[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
کیشیئر
[/vc_column_text][vc_column_text]
جسم کے الاؤ میں
خواب کے بہاؤ میں
اک پرانی حسرت کے
گھاٹ پر اُترنے تک
نظم اُس نے کہنی تھی
لفظ مجھ سے اُلجھے ہیں
بات اُس نے کرنی تھی
سوچ میری بھٹکی ہے!
خواب کے بہاؤ میں
اک پرانی حسرت کے
گھاٹ پر اُترنے تک
نظم اُس نے کہنی تھی
لفظ مجھ سے اُلجھے ہیں
بات اُس نے کرنی تھی
سوچ میری بھٹکی ہے!
جب حدیں مقرر ہوں
زندگی کو جینے کی
ناتمام حسرت پر
بے شمار پہرے ہوں
وصلِ منتظر کے دکھ
ہجر سے بھی گہرے ہوں!
زندگی کو جینے کی
ناتمام حسرت پر
بے شمار پہرے ہوں
وصلِ منتظر کے دکھ
ہجر سے بھی گہرے ہوں!
دھڑ دھڑاتے سینوں میں
تھر تھراتی سانسوں میں
کپکپاتی بانہوں میں
آرزو کے بستر پر
سلوٹیں تو پڑتی ہیں
خواہشوں کے پتلوں میں
سوئیاں تو گڑتی ہیں
شام کے ستارے نے
جب نظر کو ٹوکا ہو
جب کھلی حقیقت پر
اک فسوں کا دھوکا ہو!
تھر تھراتی سانسوں میں
کپکپاتی بانہوں میں
آرزو کے بستر پر
سلوٹیں تو پڑتی ہیں
خواہشوں کے پتلوں میں
سوئیاں تو گڑتی ہیں
شام کے ستارے نے
جب نظر کو ٹوکا ہو
جب کھلی حقیقت پر
اک فسوں کا دھوکا ہو!
بینک ایسے جسموں کی
روحیں کیشیئر نکلیں
جو مچلتے جذبوں سے
ہمکنار ہونے کی
لذّتِ روا تج کر
سنگِ ضبط کی زد پر
قہرِ شہر سے ڈر کر
کیف و لطف کے لمحے
دیکھتی ہوں گنتی ہوں
اور خود ترستی ہوں!
روحیں کیشیئر نکلیں
جو مچلتے جذبوں سے
ہمکنار ہونے کی
لذّتِ روا تج کر
سنگِ ضبط کی زد پر
قہرِ شہر سے ڈر کر
کیف و لطف کے لمحے
دیکھتی ہوں گنتی ہوں
اور خود ترستی ہوں!
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]