سروش لطیف کی نظمیں نہ تو اپنے گردوپیش سے لاتعلق ہیں اور نہ ہی خود کو خارجی دنیا پر منطبق کرنے کی کوشش۔ ایک اور اہم خوبی ان نظموں کے انگریزی میں ہونے کے باوجود ہماری ثقافتی یادداشت سے جڑت ہے۔ یہ جڑت محض سماجی مسائل تک محدود نہیں بلکہ عشق جیسے آفاقی جذبے کی ترجمانی تک پھیلی ہوئی ہے۔ نودان ناصر نے ان نظموں کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ شاعر اور مترجم کا اشتراک ترجمے کو تخلیق کے ہم پلہ بنانے پر قادر ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانوں میں یہ نظمیں اپنی معنوی وسعت کا بھرپور اظہار کر رہی ہیں۔ ان نظموں کا ایک انتخاب لالٹین کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
The Knots of Season
Be cautious!
Do not write poems with the first rain of the season.
Wrapped up in rues
With ash from your cigarette falling about
and surrounded by the aroma of coffee
Do not write tales of woes
It is insulting to the rain just emerging
from the womb of the clouds
She might get annoyed,
As from the crown of Sarfaranga
To the depths of Astola
this incessantly flowing gift from the sky
Brings the same tranquilizing joy
How can the zealots of the city know?
Beyond the sharp blades of the swords
and deafening rhetoric of the lords
Lies a world
Which is the voice of Mansoor and Mureed
Which is the rythem of the verse of Lateef
And which is created by the moonlit seeds
For God’s sake, do not turn love into a scripture of rain
Let it hover with glee beyond every season
Let it flow without any chain and reason
Let it flaunt its grace with the entire blazon
Love is not just a sorrow
It is a childhood friend of the awaiting beloved
Who, under the blue sky, accompanies her
It is the dialect
Of an ardent poet
Who can sing it without rain
As feelings are not confined to seasons
موسم کی گانٹھیں
خیال رکھنا
کہیں بارش ہوتے ہی
نظم لکھنے نہ بیٹھ جانا
اُداس لحاف میں لپٹ کر
تنہا کافی کی مہک
اور سگریٹ کی گرد بکھیرے
ڈائری میں
غم کے نوحے نہ درج کرنے لگنا
ابر کی توہین ہوتی ہے
وہ روٹھ بھی سکتی ہے
کہ آسماں کا یہ آبِ رواں
سرفررنگا کی بلُندیوں سے
استولا کی اُترائیوں تک
یکساں تاثیرِ دلُربائی لئے آتا ہے
شہرِ بت پرستاں کے
جنون خیزوں کو کیا خبر
اونچے گال اور تلوار کی دھار سے
آگے ہے اک حسِ آشنا
جو مریُد و منصور کی آواز ہے
جو لطیف کے شعر کا ساز ہے
جس نے ماہتاب سے جنم لیا ہے
خُدارا ! عشق کو بارش کا کلام نہ بناو
اسے بے موسم رہنے دو
اسے بے موسم بہنے دو
اسے بے لباس رہنے دو
عشق فقط اُداسی نہیں
یہ ہم جولی ہے
اُس مُنتظر معشوقہ کی
جو نیلے آسماں تلے
اُس کے ہمراہ چلتی ہے
یہ ماں بولی ہے
اُس دیوانے شاعر کی
جو بارش کے بغیر بھی
اسے بول سکتا ہے
کہ جذبے موسم کے مُحتاج تو نہیں-
The Labour Pain
It is creeping into your blood.
It is hammering on your ribs.
It is bursting through your chest.
Are you ready to give birth?
Hush!
Hush!
Hush!
Lies a dark shadow
Between the announcement of death
And the first scream.
Lies death
Between the first scream
And the announcement of birth.
Thud!
Thud!
Thud!
Slam your head against the wall.
‘’Coward! You cannot do it.”
It laughed.
Pay ransom
For every word you ever believed.
Why would you never get tired of surviving
for someone you had never been???
How many more years you could stand it?
How many dreams of fall you could awake from?
“This is how it should be,”
He texted back.
Cut the umbilical cord / tighten the rope.
Where lies the difference?
Or embrace the white liquid silence
The creation of poems
Between you and me.
دردزہ
تُمھارے لہو میں رینگ رہا ہے
تُمھاری پسلیوں کو توڑ رہا ہے
اور تمُھارے سینے کو چیر رہا ہے
کیا تُم جنم دینے کو تیار ہو؟
خاموش
خاموش
خاموش
ایک تاریک سایہ بستا ہے
موت کے اعلان اور پہلی چیخ کے مابین
موت بستی ہے
پہلی چیخ اور زندگی کی نوید کے مابین
دھم
دھم
دھم
اپنا سر دیوار پہ مارو
” بُزدل! تم سے نہ ہوپائے گا”
دیوار ہنسی
خراج دینا ہی ہوگا
ہر اُس لفظ کا جس پہ تُم نے اعتبار کیا
تُم جیتے جیتے بھلا تھک کیوں نہیں جاتے
اک ایسی زندگی جو تُمھاری ہے ہی نہیں
اور کتنے ماہ و سال اسکا سامنا کر پاوگے
کتنے خوابوں میں گرتے ہوئے بیدار ہوگے
” جیسا ہے ، ویسا ہی ٹھیک ہے ”
اُس کا پیام آیا
ناف کو کاٹ ڈالو
یا رسیاں تن ڈالو
کیا فرق پڑتا ہے؟
مرمریں سفید خاموشی کا اقرار کرلو
جہاں میرے اور تمھارے درمیاں
نظمیں جنم لئے جاتی ہیں ۔۔
The Legacy
High up on the rugged hills
against the dusky sky
stood two shadows.
They heard an ominous tread.
The woman killed the man and herself.
The hyena, who came to take his share, found nothing
But a wailing child
muffled
under a sheet
of crawing black crows.
مالِ غنیمت
دور کھردری چوٹیوں کے اوپر
مٹیالے آسماں کے پاس
دو سائے کھڑے تھے
کہ انھوں نے
منحوس قدموں کی چاپ سُنی
عورت نے پہلے اُس مرد کو
اور پھر خود کو مار ڈالا
اور وہ بھیڑیا جو اپنا حصہ لینے آیا تھا
اُسے کچھ نہ ملا
بس اک بین کرتا بچہ
جو گھِرا ہوا تھا
اوجھتے کالے کوُوں کے درمیاں۔۔
The Price
From a ship
on high sea
a mariner told,
“To predict her future,an affah
from Egypt would take 450$.”
How ridiculous!
Did not he know?
She came from a place
where her father
sold her as a kid
for 450$.
دام
آزاد پانیوں سے آئے
ایک بحری جہاز کے
مُلاح نے اُسے بتلایا
” ایک مصری نجومی
حالِ مستقبل بتانے کا
450$ لے گا ”
مضحکہ خیز !
لیکن بے خبر نجومی کو کیا پتا
جس دیار سے وہ آئی ہے
اس کے باپ نے بچپن میں
اُسے وہاں $450 ہی میں تو بیچا تھا۔۔
The Quest
Neither
in the coarse hands
of the labourer woman
carrying heavy bricks
high on her head
Nor
in the smile of the mother
kneading love and care
for her hungry children
Standing alone
in a moorland
she found herself
in the eyes of a girl
who, last night, was stoned to death.
تلاش
بھاری اینٹیں سر پہ اُٹھائے
محنت کش عورت کے
کُھردرے ہاتھوں میں نہیں،
اور نہ ہی
بھوک سے بلکتے بچوں کے لئے
ممتا اور مُحبت گوندھتی
ماں کی مُسکراہٹ میں،
اُس نے خود کو پایا
تو تنہا صحرا میں کھڑے
اُس لڑکی کی آنکھوں میں
جسے کل رات سنگسار کردیا گیا تھا۔