایک عدد ویزے کے متعلق معلوم ہوتا ہے، یہ ویزا خلیجی ملک میں مزدوری کے لیے ہے۔ جس کی قیمت تیس ہزار ہے۔ نجیب اس ویزے کے متعلق اپنی بیوی سینو سے بات کرتا ہے اور اسے حاصل کر کے عرب ملک جا کر مزدوری کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ سینو اس بات سے بہت خوش ہوتی ہے اور اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ ہمیں بہت زیادہ دولت جمع نہیں کرنی ہے، بس کسی نہ کسی طرح اتنا ہو جائے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل سنوار لیں اور ایک متوسط زندگی گزار سکیں۔

نجیب ویزا کے لیے تیس ہزار رپیوں کا انتظام کرتا ہے اور ادھار قرض لے کر ویزا حاصل کرلیتا ہے۔ سفر کی شروعات میں بمبئی پہنچتا ہے اور وہاں ایک نوجوان لڑکے حکیم سے اس کی ملاقات ہوتی ہے،جو نجیب کا ہم سفر ہے اور اس کے ساتھ مزدوری کر نے عرب جارہا ہے۔ حکیم کی ماں نجیب کو بڑا سمجھ کر حکیم کا دھیان رکھنے کے لیے کہتی ہے۔ یہ دونوں خوشی خوشی عرب پہنچتے ہیں اور ایر پورٹ کے باہر آکر اپنے ارباب کا انتظار کرنے لگتے ہیں، مگر انہیں لے جانے کوئی نہیں آتا، بہت دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایک گاڑی آتی ہے جس میں سے ایک بد بو دار عرب اتر کر ان سے کسی عبداللہ کے متعلق پوچھتا ہے،جس کے جواب میں وہ انکار میں سر ہلا دیتے ہیں، وہ عرب غصے میں ایر پورٹ پر ٹہلنے لگتا ہے، پھر کچھ دیر بعد وہ حکیم کے پاس آکر اسے گاڑی میں بیٹھے کے لیے کہتا ہے اور حکیم اور نجیب اسے اپنا ارباب سمجھ کر گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ ارباب انہیں شہر سے دور ایک ریتیلے میدان کے بیچوں بیچ لا کر ایک بدبو دار جگہ پر اتار دیتا ہے اورارباب، نجیب اور حکیم دونوں کے پاس پورٹ ضبط کر لیتا ہے۔

پہلے حکیم کو ایک ٹینٹ کے پاس اتارتا ہے اور نجیب کو گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کا حکم دیتا ہے، پھر ایک کلو میٹر کے فاصلے پر نجیب کو بھی اتار کر اسی طرح کے ٹینٹ میں بھیج دیتا ہے۔وہاں ایک اور ارباب سے نجیب کی ملاقات ہوتی ہے۔ جو اس سے بات تک نہیں کرتا اور ٹینٹ کے باہر بھیج دیتا ہے۔ گاڑی میں لانے والا ارباب انہیں وہیں صحرا میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

نجیب کو یہاں بڑا عجیب سا محسوس ہوتا ہے، دوسرے دن صبح میں نجیب کی ملاقات وہیں ٹینٹ میں ایک اور شخص سے ہوتی ہے جو نہایت بدبو دار ہے، اور اس کی شکل بہت خوف ناک ہے۔ نجیب اسے دیکھ کر کراہت محسوس کرتا ہے۔ یہاں سے اصل کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔

نجیب کو اس ٹینٹ کے پاس موجود بکریوں،بھیڑوں اور اونٹوں کی گلہ بانی کے کام پر لگایا جاتا ہے۔ جہاں اسے بہت سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔ وہ بے انتہا بدبودار ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں نہ پینے کے لیے پانی ہے نہ کھانے کے لیے اچھا کھانا۔ صرف ایک عدد پکوان پہ اس کا گزارا ہوتا ہے اور جب وہ بے انتہا تھک جاتا ہے تو اسے زندہ رہنے کے لیے ایک پیالہ پانی ملتا ہے۔ ارباب اس پر بے انتہا مظالم کرتا ہے، اسے مارتا پیٹتا ہے اور گدھوں کی طرح اس سے کام لیتا ہے۔ وہ بد شکل شخص جو نجیب کو پہلے دن اس بکروں کے ریوڑ میں ملتا ہے۔ وہ وہاں کا پرانا ملازم ہوتا ہے جو نجیب کے آتے ہی وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ نجیب وہاں، بکرے،بکریوں کو چرانے، ان کا دودھ نکالنے، انہیں بھونسا ڈالنے، ان کی دیکھ بھال کرنے اوربھیڑوں کے چرواہے کے فرائض انجام دینے وغیرہ جیسے کاموں پر معمور کیا جاتا ہے، جہاں صرف وہ ہے اور اس کا ارباب۔

ارباب ایک خیمے میں رہتا ہے جہاں جانے کی نجیب کو اجازت نہیں ہے اور وہ سردی گرمی برسات میں کھلے آسمان کے نیچے ریت پر پڑا رہتا ہے۔ نہانے دھونے، غسل، رفع حاجت یا کسی صفائی کے لیے پانی میسر نہیں ہے۔ پانی ایک قیمتی چیز ہے جس کو ان بے کار کاموں پر صرف کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔ ارباب کے بے شمار مظالم، موسم اور محنت، مزدوری کی وجہ سے نجیب بہت جلد کمزور ہوجاتا ہے۔ وہ تین سال تک اسی حالت میں رہتا ہے۔ اسی طرح حکیم بھی اسی عالم میں اس سے ایک کلو میڑ کی دوری پر زندگی گزارتا رہتا ہے۔ نجیب اور حکیم موت کی دعائیں مانگتے ہیں، مگر انہیں موت نہیں آتی،بس زندگی ان پر ظلم کرتی رہتی ہے۔

حکیم کے جائے کار پر بہت عرصے بعد ایک اور ملازم ابراہیم خضری آتا ہے، جو ایک دیو قامت شخص ہے۔ وہ نجیب اور حکیم کو بتاتا ہے کہ وہ اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہے اور کسی روز انہیں یہاں سے بھگا لے جائے گا۔ حکیم اور نجیب یہ سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان میں زندگی کی امید پختہ ہو جاتی ہے۔ ایک روز جب تمام ارباب ایک شادی میں گئے ہوئے ہوتے ہیں، حکیم، نجیب اور ابراہیم خضری وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ یہاں سے داستان غم کا ایک دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔

صحرا میں بھاگتے بھاگتے ان کی حالت بہت بری ہو جاتی ہے، حکیم راستے ہی میں پاگل ہو کر مر جاتا ہے۔ نجیب کو اس کا بہت دکھ ہوتا ہے۔ نجیب اور ابراہیم خضری ایک ایسے مقام کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جہاں سے سڑک نزدیک ہے، لیکن ایک صبح جب نجیب کی آنکھ کھلتی ہے تو ابراہیم خضری غائب ہوتا ہے۔ وہ خضر کی صورت نجیب کو صحیح راہ پر لگا کر غائب ہو جاتا ہے۔ نجیب سڑک پر آکر بہت سی لاریاں اور ٹرک روکنے کی کوشش کرتا ہے، مگر اس کی حالت اتنی بھیانک اور بدبو دار ہے کہ کوئی گاڑی نہیں رکتی۔ ایک بہت شفاف گاڑی جس پرنجیب کو یقین بھی نہیں ہوتا کہ وہ رکے گی اس کے ہاتھ دکھانے پر رک جاتی ہے۔ وہ ایک امیر عربی کی گاڑی ہوتی ہے جو اسے شہر تک لا کر چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں سے وہ ایک ملیالی کے ہوٹل جس کا نام کنجیکا کا ہوٹل ہے وہاں اتفاق سے پہنچ جاتا ہے۔ کنجیکا کے ہوٹل کی سیڑیوں پر ہی وہ بے ہوش ہو جاتا ہے، جہاں سے کنجیکا کے ملازم اسے اٹھا کر ایک کمرے میں لاتے ہیں اور اسے نہلا دھلا کر اس کا علاج کرواتے ہیں۔ نجیب کو ہوش آتا ہے تو وہ اپنے قریب ملیالیوں کا ایک جمگٹھا دیکھتا ہے اور رونے لگتا ہے۔ کنجیکا اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے او ر اس کے غموں کی داستان پوچھتا ہے۔ نجیب اسے سب کچھ بتاتا ہے جس پر سب حیران ہو جاتے ہیں۔نجیب کنجیکا کے ہوٹل میں تین ماہ رہتا ہے اور یہیں سے اپنی بیوی سے فون پر بات کرتا ہے۔ وہاں یہ طے ہوتا ہے کہ نجیب خود کو پولس کے حوالے کر دے تاکہ پولس اسے بنا پاس پورٹ انہیں ان کے ملک بھیج دے۔ جیل کے واقعات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ کنجیکا میں اپنی طرح کے ایک دوسرے مظلوم شخص حمید سے اس کی ملاقات ہوتی ہے، جس کے ساتھ نجیب جیل جاتا ہے۔ سب سے آخری سین میں یہ سسپنس بھی کھل جاتا ہے کہ نجیب کا وہ ارباب جو اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر صحرا میں لے جاتا ہے وہ واقعتاً نجیب کا ارباب ہوتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس رات نجیب اور حکیم کو ایک عرب شخص اغوا کر لیتا ہے اور نجیب اور حکیم یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ اسی کام کہ لیے خلیجی ملک آئے تھے۔

اس ناول کو کیوں پڑھا جائے:

یہ ناول 43 حصوں پر مشتمل ہے، جس میں سے زیادہ تر حصے نجیب کی مسارے میں ملازمت اور ریگستان کے سفر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہی حصے کہانی کی جان ہیں۔ بن یامین کے بقول انہوں نے نجیب نامی ایک شخص سےملاقات کر کے یہ کہانی سنی تھی، جسے بنا کسی مبالغے انہوں نے من و عن بیان کر دی۔ ایک سچا واقعہ جس میں انسانی زندگی پر ہونے والے مظالم کی انتہا دکھائی گئی ہے۔ کہانی فلیش بیک تکنیک میں لکھی گئی ہے، جس سے پڑھنے والا مزید لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ بات کہانی کی شروعات میں ہی طے ہو جاتی ہے کہ جو شخص کہانی سنا رہا ہے وہ مرا نہیں ہے، لہذا وہ تمام مناظر جہاں مظالم کی انتہا دکھائی گئی ہے وہاں بھی پڑھنے والے کے ذہن میں یہ بات رہتی ہے کہ جس پر یہ سب کچھ گزر رہا ہے وہ اتنے قہر کے باوجود بھی جیتا رہا۔اس سے پڑھنے والے کو زندگی کے مشکل ایام میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے، ساتھ ہی انسان کی قوت برداشت کا علم ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص مشکل سے مشکل حالات میں یہ ٹھان لےکہ اسے زندگی سےلڑتے رہنا ہے اور شکست کا منہ نہیں دیکھنا تو قدرتی طور پر اس کے اندر چھپی ہوئی توانائی باہر آنے لگتی ہے اور وہ ایسے مشکل ترین حالات کا بھی سامنا کر لیتا ہے جس کے متعلق سوچ کر بھی ا س کی روح کانپ جائے۔
ناول میں بے شمار مقامات پر ہمیں اس کا درس ملتا ہے، مثلاً وہ منظر جب ارباب نجیب سے اس کے نئے کپڑے اتارنے کے لیے کہتا ہے اور اسے ایک نہایت بدبو دار چوغہ دیتا ہے جسے دیکھ کر نجیب کو قے آنے لگتی ہے، پھر بھی نجیب اسے پہنتا ہے، یا وہ منظر جس میں نجیب کا ہاتھ بکرے کی ٹکر سے ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی چھاتی پر بھی ورم آجاتا ہے اس کے باوجود ارباب اس سے بکری کا دودھ دوہنے کے لیے کہتا ہے اور نجیب بے انتہا تکلیف میں بھی اس کام کو کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ صحرا میں پانچ کلو میٹر تک بکھری ہوئی بکریوں کو جمع کرنے والا منظر، اپنے بیٹے نبیل کی طرح پالے ہوئے بکری کے بچے کی مردانگی کو قطع کرنے والا منظر، مسارے میں گھسےسانپ کو مارنے والا منظر، گرم ریت میں کوئے کے پر کے برابر سایہ ڈھونڈنے والا منظر اوروہ تمام مناظر جن میں نجیب پر اسی طرح کے کرب ناک مظالم ہوتے ہیں۔

ایسے کرب ناک حالات کو بیان کرنے والے ناول کے متن میں داخل ہونے والا قاری خود بہ خود نجیب کی طرح اپنے آپ کو حالات کا شکار ہوتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے اور جب وہ مسارے کی زندگی میں خود کو نجیب کی طرح بالکل پھنسا ہوا پاتا ہے تو اس کےا ندر ایک نئی نفسیاتی حالت جنم لینے لگتی ہے۔ جس حالت میں وہ کبھی خود کو خوش رکھنے کے لیے طرح طرح کی حرکتیں کرتا ہے، کبھی اپنے ماضی کے اہم کرداروں کو مصنوعی طور پر اپنے آس پاس زندہ کر لیتا ہے، کبھی خوشی کے حصول کے لیے جانوروں کی کسی حرکتیں کرنے لگتا ہے، کبھی غم کی انتہا کو خود سے چھپانے کے لیے اپنے ضمیر سے دروغ گوئی کرنے لگتا ہے۔

اس ناول میں انسان کی ذہنی حالت کے مختلف رویوں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان خواہ آبادی میں رہے یا ویرانے میں اس میں اگر زندہ رہنے کا حوصلہ ہے تو وہ مصیبتوں اور پریشانیوں کے باوجود اپنے ارد گرد ایک تماشا پیدا کرلیتا ہے۔ صحرا کی وہ کرب ناک زندگی جہاں نہ پانی ہے نہ کھانا، جہاں نہ انسان ہے نہ بھیڑ، بکریوں اور اونٹو ں کے علاوہ کوئی جانور۔ وہاں بھی نجیب خود کو کس طرح اپنے لوگوں میں شامل رکھتا ہے، وہ اپنے مسارے کی بکریوں اور بکروں میں اپنے محلے کے انسانوں کی صفات تلاش کر لیتا ہے اور انہیں ایک انسانی ہیولے میں ڈھال کر اپنے قریب ماضی کا میلا لگا لیتا ہے۔ وہ کسی کو میری میمونہ سمجھتا ہے تو کسی کو اراووتھر، کسی کو پوچا کری رامنی بنا دیتا ہے تو کسی کو پھراندی پوکر، اس کے نزدیک کوئی جاندوراگھون ہے تو کوئی پریپو وجیبا، کوئی نبیل ہے تو کوئی رافت کوئی کاسو ہے تو کوئی اور آمنی۔ان سب میں سب سے زیادہ پر لطف قصہ پوچا کری رامنی کا ہے، جس کے کردار کی اصلی جھلک دیکھ کر قاری تمام المیے سے باہر آجاتا ہے۔

بن یامین کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے ناول میں المیے اور طربیے ان دونوں صورتوں کو پوری طرح قائم رکھا ہے۔ بہت سے صحرائی واقعات ایسے ہیں جن میں حالات کی سفاکی کے باوجود غم کی لہر نہیں ہے بلکہ حیرانی کا سحر ہے۔مثلاً وہ منظر جس میں سانپوں کا ایک غول کا غول چلا آرہا ہے اور نجیب اور ابرہیم خضری ان سے بچنے کے لیے شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنا منہ دبا لیتے ہیں یا وہ مقام جہاں نجیب اڑتے ہوئے گرگٹوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ ایسے تمام مناظر میں ارباب کا پانی سے ڈرنے والا منظر ایسا ہے جس پر قاری بھونچکا رہ جاتا ہے۔ ارباب جو پورے ناول میں ظلم کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔ جو آخری درجے تک سفاک ہے، جسے سوائے ظلم کے کچھ نہیں آتا اور جو کسی جری مرد کی طرح پورے ناول میں طاقت کی مثال نظر آتا ہے وہ پانی سے وہ بھی بارش کے پانی سےڈر کر ایسا سکڑا پڑا ہے جیسے ہزاروں شیروں نے اسے گھیر لیا ہے۔ نجیب جو خود اس کے ظلم کا شکار ہے ارباب اس کی موجودگی پر اللہ کا شکر ادا کر رہا ہے اور پانی کی ایک ایک بوند سے ایسے ڈر رہا ہے جیسے آسمان سے شعلے برس رہے ہوں۔نجیب اس مقام پر جب یہ کہتا ہے کہ ارباب پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی نہیں نہایا تو ناول میں ایک نئی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے چھوٹے بڑےکئی مناظر ہیں جن سے کہانی میں مختلف حالتوں کا ظہور ہوتا ہے اور ایک مکمل المیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناول میں دیگر اجزائے تاثیر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

فلیش بیک تکنیک:

ایک خاص بات اس ناول کا فلیش بیک کی تکنیک میں ہونا بھی ہے،اس سے ناول کی ابتدا میں ایک تجسس کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ دو لوگ حمید اور نجیب عربی ملک میں کئی دنوں سے سڑکوں پر بھٹک رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح پولس گرفتار کر لے۔ اس کے لیے وہ کچھ کوششیں بھی کرتے ہیں، مگر ناکام رہتے ہیں۔ بہت مشکل سے انہیں جیل کی راہ ملتی ہے جس پر وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس فضا سے قاری کا ذہن ایک مخمسے میں پڑ جاتا ہے کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے جس کی وجہ سے کوئی جیل میں جانے کو اپنی منزل تک پہنچنا تصور کر رہا ہے۔ فلیش بیک کی وجہ سے بعض ایسی باتوں کی طرف بھی اشارہ کرنا ممکن ہوا جن کا ناول کی کہانی سے کوئی راست تعلق تو نہیں، مگر کہانی کے موثر ہونے سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ مثلاً پوچا کری رامنی کی کہانی۔

فلیش بیک تکنیک سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ کہانی کے بعض اہم کردارمثلاً حمید، حکیم، ارباب، ابرہیم خضری، سینو، بدنما بدبو دار شخص اور کنجیکا کی عادات و اطوار اور خصائل کی بہتر انداز میں وضاحت ہو گئی۔اسی طرح جیل کے حالات کا بیان بھی کامیابی سے ہو سکا۔ اگر یہ ناول فلیش بیک بیانیہ تکنیک میں نہ ہوتا تو غالباً اس کے تمام حصے جہاں قاری کو بوریت محسوس ہوتی ہے وہ بہت زیادہ بوجھل ہو جاتے اور ناول کا پھیلاو غیر ضروری معلوم ہونے لگتا۔

منظر نگاری:

منظر نگاری میں مصنف کو مہارت حاصل ہے۔ ناول میں بہت سے حصے ایسے ہیں جہاں مصنف نے اس ضمن میں کمال کیا ہے۔میں یہاں مثال کے طور پر ایک پیش کرتا ہوں:

“سینکڑوں عرب ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے۔ مرد اور عورتیں۔ میں نے اپنی توجہ ہٹانے کے لیے تصور کیا کہ میں قطب جنوبی پر ہوں اور میرے سامنے سیاہ و سفید پینگوئن پھر رہے ہیں۔ میں ملتجی نظروں سے ہر پینگوئن کی شکل (ان مادہ پینگوئنوں کی آنکھیں جن کی شکل نظر نہیں آرہی تھی) دیکھ رہا تھا۔ میں وہی نجیب ہوں جسے تم ڈھونڈ رہے ہو۔ میرے ساتھ یہ چھوٹا سا لڑکا وہی حکیم ہے جس کی تمھیں تلاش ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں اور درخواست گزار چال ڈھال کی مدد سے ہر ایک سے مواصلاتی تعلق قائم کیا۔ لیکن کوئی میری التجا پر مائل نہیں ہوا۔ ہو کوئی دور جاتے ہوئے اپنی مصروف زندگی میں گم ہو رہا تھا۔”(حصہ نمبر 6)

جذبات نگاری:

ناول میں جذبات نگاری کو بھی متاثر کن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے ہر اس مقام پر قاری کی آنکھیں نم کر دی ہیں جہاں ذرا بھی جذباتی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ بعض مواقع تو ایسے ہیں کہ پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور حلق میں الفاظ پھنسنے لگتے ہیں۔ مثلاً وہ مقام جہاں نجیب خیالی انداز میں سینو کو خط لکھ رہا ہے یا وہ موقع جہاں سینو،اکایعنی نجیب کو لائق گزارہ کما کر واپس لوٹ آنے کی تلقین کر رہی ہے۔اسی طرح حکیم کی ماں کا نجیب سے التجا کرنے والا منظر اور نجیب کا سینو سےتین برس چار ماہ بعد فون پر بات کرنے والا منظر۔یہ تمام مناظر جذباتیت سے بھرے ہوئے ہیں۔

مزاح نگاری:

ناول کے بعض مقامات پر مزاح بھی پیدا کیا گیا ہے، جس سے ناول کی بوجھل فضا میں لطف پیدا ہو جاتا ہے۔ایسے مناظر میں پوچا کری رامنی کا قصہ سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ مسارے کا ایک منظر جو بظاہر المیہ ہے مگر یامین کے بیانیہ نے اسے طربیہ بنا دیا ہے۔ملاحظہ کیجیے:

“میں آہستگی سے جھکتے ہوئے ایک بکری کے پیچھے بڑھا،برتن قریب کیا اور تھن کو کھینچا۔ دودھ تو خیر کیا نکلنا تھا، بکری کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ چھلانگ مار کر برتن اور مجھے لات مارتی ہوئی ریوڈ سے دور بھاگ گئی۔ اسے پاگلوں کی طرح بھاگتے دیکھ کردوسری بکریوں میں بھی افراتفری پھیل گئی۔ ایک تو میری کمر کو روندتی ہوئی نکل گئی۔ میں درد سے جھنجھلا اٹھا۔ کسی نہ کسی طرح سنبھلتے ہوئے ایک اور ایسی بکر ی کے پیچھے بڑھا جو اب دوڑتے دوڑتے رک چکی تھی۔ چوچیوں کو ہاتھ لگانا تھا کہ وہ بھی بھڑک کر دوسری طرف چھلانگ مار گئی۔ ایک اور سے دودھ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی بھاگ گئی۔ میں نے سوچا، یا میرے مالک! بھاگتی ہوئی بکری سے دودھ کیسے نکالا جاسکتا ہے؟ میں حیران و پریشان تھا۔”(حصہ نمبر ق13)

کردار نگاری:

ناول میں کردار نگاری پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ کہانی خواہ حقیقت پر مبنی ہو یا افسانہ ہو اس میں کردار نگاری کا سب اہم رول ہوتا ہے۔ بن یامین نے ناول کے کرداروں میں اپنے بیانیے سے جان ڈال دی ہے۔ناول کے کرداروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سب کے سب مختلف رویوں کا شکار ہیں۔ جس طرح عام زندگی میں ہم کسی بھی ایک معاملے میں کمزوراور ایک میں مضبوط ہو تے ہیں اسی طرح ناول کے کرداروں کا بھی معاملہ ہے۔ بنیادی کرداروں میں نجیب اور ارباب اس طرح کی صفات سے مزین نظر آتے ہیں۔ جو اپنے فیصلوں میں مضبوط بھی ہیں اور کمزور بھی۔ ڈرتے بھی ہیں اور ڈراتے بھی ہیں۔ خود سے جھوٹ بھی بولتے ہیں اور سچے بھی ہیں۔ لالچی بھی ہیں اور رحم دل بھی۔ منافق بھی ہیں اور ایمان دار بھی۔ الگ الگ مواقع پر ان کی الگ الگ صفات ابھر کر سامنے آتی ہیں۔اس ناول میں نجیب ایک سیدھا، سچا اور مظلوم کردار ہے، لیکن اسی کے ساتھ اس کے ظلم، حسد اور کمینے پن کی واضح تصاویر بھی ناول میں موجودہیں۔ مثلاً ایک موقع پر جب اسے لگتا ہے کہ حکیم اور ابراہیم خضری اسے چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو وہ کس طرح کا رد عمل ظاہر کرتا ہے:

“میں حسد کے مارے سکڑ کر رہ گیا۔ دل میں ساری دنیا کے لیے نفرت اور عداوت کی آگ سلگنے لگی۔ میں نے اپنی ساری کڑواہٹ مسارے میں موجود بکریوں پر نکالی، یعنی نو مولود بکریوں کے خصیے دبانا، اپنی چھڑی دودھ دینے والی بکریوں کے تھنوں پر مارنا اور بھیڑوں کے پچھواڑے میں لکڑیاں گھسیڑنا۔”(حصہ نمبر 29)

حکیم ایک لڑکا ہے اس لیے اسے بہت کمزور اور جذباتی دکھایا گیا ہے، ساتھ ہی وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مضبوط بھی ہے۔ مثلاًجب ابراہیم خضری اسے مسارے سے بھگا لے جانے کی بات کرتا ہے تو اس میں توانائی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ پر مسرت نظر آنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے کردار میں ہمیں قوت کی ایک لہر دوڑتی نظر آتی ہے۔

ناول کا ایک متاثر کن کردار ابراہیم خضری بھی ہے۔ یہ خضر کی طرح دو مظلوموں کی مدد کے لیے اچانک کہانی میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنے مقصد کو پورا کر کے اسی طلسماتی طریقے سے غائب ہو جاتا ہے۔ ابراہیم خضری کا کردار الف لیلوی کردار ہے جس کے واقعات سے ناول میں داستانی رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً اس کا جانوروں، درختوں، پودوں، صحراوں اور وادیوں کی خصوصیات سے آگاہ ہونا۔ حالات کی نزاکت کو جاننا اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینی کی صلاحیت کا پایا جانا اس کے کردار کو ایک معمہ بنا دیتے ہیں۔ وہ ایک مکمل راہ نما ہے جو نجیب اور حکیم کی مدد کے لیے آسمانی مخلوق بن کر آتا ہے۔

کنجیکا اور حمید کے کردار ذرا کمزور ہیں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کہانی میں زیادہ عمل دخل نہیں۔
سینو ایک جذباتی عورت ہے جو بہت مختصر وقفے کے لیے ناول کاحصہ بنتی ہے، مگر اس سے عورت کی وفا شعاری کادرس ملتا ہے۔
ان کے علاوہ ایک عربی جو نجیب کو شہر تک لا کر چھوڑتا ہے وہ انسانیت کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔ حالاں کہ ایسا عام زندگی میں نہیں ہوتا کہ کوئی امیر ترین شخص کسی نہایت بھیانک اور بدبودار انجان شخص کو اپنی چمچماتی گاڑی میں بٹھائے،لیکن پھر بھی استثنائی صورت میں ایسے لوگ کبھی کبھی ٹکرا جاتے ہیں۔ اس کردار کی ناول میں کیا اہمیت ہے اس کےلیے صرف مصنف کے یہ جملے ہی کافی ہے کہ:

“میں کیسے اس عظیم آدمی کا شکریہ ادا کر سکتا تھاجس نےمجھے اتنی دیر برداشت کیا۔ اس کے احسان کی قیمت میں بس ایک قطرہ اشک کے ذریعے ہی چکا سکا۔ اس نے کچھ بھی نہ پوچھا۔ ایک لفظ بھی نہ کہا۔میں گاڑی سے نکلا اور دروازہ بند کردیا۔ مجھے شہر کے بیچوں بیچ چھوڑ کر عرب نے اپنی راہ لی۔ میں کافی دیر روتا رہا۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ خدا پر تعیش گاڑیوں میں بھی سفر کرتا ہے۔”(حصہ نمبر 40)

جمالیات:
ناول میں بعض مقامات پر جمالیات کا بھی بھر پور اظہار ملتا ہے۔ ایسے موقعوں پر بن یامین کی ناول نگاری اور جمالیاتی حس کی طرف ذہن مبذول ہوجاتا ہے اور نجیب کی کہانی ذہن سےیکسر غائب ہو جاتی ہے۔ مثلاً اونٹ کی شبیہ کا یہ بیان دیکھیے:

” اونٹ میرے قریب آئے تو میں حیرانی سے انہیں دیکھنے لگا۔یوں لگتا تھا جیسے ان کی بھاری پلکیں صحرا کی شدت کا کامل استعارہ ہوں۔پھیلتے سکڑتے مچھلی کے گلپھڑوں جیسے نتھنے۔کشادہ کھلا منھ،مضبوط گردن،گھوڑے کی ایال جیسے کھردرے بال،کان سینگوں کی طرح کھڑے ہوئے۔ان کی الگ تھلگ سی بے تعلقی میرے لئے سب سے زیادہ کشش اور دہشت کا باعث تھی۔”(حصہ نمبر 11 )

جنسیت

جنسیت انسانی زندگی کا ایک لازمی جز ہے، مگر اس ناول میں اس کی جھلکیوں کے پائے جانے کی امید کم تھی۔اولاً تو نجیب کے حالات اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے اور پھر اس ناول کا یہ موضوع نہیں کہ اس میں جنسیت کا ذکر کہیں تلاش کیا جائے۔ رہی سہی کسر اس منظر میں پوری ہو جاتی ہے جہاں نجیب خود اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کےبیٹے نیبل کی مانند جس بکری کے بچے کو خصی کیا گیا،تو اس واقعے سے خود اس کی مردانگی بھی بکری کے بچے کے ساتھ سلب ہو گئی۔ اس کے باوجود ایک مقام پر نجیب اس جذبے کو ابھرنے سے نہیں روک پاتا، وہ منظر اتناحیران کن ہے کہ قاری اسے پڑھ کر کچھ دیر کے لیے ساکت ہوجاتا ہے۔یہ اقتباس دیکھئے:

“ان دنوں جب میرے ساتھ بس بکریاں ہی تھیں، ایک واقعہ ایسا ہواکہ میں نے نہ صرف اپنے غم و الم بلکہ اپنا جسم بھی ان کے ساتھ بانٹا۔ ایک رات لیٹا تو نیند آنکھوں سے کوسو دور تھی۔ نہ جانے کیوں پورا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ ایک عجیب سی شدت طلب تھی، بدن میں ریگستانی بگولےسے چل رہے تھے۔ کافی عرصے سے میں خود کو نامرد ہی سمجھ رہا تھا۔ گمان نہیں تھا کہ کبھی دوبارہ جنسی طور پر فعال ہو سکوں گا۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ اندر پڑی کوئی ساکت اور جامد خواہش کسمسانے لگی۔ اسے دبانے کی تمام کوششیں بد ستور اس کے بھڑکنے کا سبب بن رہی تھیں۔ پردہ چشم کے سامنے کچھ برہنہ شبیہیں ظاہر ہو کر ورغلانے لگیں۔ میں جذبے کی حدت سے پگھل رہا تھا۔ کسی جسم کی قربت کی خواہش تھی۔ کسی غار میں پناہ درکار تھی۔ میں پاگل ہو رہا تھا۔ اسی غلبہ دیوانگی میں باہر بھاگا۔ صبح جب تھکی تھکی آنکھیں کھلیں تو میں مسارے میں تھا۔ پوچا کری رامنی(بکری) میرے قریب ہی نیم دراز تھی۔”(حصہ نمبر26)

فلسفہ

ناول میں مصنف نے بہت سے مقامات پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے۔ چونکہ ناول بیانیے کی تکنیک میں ہے اس لیے مصنف کا فلسفہ گاہے بہ گاہے نظر آتا رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حالت پر اپنی رائے کا اظہار کر کے انسانی نفسیات اور اس کی صفات کے متعلق فلسفہ پیش کرتا ہے۔ کچھ مقامات پر قدیم فلسفوں کا اظہار کرتا ہے اور کچھ دقیانوسی باتوں کو فلسفے کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ مذہبی فلسفہ ناول میں بیش تر مقامات پر نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نجیب جس کی کہانی ہے اس کے خیالات سے مصنف کے خیالات کہیں کہیں متصادم ہوتے ہیں، مگر ان میں بہت زیادہ اختلاف کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح مصنف بیانیہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے تکلفانہ انداز میں بعض جگہ اپنی بات کہہ جاتا ہے جہاں مصنف اور نجیب ان دونوں کے مختلف شخصیات واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلاًیہ جملے کہ:

• نامعلوم دنیاوں کے خواب کسی کو راس نہیں آتے، دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ جب خواب حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں تو اکثر نا قابل برداشت ہو جاتے ہیں۔(حصہ نمبر18)
• سچ اس خط میں نہیں بلکہ میری آنکھوں میں تھا۔ سچ کون پڑھ سکتا ہے۔(حصہ نمبر 19)
• اس دن مجھے معلوم ہو ا کہ خدا پر تعیش کاروں میں بھی سفر کرتا ہے۔(حصہ نمبر 40)

مذہبی جذبات:

نجیب ایک کٹر مسلمان ہے، جسے اللہ کی ذات پر بہت زیادہ بھروسا ہے۔ وہ جتنے مشکل حالات میں زندگی گزارتا ہے اس کا ایمان اتنا ہی مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ ناول میں اللہ کو پکارنے اور اس کی مدد چاہنے کے بے شمار مناظر ہیں۔ اس کی حمد و ثنا کے مناظر بھی ہیں، ساتھ ہی ساتھ بعض مواقع پر نجیب اللہ کو برا بھلا بھی کہتا ہے۔لیکن اس کا انکار نہیں کرتا اور اپنے مذہبی جذبات کو اپنے مشکل حالات کا سامنا کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتا ہے۔

غیر مانوس الفاظ:

ناول میں بہت سے الفاظ قاری کے لیے غیر مانوس ہیں۔ ان میں بعض عربی بعض ملیالی اور بعض اردو کے ثقیل الفاظ ہیں۔ ایسے الفاظ میں سے زیادہ تر الفاظ کے معنی ناول میں کہیں نہ کہیں معلوم ہوجاتے ہیں، کچھ کے معنی خود مصنف نے بتا دیئے ہیں اور کچھ سیاق سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ پھر بھی یہ ایک عام قاری کے لیے نئے ہیں۔ مثلاً:

بطاقہ،مطوع،عقال،کاروتا،ساسی،اپیری،چمنتی پوری،موپلوں،ارباب،چچڑ مکھی،ماہ مکارم،چڑی مڑی، ثوب، شیلادی، مسارا، سمانے،شف،ماعن،حوائج،قلما،خنز،کاڈی،شڑپ،ساوا،مونجی،غنم،حلیب،تبن،برسی،یلا،تناقضات اورگوہ۔

زبان اور چھپائی کی اغلاط:

بہت سے مقامات پر چھپائی کی غلطی سے کچھ حرف چھوٹ گئے ہیں اور کہیں کہیں جملہ ہی غلط ہے۔ ایسے الفاظ اور جملوں کی مثالیں مندجہ ذیل ہیں:
• کوئی مجھے تلاش کرنے نہیں آیا۔ شایہ یہ مسلسل تکرار کا نتیجہ تھا۔(غلطی: شایہ کی جگہ شاید ہوگا/حصہ نمبر 3)
• مہمان نوازی کے انعام کے طور پر میں نے ساسی کو وہ اپنی وہ گھڑی اتار کر دے دی۔(وہ۔ دو مرتبہ ہے/حصہ نمبر 5)
• اب آنتیں قل ہو اللہ احد پڑھ رہی تھیں۔(اس میں صرف قل ہو اللہ آئے گا احد اضافی ہے/ حصہ نمبر 7)
• اپنے ذہن میں اسے گالیاں نکال رہا تھا۔(غیر فصیح ہے۔ گالی دینا، بکنا،داغنا، سنانااور ٹکانا محاورہ ہے۔ نکالنا نہیں/حصہ نمبر 18)
• چہرہ صاف کیا اور ہم دونوں سے اسے زبر دستی بٹھا دیا۔(سے کی جگہ نے ہوگا/حصہ نمبر 35)
• آخر کار جب کافی پانی چکا تو تھک کر زمین پر گر پڑا۔(پی۔ چھوٹ گیا ہے/حصہ نمبر 37)

فن ترجمہ نگاری:

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم بخشی نے بکر بیتی کا نہایت آسان زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کی زبان شستہ اور معیاری ہے۔ وہ الفاظ اور جملوں کو اس طرح سجا بنا کر بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو تر جمے کے اصل متن ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔مختلف مقامات پر ان کی فن ترجمہ نگاری کے جوہر کھلتے ہیں۔مثلاً کچھ مناظر ایسے ہیں کہ اگر میں ان کا اردو سے ہندی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کروں گا تو مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ عاصم بخش زیادہ تر مواقع پر ناول کے متن کو اردو کاحقیقی متن بنا کر اسے یوں تحریر کرتے ہیں کہ وہ دوزبانوں میں ایک معنی رکھنے والے دو متن بن جاتے ہیں۔ ان کی زبان شناسی کی یہ خاصیت ہے کہ کسی مطلب کی ادائیگی کے لیے ان کے پاس بے شمار الفاظ ہیں، اسی لیے کسی بھی حالت کو بار بار ایک ہی لفظ کے ذریعے ظاہر نہیں کرتے۔ الفاظ کا بر محل استعمال کرتے ہیں جس سے روانی پہ حرف نہیں آتا۔ مطلب کی ادائیگی کے لیے قریب الفہم لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر انہوں نے ماہ مکارم جیسے ثقیل الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے، لیکن ایسے مقامات بہت کم ہیں۔ ملیالی زبان کے ان الفاظ کا تلفظ جو اس ناول میں استعمال ہوئے ہیں کتنا درست ہے میں اس سے ناواقف ہوں، لیکن ایک جگہ جہاں لفظ کاڈی کا استعمال ہوا ہے وہاں مجھے کچھ احتمال ہوا کہ غالباً یہ لفظ کڑھی ہے۔ کیوں کہ یہ بھی ایک مشروب ہے اور مصنف نے بھی کسی مشروب کے لیے ہی یہ لفظ استعمال کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *