نغمۂ جنوں

رانا غضنفر: میرے حرفِ جُنوں کے سندیسے بزمِ آفاق سے اُبھرتے ہیں اور میں نغمہِ جنوں لے کر پھر کسی جُستجو میں نکلا ہوں

تمثیل

سُرمئی شام کے بڑھتے ہوئے سنّاٹوں میں دف کی آواز پہ اک شور بپا ہوتا ہے پھیلتا جاتا ہے آسیب گُذرگاہوں پر آگ کا شعلہ سرِ شام رہا ہوتا ہے مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں بستی والے دیکھیے رات کی آغوش میں کیا ہوتا ہے؟