Laaltain

آج کا چوتھا شمارہ: تاثراتی جائزہ

16 ستمبر، 2018
کہانی: کتنے ہٹلر/مصنف:وجے دان دیتھا:

اس کہانی کا اردو ترجمہ عبدالعظیم سومرو نے کیا ہے۔ وجے دان دیتھا راجستھانی افسانہ نگار تھے جنہوں نے کئی افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں ۔ ان کی کہانیوں میں زیادہ تر راجستھانی تہذیب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ وہاں کے ماحول اور کرداروں کو انہوں نے بہت مہارت سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔کتنے ہٹلر ان کے افسانوی مجموعے دودھا سے لی گئی کہانی ہے۔ جس میں انہوں نے پانچ ، ساتھ کرداروں کے ذریعے انسانی مزاج کے نازک پہلووں کو اجاگر کیا ہے۔ پانچ چچیرے بھائی جو بظاہر محنتی اور ایک دوسرے کے تئیں مخلص ہیں ۔ دنیا والوں کو بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں وہ جب ایک خاص انتقامی حالت میں پہنچ جاتے ہیں تو ا ن کا رویہ کتنا تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک شخص جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے احساس میں غرق ہے اس کے لیے اپنی منزل کی طرف بڑھنا کتنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ بیوپاری جو نئی زندگی کے وجود میں آنے سے خائف ہیں جن کو غریبی اور خوشحالی کے بدلتے معیارات نظر آنے لگے ہیں ان کی دماغی حالت کیا ہے۔ وجے دان دیتھا نے ان سب کو بہت دلچسپ اور فنی انداز میں پیش کیا ہے۔ انسان کا انسان ہونا، اس کا اپنی جبلت سے مزین ہونا اس کی شناخت ہے۔وہ اپنے مفاد اور لالچ کے اشاروں پر کس طرح ناچتا ہے ، کس طرح اس کو اپنے جھوٹے معیارات عزیز رکھنے میں خوشی ملتی ہے اور دوسروں کو کچل کے اپنے آ پ کوا فضلیت دینے میں وہ کتنا منہمک ہے اس کو وجے دان دیتھا نے بھر پور انداز میں پیش کیا ہے۔ افسانے کی ترجمہ شدہ زبان بھی اچھی ہے مگر کہیں کہیں ایسے مقامی الفاظ آ گئے ہیں جن کے معنی بھی ترجمے کے ساتھ دیئے جاتے تو کہانی کو سمجھنے میں زیادہ آسانی پیش آتی۔مثلاًسانکلیاں ، مرکیاں،کھتی ہرتھنا،پوبارہ،کمائی نیبنا،انتس،ڈینوں،ادیٹھ اور چتر وغیرہ۔

کہانی: یاد بسیرے/مصنف:انور خان:

کون اس بات کا انکار کر سکتا ہے کہ اسے اپنے مقام پیدائش سے لگاو نہیں ، یہ کوئی زمینی جنگ یا ملکیت کا مسئلہ نہیں، بس ایک احساس کا ہے۔ جو ہمیں شدت سے اپنی جگہ سے وابستہ رکھتا ہے۔ جوں جوں ہم اپنی اصل جگہ سے دور ہوتے چلے جوتے ہیں توں توں وہ جگہ ہمارے تحت الشعور میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی جاتی ہے۔ انور خان کی کہانی یاد بسیرے ایسی ہی ایک کہانی ہے جس میں خورشید کو اپنے مقام پیدائش یا عام الفاظ میں گاوں سے کس طرح کی انسیت ہے اور وہ انسیت کن حالات میں پیدا ہوئی ہے اس کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں انور خان نے سچے اور سیدھے جذبات کی ایک مکمل تصویر پیش کی ہے۔ جس میں گاوں کا گھر، آس پڑوس کے بڑے بوڑھے، گلی کا ایک مانوس مکان، اس مکان کی کھڑکی سے جھانکتا ہوا ایک معصوم چہرہ،گاوں کا پرانہ درخت، درخت سائے میں کھیلتے ہوئے کچھ بچے ، گاوں کی ندی اور تاریک راستوں کا ادھڑا ہوا جال شامل ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہر اس شخص کے لیے معنی خیز ہیں جو کبھی اپنی زمین سے دور رہا ہے۔ گاوں کے خالی ہونے اور شہروں کوبسانے والے عوام کے لیے بھی اس کہانی میں ایک نوع کا سبق ہے، لیکن اس کہانی کا اصل حسن برسوں کے بعد خورشید کی نظروں میں اس کے جانے پہچانے نظاروں کے کی تیرتی تصویروں سے قائم ہوتا ہے۔کہانی کے ایک ایک لفظ میں اور ایک ایک منظر میں خالص ناسٹلجیائی اثر ہے جو بھر پور مثبت قسم کا ہے۔ انور خان نے کہانی میں سحر انگیز زبان کا استعمال کیا ہے۔ جس کی ایک بڑی خوبی اس کا تسلسل ہے۔

کہانی: کیکٹس/مصنف:حسن منظر:

چار عام سے کرداروں پر منحصر ایک نفسیاتی کہانی ہے۔ جس کا بیانیہ بہت واضح ہے۔ دو جوان (میاں ،بیوی)مکان دیکھ رہے ہیں جن کی زندگی کی شروعات ہے اور دو بوڑھے میاں ، بیوی گھر دکھا رہے ہیں جو اپنی عمر کے آخری پڑاو پر ہیں۔ پوری کہانی میں عام سے مکالمے ہیں جو اس طرح کی صورت حال میں ہوتے ہیں۔ کہانی کا منشا اس کے اختتام پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کہانی دراصل رشتوں کے بکھرنے اور تنہائی کے عذاب کو ظاہر کرنےکی کوشش کر رہی ہے۔ بوڑھا کردار جو جوان میاں ، بیوی کو ان کی حیثیت کا اظہار کر دینے کے باوجود گھر دکھانے پر مصر ہے اس سے اس کی تنہائی کا کرب ظاہر ہوتا ہے۔ حسن منظر نے اس کہانی کو کیکٹس نام بھی غالباً اسی لیے دیا ہے کہ یہ پرانے اور گہرے زخموں کا ایک اچھا استعارہ ہے۔ حالاں کہ اس کا بیانیہ متاثر کن ہے اور کہانی بھی تقریبا مکمل ہی ہے ، لیکن ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ اس کا انجام حسن منظر نے کسی اور طریقے سے کیا ہوتا تو اس کی جازبیت مزید نکھر جاتی۔

کہانی:باخبر بے خبر/مصنف:محمدسلیم الرحمن:

بعض ذمہ داریاں پوری کردینے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔اس سے کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا فائدہ ہوتا ہے، ذہن کے کسی حصے میں کوئی بات ایسی دبی نہیں رہتی جو مستقبل میں کچوکے لگائے۔ محمد سلیم الرحمن کی مختصر کہانی یا اسے ایک واقعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے مجھے اردو کے بہت سے ادیبوں کی حالت یاد آئی۔ انہوں اپنی اس کہانی میں ایک پریشاں حال ادیب عیش صاحب اور ان کی بیوی کی جس ظاہری حالت کا نقشہ کھینچا ہے وہ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی شعرا کا دیکھا ہے۔خرابی اس بات میں نہیں کہ ہم ان شاعروں یا ادیبوں کے اوپر ترس نہیں کھاتے کہ ان کی یہ حالت ہے کہ دو وقت کی روٹی انہیں ملنا مشکل ہے، خرابی اس بات میں ہے کہ جو کچھ ان کو ملنا چاہئے خواہ ان کی خراب حالت کی وجہ سے خواہ ان کی صلاحیتوں کے حاصل کے طور پر وہ ان چاپلوسوں کا مل رہا ہے جو کسی بھی نوع کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے صرف سفارشوں سے بڑی گدیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ سلیم الرحمن کا کردار “میں ” خواہ ایک تازہ کار صحافی ہے ، لیکن اس میں کسی کو ایک مسکراہٹ دینے کا حوصلہ ہے۔ اس نے چاہا کہ اس عورت کو جو کہ عیش صاحب(مسکین ادیب و شاعر) کی رکھیل یا بیوی ہے اس کو پل بھر کی خوشی ملے یا عیش صاحب کی تکلیفوں کو کم کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی جائے، مگر وقت اور حالات نے اس کو اپنے ان ارادوں سے بھی دور کردیا۔ اس کا 25 روپیہ دینا اور 50 نہ پہنچانا ان باتوں کی علامت ہے کہ انسان دوسروں کی باتوں میں آ کر یا اپنے معاملات میں کھو کر کس طرح حق داروں اور مفلسوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ ایک سبق آموز قصہ۔

نظمیں / بنگالی شاعر :شمس الرحمن:

بنگالی شاعر شمس الرحمن کی تین نظمیں آج کے چوتھے شمارے میں شامل ہیں ۔ ان کا عنوان ہے،یہ شہر، عقاب اور کسی زمانے میں۔ ان کو پڑھنے کا یہ پہلا اتفاق ہے۔ ان کے تعارف کے طور پر ایڈیر نےیہ دو سطریں لکھی ہیں :

“1930ء کے لگ بھگ پیدا ہوے۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شائع ہوا۔ اب تک پچیس سے زیادہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمہ طور پر سب سے نمایاں اور مقبول بنگالی شاعر ہیں اور مشرقی اور مغربی بنگال میں بنگلہ زبان میں لکھنے والے صفِ اول کے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی نظموں کے ترجمے کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔”

ان کی پہلی نظم یہ شہر سے ہی ان کی فکر اور قادر الکلامی کا اظہار ہو جاتا ہے۔ شہر کی مختلف حالتوں کو انہوں نے اپنی نظم میں روز مرہ کے عام واقعات سے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ شہر کو ایک آوارہ مزاج شخص کی طرح پیش کیا ہے اور اس کے اندر بسنے والی زندگی کے کیڑوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف علامتوں سے کام لیا ہے۔ یہ بظاہر ایک سادہ نظم ہے ،لیکن اس سے شہر کی بڑھتی اور بے لگام ہوتی آبادی کے مزاج کی عکاسی ہوتی ہے ساتھ ہی شہر ی زندگی کے کمزور پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں ۔ شہر کا تیزی سے بدلتا مزاج اور اس کی زندگی کے مختلف معیارات کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔ اس کی معصومیت کی بھی اور ایک نوع کی سفاکیت کی بھی۔ یہ نظم نہ زیادہ طویل ہے نہ مختصر ۔ مکمل پیرایہ زبان میں ایک مکمل تصویر بنانے کی مقدور بھر کوش ہے۔ ان کی دوسری نظم عقاب بھی یہ شہر کی طرح سادہ سے بیانیہ کی معنی خیز نظم ہے۔ جس میں گنبد سے آتی ہوئی ایک پکار نے گیرائیت پیدا کر دی ہے۔ اس نظم میں موجود بوڑھاعقاب گہری یادوں کا استعارہ ہے۔ جو اپنی حسرت ناک یادوں کے خواب دیکھ رہا ہے ، جو سنہرے بھی ہے اور زخم خردہ بھی۔ اس نظم میں جنگوں کی بو باس بھی ہے اور امن کا سیل رواں بھی۔ مگر گنبد کی آواز اس کی سب سے مضبوط کڑی ہے جس سے مذہبی اعلام کا دخول ہوتا ہے اور امن کی تصویر میں جنگوں کی مصیبتوں کا رنگ بھرجاتا ہے۔ ایک کامل نظم۔ان کی تیسری نظم بھی عقاب کی طرح معنی خیز ہے۔ جس میں ایک گھوڑے کو مرکزی کردار میں پیش کیا گیا ہے۔ ان نظموں کا ترجمہ انگریزی زبان سے فہمیدہ ریاض نے کیا ہے۔

نظمیں / بنگالی شاعر :شمس الحق:

شاعر کا تعارف اجمل صاحب نے یوں پیش کیا ہے:

وسطی بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے شمس الحق اپنی نظموں میں وہاں کے مخصوص لہجے کا نہایت خوب صورت استعمال کرنے کی بنا پر معروف ہیں، اور اسی سبب سے ان کی شہرت محدود اور ان کی نظموں کا ترجمہ مشکل ہے۔ شمس الحق کی نظموں کے انگریزی ترجموں پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب Deep Within the Heart 1984ء میں ڈھاکے سے شائع ہوئی۔

اس شمارے میں ان کی صرف ایک طویل نظم شامل کی گئی ہے۔ اس نظم کا ترجمہ انگریزی سے فہمیدہ ریاض نے کیا ہے۔ نظم کا لہجہ ترجمے کی شکل میں سادہ ہے، لیکن علامتوں سے بھرا ہوا ہے۔ نظم کیا ہے،پیچیدہ خیالات کا مجموعہ ہے۔ اس کی تعاریف اس کی تفہیم کے لیے شاعر کے تہذیبی پس منظر کا علم ضروری ہے۔ ایک خاص ذہنی کیفیت کی نظم ہے۔

سفر نامہ:زندہ بہار/مصنف:فہمیدہ ریاض:

یہ تو نہ ممکن ہے کہ کوئی بھی پڑھنے والا فہمیدہ ریاض کے سفر نامے زندہ بہار کو پڑھ کر غیر جذباتی انداز میں سوچے،کیوں کہ ان کا لفظ لفظ جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ پھر اس پر ان کی رواں نثر نے اس جذبابی لہر میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ فہمیدہ ریاض کا سفر نامہ ایک سحر انگیز تحریر ہے ۔ جس میں انسانی مزاج کی بے شمار پرتیں کھل کر سامنے آتی ہے۔ مفاد پرستی اور سیاسی فیصلوں کی ابتری سے ایک پورا کا پورا سماج کن دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ کس طرح ہم چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر ایک دوسرے سے نفرت کرنے کو اپنی حقیقت سمجھ لیتے ہیں ۔ معاشرے کی نا ہمواریاں اور اس کی سفاکی کو کس طرح خود اپنی بے اعتدالیوں اورجھوٹی اور اندھی تقلید سے پیدا کرتے ہیں ۔ ان باتوں کا احساس فہمیدہ ریاض کی تحریر پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی بھی سفر نامہ اس وقت تک ادھورا ہی رہتا ہے جب تک سفر کرنے والا کچھ ایسی باتوں پر غور کر کے جو اہم ہیں نئے نتائج نا اخذ کرے جن سے اس معاشرے یا خطے کی اصل صورت حال کا علم ہو سکے جہاں کا سفر کیا گیا ہے۔ فہمیدہ ریاض نے بنگلا دیش کی سیاسی صورت حال کا بغور جائزہ لیا ہے اور وہاں کی طبقاتی کشمکش کو بہاریوں اور بنگالیوں کا حصہ بن کر محسوس کیا ہے۔ اس طرح وہ کبھی بہاریوں کے حق میں زیادہ پر خلوص اور جذباتی معلوم ہوتی ہیں تو کبھی بنگالیوں کے حق میں ۔ انہوں نے اپنے سفر کی داستان میں اس معاملے میں اپنی دلی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ایک پاکستانی یا ہندوستانی کی طرح کوئی فیصلہ نہیں سنایا ، بلکہ اصل حقیقت کو جاننے کے لیے وہ بہاریوں کے کیمپ گئیں ، بنگالیوں کی تہذیبی دنیا کو قریب سے دیکھا۔ لوگوں کی منافقت کو سمجھا، سیاسی رہ نماوں کی مجبوریوں اور کوتاہیوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عوامی جذبا ت کو ٹٹولا۔ کسی ایک کھونٹے سے بندھ کر کسی نعرے باز اور کچے صحافی کی طرح کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے بنگلا دیش کی مختلف حالتوں اور حقیقتوں کو خود پر ظاہر کرنے میں کوشاں رہیں ۔ انہوں نے شہر کے مختلف مقامات دیکھے۔ وہاں کی صحافیوں کے تاثرات کو جانا، جلسے جلوس کے ہنگاموں میں راستے بناے اور ایک کامیاب مسافر کی طرح دور دور تک مختلف لوگوں کے ساتھ گئیں تاکہ مختلف خیالات معلوم ہو سکیں ۔ ان ساری باتوں کو جن کو انہوں نے اپنے سفر نامے میں بیان کیا ہے ان سے کہیں یہ بات عیاں نہیں ہوتی کہ فہمیدہ ریاض کسی حقیقت کی تلاش میں سر گرداں ۔ بس ایک ادیب کی طرح سوچتی ہوئی وہ ہمیں چاروں طرف بھٹکتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اسی لیے ان کی سنجیدگی جتنے خلوص کے ساتھ ہماری نظروں کے سامنے آتی ہے اتنی ہی شرارت اور شوخی بھی۔ وہ صرف سیاسی نعروں میں بھنسی چیخیں ہی نہیں سنتیں بلکہ بنگالیوں کی تلاوت بھی سنتی ہیں ان کی قرآن خوانی پر منہ دبا کر ہنستی بھی ہیں اور اپنے چلتے ہوئے رکشے سے گرنے پر پر مزاح فقرہ بھی کستی ہیں ۔ ایک کھلے ذہن کی عورت کی طرح وہ لوگوں کے خیالات کی قدر بھی کرتی نظر آتی ہیں اور مذہبی جذباتیت سے پاک ہو کر مسلمانوں کی نفسیات پرغور کرتی ہوئی بھی۔ اس سفر نامے میں بہت سے مقامات پر حیران کرنے والی باتیں بھی ملتی ہیں ۔ مثلاً بنگالی میلاد جس کے ذکر پر خود فہمیدہ ریاض بھی چونکی تھی قاری کے لیے بالکل نئی چیز ہوتی ہے۔بہاری اور بنگالی لوگوں میں اردو زبان کی تفریق پر مجھے حیرت ہوئی تھی اور بنگالی ،انگریزی مشاعرے کا منظر بھی چونکانے والا تھا۔حالاں کہ یہ ڈھاکہ کا سفر نامہ ہے ،لیکن اس سفر نامے کو پڑھتے ہوئے بعض مقامات پر ڈھاکہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور ذہن پر پورے بنگلا دیش کی تصویر ابھر آتی ہے۔ فہمیدہ ریاض نے پرجاتن ہوٹل کے کمرے میں اپنے بستر میں پھنسی اپنی خیالی فہمیدہ ریاض سے جتنی باتیں کیں وہ پورے سفر نامے کو ایک بالکل ہی مختلف شکل عطا کر دیتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک کہانی کے درمیان ہیں وہ ہی کہانی جس کا تذکرہ خود فہمیدہ نے اس سفر نامے کی ابتدا میں کیا ہےاور پر فیسر خلیق، شرمیلا ٹیگور، بہاری کیمپ کے مکین، اردو ڈپارٹمنٹ کی دوشیزہ، فہمیدہ ریاض اول، دوم ، سوم، آشا پارکھ اور پروفیسر کول وغیرہ اس کہانی کے مختلف کردار ہیں ۔ جن کی منافقت اور معصومیت سے یہ سفر نامہ مرتب ہوا ہے۔ دسمبر کے چند دنوں کی یہ داستان بنگلا دیش کی تاریخ اور سیاست کے چہرے پر لگے کئی سیاہ دھبوں کو اجاگر کرتی ہے۔یہ سفر نامہ کسی سیاست داں کا نہیں اور نہ کسی صحافی کا ہے۔ خود فہمیدہ ریاض کے بھی ان دونوں پہلووں کا نہیں یہ سفر نامہ زندہ بہار لین کو جاتی ایک عورت کا ہے۔جس کے ہر قدم پر ایک تہذیبی انقلاب کی حقیقت کھلتی ہے اور جس کی بینائی کی قوت تاریخ کےکمزور فیصلوں کی کھوکھلی بنیادوں کودیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فہمیدہ ریاض نے بنگلادیش سے گنگا کو دیکھ کر جو سوچا اس کا اظہار کوئی پاکستانی شائد اتنے جذباتی انداز میں نہ کرپائے یا جس طرح وہ ایک بنگلا دیشی بچی کو جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھ کر مسکراتی ہیں اس کو بھی شائد کوئی صحافی بہت پروفیشنل نظروں سے دیکھے ۔ فہمیدہ ریاض کا کمال یہ ہے کہ وہ عمل اور قید نظر سے آزاد ہو کر بنگلا دیش میں رہیں ۔ زندہ بہار کے متن کے درمیان ہر طرح کی قومیت سے آزاد ہو کر گھومتی پھریں اور اسی لیے ایک لا جواب سفر نامہ تحریر کر سکیں۔ان کے سفر نامے میں کئی باتیں ذاتی رائے کا درجہ رکھتی ہیں جن سے اختلاف ممکن ہے۔ مگر ان کی نثر کی روانی ان کے اظہار کے بہاوں میں جذب ہو کر اس شدت سے قاری کے دل پر جاری ہوتی ہے کہ سارا اختلاف دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ فہمیدہ ریاض نے مختصر سے دنوں میں ڈھاکا کا ایک دلچسپ اور پر لطف مزید سنجیدہ مسائل سے بھرا ہوا سفر نامہ اردو کو دیا ہے۔ جس کے لیے قابل مبارکباد ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *