عدالت عظمیٰ کی جانب سے آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق آسیہ بی بی کو ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر، گواہان کے بیانات میں تضاد، ملزمہ کے غیر عدالتی اعتراف جرم پر انحصار اور ماتحت عدالتوں کی جانب سے آسیہ بی بی پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت اور ان کے ماحول کے تناظر کو نظر انداز کرنے کے باعث بری کیا گیا۔ قریب آٹھ برس سے قید آسیہ بی بی اور ان کے اہل خانہ کے لیے یہ دن ہمیشہ جبر کی ایک طویل رات کے خاتمے کا دن ہے۔ مگر ابھی ریاست کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد اور آسیہ اور ان کے خاندان کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل بنچ اس فیصلے پر تحسین کا مستحق ہے۔ یہ فیصلہ کئی اعتبار سے تاریخ ساز ہے اور پاکستان میں توہین مذہب و رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یقیناً اس فیصلے کے بعد توہین مذہب و رسالت کے سیاہ قانون کے تحت گرفتار اور سزا پانے والے دیگر افراد بشمول جنید حفیظ بھی جلد رہا کیے جائیں گے۔ کیوں کہ یہ فیصلہ اس امر پر سند ہے کہ ہر ملزم کو خواہ وہ توہین مذہب و رسالت کے ارکاب کا ملزم ہی کیوں نہ ہو کو ایک غیر جانبدار عدالت میں اپنے قانونی و عدالتی دفاع کا مکمل حق ہے۔ اور جرم ثابت ہونے تک توہین مذہب و رسالت کا مرتکب فرد بھی بے گناہ اور بے قصور ہے۔ آسیہ بی بی کے خلاف ٹرائل کورٹ کا فیصلہ توہین مذہب و رسالت کے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر سزائے موت جیسی غیر انسانی سزا سانے کی ایک اور مثال ہے۔
فیصلہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ توہین مذہب و رسالت کے قانون کے تحت سزا کا جواز تبھی تک ممکن ہے جب اس جرم کے تحت سزا کے لیے تفتیش اور فیصلے کے لیے ایک غیر جانبدار عدالتی نظام کے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا جائے۔ اس جرم کے لیے سزا دینے کا اختیار بھی فرد یا ہجوم کے پاس نہیں ریاست کے پاس ہے۔
یہ فیصلہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اپنے اختیارات سے تجاوز اور سیاسی اور جانبدارانہ طرزعمل کے باعث اپنی ساکھ خراب کر چکی ہے، اس فیصلے کے ذریعے عدالت خصوصاً چیف جسٹس نے عدالت عظمیٰ کے اصل کردار یعنی آئین اور قانون کے تحت بنیادی حقوق کے تحفظ اورانصاف کی فراہمی کی جانب رجوع کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے ماتحت عدلیہ پر برہمی بھی جائز ہے جو شواہد کی عدم موجودگی میں بھی سزائے موت جیسی سنگین سزائیں سنانے کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
یہ فیصلہ لائق تحسین ہے مگر اس فیصلے کے باوجود ابھی توہین مذہب و رسالت کے سیاہ پاکستانی قانون اور الزامات کے تحت جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک میں وقت لگے گا۔ اس قانون کے خاتمے یا اس میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں سے ہم آہنگ اصلاحات کے بغیر اس قانون کا غلط استعمال روکنا ممکن نہیں۔ عدالت کے ساتھ ساتھ پارلیمان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اس سیاہ قانون کے تحت لازمی سزائے موت کے خاتمے اور آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کو توہین مذہب و رسالت پر مقدم قرار دینے کے لیے قانون سازی کرنی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ محض آسیہ بی بی کی بریت کافی نہیں، محض اس ایک فیصلے کے ذریعے توہین مذہب و رسالت کے الزامات کے تحت جاری تشدد کا خاتمہ ممکن نہیں بنا سکتا، اس مقصد کے لیے توہین مذہب و رسالت کو قابل تعزیر اقوال و افعال کی فہرست سے نکالنے کے علاوہ مذہبی اختلافات کو تسلیم کرنے، مذہب اور مذہبی شخصیات پر تنقید، طنز اور استہزاء کے حق کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ مذہب اور مذہبی شخصیات کا تقدس انسانی جان، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں پر مقدم نہیں۔
آج یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک طرف توہین مذہب و رسالت کے الزامات کے تحت 60 سے زائد افراد کو مشتعل ہجوم ماورائے عدالت قتل کر چکا ہے تو دوسری طرف عدالتوں ہی کی جانب سے توہین مذہب و رسالت کے لیے مزید سخت قوانین کے نفاذ اور آن لائن آزادی اظہار کو محدود کرنے کے احکامات بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ توہین مذہب و رسالت کے نام پر نفرت آمیز تقاریر اور تشدد عام ہے جس کا انسداد آزادی اطہار رائے اور مذہبی اختلاف کو کم کر کے نہیں انہیں تحفط دے کر ہی ممکن ہے۔
Leave a Reply