خلقتِ دہر نے یہ جو پرکار سے کھینچ رکھے ھیں سب دائرے
احتجاجاً میں اِن کو نہیں مانتا
یعنی اٹلی کی سڑکوں سے جتنے بھی سیاّح
ہنزہ کے پربت کو چھونے کی خاطر گھروں سے چلیں
اُن کو یہ سرحدی بیریئر روک لیں
اور ڈھاکہ میں نوشاد نوری کی بیٹی اگر پھر سے لاہور آنے کو ترسے تو قدغن لگے
غار کے آدمی کی یہ تہذیب کتنی اکائیوں میں تحلیل ھوتی گئی۔
گویا باڑہ ہے بھینسوں کا, چاروں طرف بانس سے بند ہے.
پھر تو ایسا ھےجتنی سمندر میں ھیں مچھلیاں وہ بھی پابند ھوں
اور اُڑتے ہوئے سب پرندوں کی سرحد بنے
رسیوں سے جکڑ لیجیے روشنی چاند کی
پھلیتی خوشبوؤں کے دھن بند ھوں
کُرہ ارض پہ یار جینے بھی دو
آسمانوں پہ بستے ھوے چند رب کے فرشتوں نے حامی بھری
تو بناوں گا دھرتی کی صورت نئی
کھینچ دوں گا زمیں کے میں سر سے نئی مانگ کا بیریئر
اک طرف ھوں گے خورشید کو دوذخی آگ کا ھمنوا کہنے والے بشر
اور دوُجی طرف، روشنی، آدمی، جھیل، پربت، شجر