Laaltain

اندھا کتا (تحریر: آر کے نارائن، ترجمہ: رومانیہ نور)

28 ستمبر، 2020

یہ ترجمہ محترم یاسر حبیب کے تعاون سے شائع کیا جا رہا ہے۔ یاسر حبیب “پاکستان کی مادری زبانوں کا عالمی ادب – اردو قالب میں” کے عنوان سے ایک فیس بک گروپ کے ایڈمن ہیں۔ یہ گروپ اردو قارئین کو پاکستان کی دیگر زبانوں میں لکھے گئے ادب سے روشناس کرانے کا اہم ذریعہ ہے۔

یہ کوئی بہت متاثر کن یا اعلیٰ نسل کا کتا نہیں تھا۔ یہ ان کتوں میں سے تھا جو ہر جگہ ادھر ادھر عام نظر آتے ہیں۔ اس کا رنگ سفید اور مٹیالا تھا، دم کٹی ہوئی تھی جو خدا جانے کس نے کب کاٹی تھی۔گلی میں ہی جنم ہوا تھا۔ بازار کی بچی کھچی اور پھینکی ہوئی اشیا کھا کر پیٹ بھرتا تھا۔اس کی گول گول چتکبری آنکھیں تھیں۔انداز بھی کوئی نرالا نہیں تھا اور وہ بلا وجہ ہی بھونکتا رہتا۔

دو سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی اس کے جسم پر سینکڑوں زخموں کے نشان تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ دیگر کتوں سے اس کی سینکڑوں لڑائیاں ہوئی ہوں گی۔ گرم دوپہروں میں اسے آرام کی ضرورت پیش آتی تو بازار کے مشرقی دروازے کی طرف بدرو کے نیچے آڑا ترچھا پڑا رہتا تھا۔ شام کو اس کے معمول کے چکر شروع ہو جاتے وہ ارد گرد کی گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا۔ اس دوران وہ گلی کی چھوٹی موٹی لڑائیوں میں بھی شریک رہتا۔ سڑک کنارے سے کھانے کی چیزیں اٹھا کر رات پڑے بازار کے مشرقی دروازے پر لوٹ آتا۔

عرصہ تین سال تک ایسے ہی چلتا رہا۔ اس کی زندگی میں تبدیلی تب آئی جب ایک اندھا بھکاری بازار میں آ کر وہاں بیٹھنے لگا۔ ایک بڑھیا اسے صبح سویرے وہاں چھوڑ جاتی۔ دن میں وہ کچھ کھانے کو لے کر آتی۔ شام کو اپنے سکے گنتی اور رات کو گھر لے جاتی۔

کتا بھی اندھے بھکاری کے قریب سو رہا تھا۔ وہ کھانے کی خوشبو سے کسمسایا۔ وہ اپنے ٹھکانے سے نکلا اور بھکاری کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اپنی دم کو ہلایا اور اور اس کے پیالے پر اس امید سے نظریں جما دیں کہ اسے بھی کچھ بچا کھچا کھانے کو ملے گا۔ بوڑھے نے ہوا میں ہاتھ لہرائے اور پوچھا ” کون ہے یہاں؟” اس پر کتا اس کے قریب آ گیا اور ہاتھ چاٹنے لگا۔ بوڑھے نے سر سے لےکر دم تک اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا۔

” تم کتنے پیارے ہو! آؤ میرے ساتھ_” اس نے مٹھی بھر کھانا کتے کو دیا جو اس نے شکر گزاری سے کھایا۔ یہ ایک مبارک گھڑی تھا جب ان کی دوستی کا آ غاز ہوا۔ ان کی روزانہ وہاں ملاقات ہوتی۔

کتے نے اپنی آوارہ گردی کم کر دی تھی۔ وہ اندھے بھکاری کے قریب بیٹھا اسے صبح سے شام تک خیرات وصول کرتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ کتا بھی لوگوں کو بھکاری کو بھیک دینے کے لئے مجبور کرتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتے کو سمجھ آ گئی کہ راہ گیروں کا اندھے بھکاری کے سامنے سکے گرانا لازمی تھا۔ اگر لوگ سکے نہ دیتے تو کتا ان کا پیچھا کرتا ، ان کے کپڑے دانتوں میں دبا لیتا ، انھیں واپس بھکاری کے پاس کھینچ لاتا اور انھیں مجبور کرتا کہ بھکاری کے کشکول میں سکے ڈالیں۔

ایک شرارتی بچہ بھکاری کو تنگ کیا کرتا تھا۔ اس کے ذہن میں شیطانی شرارتیں سمائی رہتی تھیں۔ وہ بھکاری کو برے برے ناموں سے پکارتا اور اس کے سکے چرا کر بھاگ جاتا۔ بھکاری بے بسی سے اس پر چلّاتا اور اپنی لاٹھی بچے پر گھماتا۔ یہ لڑکا جمعرات کو سبزیاں اور کھیرے سر پر لاد کر لایا کرتا تھا کیونکہ اس دن جمعرات بازار لگتا تھا۔ ہر جمعرات کو یہ لڑکا اندھے بھکاری کی زندگی میں اک نئی مصیبت لے کر آتا تھا۔ ایک عطر فروش بھی اپنے چھکڑے پر سامان لاد کر آیا کرتا تھا۔ ایک آدمی زمین پر بوریا بچھا کر اس پر اپنی سستی کتابوں کی نمائش لگاتا۔ ایک اور آدمی ایک بڑے فریم پر رنگ برنگے ربن لٹکا کر لاتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اسی محراب کے نیچے اپنی اشیاء فروخت کے لئے لایا کرتے تھے۔

ایک جمعرات اس لڑکے کو آتا دیکھ کر ایک پھیری والا بولا
” بوڑھے میاں ! تمھاری مصیبت سر پر آن کھڑی ہوئی _”

” اوہ خدایا! آج جمعرات ہے؟” اس نے تڑپ کر کہا۔ اس نے اِدھر اُدھر ہوا میں اپنے ہاتھ چلائے اور پکارا ” کتے! کتے! ادھر آؤ، تم کہاں ہو؟” اس نے ایک مخصوص آواز نکالی اور کتا وہاں آن کھڑا ہوا۔ کتے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بڑ بڑایا ” اس ننھے شیطان کو ادھر مت آنے دینا۔” اسی لمحے لڑکا چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے وہاں پہنچ گیا۔

”بوڑھے میاں! تم ابھی تک اندھے ہونے کا ڈرامہ کر رہے ہو۔ اگر تم واقعی اندھے ہوتے تو تمھیں یہ سب معلوم نہ ہوتا_” وہ رک گیا۔ اس کا ہاتھ کشکول کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کتے نے اس پر چھلانگ لگائی اور اس کے ہاتھوں پر اپنے پنجے گاڑ دئیے۔ لڑکے نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور زندگی بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ کتا اس کے پیچھے بھاگا اور اسے بازار سے بھگا کر دم لیا۔ ” اس معمولی نسل کے کتے کی اس بوڑھے سے محبت تو دیکھو!” عطر فروش نے حیرت کا اظہار کیا۔

ایک شام معمول کے وقت پر بڑھیا نہ آئی۔ اندھا آدمی پریشانی سے دروازے پر اس کا انتظار کرتا رہا کیونکہ شام رات میں ڈھل رہی تھی۔ جب وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا تو ایک پڑوسی آیا اور بتایا کہ بڑھیا کا انتظار نہ کرو وہ اب دوبارہ نہیں آئے گی۔ آج دوپہر کو وہ چل بسی۔

بھری دنیا میں اندھے آدمی کی واحد پناہ گاہ اس کا گھر بھی چھن گیا اور وہ اس تنہا فرد سے بھی محروم ہو گیا جو اس کا خیال رکھتا تھا۔ ربن فروش نے تجویز پیش کی ” یہ لو سفید ربن۔۔۔۔۔” اس نے سفید ربن فروخت کرنے کے لئے پکڑا ہوا تھا ” میں تمہیں یہ مفت دوں گا۔ اسے کتے کے گلے میں باندھ دو۔ اگر اسے تم سے واقعی انسیت ہے تو وہ تمہاری رہنمائی کرے گا۔ ”

اب کتے کی زندگی میں اک نیا موڑ آ گیا تھا۔ اس نے بڑھیا کی جگہ لے لی تھی۔ اس کی آزادی مکمل طور پر کھو گئی تھی۔ اس کی زندگی سفید ربن کے اسی دائرے تک محدود ہو گئی تھی جتنی کہ ربن فروش نے اس کی لمبائی رکھی تھی۔ اسے اپنی تمام سابقہ زندگی اور پرانی سر گرمیوں کو بھولنا پڑا۔ وہ اس رسی کی درازی کی آخری حد تک ہی رہتا تھا۔ اگر وہ فطرت سے مجبور ہو کر اپنے دوست یا دشمن کتوں کو دیکھتا اور رسی تڑاتے ہوئے ان پر جھپٹتا تو اسے اپنے مالک سے گھونسا پڑتا۔ ” بدمعاش! مجھے گرانا چاہتے ہو؟ __ ہوش کرو_” کچھ ہی دنوں میں کتا اپنی فطرت اور خواہشات پر قابو پانا سیکھ گیا۔ اس نے دوسرے کتوں پر توجہ دینی چھوڑ دی۔ اگرچہ وہ اب بھی اس کی طرف بڑھتے اور غراتے تھے۔ اس کا اپنے ساتھی مخلوق کے ساتھ رابطے اور حرکت کا دائرۂِ کار کھو گیا۔

اس نقصان کی قیمت پر اس کے مالک کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ اب اس طرح نقل و حرکت کرتا تھا جیسے اس نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ سارا دن وہ کتے کی رہنمائی میں پیدل چلتا رہتا۔ ایک ہاتھ میں لاٹھی تھامے اور ایک ہاتھ میں کتے کی رسی پکڑے وہ کتے کی رہنمائی میں گھر سے پیدل نکلتا_ جو کہ بازار سے چند گز کے فاصلے پر ایک سرائے کے برآمدے کے کونے میں تھا۔ وہ بڑھیا کی موت کے بعد یہا ں منتقل ہو گیا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی کام کا آغاز کر دیتا۔ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ ایک ہی جگہ رکے رہنے کی بجائے چل پھر کر بھیک مانگنے سے اس کی کمائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ وہ گلیوں میں گھومتا پھرتا اور جہاں کہیں لوگوں کی آواز سنتا بھیک کے لئے ہاتھ بڑھا دیتا۔ دکانیں، سکول، ہسپتال، ہوٹل _ غرض اس نے کوئی جگہ نہ چھوڑی۔ جب اسے رکنا ہوتا تو کتے کی رسی کو کھینچتا اورجب اسے چلانا ہوتا تو بیل ہانکنے والے کی طرح چِلّاتا۔ کتا اسے گڑھے میں گرنے اور پتھروں سے ٹکرانے سے بچاتا۔ قدم بہ قدم بحفاظت اسے سیڑھیوں پر لے جاتا۔ یہ منظر دیکھ کر لوگ بھکاری کو سکے دیتے اور اس کی مدد کرتے۔ بچے اس کے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے اور اسے اشیائے خورد پیش کرتے۔ کتا یقیناً ایک چست مخلوق ہے جو گاہے بہ گاہے اپنے تھکن زدہ معمولات کے بعد مناسب وقفوں سے آرام کرتا ہے۔ مگر یہ کتا _جو اب ٹائیگر کے نام سے جانا جاتا تھا _ کا تمام چین آرام ختم ہو گیا تھا۔ اسے تب ہی آرام کا موقع ملتا جب بوڑھا کہیں بیٹھتا۔ رات کو بوڑھا کتے کی رسی اپنی انگلی سے لپیٹ کر سوتا۔

” میں تمھیں کوئی موقع فراہم نہیں کر سکتا” وہ کہتا۔ روز بروز زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دھن میں اس کا مالک آرام کو موقع گنوانا سمجھتا تھا اور کتے کو مسلسل اپنے قدموں پر چلنا پڑتا تھا۔ بسا اوقات اس کی ٹانگیں چلنے سے انکاری ہو جاتیں مگر وہ معمولی سی بھی سست رفتاری کا مظاہرہ کرتا تو اس کا مالک غصے میں اپنی لاٹھی سے اسے مارتا۔ کتا اس ظلم پر تلملاتا اور احتجاج کرتا ” کراہو مت بدمعاش! کیا میں تمھیں خوراک نہیں دیتا؟ تم بے کار وقت گزارنا چاہتے ہو؟ کیا تم ایسا کرو گے؟” اندھے بوڑھے نے گالی دی۔اندھے ظالم کے ساتھ بندھا ہوا کتا سست قدموں سے سارا دن گلیوں میں ادھر ادھر ، اوپر نیچے پھرتا رہتا۔ جب بازار میں خرید و فروخت بند ہو جاتی تو رات گئے دیر تک تھکے ماندے کتے کی درد بھری کراہیں سنی جا سکتی تھیں۔ اس کی ظاہری شکل کھو گئی تھی۔ جوں جوں وقت گزرا اس کی ہڈیاں اس کی جلد میں کھبتی گئیں۔اس کی پسلیاں جلد سے جھانکتی صاف نظر آتی تھیں۔

ربن فروش، ناول فروش اور عطر فروش اس کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔ ایک شام جب کاروبار میں مندا تھا تینوں نے بیٹھ کر مشاورت کی۔ ” اس کتے کو غلامی کرتے دیکھ کر میرا دل پسیجتا ہے۔ کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟” ربن فروش نے تبصرہ کیا۔ ” اب تو اس بد معاش نے ساہو کاری بھی شروع کر دی ہے۔ _ میں نے سبزی فروش سے یہ بات سنی ہے __ وہ اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ کما رہا ہے۔ وہ پیسے کی خاطر شیطان بن چکا ہے ___” اسی لمحے عطر فروش کی نظر قینچی پر پڑی جو ربن کے فریم پر جھول رہی تھی۔ ” یہ ذرا مجھے پکڑاؤ” وہ بولا اور قینچی ہاتھ میں تھامے آگے بڑھا۔

اندھا بھکاری مشرقی دروازے کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ کتا رہنمائی کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ راستے میں ہڈی کا ٹکڑا پڑا تھا اور کتا اسے کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا۔

رسی اندھے بھکاری کے ہاتھ میں تن گئی جس سے اس کے ہاتھ کو تکلیف پہنچی۔ اس نے رسی کھینچی اور کتے کو ٹھوکر ماری۔ کتا چلّایا اور کراہا مگر آسانی سے ہڈی تک نہ پہنچ سکا۔ اس نے ہڈی کی طرف ایک اور قدم بڑھایا۔ اندھا آدمی اس پر لعنتوں کے انبار لگا رہا تھا۔ عطر فروش نے قدم آگے بڑھایا، قینچی چلائی اور ربن کاٹ دیا۔ کتے نے چھلانگ ماری اور لپک کر ہڈی اٹھا لی۔ اندھا آدمی اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہ گیا۔ ربن کا بقیہ حصہ اس کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔ ” ٹائیگر! ٹائیگر! تم کہاں ہو؟” وہ پکارا۔ عطر فروش چپکے سے کھسک آیا اور بڑ بڑایا، ” بے رحم شیطان! تم اسے کبھی دوبارہ نہیں پاسکتے۔ اس نے اپنی آزادی حاصل کر لی ہے۔ ” کتا تیز رفتاری سے بھاگ گیا۔ اس نے خوشی خوشی سارے نالوں میں ناک گھسیڑی۔ بھاگ کر دوسرے کتوں میں شامل ہو گیا اور بازار کے فوارے کے ارد گرد بھونکتے ہوئے آزادی سے چکر لگائے۔ اس کی آنکھیں خوشی سے جگمگا رہی تھیں۔ وہ اپنی پسندیدہ جگہوں قصاب کی دکان، چائے کے کھوکھے اور بیکری پر گیا۔

ربن فروش اور اس کے دوست بازار کے داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر اندھے بھکاری کو راستہ ٹتولتے دیکھ کر لطف اندوز ہونے لگے۔ وہ اپنی جگہ پر ساکت کھڑا لاٹھی گھما رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ہوا میں معلق ہے۔ وہ گریہ کر رہا تھا ” ہائے ! میرا کتا کہاں ہے؟ میرا کتا کہاں ہے؟ کوئی ایسا نہیں جو مجھے میرا ٹائیگر لوٹا دے؟” اگر وہ پھر سے مجھے مل جائے تو میں اس کا خون کر دوں گا۔ ” اس نے ٹتولتے ہوئے سڑک پار کرنے کی کوشش کی۔ جگہ جگہ درجنوں گاڑیوں کے نیچے آنے سے بچا، کئی بار لڑھکا اور آخر کار ہانپنے لگا۔ ” اگر وہ کچلا جاتا تو اسی کا مستحق تھا۔ بے رحم انسان_” وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے۔ تاہم بوڑھا کسی نہ کسی طرح کسی کی مدد سے سرائے کے بر آمدے کے کونے میں اپنے ٹھکانے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے بوریے کے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ سفر کے تناؤ کی وجہ سے وہ نیم بے ہوش تھا۔

پھر وہ نظر نہ آیا۔ دس_ پندرہ_ حتیٰ کہ بیس روز گزر گئے۔ نہ ہی کتے کی کوئی بھنک ملی۔ وہ آپس میں تبصرے کیا کرتے۔ ”کتا یقیناً آزادی کی خوشی اور سرمستی میں دنیا گھوم رہا ہو گا۔ بھکاری بہر حال اب تک گزر گیا ہو گا۔ ” بمشکل ہی یہ جملہ ادا ہوا ہو گا کہ انھوں نے بھکاری کی لاٹھی کی مخصوص ٹپ ٹپ کی آواز سنی۔ انھوں نے فٹ پاتھ پر بھکاری کو کتے کی رہنمائی میں دوبارہ آتے ہوئے دیکھا۔ ” دیکھو ! دیکھو ! ” وہ چِلّائے، ” اس نے دوبارہ اس پر قابو پا لیا اور رسی باندھ دی_” ربن فروش خود کو باز نہ رکھ سکا اور پوچھا ” تم ان تمام دنوں میں کہاں رہے؟”

”جانتے ہو کیا ہوا!” اندھا آدمی کراہا ” یہ کتا بھاگ گیا تھا۔ میں تو اس کونے میں پڑا پڑا ایک دو دن تک مر ہی جاتاکھانے کو کچھ تھا نہ کوئی آنے کی کمائی تھی وہاں پر قید چل بستا اگر کل بھی ایسا ہوتا مگر یہ کتا لوٹ آیا_”

”کب؟ کب؟ ”

”کل رات، آدھی رات کا وقت ہو گا جب میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا وہ آ گیا اور میرا چہرہ چاٹنے لگا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اسے مار ڈالوں۔ میں نے اسے زور کا دھکا دیا۔ جو وہ زندگی بھر نہیں بھولے گا۔ ” بوڑھے آدمی نے بتایا۔ ”میں نے اسے معاف کر دیا۔ بہر حال وہ ایک کتا ہی تو تھا۔ وہ اتنے دن آزادی سے گھوما پھرا جب تک سڑک کنارے بچا کھچا کھانے کو ملتا رہا۔ مگر بھوک اسے میرے پاس واپس کھینچ لائی۔ مگر اب وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ دیکھو! اب مجھے یہ مل گئی ہے__” اس نے رسی لہرائی۔ اس مرتبہ یہ لوہے کی زنجیر تھی۔

ایک مرتبہ پھر کتے کی آنکھوں میں بے دلی اور نا امیدی کی تصویر در آئی تھی۔ ” اپنی راہ لو احمق! ” اندھا بھکاری ایک بیل ہانکنے والے کی طرح ہنکارا۔ اس نے رسی کو جھٹکا دیا اور اپنی لاٹھی سے اسے ٹھوکر ماری اور کتے نے سستی سے اپنے قدم آگے بڑھا دئیے۔ وہ ٹپ ٹپ کی آواز کو دور جاتے ہوئے سنتے رہے۔

” اب تو موت ہی کتے کی جان چھڑا سکتی ہے۔” ربن فروش نے آہ بھری اور اس پر افسردہ نگاہ ڈالی۔ ” ہم ایسی مخلوق کا کیا کر سکتے ہیں جو اتنی خوش دلی سے اپنی بد بختی کی طرف لوٹ آئے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *