Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

نوآبادیاتی نفسیات، سرمایہ دار اور عوام

test-ghori

test-ghori

06 جولائی, 2015
حال ہی میں اسلام آباد کے بڑے شاپنگ مال سنٹورس نے اپنی حدود میں داخلے کے لیے سو روپے فیس عائد کی ہے۔ اس فیس کے عوض ملنے والے ٹوکن کو خریداری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بظاہر اس داخلہ فیس کا مقصد بطور تفریح سنٹورس کا رُخ کرنے والے غیر سنجیدہ افراد کی حوصلہ شکنی کرنا نظر آتا ہے۔ البتہ انتظامیہ نے عورتوں اور بچوں کے علاوہ قریبا بیس طبقات کو اس داخلہ فیس سے مستثنی قرار دیا ہے جن میں اراکین مجلس شوری و صوبائی اسمبلیاں، حکومتی اہلکار بشمول فوج، عدلیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے، وکلا، صحافی، تاجر تنظیموں کے اراکین، جامعات کے اساتذہ، ڈاکٹر اور اداکار شامل ہیں۔استثنٰی کے حقدار طبقات وہ ہیں جن کی جیب پر اس ٹوکن فیس کا بوجھ زیادہ محسوس نہیں ہوگا جبکہ اس کی زد میں آنے والے وہ لوگ ہیں جو تفریح کی غرض سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی بنا پر خریداری مرکز کی انتظامیہ کے اس فیصلے پر طبقاتی تقسیم ابھارنے کا الزام عائد کیا جارہا ہےجبکہ انٹرنیٹ پر تنقید کا سامنا کرنے کے بعد انتظامیہ نے رعایت دیتے ہوئے صرف شام آٹھ بجے کے بعد آنے والوں سے یہ فیس وصول کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
جس انداز سے ذرائع ابلاغ میں مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے اس نے لوگوں کو باغات اور کھلی جگہوں کی بجائے بازاروں کا رخ کرنے پر مائل کرلیا ہے
فروری 2013 میں عوام کے لیے کھولے جانے والے آسائشی مصنوعات کے اس خریداری مرکز کی عمارت کو وفاقی دارالحکومت کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس کےتین مینار دور ہی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں جبکہ روشنیوں کا سیلاب اور عالمی برانڈز کی چکا چوند سونے پر سہاگہ کا کام دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ افتتاح سے آج تک تفریح کے مواقع ڈھونڈتے افراد ہزاروں کی تعداد میں روزانہ یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ سنٹورس انتظامیہ کے ترجمان کے مطابق روزانہ کم از کم تیس ہزار افراد سنٹورس میں داخل ہوتے ہیں ۔ واضح رہے کہ جڑواں شہروں میں تفریح کے مواقع تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پینتالیس لاکھ آبادی والے ان دو شہروں میں صرف پوش علاقوں میں واقع باغات ہی کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ راولپنڈی میں خاص طور پر ایک عرصے سے جاری سڑکوں کی توڑ پھوڑ اور نئی تعمیرات کی بدولت تفریحی مقامات تباہ حالی کا شکار ہیں ایسے حالات میں لوگوں میں خریداری کو تفریح کا متبادل سمجھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ پھر عالمی کارپوریٹ ثقافت کی بدولت بھی لوگوں کی تفریحی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ جس انداز سے ذرائع ابلاغ میں مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے اس نے لوگوں کو باغات اور کھلی جگہوں کی بجائے بازاروں کا رخ کرنے پر مائل کرلیا ہے۔ تشہیری صنعت کی بدولت بڑے شہر ایک صارف معاشرے میں تبدیل ہوچکے ہیں جن کی اہم ترین ترجیح صبح سے رات تک پیسہ کمانا اور اس پیسے کو خرچ کرنا ہے۔ اسی عمل کو سرمایہ دارانہ معیشت میں معیار زندگی کی بہتری اور ترقی کے خوشنما نام دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر کسی اور وقت بحث کی جائے گی۔
عوامی مقامات پر خواتین کو تاڑنا ہمارے معاشرے کا ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے کے ڈانڈے بھی کلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر معاشی نظام ہی سے جڑتے ہیں
اب متوسط اور زیریں طبقات کی بڑی تعداد میں سنٹورس بغرض تفریح آمد کا اثر یہاں ہونے والے کاروبار پر بھی پڑا۔ ایک نتیجہ تو یہ برآمد ہوا کہ امرا یہاں آنے سے کترانے لگے جس سے یہاں کھلنے والے عالمی و مقامی برانڈز کی بکری کم ہوگئی۔چونکہ یہاں بکنے والی زیادہ تر اشیا عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر تھیں سو مارکیٹنگ کا عام اصول یعنی جتنے زیادہ دیکھنے والے اتنے ہی خریدنے والے بھی یہاں کام کرتا نظر نہ آیا۔علاوہ ازیں ایف ایٹ سیکٹر سے ملحقہ ایف سیون میں نسبتاً چھوٹا لیکن اسی معیار کا ایک نیا شاپنگ مال تعمیر ہوگیا۔ اور وہ تمام برانڈز جو سینٹورس میں دستیاب تھے ان کی دکانیں اس نئے مرکز میں بھی کھل گئیں۔ امرا کی توجہ تو سنٹورس سے صفا گولڈ مال نامی اس نئے مال کی طرف مبذول ہوگئی لیکن عام شائقین کا ہدف سنٹورس ہی رہا-
پھر ایک ماہ پہلے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس کا افتتاح ہونے سے سنٹورس تک رسائی مزید آسان ہوگئی۔ پہلے لوگ اپنی سواری یا ٹیکسی سے یہاں آیا کرتے تھے ، اب میٹرو بس بیس روپے میں عین سنٹورس کے سامنے اتار دیتی ہے۔ اگرچہ سنٹورس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ میٹروبس کے آغاز سے سنٹورس آنے والوں کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑا لیکن یہاں باقاعدہ آنے والوں کا خیال اس سے مختلف ہے۔ میٹرو کے سنٹورس اڈے پر لوگوں کی بڑی تعداد بھی ترجمان کے دعوے کی قلعی کھول دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں داخلہ فیس لاگو کرنے کی بنیادی وجہ ماند پڑتے کاروبار کو سہارا دینا نظر آتی ہے اور اس مقصد کے لیے عام لوگوں کی یہاں آنے سے حوصلہ شکنی کرنے جیسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
سنٹورس انتظامیہ کا یہ قدم نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتا ہے جب کلبوں کے داخلی دروازوں پر لکھا ہوتا تھا، “یہاں مقامیوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے”
عمومی رائے یہ بھی ہے کہ سنٹورس آنے والوں میں ایک کثیر تعداد نوجوان لڑکوں کی تھی جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے مضافات سے فقط” نظربازی” کی غرض سےیہاں آتے تھے۔بلاشبہ اس رائے سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے جبکہ سنٹورس کےترجمان کا بھی یہ کہنا تھا کہ داخلہ فیس عائد کرنے کا مقصد خاندانوں کے لیے خریداری کا ماحول بہتر بنانا ہے ۔ عوامی مقامات پر خواتین کو تاڑنا ہمارے معاشرے کا ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے کے ڈانڈے بھی کلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر معاشی نظام ہی سے جڑتے ہیں۔ کم آمدنی والے طبقات کا طریق زندگی امرا کے رہن سہن سے قطعی مختلف ہے۔ پوش علاقوں کی خواتین کی جلد کی رنگت اور ان کے پہناوے دیکھنے کو غریب علاقوں سے لڑکے بالوں کا آنا رسد و طلب کا مسئلہ بھی ہے۔ فلموں، ڈراموں میں دکھایا جانے والا معاشرہ جب ایک کم آمدنی والے لڑکے کو اپنے ارد گرد نظر نہیں آئے گا تو وہ اسے دیکھنے سنٹورس ہی پہنچے گا۔ اس سماجی برائی کا حل مختلف معاشی طبقات کے رہن سہن میں حائل خلیج کو کم کرنے میں ہے نہ کہ ایسی فیس لاگو کرنے میں جس سے اس فاصلے میں مزید اضافہ ہو۔ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان خصوصاً گلگت ڈویژن میں کچھ جغرافیائی اور کچھ ثقافتی وجوہات کی بنا پر تمام طبقات کا رہن سہن اور معیار زندگی یکساں ہےاور وہاں اس قسم کی نظر بازی اور چھچھورے پن کی کوئی مثال خال خال ہی نظر آتی ہے۔ خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر رکھی سرمایہ دار کی اس بندوق کو جھٹک دیں۔ مذہبی طبقات کے جبر کے خلاف صف آرا عورتوں کے دشمنوں کی فہرست میں سرمایہ داریت کا بھی اضافہ ہوچکا ہے جو بظاہر آزادی نسواں کا علمبردار نظر آتا ہے لیکن اس کا مطمع نظر بھی عورت کو مصنوعات آرائش و زیبائش کی زنجیروں میں جکڑنا ہی ہے۔
سنٹورس انتظامیہ کا یہ قدم نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتا ہے جب کلبوں کے داخلی دروازوں پر لکھا ہوتا تھا، “یہاں مقامیوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے”۔ اس دور میں محکوم قوم سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ انگریز دربار کے بیروں، دربانوں اور دیگر خدمتگاروں کو مغل شاہی خاندان جیسا لباس پہنایا جاتا تھا تاکہ حاکم طبقے کو تفاخر اور برتری کا احساس ہوتا رہے۔ انگریز تو اس خطے سےچلے گئے لیکن پاکستان میں آج بھی پنج ستارہ ہوٹلوں سے لے کر مجلس شوری کے ایوانوں تک قاصدوںاور دربانوں کا لباس شیروانی اور جناح کیپ رکھا جاتا ہے۔ تاحال فوجی چھاونیوں کے باغات میں نوکروں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہونے کی ہدایات درج نظر آتی ہیں۔ریاستی ڈھانچے میں گندھی ہوئی یہ طبقاتی تقسیم وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوتی گئی ہے۔آزادی کے سڑسٹھ برس بعد بھی ریاستی ڈھانچے کی نوآبادیاتی نفسیات اور سرمایہ دار کی منافع خوری کی ہوس عوام کے وقار کو مسلسل نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام سے بلاامتیاز سلوک کے حق کا احترام کیا جائے ورنہ پہلے ہی انتشار کے شکار پاکستانی معاشرے میں ایک نئی طبقاتی جنگ زیادہ دور نہیں ہے۔