[blockquote style=”3″]

2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو بھوپال میں دنیا کی تاریخ کا ہولناک ترین صنعتی حادثہ پیش آیا۔ کیڑےمار کیمیائی مادّے تیار کرنے والی یونین کاربائیڈ کمپنی کے پلانٹ سے لیک ہونے والی میتھائل آئسوسائنیٹ (MIC) نامی زہریلی گیس نے کم سے کم 3,787 افراد کو ہلاک اور اس سے کئی گنا بڑی تعداد میں لوگوں کو اندھا اور عمربھر کے لیے بیمار کر دیا۔ اس حادثے سے ڈھائی سال پہلے یہ گیس تھوڑی مقدار میں لیک ہوئی تھی جس میں دو افراد ہلاک ہوے تھے۔ راجکمار کیسوانی نے تب ہی تحقیق کر کے پتا لگایا کہ مذکورہ گیس نہایت زہریلی اور کمیت کے اعتبار سے ہوا سے بھاری ہے، اور کارخانے کے ناقص حفاظتی نظام کے پیش نظر اگر کبھی یہ گیس بڑی مقدار میں لیک ہوئی تو پورا بھوپال شہر بہت بڑی ابتلا کا شکار ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی اخباری رپورٹوں میں متواتر اس طرف توجہ دلانا جاری رکھا لیکن کمپنی کی سنگدلی اور حکام کی بےحسی کے نتیجے میں یہ بھیانک سانحہ ہو کر رہا۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی طبی، قانونی اور انسانی امداد کے کام میں بھی کیسوانی نے سرگرم حصہ لیا جسے کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ اور دستاویزی فلموں میں بھی سراہا گیا۔ 1998 سے 2003 تک راجکمار کیسوانی این ڈی ٹی وی کے مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ بیورو کے سربراہ رہے اور 2003 کے بعد سے دینِک (روزنامہ) بھاسکر سے متعلق رہے۔ اب وہ اس اخبار میں ایک نہایت مقبول کالم لکھتے ہیں۔ انھیں بھارت کے سب سے بڑے صحافتی اعزاز بی ڈی گوئنکا ایوارڈ سمیت بہت سے اعزاز مل چکے ہیں۔
راجکمار کیسوانی ہندی کے ممتاز ادبی رسالے ’’پہل‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں جو ہندی کے معروف ادیب گیان رنجن کی ادارت میں پچھلے چالیس برس سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ 2006 میں کیسوانی کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’باقی بچے جو‘‘ اور اس کے اگلے سال دوسرا مجموعہ ’’ساتواں دروازہ‘‘ شائع ہوے۔ انھوں نے ’’جہانِ رومی‘‘ کے عنوان سے رومی کی منتخب شاعری کا ہندی ترجمہ بھی کیا ہے۔ کئی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ’’باجے والی گلی‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ’’پہل‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
اس ناول کو اردو میں مصنف کی اجازت سے ’’لالٹین‘‘ پر ہفتہ وار قسطوں میں پیش کیا جائے گا۔ اس کا اردو روپ تیار کرنے کےعمل کو ترجمہ کہنا میرے لیے دشوار ہے، اس لیے کہ کہیں کہیں اکّادکّا لفظ بدلنے کے سوا اسے اردو رسم الخط میں جوں کا توں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اسے ہندی میں پڑھنے والوں میں سے بعض نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ دراصل ناگری رسم الخط میں اردو ہی کی تحریر ہے۔
تعارف اور پیشکش: اجمل کمال
[/blockquote]
وقت اپنی پوری رفتار سے گزرتا جا رہا تھا، پر نہیں گزر رہا تھا تو سیاسی اُتھل پُتھل اور افرا تفری کا وہ دور جس کا آغاز بٹوارے کے اعلان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ہندو آبادی کے پلائن کی وجہ سے وہاں کا سارا نظام چِھن بِھن ہونے لگا تھا۔ روزمرہ کی ضرورت کی کئی چیزوں تک کی قلت ہونے لگی تھی۔ دکانوں پر تالے لگے تھے جن کی چابیاں اور اپنی جان بچا کر ہندو بیوپاری بھاگ نکلے تھے۔ دھیرے دھیرے ان دکانوں کے تالے ایک کے بعد ایک ٹوٹتے چلے گئے۔ کچھ دکانوں کا مال لُٹ گیا تو کچھ پر وہاں پہنچے مہاجروں نے قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ لیکن چار دن بعد مشکل اسی شکل میں سامنے آ کھڑی ہو جاتی که خالی ہوتی دکانوں میں بھرنے کے لیے نئی سپلائی کا بندوبست نہ تھا۔
اُدھر سڑکوں پر جھاڑو لگانے اور گھروں کے پاخانے صاف کرنے والے صفائی کرمچاری بھی ندارد تھے۔ نتیجے میں گھروں اور سڑکوں پر گندگی اور بدبو کا عالم پھیلنے لگا تھا۔ ایک پاک اور جنّت نشاں ملک کی آس میں اپنا شہر، اپنا گھربار چھوڑ کر پہنچے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے وہاں پھیلی بدحالی کا یہ عالم کسی صدمے سے کم نہ تھا۔ اور جو اتنا کافی نہ تھا تو وہاں کے مقامی مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے رویے نے ان کا دل توڑ دیا۔
حالات ہندوستان میں بھی بہت بہتر نہ تھے۔ ایک صاف ستھری آبادکاری کی پالیسی کے برعکس تمام سرکاری کوششیں لچر ثابت ہو رہی تھیں۔ خاص کر دہلی میں سارا بندوبست چرمرانے لگا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسے نیتاؤں کی تمام کوششوں کے باوجود مار کاٹ، خون خرابے جیسی باتیں روز کا معمول سی بننے لگی تھیں۔ اور جو کوئی کسر باقی تھی تو جب تب پھیلتی بھڑکاؤ افواہوں سے پوری ہوتی جاتی تھی۔ ان افواہوں کو پختگی دینے میں دونوں ملکوں کے اخبار پوری طرح آمادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد کا کام دونوں طرف کی سیاسی جماعتوں نے مانو اپنے ذمے لے لیا تھا۔ ان مشکل سے مشکل تر ہوتے حالات کے لیے دونوں ملک، ہندوستان اور پاکستان، ایک دوسرے کو ذمےدار بتاتے ہوے، کھلم کھلا ایک دوسرے پر فوجی حملے کی باتیں کرنے لگے تھے۔
ہندو مہاسبھا کے سربراہ این بی کھرے جیسے نیتاؤں کے لیے تو پَوبارہ والے حالات بن گئے تھے۔ پاکستان پر حملہ کر کے اسے پھر سے ہندوستان کا حصہ بنا کر ’’اکھنڈ بھارت‘‘ قائم کرنے جیسی تقریریں آئے دن کی بات ہو گئی۔ ’’ایک دھکا اور دو/ پاکستان کو توڑ دو‘‘ جیسے نعروں کی گونج دھیرے دھیرے پورے دیش میں سنائی دینے لگی تھی۔ اُدھر پاکستان میں بھی مسلم لیگ اسی طرح کا ماحول بنائے ہوے تھی۔ آئے دن انگریزی اخباروں میں چھپنے والے فوٹوؤں اور خبروں سے معلوم ہو رہا تھا که وہاں مسلم لیگ کے رہبران بھی جنگ کا ماحول بنانے میں جٹے ہوے ہیں۔ جلسوں میں گونجنے والا نعرہ ’’ہنس کے لیا ہے پاکستان / لڑ کر لیں گے ہندوستان‘‘ ملک بھر کی دیواروں پر اتر آیا تھا۔ اسی ماحول کا فائدہ اٹھاکر این بی کھرے نے تو باقاعدہ یو این او میں پٹیشن بھی لگا دی تھی، جس میں انھوں نے پاکستان کو غیرقانونی طور پر قائم ہوا دیش بتاتے ہوے اس کی منظوری منسوخ کرنے کی اپیل کی تھی۔ عدالت میں پردھان منتری جواہر لال نہرو، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کچھ اور لوگوں کو وادی بنا کر تقسیم پر ریفرنڈم کی مانگ کی اپیل بھی کر دی تھی۔ ان کا الزام تھا که ”کچھ لوگوں نے کسی قانونی اختیار کے بغیر سازش کر کے دیش کے شہریوں کی رضامندی کے بنا بٹوارے کا فیصلہ لیا ہے، جس کا احتیار انھیں تھا ہی نہیں۔
کراچی اور دہلی کے بیچ چھڑی اس سیاسی جنگ کی آنچ سے بھوپال بھی پوری طرح بَری نہ تھا۔ حالانکہ یہاں بقایا ملک کے مقابلے میں حالات کافی بہتر تھے، پھر بھی غم اور غصے کی آنچ پوری طرح بجھی نہ تھی۔
اسی ماحول میں دادا نے ایک طرف رفیوجی پنچائت کی ذمےداری اور دوسری طرف ہندو مہاسبھا کی راج نیتی میں شامل ہوکر اپنی مصروفیت کو بےطرح بڑھا لیا تھا۔ نئی نئی شروع ہوئی وکالت کے لیے وقت نکالنا بھی مشکل ہو چکا تھا۔ نتیجے میں گھر کی مالی حالت بری طرح ڈانواڈول ہو رہی تھی۔ اسی بات کو لے کر گھر میں روز قلح مچتی۔ حالات کو قابو میں رکھنے کو دن رات کھٹتی ماں دادا کے زبانی حملوں اور تہمت طرازی کے نشانے پر رہتی۔
دادا اپنی گھریلو ذمےداریوں سے بھلے ہی بھاگ رہے ہوں لیکن سماجی ذمےداریوں کو نبھانے کے لیے انھوں نے خود کو پوری طرح کھپا رکھا تھا۔ اسی وجہ سے ان سے ملنے اور اپنے دکھ درد اور داد فریاد سنا کر مدد مانگنے والوں کی تعداد بھی لگاتار بڑھنے لگی تھی۔ صبح سویرے ہی حویلی کے بند دروازے پر سانکل کی چوٹ سے اٹھنے والی آواز باربار حویلی میں رہنے والوں کے معمول کے جیون میں خلل پیدا کرنے لگی تھی۔ اس دروازے سے ہی سٹا ہوا سب سے پہلا گھر داداجی کا تھا۔ اکثر وہی یا پھر چاچا، جو داداجی کے ساتھ ہی اوپر بنی برساتی میں رہتے تھے، جا کر دروازہ کھول دیتے تھے۔ بعض مرتبہ یوں بھی ہوتا که حویلی کا کوئی دوسرا باشندہ جا کر دروازہ کھولتا اور آنے والے کے منھ سے دادا کا نام سن کر نراشا بھری آواز میں اس کی خبر ہمیں دے جاتا۔ دھیرے دھیرے ان سارے لوگوں نے یہ مان کر که دروازہ بجانے والا دادا کے لیے ہی آیا ہو گا، دروازہ کھولنا چھوڑ دیا۔ سواے داداجی کے کوئی بھی دروازہ کھولنے نہ جاتا۔ اس بدلاؤ کے نتیجے میں کئی بار دروازے کا سانکل دیر تک پِٹتا رہتا اور ہر بار اس کی آواز آروہی سے اوروہی کی اور چڑھتی چلی جاتی۔ جب دروازہ کھلتا تو یوں بھی ہو جاتا که آیا ہوا انسان حویلی کے کسی اور گھر کا مہمان نکلتا۔ ایسے میں ان کی بات چیت اس اُلاہنے کے ساتھ شروع ہوتی: ”کلاک کھوں در پیا کھڑکایوں! گھر میں سب سمھیا پیا ہیو چھا؟’’ (ایک گھنٹے سے دروازہ پیٹ رہا ہوں۔ گھر میں سب سو رہے تھے کیا؟)
آئے دن بنتی اس حالت سے تنگ آ کر سب نے ایک اجتماعی فیصلہ لے لیا که دن کے وقت دروازہ کھلا رکھا جائے۔ یہ فیصلہ سہولت کے ساتھ ہی ساتھ حویلی کے سندھی اور گلی کے مسلم پریواروں کے بیچ ایک دوسرے کے لیے دھیرے دھیرے بڑھتی آپسی سمجھ اور بھروسے کی علامت بھی تھا۔ دھیرے دھیرے بدلتے اس رشتے پر گھر میں جب بھی بات نکلتی تو ماں کہتی، ’’امیری میں ہوڑ اور غریبی میں جوڑ۔۔۔ لالہ یاد رکھنا، غریبی کا رشتہ آستے آستے بنتا ہے۔ مگر بن جائے تو سب سے مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔‘‘
گلی کے دو چار گھروں کو چھوڑ کر باقی ہر گھر سے ایک دم صبح سویرے لگ بھگ ایک ہی وقت ادھ کھلی آنکھیں اور بند مٹھی میں اکنی یا دونّی کے سکے لیے گھروں سے لوگ باہر نکلتے تو ایک دوسرے کا سامنا ہو ہی جاتا۔ ان سب کی راہ ایک ہی ہوتی: برجیسیہ مسجد کے نزدیک مشّو میاں اور پوکرداس کی پرچون کی دکانیں اور توس والی بیکری۔ روز روز ایک راہ چلتے، ایک دوسرے کو دیکھنے کی عادت سی پڑ گئی تو دھیرے دھیرے مسکراہٹ کی ادلابدلی کرنا بھی سیکھ گئے تھے۔ ساتھ ساتھ دکان کی طرف چلتے ہوے جب دکان پر پہنچ کر ان سب کی مٹھیاں کھلتیں تو سکّے بھی اکثر ایک ہی وزن کے نکلتے۔ اسی طرح آوازیں بھی ملتی جلتی سی ہی ہوتیں: ”چھوٹی پُڑیا، طوطا چھاپ اور ایک چھٹانک شکر۔‘‘ کسی کسی آواز میں یہ مانگ ایک آدھا پاؤ شکر اور دو پڑیاں بھی ہوتی، لیکن بروک بانڈ کی طوطا چھاپ چائے پتی کی مانگ لگ بھگ یکساں ہوتی تھی۔ لپٹن کی روبی ڈسٹ کی مانگ بھی سنائی دیتی، مگر ذرا کم۔
بدّو میاں اس چائے کے چسکے میں ڈوب رہے لوگوں سے بےحد خفا رہتے تھے۔ وہ بتاتے تھے که یہاں پہلے دودھ مکھن کا ہی چلن تھا۔ اسی وجہ سے سارا شہر اکھاڑوں اور پہلوانوں سے بھرا پڑا تھا۔ بعد کو انگریزوں نے اپنی کمپنیوں کے منافعے کے لیے یہ ’’گندی‘‘ عادت ڈالی۔ ’’’شہر کے سارے ہاٹ بازاروں میں یہ لوگ ٹیبلیں لگا لگا کر مفت میں چا پلاتے تھے۔ آوازیں لگا لگا کے بلاتے، منتیں کر کر کے کیتے، چا پی لو میاں، چا پی لو۔ حرام کے جنے بُری تراں جھوم جاتے اور تب تلک پیچھا نی چھوڑتے جب تلک آپ چا پی نہ لو۔ سالے نہ جانے کاں کاں سے سات سات فٹے لوگ پکڑ لاتے که لوگ ان کو دیکھنے کھڑے ہو جائیں۔ آپ کھڑے ہوے نئیں که وِن نے فوراً آپ کو چا پلائی نئیں۔ ایسے ہی ایک بڑا لمب تڑنگ جوان آیا تھا جو جتّا لمبا تھا وِتنا ای چوڑا۔ اس کے پیچھے بچوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ وہ بھی باقی سب کی تراں غائب ہو گیا۔ اور بعد کو دیکھو تو سالا فلموں میں دِکھنے لگا۔ تبھی پتا چلا که اس کا نام شیخ مختار تھا۔ قسم خدا کی، اس کی فلم دیکھنے سارا شیر پونچ جاتا تھا ٹاکیز میں۔ وہ پردے پہ آتا تو آوازیں لگتیں: چائے گریم، چائے! اور پھر ٹھہاکے لگتے۔ پردے پہ تو وہ دس دس کو اکیلا پچھیٹ پچھیٹ کے مارتا ہے۔ اب تو اتّی ہل گداگد نئیں ہوتی جتّی پیلے ہوتی تھی۔ پیلے اس سالے نے چا کی عادت ڈالی، بعد کو فلم کی۔‘‘
بدّو میاں کی بات میں دم تھا۔ سچ مچ شہر بھر میں چائے کے اشتہار ہی سب سے زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ مشو میاں کی دکان پرانی اور ذرا چھوٹی تھی جبکہ پوکرداس کی دکان اس سے کچھ بڑی۔ چھوٹی دکان پر بروک بانڈ چائے کا اینامل پینٹ والا ٹین کا چھوٹا سا بورڈ لگا تھا تو اس نئی دکان نے بروک بانڈ، لپٹن اور اصفہانی چائے کی تختیاں ٹانگ رکھی تھیں۔ ایک تختی پر لکھا ہوتا: ’’اچھی چائے جب / دل خوش میرا تب‘‘۔ بروک بانڈ والے ٹین کے پترے پر ماں بچہ چھاپ چائے، جسے کچھ لوگ عورت چھاپ چائے بھی کہتے تھے، کا اشتہار ہوتا جس پر چائے کا ایک بڑا سا پُڑا ہاتھوں میں تھامے ایک ناچتے گاتے پریوار کی تصویر ہوتی۔ اس کے نیچے انگریزی، ہندی اور اردو میں لکھا ہوتا: ’’بروک بانڈ چائے – کورا ڈسٹ۔ سب کی دلچسپی کا مرکز۔‘‘
دوسرا اشتہار زیادہ صاف ستھرا اور سیدھی بات کرتا تھا: ’’کڑک اور بڑھیا چائے کی زیادہ پیالیاں – بروک بانڈ اے ون ڈسٹ ٹی۔‘‘ اس پر طوطے کی پیٹھ پر لدا ایک طوطا چھاپ چائے کے پیکیٹ کا چتر ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے که ان دونوں بڑے پیکٹوں کے خریدار اس دکان پر کبھی کبھار ہی دِکھتے تھے۔
لپٹن کی جاکوجا اور روبی ڈسٹ چائے کا اشتہار اسے ’’ہندستان کی عمدہ اور تیز خوشبو، خوش رنگ اور کم قیمت چائے‘‘ بتاتا تھا۔ لیکن صبح کے اس وقت دکان پر آنے والوں میں سے کسی کے بھی پاس ان اشتہاروں کو پڑھ کر چائے خریدنے کا سمے نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تو اکثر افراتفری کا ماحول بنا رہتا که سب کو جلدی گھر پہنچنا ہے۔ سب کے گھروں میں پانی کا پتیلا لگ بھگ چولھے پر چڑھنے کو تیار ہوتا یا پھر چڑھ ہی چکا ہوتا تھا۔ ایسے میں جلدی ہونا لازم تھا۔ اس پر بیچ میں شمیم بیکری والے، جسے سب شمّو بھائی بلاتے تھے، کے یہاں سے توس بھی لینے ہوتے تھے۔ خاص کر ٹائی لیور توس۔ واپسی کے وقت جواں مرد تیز چال سے اور بچے لگ بھگ دوڑتے ہوے جلدی سے گھر پہنچنے کو آتُر دکھائی دیتے۔ ہم لوگ تو باقاعدہ آپس میں ریس کرتے، کھلکھلاتے اپنے اپنے گھروں تک پہنچتے۔ کچھ دوستوں کے گھر بیچ میں ہی پڑتے اور کچھ کے آگے، ہماری حویلی گلی کے بیچوں بیچ تھی۔ ہر روز یہاں پہنچ کر مجھے داداجی کو، جنھیں میں بابا کہتا تھا، دروازہ کھولنے کو آواز دینی پڑتی تھی۔ لیکن اُس دن دروازہ پہلے ہی سے کھلا تھا۔ سو بس، سب اسی دوڑ والی رفتار میں سیدھے اندر گھس گئے۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply