دریا مرتا جاتا ہے
ہانپتے گِرتے جہلم کی البیلی لہروں کے اُس جانب
بستی جو چرخہ کاتتی شور مچاتی رہتی ہے
دن کے سارے پہروں میں
اُس بستی کے آنگن اندر
رات کو پہرہ دار کی سیٹی
سُن کر بستر گرماتے ہیں بچے
وہ بستی اب قصبہ بن کر پھیلتی جاتی ہے
شیطان کی الجھی آنت کے جیسی
جس کے سارے اُلجھاوے سے
سانس رکے ہے
اُس بستی میں
دور دور تک پھیلے باغوں کی مٹی سے
تازہ کنوں مہک سے اپنی
ٹھنڈے جسموں کے ریشوں میں تازہ لہو کا رقص جمائیں
ریشم خوابوں کے جگنو بھی
بہکی سانسوں کو گرمائیں
اُس بستی میں
جیون اپنی چوکھٹ پر سب
رنگ رنگ کے کھیل سجائے
چلتا جائے
اور تمھاری راہ کو تکتی
روگ میں لپٹی
شپھی کے چہرے پر رقصاں
اڑی ترچھی قندیلوں سے پھوٹتی حدت
دیپ سی روشن
بستی جو چرخہ کاتتی شور مچاتی رہتی ہے
دن کے سارے پہروں میں
اُس بستی کے آنگن اندر
رات کو پہرہ دار کی سیٹی
سُن کر بستر گرماتے ہیں بچے
وہ بستی اب قصبہ بن کر پھیلتی جاتی ہے
شیطان کی الجھی آنت کے جیسی
جس کے سارے اُلجھاوے سے
سانس رکے ہے
اُس بستی میں
دور دور تک پھیلے باغوں کی مٹی سے
تازہ کنوں مہک سے اپنی
ٹھنڈے جسموں کے ریشوں میں تازہ لہو کا رقص جمائیں
ریشم خوابوں کے جگنو بھی
بہکی سانسوں کو گرمائیں
اُس بستی میں
جیون اپنی چوکھٹ پر سب
رنگ رنگ کے کھیل سجائے
چلتا جائے
اور تمھاری راہ کو تکتی
روگ میں لپٹی
شپھی کے چہرے پر رقصاں
اڑی ترچھی قندیلوں سے پھوٹتی حدت
دیپ سی روشن
بہتے جہلم کے ماضی کی کتھا کہانی
بولتا پانی، کہتا جائے
بوڑھا دریا چلتا جائے
گرتے پڑتے یگ میں تم بھی
شام ڈھلے تک آ جانا کہ اس سے پہلے
چرخہ کاتتے، ریشم بنتے، خواب سجاتے
ہاتھوں میں جب چھید پڑیں تو
بوڑھا دریا کچی مٹی کے پہلو میں
لحظہ لحظہ مرتا جائے
بولتا پانی، کہتا جائے
بوڑھا دریا چلتا جائے
گرتے پڑتے یگ میں تم بھی
شام ڈھلے تک آ جانا کہ اس سے پہلے
چرخہ کاتتے، ریشم بنتے، خواب سجاتے
ہاتھوں میں جب چھید پڑیں تو
بوڑھا دریا کچی مٹی کے پہلو میں
لحظہ لحظہ مرتا جائے
4 Responses
Good poetry
beautiful Azfar bhai.
Nastolgic poetry
کلاسک نظم ہے جس میں استعاروں کا اندرونی نظام مربوط اور دلسوز کیفیات کا مظہر ہے جونفسیاتی لاشعور کی پیچیدگیوں کے تارو پود سے مل کر بنا ہے سماجی اشارے بہت جاندار اور زبان ثقافتی زرخیزی سے بھرپور ہے ۔