مکاشفہ – جون ایلیا

جون ایلیا: فاصلے بدرنگ فتنوں سے نام زد کر دیئے گئے زمین کے حاشیے زمینی بلاؤں سے بھر دیئے گئے تمام صدیوں کے جرم اپنی سزا کو پہنچیں گے داد خواہوں کے داعیے انتہا کو پہنچیں گے

اَلایَلَلّی

جون ایلیا:میں اپنے چاروں طرف سے کتنی ہی اپنی لاشوں کا انبوہ سَہ رہا ہوں میں اپنے بیروں کے اندروں میں نڈھال ہوں اور ڈھے رہا ہوں مرے جنازے اٹھائے جاتے ہیں، مرے کاندھوں پہ لائے جاتے ہیں

لوحِ وجود

جون ایلیا: یہ زندہ بنیاد شہر ہے اور میں اس کے نیچے دبا پڑا ہوں وہ کون ہے جو مجھے نکالے وہ کون ہے جو مجھے نکالے

لوحِ طمع – جون ایلیا

جون ایلیا: جو خون کے گھونٹ پی رہا ہے وہ جانتا ہے کہ نسلِ آدم کی سزا کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ نسلِ آدم کے ہر ٹھکانے کو ناخنوں سے کھُرچ کے رکھ دوں