Laaltain

زمینی اور آسمانی خواہشوں سے گندھی لڑکی

5 اگست، 2017

یہ آج سے قریب دس سال پرانا قصہ ہے، شاید اسے دس برس پورے ہوگئے ہیں یا نہیں ہوئے۔البتہ میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان دنوں میں ایک چار ایپی سوڈ پر مشتمل مختصر سی فکشن سیریز کے لیے جموں روانہ ہونے والا تھا۔ہمارے ڈائریکٹر کو ایک عدد لڑکی کی تلاش تھی جو کشمیری معلوم ہوتی ہو اور جس کی اردو بھی ٹھیک ٹھاک ہو۔میرے دوست فیضان علی نے کہا کہ ان کی ایک کزن ہے، جو ان دنوں کام کی تلاش میں ہے ، وائسنگ کا اسے کافی تجربہ ہے ، غالبا ایکٹنگ بھی کرلے گی۔میں نے اس کی تصویر منگا کر اپنے ڈائرکٹر کو بھیج دی، مگر انہوں نے یہ کہہ کر ہاتھ اٹھالیے کہ یہ لڑکی کشمیری نہیں معلوم ہوتی، البتہ میزورم کی کوئی خوبصورت گڑیا جیسی لگتی ہے۔بات آئی گئی ہوگئی، مگر اس دوران اس لڑکی سے میری فون پر بات ہوئی تھی، اخلاقی طور پر مجھے برا محسوس ہوا کیونکہ وہ میرے اندازے کے مطابق اس سیریز کا حصہ نہیں بن سکی تھی،چنانچہ میں نے جموں جانے والی ٹرین میں بیٹھ کر اسے موبائل پر ایک پیغام بھیجا ، جس میں فارمل قسم کی معافی مانگی اور یہ امید جتائی کہ آئندہ ہم ضرور کسی دوسرے پراجیکٹ میں ساتھ کام کرسکیں گے۔آئندہ کا لفظ انسانی زندگی کا سب سے غیر یقینی اور مشکوک لفظ ہے، مگر کبھی کبھی یہ اپنے اندر لوہے سے بھی زیادہ استحکام رکھتا ہے، جس طرح شکست ہونی یا فتح ،ہوکر رہتی ہے، اسی طرح انسان کے تعلقات کا معاملہ ہے، آپ کہیں چلے جائیے، کسی سے ملنے کا ارادہ رکھیے نہ رکھیے، کسی کو قریب لائیے یا دور لے جاکر پٹخ آئیے، ذہن کی چمکتی کھڑکی پر محبت کی دھندلپیٹیے یا نفرت کا کہر جمائیے، جس سے جب تک تعلق رہنا ہے اور جس صورت بننا ہے، وہ بن ہی جاتا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ اس جہان رنگ و بو میں سبز و سرخ قسم کی اس عجیب و غریب سانپ سیڑھی کے پھیر سے نکل جائیں۔کوئی سیڑھی پلک جھپکتے ہی آپ کو آسمانی مسند سے متعلق کردے گی اور کوئی سانپ دم کے دم میں آپ کو پاتال کی لاتعلقی کی سمت دھکیل دے گا۔میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ فاطمہ خان نامی اس لڑکی سے ملنے کی میری کوئی خواہش نہ تھی، لڑکیوں اور وہ بھی جوان اور خوبصورت لڑکیوں سے ملنے کی خواہش کس کی نہیں ہوتی۔مگر مجھے امید بالکل نہ تھی کہ میں نہ صرف اس سے تعلق بناسکوں گا بلکہ اس کا تعلق میری زندگی کی سب سے گہری دوستیوں اور محبت کی علامت بن جائے گا۔اب محبت ایک طرفہ ہی سہی۔یہ تو طے ہے کہ فاطمہ خان نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی، اس نے شاید ہی کسی شخص سے محبت کی ہو، اس کا خمیر ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ دنیا کے سود و زیاں کو جھیلتے جھیلتے محبت اور نفرت کے دائروں سے باہر نکل آئی ہے، وہ کوئی شاعر نہیں ہے جو آئیڈیل کردار تراشے ، ایک فرضی براق پر سوار ہو اور عشق کی معراج کے لیے نکل پڑے ، وہ ایک سمپل اور سادھارن قسم کی لڑکی ہے، جس کی خواہشیں زمینی بھی ہیں اور آسمانی بھی۔کسی بھی شخص کے بارے میں لکھی گئی کوئی تحریر دراصل اس شخص کی زندگی کا ایک زاویہ ہے، برٹرنڈ رسل نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ اگر کسی کمرے میں ٹیبل رکھی ہو اور چاروں طرف سے دھوپ اندر آتی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ہر رخ سے دھوپ اور ٹیبل کا منظر کچھ مختلف نظر آرہا ہے، یہی زندگی اور اس میں موجود کرداروں کی حقیقت ہے۔ہر آدمی، ہر آدمی کے لیے ایک جیسا نہیں ہے، اس لیے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ہر شخص کے لیے اپنی عقل کی عدالت میں ایک فیصلہ کرتے ہیں اورہمارے جسم ان فیصلوں کی حفاظت میں ساری زندگی کھپا دیتے ہیں۔فاطمہ خان کے بارے میں یہ تحریر اس کے لیے میرے دماغ کا فیصلہ ہے، اس فیصلے میں میرے تجربات ہی میرے شواہد ہیں، حالانکہ دماغ کی اس عدالت میں مجھے کسی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ یہ کہنے کی کہ میں جو کچھ کہوں گا سچ ہی کہوں گا۔لیکن کوشش کروں گا کہ لفظ سے ایمانداری کا رشتہ قائم رکھ سکوں۔اور وہی کہوں جو میں نے دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا ہے۔

فاطمہ خان ایک مضبوط اعصاب کی لڑکی ہے، اس کے والد کا انتقال اس عمر میں ہوا جب لڑکیوں کو ہمارے معاشروں میں والد کے مضبوط اور گھنے سائے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اس کے والد ایک کسرتی بدن کے ، اونچی قد و قامت والے خوبصورت آدمی تھے، جنہیں ایک بے ضرر دکھنے والے بخار نے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔میں نے ان کی ایک ہی تصویر دیکھی ہے، وہ اپنی قدکاٹھی سے افغانوں سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، تصویر اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے زندگی کو بھی اسی بے نیازی اور بے قدری کے ساتھ گزارا ہوگا، جس طرح ان کے گیسو شانوں کو چھیڑتے ہوئے بے پروائی سے لہر بہر ہوتے نظر آتے ہیں۔فاطمہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے، والد کا انتقال جلد ہوگیا، ماں نے بڑی محنتوں سے دلی میں سیلم پور کی ایک زمین کو فروخت کرکے بیٹی کو وائسنگ کا کورس کروایا۔کورس کافی مہنگا تھا اور بالکل بے سود، کیونکہ فاطمہ کو اس کا سرٹیفکٹ تک نہ مل سکا۔فاطمہ کی والدہ سانولی رنگت والی ایک عورت ہیں، وقت نے ان کے اندر موجود نسوانیت کو کھروچ کھروچ کر محنتوں، مشقتوں کی پتیلی میں انڈیل دیا اور اب وہ ایک ایسے بنجر کی طرح دکھائی دینے لگی ہیں، جن کی دنیا اپنے اندرون سے بیرون تک صرف فاطمہ کی حفاظت اور محبت پر مامور ہے، جسے اپنی پھٹی ہوئی ایڑیوں، جھکتی ہوئی کمر اور مرجھاتے ہوئے جسم کی کوئی فکر نہیں رہ گئی۔ان کا سراپا بتاتا ہے کہ فاطمہ کی فکر کے ساتھ ساتھ، ان کے شوہر کا اچانک طاری کردیا جانے والا ہجر بھی ان پر کتنا گراں گزرا ہے۔وہ زندگی کی بہتی ہوئی سفاک دھاروں سے لڑنے والی ایک چٹان کی طرح اب بھی اپنے وجود کو لیے ساکت و جامد کھڑی ہیں ، مگر پانی کےنکیلے ناخنوں نے ان پر بہت سی خراشیں بھی ڈال دی ہیں۔

فاطمہ کا حسن دلفریب ہے۔وہ ہلکی فربہ اندام ہے، گورا چٹا رنگ۔ لمبے کالے بال، بھرا ہوا گول سینہ، کمر کی پھسلونی ڈھلوان اور پشت سے پچھلی ٹانگوں تک گوشت کی بالکل نپی تلی مقدار نے اسے حسن کے معاملے میں امیر ترین بنادیا ہے۔چہرے سے وہ ضرور شمال مشرقی بھارت کی ایک لڑکی معلوم ہوتی ہے،چھوٹی چھوٹی آنکھیں، کشادہ پیشانی، بھرے ہوئے گال اور پتلے پتلے گلابی ہونٹ۔قد اس کا درمیانہ ہے، نہ بہت لمبا نہ بہت چھوٹا۔آنکھیں لاکھ چھوٹی ہوں، مگر ان میں پھیلی ہوئی پتلی کی چمک ، دیکھنے والے کی روح تک کو نچوڑ لینے کا ہنر جانتی ہے۔وہ اپنے مزاج سے تھوڑی کرخت ہے، ہر کسی سے جلدی بات نہیں کرسکتی۔کتابوں کو جمع کرنے سے بہت دلچسپی ہے، نت نئی کتابیں، الگ الگ موضوعات پر اس کے سرہانے اونگھتی رہتی ہیں، مگر کیا فرق کہ وہ بوسیدہ ہوجائیں، پیلی پڑجائیں اور ان کے بدن میں کاہی رنگ کی مہین مچھلیاں رینگنے لگیں، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ فاطمہ کتابوں کو پڑھے بھی۔اسے ٹھیل ٹھیل کر کوئی کتاب پڑھوانی پڑتی ہے۔انگریزی سے اس نےآزادانہ طور پر ایم اے کیا ہے، جو شاید اب مکمل ہوگیا ہوگا۔اردو مگر اس کی بہتر ہے، زبان شستہ شائستہ استعمال کرتی ہے، اپنی روزمرہ کی گفتگو میں بہت سے ایسے اردو الفاظ میں نے اس سے سنے کہ میں بھونچکا رہ گیا کہ انہیں تو میرے خاندان میں بھی اس طرح استعما ل نہیں کیا جاتا ہے۔اس کی پیدائش دہلی میں ہی ہوئی ہے، مگر اس کی والدہ کا تعلق اترپردیش کے شہر رامپور سے نزدیک ایک علاقے شاہ آباد سے تھا، چنانچہ اس نے بھی بہت سا وقت وہاں گزارا۔والد کے انتقال کے بعد(جو کہ خالص دہلی والے تھے) اسے بھی بہت کڑے وقت سے گزرنا پڑا۔رشتہ دار بڑی عجیب بلا ہوتے ہیں، خاص طور پر ان لڑکیوں کے لیے جن کے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے۔اسے سمجھایا گیا کہ بارہویں جماعت تک کی تعلیم سکول میں پڑھانے کے لیے کافی ہے، ایک تو ریاست اترپردیش کے رشتے دار، اس پر مسلمان۔نہایت پچھڑی ہوئی ذہنیت کے مالک لوگوں سے اس کا سابقہ تھا، انہوں نے اسے پاکیزگی، خاندان، نسبت اور نہ جانے کتنے حوالوں سے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر وہ کسی سکول میں پڑھانے کا مہذب پیشہ نہیں اپنائے گی تو بدنام ہوجائے گی۔سوال بدنام ہونے کا کبھی ہوتا ہی نہیں ہے، سماج بدنام ہونے سے جن معاملات میں لڑکیوں کو ڈراتا ہے ، دراصل وہ انہیں بدنام کردیے جانے کی ایک کھلی دھمکی ہوتی ہے۔فلاں کام مت کرو، ورنہ بدنام ہوجاؤ گی، ارے بھئی بدنام تو تم ہی کروگے، تم چاہو تو نیک نام بھی کرسکتے ہو، یہ تو اسی طرح کی بات ہے کہ کوئی شخص ہاتھوں میں بندوق اٹھاکر کہے کہ میری بات مان لو، ورنہ بندوق چل جائے گی اور ستم یہ ہے کہ بزرگوں، عقلمندوں اور دانشوروں کی ستر فی صد آبادی بندوق تھامے کھڑے ہوئے ایسے ہی سماج کی طرفدار ہوتی ہے۔اس نے سکول میں نہیں پڑھایا اور خوب بدنام ہوئی، رشتہ داروں نے ہی یہ ذمہ لیا اور اس کو بحسن و خوبی ادا بھی کیا۔مجھے یاد ہے ایک روز میرے چھوٹے بھائی سے کسی نے اس کے بارے میں کوئی اول فول بات کی تھی، ہمارے محلے میں ایک اور’ نیک نام’ بزرگ پیارے میاں رہتے ہیں، ان کے کارنامے یہ ہیں کہ پیری مریدی کے فضائل کو خوب سمجھتے ہیں، انہوں نے ان دنوں یہ دکان کھولی نہیں تھی، البتہ اس کی فراق میں ضرور تھے، ان کے بچے ، جن میں بیٹیاں بھی شامل تھیں ، اس قسم کی خرافات کو پسند نہیں کرتی تھیں، وہ محنت کرکے پیسے کمانے والے کاموں میں یقین رکھتی تھیں، چنانچہ فاطمہ کا ان کی بیٹی سے اسی سلسلے میں تعلق قائم ہوا۔مسلمانوں کا محلہ، کمانے والی دو لڑکیاں، جینز پہننے والی، دوپٹے کو خیرباد کہنے والی، ظاہر ہے کوئی اچھا کام تو کرتی نہیں ہوں گی، سماج نے یہی فتویٰ ان کے حق میں دیا اور انہیں ایک خاص نسبت سے رسوا کرنا شروع کردیا۔مگر ہمارے معاشروں کی باغی اور ضرورت مند دونوں قسم کی لڑکیاں،اس بیمار ذہنیت کی اتنی عادی ہوگئی ہیں کہ اس کی بڑ پر دھیان نہ دینے میں ہی انہیں عافیت نظر آتی ہے۔مجھ سے جب تالیف نے اس بات کا ذکر کیا تو مجھے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی، وجہ اس کی یہ تھی کہ میں بھی ایسے ہی قماش کا عزلت نشیں ہوں، جسے کمرے میں بیٹھ کر باہر اپنی بدنامی کروانے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے، اب لڑکا ہوں تو کچھ پیدائشی مراعات حاصل ہیں، یعنی لوگ عزت لٹنے، عزت و ناموس کے خطرے میں ہونے یا باپ دادا کا نام مٹی میں ملا دینے کا طعنہ اس چھوٹی سی بات پر تو ہرگز نہیں دے سکتے کہ میں جینز پہنتا ہوں اور دوپٹہ بھی نہیں اوڑھتا۔

فاطمہ سے میرا تعلق دھیرے دھیرے بنا، جیسے کوئی ہرن دشت میں اگ آنے والے پانی کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتا ہے، کانوں کو پھیلائے ہوئے، پتوں کی سرسراہٹ اور ذرا سی بھی کھسر پھسر پر دھیان جمائے ہوئے۔میں فاطمہ سے میسجز میں بات کرنے لگا تھا، کبھی کبھار اس سے فون پر بھی بات ہوجاتی، پھر یہ ہوا کہ ہم نے باقاعدہ فون پر گفتگو کرنی شروع کردی۔مجھے کبھی کام ہوتا، کبھی نہیں ہوتا۔فارغ اوقات میں زیادہ تر میں اسی کے ساتھ بات کرتا تھا۔ مجھے اس کی عادت سی ہونے لگی تھی، پھر ایک روز اچانک اس نے کہا کہ ہمیں ملاقات کرنی چاہیے۔میں نے ایک دو بار اسے ٹال دیا، وہ گھر آنا چاہتی تھی، مگر میں خوف کھاتا تھا۔ڈر مجھے ملاقات سے زیادہ اپنی ہیت سے تھا۔میں نے اس کی تصویر دیکھی تھی۔جس میں وہ بالوں کو پیچھے سمیٹے، ایک خوبصورت ٹی شرٹ اور جینز میں جامعہ کے کسی کھلے احاطے میں موجود خاموش سیڑھیوں پر بے پروائی سے بیٹھی ہوئی تھی۔ایک تو اس کا رنگ بہت گورا تھا، پھر بیٹھے ہونے کی وجہ سے اس کی قامت کا ٹھیک سے اندازہ بھی نہیں لگ سکتا تھا، مگر وہ بیٹھ کر اپنے قد سے کچھ لمبی ہی معلوم ہوتی تھی۔میں نے تصویر دیکھی تھی، آواز سنی تھی، دونوں بہت خوبصورت اور جاذب تھے، اب سوال تھا، اپنی مٹھی کو کھول کر لکیروں کی کٹی پھٹی ، کالی ، کانی کتری دھجیاں دکھانے کا۔مجھے اس زمانے میں لڑکیوں سے خوف بھی آتا تھا، میں ایک عشق میں تازہ تازہ چوٹ بھی کھائے ہوئے تھا اور میرا اعتماد اس قدر زخمی اور وحشی تھا کہ خوبصورت شیرنی کی آہٹ سنتے ہی دبک کر میں واپس پیاسے اور پھیلے ہوئے دشت کی کوکھ میں اترجانے کو راضی تھا۔پھر ایک روز ایسا آیا کہ اس کے اصرار پر مجھے اس سے ملنا ہی پڑا۔

پہلی بار کی ملاقات کا واقعہ دلچسپ بھی ہے اور میرے لیے ایک بھونڈی یاد بھی، مگر پھر بھی سچ کہنے کی قسم کھا چکا ہوں سو عرض کرتا ہوں۔طے یہ ہوا تھا کہ ہم کمیونٹی سینٹر پر جو کہ میرے گھر سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، ایک ریسٹورنٹ میں ملیں گے۔جہاں ہمارا ملنا طے ہوا وہ فاسٹ ٹریک نامی مشہور ریسٹورنٹ کی ایک فرنچائز تھی۔فاطمہ جانتی ہے کہ آج بھی اس کے سامنے میرا اعتماد ڈول جاتا ہے، میں اوروں کے سامنے جس قدریقین اور پختگی کے ساتھ بیٹھ کر عالیشان جگہوں پر بے نیازی سے ٹھٹھے لگا سکتا ہوں، اس کے نظر آتے ہی میرے چہرے کی ساری ترنگیں بدروحوں کی بھائیں بھائیں میں بدل جاتی ہیں۔وہ سامنے ہوتی ہے تو مینیو کو دیکھنے کی بھی تاب نہیں ہوپاتی۔اوٹ پٹانگ ہانکنے لگتا ہوں، کبھی ادھر کی، کبھی ادھرکی، وہ مجھے سنبھال لیتی ہے، اس کے اندر یہ خاص صلاحیت ہے کہ اس نے ہمیشہ میرے اندر موجود ایک الہڑ قسم کے بے ہودہ اور جنگلی انسان کو سنبھل کر رہنا سکھایا ہے، میرے کسی غیر شائستہ مذاق پر وہ آنکھیں دکھادیتی ہے، زیادہ تر باتیں سنجیدگی سے کرتی ہے، وہ قہقہے نہیں لگاتی، بلکہ زیادہ ہنستی ہے تو اس کی آواز غائب ہوجاتی ہے۔وہ سوٹ پہنے یا ٹی شرٹ اور جینزیاکوئی اور لباس زیب تن کرے، اس کی بردباری، وقار اور زمانے کو دیکھ سکنی والی ایک دکھی آنکھ کا آنسو کبھی خشک ہی نہیں ہوتا۔گوری گردن پر جھولتے ہوئے کالے یا ہلکے سنہری مائل بالوں کی لٹیں مجھے مبہوت کردیتی ہیں اور میں ان رنگوں کو تکتے تکتے اس سے دنیا جہان کی باتیں کرتا ہوں۔پہلی ملاقات کا واقعہ ادھورا رہ گیا۔ہوا یہ کہ میں سفید شرٹ اور کالی فارمل پینٹ میں اس سے ملنے فاسٹ ٹریک پہنچا، ہڑبڑاہٹ میں کانچ کا وہ وسیع و عریض دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا، جو زنجیر سے بندھا ہوا تھا،اندر بیٹھے ہوئے لوگ بے ساختگی سے میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔کچھ دیر بعد مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوئی تو آگے کے دوسرے دروازے سے اندر داخل ہوا اور ایک خالی ٹیبل کے آگے بیزار پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔اور کوئی موقع ہوتا تو میں شرمندگی میں اس ریسٹورنٹ میں ہی نہ جاتا، مگر آج تو ملاقات طے تھی، چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے لوگوں کی ہنستی ہوئی آنکھوں کے درمیان اپنے عشق کی جائے نماز بچھاتے ہی بنی، فاطمہ کچھ دیر بعد وارد ہوئی، میں نے اسے جتنا دراز قامت تصور کیا تھا، وہ اس کی نسبت سے مجھے کافی پستہ قد معلوم ہوئی، مگر اس کے گورے رنگ کی جگمگاہٹ نے میرے چہرے پر موجود سیاہی کو پسینے میں گوندھ کر بوکھلاہٹ میں تبدیل کردیا۔وہ آگے بڑھی اور اس نے ہاتھ بڑھایا، میں نے ہاتھ ملایا اور اس کے آگے بیٹھ گیا، اب سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سارا بدن تو کرسی کے سہارے چھوڑ دیا ہے مگر ان کمبخت ہاتھوں کو کہاں لے جاؤں، کبھی ٹیبل پر دراز ہوجاتے، کبھی بغلوں میں گھسے چلے جاتے، کبھی پیچھے کی طرف کھسکتے، کبھی آگے کو بڑھتے۔بہرحال میں نے پوچھا کہ آپ کیا لینا پسند فرمائیں گی، اس نے کیلی فورنیا برگرکا نام بتادیا۔میں نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کرآرڈر دینے کی سعی کی۔اس سے پہلے میں اس قسم کے ریسٹورنٹ میں نہیں جایا کرتا تھا، میرے لیے کھلے ، آواز لگا کر لوگوں کو بلانے والے بے ساختہ اور غیر مہذب قسم کے ہوٹلوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔میں نے آرڈر لینے والے شخص سے ایک کیلی فورنیا برگر دینے کی درخواست کی۔اس نے بہت محبت کے ساتھ معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ‘سرآج نان ویج دستیاب نہیں ہے۔’ موقع پر اگ آنے والی بوکھلاہٹ کی گھانس نے اپنا کام کردکھایا اور میں نے اس سے کہا ‘کوئی بات نہیں! آپ ویج میں ہی کیلی فورنیا برگر دے دیجیے’اس نے پہلے تو ایک نظر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر زیر لب مسکراتے ہوئے کہا’سر! کیلی فورنیا برگر خالص نان ویج ہوتا ہے۔‘ہمارے درمیان جب بھی اس پہلی ملاقات کا ذکر ہوتا ہے، ہم دونوں خوب ہنستے ہیں۔اس دن کے بعد سے آج تک فاطمہ نے ہی ہر ریسٹورنٹ میں میرے لیے آرڈر دیا ہے، ہم جہاں بھی گئے، جتنی بار بھی ملے۔میں نے اس کے سامنے دوبارہ کبھی آرڈر دینے کی جرات نہیں کی، اب تو وقت بہت گزر گیا اور یہ خاص سی مخملی سچویشن میرے لیے ٹاٹ کی طرح روزمرہ کا معمول ہوگئ ، دوست ہو یا کوئی پروڈیوسر یا کوئی اور ملنے والا۔کمیونٹی سینٹر یعنی سی سی پر مجھے ہر دن ایسی ہی جگہوں پر ملنا ہوتا تھا،میرا اعتماد دوسروں کے سامنے جتنا مضبوط ہوتا گیا، فاطمہ کے آگے میں اتنا ہی بودا،خمیدہ کمر اور کمزور ہوتا چلا گیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے رہن سہن، پہننے اوڑھنے ، کھانے پینے، چلنے پھرنے ہر بات پر اس کی شخصیت کا ایک اثر تھا۔کتابیں پڑھنا میرا شوق تھا، مگر زندگی جینا اور شعور و وقار کے ساتھ، یہ مجھے فاطمہ نے ہی سکھایا۔فاطمہ سے ابتدائی دنوں کی چند ملاقاتوں کے بعد میری زندگی میں آفرین نامی ایک لڑکی داخل ہوگئ،وہ فاطمہ کی طرح بالکل نہ تھی۔فاطمہ اپنے دوستوں اور تعلقات میں بے تکلف ہوسکتی تھی، ان کے سامنے اپنے دکھڑے رو سکتی تھی، ان کے غم اور خوشیوں کے تعلق سے ساری باتیں سن سکتی تھی، مگر آفرین ایک الگ قسم کی لڑکی تھی، اس کا نیچر ڈومیننٹ تھا۔اس نے مجھے پہلی بار بدن کی لذت سے بخوبی آگاہ کیا، وہ مجھ سے بہت سے کام لینے لگی، میں نے اس کے لیے کافی سکرپٹس لکھیں، وہ مجھے بلاتی، کام کرواتی اور بغیر پیسے دیے اپنے جسم کی حرارت دے کر ایک خوبصورت ترین استحصال کا جرم کرتی۔آفرین کی اپنی دنیا تھی، اپنے طریقے اور اپنے اصول تھے، وہ سب ہی کے ساتھ ایسی ہی تھی، اسے نہ دنیا کی فکر تھی، نہ دین کی۔فاطمہ کی طرح نہیں، جو دین اور دنیا کے درمیان ،جدیدیت اور قدامت کے دوراہے پر کھڑی ہوئی ایک متذبذب انسان کی طرح بہت سے مسائل سے گھری تھی، جسے ماں کی محبت بھی عزیز تھی، عقبیٰ کی فکر بھی اور دنیا کمانے کی خواہش بھی۔فاطمہ کا تعلق میرے ساتھ ایک کام کی غرض سے بنا تھا، وہ کام نہیں ہوسکا، مگر تعلق بن گیا، لیکن پھر تعلق میں بھی درار آنے لگی اور آفرین اس درار کا بڑا سبب بن گئی، جن دنوں آفرین سے میں نیا نیا ملا تھا، مجھے اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہ تھا، وہ مجھے ملنے بلائے، گھنٹوں اپنے ساتھ رکھے، کام کروائے، پیسے دے نہ دے، مجھے ان سب باتوں سے کوئی غرض نہیں تھی، وہ میرے ہوس پرست تخیل کی پیدا کردہ ایک ایسی جیتی جاگتی تصویر تھی، جو مجھ سے اپنی مرضی کا کام لیتی تھی اور مجھ میں میری مرضیوں کے آئنے روشن کرتی چلی جاتی تھی۔اس کی شفاف پنڈلیوں پر بہنے والے پسینے سے لر ، اس کے پستانوں کی چھوٹی چھوٹی کٹوریوں تک میں نے اس کے بدن کا سارا ذائقہ اپنی زبان کی نوک پر رکھ کر دیکھا تھا ۔ وہ کوئی ساحرہ تھی، جس کی کشش سے نکلنا دنیا کا سب سے مشکل کام معلوم ہوتا تھا۔مگر پانی ہو یا سودا، سرپرچڑھتا بھی ہے تو اترنا بھی اسی حقیقت کا ایک دوسرا پہلو ہے۔

آفرین کا جادو بھی اترا اور ایسا اتر اکہ فاطمہ کا جادو سر پر چڑھ گیا، ان دنوں فاطمہ سے گھر پر ملاقاتیں ہوتی تھیں، وہ گھر آجاتی اور ہم ایک کمرے میں بیٹھے بہت سی باتیں کرتے رہتے۔ اس کے مغربی طرز کے اندازرہائش کے پیچھے ایک نہایت مشرقی قسم کی خاتون موجود تھی، جو نیل پالش کے مسائل پر بھی اسلام سے ایک قسم کا جانبدارانہ سرٹیفکٹ طلب کرتی معلوم ہوتی تھی۔ان دنوں میرا وتیرہ یہ بن گیا تھا کہ میں حقیقت میں کم اور تصور میں زیادہ اس کے بدن کی گلابیوں کو پیتا رہتا اور بہت سے شعر بناتا۔میرے پہلے شعری مجموعے کے زیادہ تر اشعار فاطمہ کی بغلوں، چھاتیوں اور گردن سے پھوٹنے والی دھواں دار مہک کا ہی نتیجہ ہیں، آٹے جیسی گندھی ہوئی رنگت سے پھیلنے والی خوشبو میرے نتھنوں سے ہوتے ہوئے نسوں کے باریک اور گتھے ہوئے جال میں پھیل جاتی۔وہ کوئی بے وقوف ہوگا، جس نے کہا کہ عشق میں ہوس کا کوئی دخل نہیں۔میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ ہوس پرستی کا شکار فاطمہ کے قرب کے لیے رہا ہوں، وہ ساتھ ہوتی ہے تو نہ جسم بات کرتا ہے نہ زبان،آنکھیں بے سمت راہوں میں گھورتی ہیں اور ہاتھ بے اندازہ جگہوں پر دوڑتے ہیں، مگر میں اس سے ملاقات کی نت نئی تدبیریں ڈھونڈ کر، زندگی کی باسی مٹھائیوں پر چاندی کے ورق چڑھاتا رہتا ہوں۔اس سیم گوں رنگ لڑکی کے جسم کی گھلاوٹوں نے رفتہ رفتہ آفرین کے یاد کرائے ہوئے سبق کو قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیا۔
فاطمہ کی اپنی ایک دنیا ہے، وہ سیر و تفریح کی غرض سے اپنے تین مزید دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کے سبزی مائل فاصلے ناپتی رہتی ہے۔کبھی شملہ، کبھی منالی، کبھی چوکٹا تو کبھی کہیں اور۔اس نے چند لوگوں سے دوستی کی اور خوب نبھائی ہے۔لڑکے ہوں یا لڑکیاں، جو خوبصورت سا سرکل اس نے اپنے تعلقات کا بنایا ہے اس پر کسی بھی قسم کی بیزاری کا سایا تک منڈراتا نظر نہیں آتا۔اسے فطرت سے ایک خاص قسم کی رغبت ہے۔دوردرشن اردو میں نوکری کرتی ہے، مگر اردو کے شاعروں ، ادیبوں کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی نہ ہی اسے لٹریچر میں کوئی خاص دلچسپی ہے، میرے کہنے پر جب اس نے ادبی دنیا کے لیے ریکارڈنگز کرنا شروع کیں تو بہت سی کہانیاں پڑھیں، ہم راتوں میں بیٹھ کر وہ کہانیاں پڑھتے اور انہیں ایڈٹ کرکے یوٹیوب کی سنہری جھیل میں سرکا دیتے۔اس کی پڑھی ہوئی کہانیوں میں آواز کے نپے تلے قدم صاف طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔مکالموں کی ادائیگی ہو یا گہرا، مبہم بیانیہ وہ دونوں کو بیان کرنے کا طریقہ جانتی ہے۔یہ تو ہندوستان کا المیہ ہے کہ یہاں ہر شخص کو زبردستی وہ کام کرنا پڑتا ہے، جو اس کی مرضی کے برخلاف بس پیٹ کی دوزخ کو بجھانے میں ہی کام آسکے ورنہ فاطمہ اتنی شاندار وائز اوور آرٹسٹ ہے کہ اگر اس کو تھوڑی سی مزید تربیت اور ایک بہتر ماحول مل جائے تو وہ اس میدان میں شہرت کے جھنڈے گاڑ سکتی ہے۔میں ایسا اس لیے نہیں کہہ رہا کیونکہ میں اسے پسند کرتا ہوں، پسند اور محبت کے دائرے اپنی جگہ مگر صلاحیت کے پھلنے پھولنے والے خطوط کو ان سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

میں نے فاطمہ کو قریب دس برس تک دیکھا، آس لگائی کہ ساری زندگی اسی کے ساتھ گزرے ، مگر وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی اور ایک دن جب اس نے اپنی شادی کا اعلان کیا تو ہمارے درمیان موجود فاصلوں کی کھائی کچھ اور گہری ہوگئی۔میں اس کھائی کو پاٹ کر اس کے پاس پہنچنا تو چاہتا ہوں، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ وہ جس شخص کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی، اسی کے پہلو سے لگ کر کل کل کرتے ہوئے جھرنے کی طرح بہنے کا اسے موقع ملا ہے، زندگی ایسے موقعے بہت کم لوگوں کو دیتی ہے۔اس نے اپنی زندگی میں بہت دکھ دیکھے، پٹرول پمپ پر کام کیا، تپتی ہوئی دھوپ میں پروموشن کے لیے جب وہ پٹرول پمپ کی تپا دینے والی گرم ہوائوں کے سائے میں کھڑی رہتی تھی تو اس کی جلد سفید سے گہری ، سرخ آمیز گلابی ہوجاتی اور کئی بار دیکھنے والوں کی نگاہیں بھی اس سفاک منظر سے دہشت کھاکر پگھل جاتیں۔مگر وہ اپنے عزم اور استقلال کے لحاظ سے مستحکم تھی، وہ چاہے تو آج بھی اپنے ارادوں کے چوپائے کو کامیابی کے مائونٹ ایورسٹ پر پہنچا سکتی ہے، مگر شاید ‘وہ چاہے تو’کہنا ہمارے معاشرے کی لڑکیوں کے لیے زیادہ آسان ہے، جہاں ان کو اپنی ہر کامیابی کے لیے بدن اور لگاوٹ کے چھوٹے بڑے خراج ادا کرنے پڑتے ہیں۔فاطمہ یہ خراج دینے پر آمادہ نہیں ہے، اس لیے ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی مرد اس سے بغیر کسی وعدے اور ارادے کےوہ خدمات لینا چاہے ، جن کو ادا کرنے کے لیے اسے صرف اپنے گلے سے کام لینا ہو۔کیونکہ مجھ سمیت دنیا کا ہر مرد ایک گرسنہ کتا ہے، جس کی بھوکی اور ننگی نگاہیں عورتوں کی مہک کو کچلنے کے علاوہ اور کوئی مقصد ہی نہیں رکھتیں، پھر وہ عورتیں، چاہے دوست ہوں، چاہے محبت، خواہ ہمدرد ہوں، خواہ دشمن۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *