Laaltain

معنیٰ کے اثبات میں اور دیگر نظمیں

23 ستمبر، 2025


بات ہوتی ہے کہاں

بات ہوتی ہے کہاں
لفظ و معنی میں خموشی کی جو دیوار ہے گرتی ہی نہیں
بولتے رہتے ہیں ہم بے سر و پا
بولتے رہتے ہیں اور کٹتا چلا جاتا ہے لفظوں کا بدن
کوئی تعبیر نہیں خوابِ گریزاں کی اس آئینے میں
جس میں تم تھی تو وہ تھا
جس میں میں ہوں تو وہ خود گرد ہوا جاتا ہے
گرد سے راہ نمودار تو ہو ۔۔۔ راہ نکلتی ہی نہیں
لفظ و معنی میں جو دیوار ہے اس کا سایہ
ڈھانپ لیتا ہے اشاروں کا بدن
اور ٹھٹھرتے ہوئے موہوم کنایوں کی رگوں میں بہتا
جیسے خوں جم جائے
زخم خوردہ ہے بدن روح میں گھاؤ ہیں بہت
بات کس ڈھب سے بنے
بات ہو بھی تو کہاں
دوپہر شام تک آتی ہے تو اظہار کے پیرائے بھی ڈھل جاتے ہیں
خواب در خواب وہی خوابِ گریزاں کی لپک
دشت در دشت وہی رم خوردہ
تم وہ آہو ہو کہ میں
کوئی تعبیر نہیں کھلتی سو کیسے کہیے
جیسے چھو لیتے ہوں آئینے سی دیوار کو ہم سوتے ہوئے
ایک جھٹکے سے اٹھے، اٹھ کے بہت دیر خموشی میں رہے
پھر بہت دیر بہت لفظ بہت آوازیں
باہر اندر ہیں بہت آوازیں
لفظ اکھڑتے ہیں جگہ سے اپنی
ایسا لگتا ہے کہ دیوار میں روزن سا ہوا، اینٹ اکھڑی
تم ہو اس پار کہ آپ اپنی ہی پرچھائیں کی دہشت میں ہوں میں
درز سے جھانک تو سکتا ہوں مگر ڈرتا ہوں
بات ہوتی ہے کہاں اتنی پریشانی میں
اتنے الجھاؤ میں آوازوں کے
کہتے کہتے کوئی کچھ کہہ نہیں پاتا آخر
یہ “کوئی” تم ہو کہ میں !
آنکھ میں آتے ہوئے آنسو کا معنی کیا ہے
گریہ زن میں تھا کہ تم
تم سے کہتا ہوں : کوئی بات کرو توڑ بھی دو یہ دیوار
تم مگر کانچ کے ٹکڑوں کی چبھن سے ڈرتی
صرف رو دیتی ہو اور میرے لیے صرف یہ آواز ہی رہ جاتی ہے
بات ہوتی ہے کہاں

۔۔۔۔۔


معنیٰ کے اثبات میں

ہم جو لکھتے ہیں معنیٰ کے اثبات میں
بیٹھ کر لفظ کی گھات میں
کیسی معتوب تاریخ کے حاشیے میں وہ اثبات ہے
جس کا جغرافیہ ہم میں دم بھر کو خاموش رہتا نہیں
ہم اسیرانِ کوہ و دمن
جو ہماری لرزتی ہوئی نبض میں نوحہ گر
نغمہ در نغمہ نوحوں کی ترتیل میں لفظ خود کھو گئے
نام گم ہو گئے
کتنا ابہام ہے جبر کے منطقوں میں اترتا ہوا
جیسے معنٰی کے اثبات میں کوئی نغمہ نہ ہو
نوحہ گر کوہ و دامان کی وسعتیں جیسے باہر نہ ہوں
سانس کی لگتی گرہوں میں ہوں
سانس کی آمد و رفت رنجِ فراواں کا وہ سلسلہ
جس کو تھمنا تو ہے پر وہ تھمتا نہیں
خوف برحق ہے جو ہم پہ نازل ہوا
آیتِ خوف پر اس تیقن سے ایمان لائے کہ جینے کا مفہوم ڈر ہو گیا
حرفِ انکار جو رینگتا تھا کبھی اپنے ہونٹوں پہ بھی
ڈر تلے دب کے نامعتبر ہو گیا
حرفِ اقرار ہے اور مسلسل ہے چو سمت میں
شور ہے ان کا جن کی زبانوں پہ “ہم مانتے ہیں” کی آواز ہے
ایک تکرار ہے جس میں لب کھولیے بھی تو معنی سے خالی سخن کی خبر ۔۔۔
کچھ اُنہی پیچ و خم کھائے رستوں کی؟ کوہ و دمن کی خبر ؟
کچھ نہیں تو ہماری زباں پر خموشی کا شعلہ رہے
ہم جو لکھتے ہیں معنی کے اثبات میں
اب بھٹکتے ہوئے تھک گئے ذات میں
شعلگی کھو گئی اور آنکھوں میں اپنے ہی ہونے کا خاکستری وہم سا رہ گیا
اپنا جغرافیہ ہے رگ و پے میں اب بھی دھڑکتا ہوا ؟
کچھ کہو رہ گئے ہم بھی یا کچھ نہیں ؟
ہم جو لکھتے تھے معنی کے اثبات میں ۔۔۔

۔۔۔۔۔


کیا ہم سب گم ہو جائیں گے

لکیر کے اِس طرف ہجومِ سگاں کی شوریدگی کا منظر
عجیب جنگل ہے جس میں کوئی کسی پہ بھی رونما نہیں ہے
درخت بہتات میں ہیں لیکن ہوا نہیں ہے
پرندگاں بے شمار شاخوں پہ اور کوئی بولتا نہیں ہے
لکیر جیسے ہو سانپ سا رینگتا ہوا بے تکان بن میں
لکیر جیسے ہو خوف لرزاں اکیلے پن میں
مہیب پرپیچ شاخساروں کی دھند میں راہ کھو گئی ہے
کہ کھو گئی ہے وہ سمت جس میں رواں دواں تھا ہمارا ہونا
کہ خاک نے اِن برہنہ آنکھوں سے تنگ آ کر
خود اپنے چہرے کو ڈھک لیا ہے!
زمیں پشیمانیوں کی زد میں ہے جیسے پہلے کبھی نہیں تھی
زمین جس پر رواں تھا پانی ہمیشگی کا
نہاں تھا جس میں خمیر رنگوں کی زندگی کا
نہ دھوپ ہی کی کرن کہیں اور نہ رات ہی کا سرا کوئی ہاتھ آ رہا ہے
جو چاندنی کا سراغ لائے
دلوں سے پھولوں کے داغ لائے
ہمارے گم کردہ باغ لائے

لکیر کے اُس طرف صداؤں کی نالگی بین کر رہی ہے
وہاں وہ سناہٹوں کی گردش
کہ ڈولتے ہیں شناسا آواز کے قدم بھی
عجیب ہے نالگی کی بندش کا رنگ اب کے
نہیں سخن زیرِ لب جو ہم بھی
تو روح میں جیسے بے کراں رنج کی ہو لرزش
ہمارے ہاتھوں میں وقت سے پیشتر اترنے لگا ہے رعشہ
سروں پہ چاندی بکھر رہی ہے
اُدھر کی آواز سننے والے تمام کانوں کو رینگتے گم شدہ قدم چاپ بھیجتے ہیں
اور اتنا پیغام : خود ہی معنی کشید کر لو !
وہاں کمانوں سے تیر نکلے تو روح میں سو طرح کے چھیدوں کا گھر ہوا ہے
مکینِ جاں کیسا ڈر ہوا ہے :
لکیر کے پار کچھ نہیں ہے
نہ تم کہیں ہو نہ میں کہیں ہوں !

۔۔۔۔۔


۔۔۔تو اب یہ دھیان آتا ہے

تو اب یہ دھیان آتا ہے
کہ کم لکھتے
ہوائے تیز کی رو میں اڑے جاتے ہوئے لفظو
ہمیں تم سے معافی مانگنا ہے چپ نہ رہنے کی
تمہیں مفہوم و معنی سے تہی کرنے
تمہاری کیفیت کو ملتوی کرنے
تمہیں اتنا برتنے کی
کہ اب ہم بھی گریزاں ہیں
تمہارا سامنا کرنے، تمہیں پہچان لینے سے
خموشی کتنی معنی دار ہو جاتی
اگر ہم صبر کر لیتے
مگر ںے صبر موسم روبرو آئے
تو ہم نے کھو دیا جو کچھ ہمارا تھا
بہت لکھا
بہت کھرچے زمیں کے داغ
اور اب جب لہو رستا ہے داغوں سے
تو ہم کو خوف آتا ہے
شبِ تاریک کے پہلے پہر سے آخری موہوم دستک تک
ہم اپنے گھر کے دروازوں کی لرزش
کھڑکیوں کی کھڑکھڑاہٹ سے بدکتے ہیں
وہی گمبھیرتا شب کی
جو صدیوں سے خموشی میں نہاں آواز کا رستہ دکھاتی تھی
تو ہم تکتے نہیں تھے
اب ذرا بولی تو ہم آواز سے ڈرنے لگے ہیں
رمیدہ خوشبوئیں افسردہ پھولوں میں پلٹ آئیں
تو ہم بھی کنجِ بے معنی سے باہر آ کے کھو جائیں
ہوا کے تند گھیرے میں
شبوں کے سُن اندھیرے میں
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہم بولے بہت بولے
ہمیں کم بات کرنا تھی
ذرا دھیمی صدا میں لفظ بُننا تھے
اسے معلوم ہے ہم تاشبِ آخر بہت بولے
سو وہ کیوں آج اپنے دھیان کا دروازہ کھولے
جو مقفل ہے زمانوں سے
نہ دن، سورج کی کرنیں اس کے چھیدوں سے گزرتی ہیں
نہ شب، چلتی ہوائیں اس کی دیواروں میں پوشیدہ دیے سے وصل کرتی ہیں
وہ کیوں دیوار و در سے دو گھڑی نکلے
بھلے ہم اپنی چھاتی کے خلا سے چیخ کر اس کو بلاتے ہوں
سو اب یہ دھیان آتا ہے
تو ہم خاموش رہتے ہیں
مگر خاموش رہنے کا ہنر ہم کو نہیں آتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *