[blockquote style=“3”]
رابرٹ ایڈلر کا یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
[/blockquote]
مصنف: رابرٹ ایڈلر
ترجمہ: فصی ملک
ترجمہ: فصی ملک
لوگ اس سوال پر ہزارہا سال سے مغز ماری کرتے آ رہے ہیں کہ کائنات اپنا وجود کیوں رکھتی ہے۔تقریباً تمام قدیم تہذیبوں نے تخلیق کی ایک اپنی ہی کہانی پیش کی ہے جن میں سے بہتوں نے معاملات کو خدا کے اوپر چھوڑ دیا ۔ جب کہ فلسفیوں نے اس مضمون پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔لیکن سائنس نے اس بنیادی سوال کے بارے میں بہت کم رائے دی ہے۔
تاہم رواں برسوں میں کچھ ماہرینِ طبیعیات اور کونیات نے اس کا جواب تلاش کرنا شروع کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں کائنات کی تاریخ اور جن قوانین پر یہ کام کرتی ہے ان کی آگہی حاصل ہو گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس معلومات سے ہمیں اس چیز کا اشارہ ملے گا کہ کائنات اپنا وجود کیسے اور کیوں رکھتی ہے۔
ان کا (بجا طور پر) متنازعہ جواب یہ ہے کہ کائنات – انفجارِ عظیم(Big Bang) کے آتشی گولے سے لے کر ستاروں سجی کائنات تک جس میں اب ہم رہتے ہیں- عدم(nothing) سے یک لخت وجود میں آئی۔وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ہی تھا کیوں کہ عدم فطرتی طور پر غیر مستحکم(unstable) ہے۔
یہ ہیں وہ (وجوہات) کہ کس طرح عدم سے کچھ وجود میں آیا ہو گا۔
خالی فضا سے بنتے ذرات:
سب سے پہلے ہمیں کوانٹم میکانیات کے دائرہِ کار پر نظر ڈالنی ہو گی۔یہ طبیعیات کی وہ شاخ ہے جو ہمیں چھوٹی اشیاء جیسا کہ جوہر یا اس سے بھی چھوٹی چیزوں کے بارے میں جانکاری دیتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی کامیاب نظریہ ہے اور بہت سارے جدید برقیائی گیجٹس(electronic gadgets) کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔
کوانٹم میکانیات ہمیں بتاتی ہے کہ تہی فضا جیسی کوئی شئے نہیں ہے۔حتٰی کہ مکمل خلا بھی ذرات اور ضد ذرات کے ہیجان پذیر کہر سے بھری ہوئی ہے جو لپک کر وجود میں آتے ہیں اور پھر فوراً ہی واپس عدم میں کوچ کر جاتے ہیں۔ یہ مجازی ذرات، جیسا کہ ان کو کہا جاتا ہے، اتنی دیر زندہ نہیں رہتے کہ ہم بلاواسطہ ان کا مشاہدہ کر سکیں مگر ہم ان کے اثرات سے جانتے ہیں کہ یہ وجود رکھتے ہیں۔
لامکان اور لا زمان سے آیا زمان و مکان:
جوہروں جیسی چھوٹی اشیاء سے لے کر کہکشاؤں جیسی بڑی چیزوں تک۔ ہمارا بہترین نظریہ جو ان بڑی ساختوں کی وضاحت کرتا ہے عمومی نطریہ اضافیت کہلاتا ہے ۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ زمان، مکان اور انجذاب کیسے کام کرتے ہیں۔
اضافیت کوانٹم میکانیات سے بہت مختلف ہے اور آج تک کوئی بھی ان دونوں کو ٹھیک سے متحد نہیں کر پایا۔تاہم کچھ نظریہ دان منتخب تقارب(chosen approximations) کی مدد سے کچھ خاص مسائل پر دونوں نظریات کو ملانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ طریق کار کیمبرج یونیورسٹی کے سٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking) نے ثقب اسودوں(black holes) کی وضاحت کے لیے استعمال کیا تھا۔
اضافیت کوانٹم میکانیات سے بہت مختلف ہے اور آج تک کوئی بھی ان دونوں کو ٹھیک سے متحد نہیں کر پایا۔تاہم کچھ نظریہ دان منتخب تقارب(chosen approximations) کی مدد سے کچھ خاص مسائل پر دونوں نظریات کو ملانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ طریق کار کیمبرج یونیورسٹی کے سٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking) نے ثقب اسودوں(black holes) کی وضاحت کے لیے استعمال کیا تھا۔
ایک چیز جس کا انہوں نے پتا چلایاہے یہ ہے کہ جب کوانٹم نظریے کو فضا پر چھوٹے پیمانے پر لاگو کیا جاتا ہے تو سپیس بذاتِ خود غیر مستحکم ہو جاتی ہے۔ کلی طور پر ہموار اور استوانہ رہنے کی بجائے زمان اور مکان غیر مستحکم ہو کر زمان و مکان کے بلبلوں کے کف(foam) جی شکل اختیار کر لیتا ہے جو وجود پاتے اور فنا ہو تے جاتے ہیں۔
باالفاظ دیگر، زمان و مکان کے بلبلے فی البدیہہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایری زونا سٹیت یونیورسٹی کے لارنس کراس کا کہنا ہے کہ اگر زمان اور مکان قدریائی(quantized) ہیں تو ان میں اتار چڑھاؤ(ٖfluctuations) آ سکتا ہے لہٰذا آپ جس طرح مجازی ذرات پیدا کرتے ہیں اسی طرح مجازی زمان و مکان بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
باالفاظ دیگر، زمان و مکان کے بلبلے فی البدیہہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایری زونا سٹیت یونیورسٹی کے لارنس کراس کا کہنا ہے کہ اگر زمان اور مکان قدریائی(quantized) ہیں تو ان میں اتار چڑھاؤ(ٖfluctuations) آ سکتا ہے لہٰذا آپ جس طرح مجازی ذرات پیدا کرتے ہیں اسی طرح مجازی زمان و مکان بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر یہ (زمان و مکان کے) بلبلے بن سکتے ہیں تو یہ یقیناً بنیں گے۔ تفت یونیورسٹی (tuft university) کے الیگزینڈر ویلنکو (Alexander Vilenkin) کا کہنا ہے کہ کوانٹم میکانیات میں اگر کوئی چیز مانع نہیں ہے تو وہ لازمی طور پر غیر صفری امکان کے ساتھ وقوع پذیر ہو گی۔
بلبلے سے بنی کائنات:
لہٰذا صرف ذرات یا ضد ذرات ہی نہیں بلکہ زمان و مکان کے بلبلے بھی عدم سے حیات و فنا پا سکتے ہیں۔ تاہم ابھی بھی زمان و مکان کے ایک صغاری بلبلے سے انتہائی وزنی کائنات، جو دس ارب کہکشاؤں کی رہائش گاہ ہے، تک جانا ایک بہت بڑی جِست ہے۔ یقیناً اگر ایک بلبلہ بنتا بھی ہے تو وہ پلک جھپکنے میں دوبارہ فنا نہیں ہو جائے گا؟
درحقیقت بلبلے کے لیے بقا حاصل کرنا ممکن ہے مگر اس کے لیے ہمیں کونی افراط (cosmic inflation) کی ضرورت ہے۔
بہت سارے طبیعیات دانوں کا ماننا ہے کہ کائنات کا آغاز انفجارِ عظیم (Big Bang) سے ہوا۔ پہلے پہل کائنات میں موجود تمام مادہ اور توانائی نا قابلِ تصور اصغر نقطے میں مرکوز تھا اور یہ (نقطہ) پھٹ گیا۔ اس کا پتہ بیسویں صدی کہ اس دریافت سے ہوا جو یہ بتاتی ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اگر تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں تو کبھی وہ لازمی طور پر قریب ہوتی ہوں گی۔
بہت سارے طبیعیات دانوں کا ماننا ہے کہ کائنات کا آغاز انفجارِ عظیم (Big Bang) سے ہوا۔ پہلے پہل کائنات میں موجود تمام مادہ اور توانائی نا قابلِ تصور اصغر نقطے میں مرکوز تھا اور یہ (نقطہ) پھٹ گیا۔ اس کا پتہ بیسویں صدی کہ اس دریافت سے ہوا جو یہ بتاتی ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اگر تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں تو کبھی وہ لازمی طور پر قریب ہوتی ہوں گی۔
افراطی نظریہ یہ کہتا کہ انفجارِ عظیم کے فوری بعد کائنات بہ نسبت بعد میں آنے والے وقت کے بہت زیادہ تیزی سے پھیلی۔ اس انوکھے نظریے کو 1980 کی دہائی میں ایم آئی ٹی (MIT) کے ایلن گتھ (Alan Guth) نے پیش کیا اور سٹانفرڈ(Stanford) یونیورسٹی کے آندرے لندے(Andre Linde) نے مزید بہتر بنایا۔
مرکزی خیال یہ ہے کہ انفجارِ عظیم کے بعد ایک سیکنڈ سے بھی کم دورانیے کے لیے قدریائی پیمانے(quantum sized) کا مکانی بلبلہ بہت تیزی سے پھیلا۔ بہت ہی کم وقت میں یہ نواتی جسامت (size of nucleus)سے ریت کے ذرے کے برابر پہنچ گیا۔بالآخر جب پھیلاؤ سست ہوا تو وہ قُوی میدان(force field) جس نے اس (پھیلاؤ) کو جنم دیا تھا مادہ اور توانائی میں منتقل ہو گیا جس سے آج کائنات بھری پڑی ہے۔ گُتھ افراط کو حتمی مفت ظہرانے کا نام دیتا ہے۔
عجیب و غریب تو یہ دکھتی ہے مگر افراط حقائق پر بہت خوبصورتی سے پورا اترتی ہے۔خاص طور پر یہ اس چیز کی وضاحت کرتی ہے کہ پس منظری کونی خِرد موجیں آسمان پر تقریباً مکمل یکساں کیوں ہیں۔ اگر کائنات اِس تیزی سے نہ پھیلی ہوتی تو یہ موجیں ٹکروں میں بٹی ہوتیں۔
کائنات ہموار ہے اور یہ کیوں اہم ہے:
افراط نے کونیات دانوں کو وہ وسیلہ بھی فراہم کیا ہے جو انہیں کائنات کی جیومیٹری کو سمجھنے کے لیے درکار تھا۔ یہ سامنے آیا ہے کہ یہ (افراط) اس بات کے ادراک کے لیے بہت اہم ہے کہ کیسے کائنات عدم سے وجود میں آئی۔
آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت ہمیں بتاتا ہے کہ زمان و مکان، جس میں ہم رہتے ہیں، تین مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔ یہ ایک میز کی سطح کی طرح ہموار ہو سکتا ہے۔یہ ایک کرہ کی سطح کی طرح منحنی ہو سکتا ہے اس طرح کی اگر آپ ایک ہی سمت میں بہت دور تک چلتے ہیں تو واپس اسی جگہ پہنچ جائیں گے جہاں سے آپ نے چلنا شروع کیا تھا۔ متبادلاً زمان و مکان ایک پالان(saddle) کی مانند باہر کی جانب منحنا ہو سکتا ہے۔ تو پھر یہ(زمان و مکان) کیسا ہے۔
یہ جاننے کا ایک راستہ ہے۔ آپ کو اپنی سکول کی ریاضی کی جماعت سے یہ یاد ہو گا کہ کسی بھی مثلث میں تینوں زاویوں کا مجموعہ 1800 کے برابر ہوتا ہے۔درحقیقت آپ کے استاد نے ایک اہم نقطہ چھوڑ دیا تھا وہ یہ کہ ایسا صرف ہموار سطح کے لیے ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک غُبارے کی سطح پر مثلث بنائیں تو اس کے زاویوں کا مجموعہ 1800سے زیادہ ہو گا۔اس کے برعکس اگر آپ ایک پالان (saddle) جیسی سطح کے اوپر مثلث بنائیں تو اس کے زاویوں کا مجموعہ 1800 سے کم ہو گا۔
آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت ہمیں بتاتا ہے کہ زمان و مکان، جس میں ہم رہتے ہیں، تین مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔ یہ ایک میز کی سطح کی طرح ہموار ہو سکتا ہے۔یہ ایک کرہ کی سطح کی طرح منحنی ہو سکتا ہے اس طرح کی اگر آپ ایک ہی سمت میں بہت دور تک چلتے ہیں تو واپس اسی جگہ پہنچ جائیں گے جہاں سے آپ نے چلنا شروع کیا تھا۔ متبادلاً زمان و مکان ایک پالان(saddle) کی مانند باہر کی جانب منحنا ہو سکتا ہے۔ تو پھر یہ(زمان و مکان) کیسا ہے۔
یہ جاننے کا ایک راستہ ہے۔ آپ کو اپنی سکول کی ریاضی کی جماعت سے یہ یاد ہو گا کہ کسی بھی مثلث میں تینوں زاویوں کا مجموعہ 1800 کے برابر ہوتا ہے۔درحقیقت آپ کے استاد نے ایک اہم نقطہ چھوڑ دیا تھا وہ یہ کہ ایسا صرف ہموار سطح کے لیے ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک غُبارے کی سطح پر مثلث بنائیں تو اس کے زاویوں کا مجموعہ 1800سے زیادہ ہو گا۔اس کے برعکس اگر آپ ایک پالان (saddle) جیسی سطح کے اوپر مثلث بنائیں تو اس کے زاویوں کا مجموعہ 1800 سے کم ہو گا۔
تو یہ جاننے کے لیے کہ کیا کائنات واقعی ہموار ہے ہمیں ایک بہت بڑی مثلث کے زاویوں کا مجموعہ ماپنا ہو گا۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر افراط کردار ادا کرتی ہے۔ اس نے پس منظری کونی خرد موجوں کے سرد اور گرم ٹکروں کی اوسط جسامت معلوم کی۔ان ٹکروں کی پیمائش 2003 میں کی گئی اور اس سے ہیت دانوں کو مثلثٰں چنے میں مدد ملی۔ اس کے نتیجے میں اب ہم جانتے ہیں کہ پیمائش کے ممکنہ اکبر پیمانوں پر کائنات ہموار ہے۔
یہ ثابت ہوا ہے کہ ایک ہموار کائنات بہت اہم ہے کیوں کہ ایک ہموار کائنات ہی عدم سے دجود میں آ سکتی ہے۔
ستاروں اور کہکشاؤں سے لے کر اس روشنی تک جس سے ہم ان کو دیکھتے ہیں، ہر اس چیز کا کہیں نہ کہیں سے آغاز ہوا ہے جو وجود رکھتی ہے۔ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ کوانٹمی پیمانے پر ذرات وجود میں آتے رہتے ہیں۔لہٰذا ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ کائنات میں کچھ بچے کھچے (ذرات) موجود ہوں گے۔لیکن ستارے اور سیارے بنانے کے لیے بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔تو کائنات نے اتنی زیادہ توانائی کہاں سے حاصل کی؟ شاید اسے یہ توانائی کہیں سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ایسا اس لیے ہے کیوں کہ کائنات میں موجود ہر جسم انجذاب(Gravity) پیدا کرتا ہے جس سے وہ دوسرے اجسام کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔یہ اس توانائی کو متوازن کر دیتا ہے جس کی اسے شروع میں مادہ کو بنانے میں ضرورت پڑی تھی۔
ستاروں اور کہکشاؤں سے لے کر اس روشنی تک جس سے ہم ان کو دیکھتے ہیں، ہر اس چیز کا کہیں نہ کہیں سے آغاز ہوا ہے جو وجود رکھتی ہے۔ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ کوانٹمی پیمانے پر ذرات وجود میں آتے رہتے ہیں۔لہٰذا ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ کائنات میں کچھ بچے کھچے (ذرات) موجود ہوں گے۔لیکن ستارے اور سیارے بنانے کے لیے بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔تو کائنات نے اتنی زیادہ توانائی کہاں سے حاصل کی؟ شاید اسے یہ توانائی کہیں سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ایسا اس لیے ہے کیوں کہ کائنات میں موجود ہر جسم انجذاب(Gravity) پیدا کرتا ہے جس سے وہ دوسرے اجسام کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔یہ اس توانائی کو متوازن کر دیتا ہے جس کی اسے شروع میں مادہ کو بنانے میں ضرورت پڑی تھی۔
یہ ایک پرانی طرز کے ترازو کی طرح ہے جس کے ایک طرف آپ کوئی بھاری وزن رکھتے ہیں جو دوسری طرف موجود وزن کے ساتھ توازن قائم کرتا ہے۔کائنات کے معاملے میں پیمانے کے ایک طرف مادہ پڑا ہوتا ہے جو دوسری طرف انجذاب سے توازن قائم کرتا ہے۔
ہموار کائنات کے لیے طبیعیات دانوں نے حساب لگایا ہے کہ مادہ کی توانائی انجذاب(جس کو کوئی جسم پیدا کرتا) کی توانائی کے برابر ہوتی ہے ۔ لیکن یہ صرف ہموار کائنات کے لیے صحیح ہے۔ اگر کائنات منحنی ہوتی تو یہ(توانائی کا) مجموعی ایک دوسرے کو ختم(cancel) نہ کرتے۔
کائنات یا کثیرنات؟ (Universe or Multiverse?)
اس نقطے پر کائنات بنانا قریب قریب سہل لگتا ہے۔کوانٹم میکانیات ہمیں بتاتی ہے کہ عدم قدرتی طور پر غیر مستحکم ہے لہذٰا عدم سے وجود میں آنے والی جِست ناگزیر تھی۔ اور نتیجتاً زمان ومکان کا بلبلہ ایک بھاری صروف کائنات میں پھیل سکتا تھا، جس کے لیے افراط کا شکریہ۔ جیسا کہ کراس کا کہنا ہے کہ طبیعیات کے قوانین جن کو اب ہم جانتے ہیں اس بات کو نمایاں طور پر معقول بناتے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی—نہ مکان، نہ زمان، نہ ذرات—ایسی کسی بھی چیز سے نہیں جس کو اب ہم جانتے ہیں۔
تو ایسا صرف ایک ہی دفعہ کیوں ہوا؟ جب ایک بلبلہ عدم سے وجود میں آیا اور پھول کر ہماری کائنات میں بدل گیا تو باقی بلبلوں کو ایسا کرنے سے کس نے روکا؟
لِنڈے اس کا سادہ مگر حیران کن جواب فراہم کرتا ہے۔وہ قیاس کرتا ہے کہ کائناتیں ہمیشہ سے وجود میں آ رہیں ہیں اور یہ عمل ہمیشہ جاری رہے گا۔ لِنڈے کا کہنا ہے کہ جب کوئی نئی کائنات پھولنا بند کر دیتی ہے تو بھی یہ ایسی سپیس میں گھری ہوتی ہے جو مسلسل پھول(inflate) رہی ہوتی ہے۔یہ پھولتی ہوئی کائنات مزید کائناتوں ،جن کے گرد پھیلنے کے لیے ابھی بھی سپیس موجود ہوتی ہے، کی افزائش کر سکتی ہے۔لہذٰا جب ایک دفعہ افراط شروع ہو تو اسے کائناتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بنانا چاہیے۔لِنڈے اس کو دائمی افراط (eternal inflation)کا نام دیتا ہے۔ہو سکتا ہے ہماری کائنات ایک لامتناہی ساحل پر ریت کا ایک ذرہ ہو۔
ہو سکتا ہے وہ کائناتیں ہماری کائنات سے بالکل مختلف ہوں۔ممکن ہے پڑوس میں موجود کائنات کی ہماری کائنات کی طرح سپیس کی تین ابعاد – لمبائی، چوڑائی اور اونچائی – کی بجائے پانچ جہتیں ہوں۔ ثقل دس گنا زیادہ قوّی یا ہزار گنا نحیف ہو یا پھر ہو سکتا ہے وہ سِرے سے موجود ہی نہ ہو۔ہو سکتا ہے مادہ یکسر مختلف ذرات سے مل کر بنا ہو۔ لہذٰا یہاں کائناتوں کی ایک تنوع ہو سکتی ہے۔لِنڈے کہتا ہے کہ دائمی افراط نہ صرف ایک حتمی مفت ظہرانہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا ظہرانہ ہے جس پر کھانے کی تمام ممکنہ اقسام میسر ہیں۔
تاہم ابھی تک ہمارے پاس اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ دوسری کائناتیں وجود رکھتی ہیں۔لیکن کسی بھی صورت میں یہ “لاشئے کے لیے شکریہ” کو ایک نیا مطلب فراہم کرتیں ہیں۔