[blockquote style=”3″]
نصیر احمد ناصر کی یہ نظم اس سے قبل ہم سب پر بھی شائع ہو چکی ہے جسے نصیر احمد ناصر کی اجازت سے لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
اپالو اور اتھینا ۔۔۔۔۔ حالتِ التوا میں لکھی گئی نظم
[/vc_column_text][vc_column_text]
منظومہ!
میں نے تمہیں بارہا دیکھا ہے
بارگاہوں، خانقاہوں اور تاریخ کی رہداریوں سے گزرتے ہوئے
بیلوں، باروں، دو آبوں میں چلتے ہوئے
بظاہر تمہاری عمر میری عمر سے کم ہے
لیکن تمہاری محبت کے پاؤں
عمر رسیدہ زمانوں کی گرد سے اٹے ہوئے ہیں
اور تمہارا سینہ
دودھیا کائناتی روشنیوں سے بھرا ہوا ہے
جانے تم کن کہکشاؤں سے آتی ہو
کن ملکوں، اقلیموں سے گزرتی ہو
اور کن دارالخلافوں کی جانب رواں رہتی ہو
بدن کا لباس پہنے ہوئے تمہاری روح
جب میرے پانیوں میں اترتی ہے
تو دھوپ میں سکڑے سمٹے اور سوکھے ہوئے
سگریٹ کے دھویں جیسے
اِکا دُکا بادلوں کو بھی بھیگنا آ جاتا ہے
پیاس کا دریا ہونا کتنا بڑا پیراڈوکس ہے
یہ تو کوئی جل کھور مٹی کا کنارہ ہی بتا سکتا ہے
ہم کاغذی کشتیوں سے کھیلنے والے
بالٹی بھر پانی کو بھی سمندر سمجھ لیتے ہیں
اور اس تھوڑی دیر کی مِنی اوڈیسی میں
اپالو اور اتھینا بن جاتے ہیں!
میں نے تمہیں بارہا دیکھا ہے
بارگاہوں، خانقاہوں اور تاریخ کی رہداریوں سے گزرتے ہوئے
بیلوں، باروں، دو آبوں میں چلتے ہوئے
بظاہر تمہاری عمر میری عمر سے کم ہے
لیکن تمہاری محبت کے پاؤں
عمر رسیدہ زمانوں کی گرد سے اٹے ہوئے ہیں
اور تمہارا سینہ
دودھیا کائناتی روشنیوں سے بھرا ہوا ہے
جانے تم کن کہکشاؤں سے آتی ہو
کن ملکوں، اقلیموں سے گزرتی ہو
اور کن دارالخلافوں کی جانب رواں رہتی ہو
بدن کا لباس پہنے ہوئے تمہاری روح
جب میرے پانیوں میں اترتی ہے
تو دھوپ میں سکڑے سمٹے اور سوکھے ہوئے
سگریٹ کے دھویں جیسے
اِکا دُکا بادلوں کو بھی بھیگنا آ جاتا ہے
پیاس کا دریا ہونا کتنا بڑا پیراڈوکس ہے
یہ تو کوئی جل کھور مٹی کا کنارہ ہی بتا سکتا ہے
ہم کاغذی کشتیوں سے کھیلنے والے
بالٹی بھر پانی کو بھی سمندر سمجھ لیتے ہیں
اور اس تھوڑی دیر کی مِنی اوڈیسی میں
اپالو اور اتھینا بن جاتے ہیں!
ہمارا کوئی دریا ہے نہ سمندر
بادباں نہ مستول
ہم محبت کے ڈیلٹا ہیں
اور تیرنے کے بجائے ڈوبنا بلکہ دھنسنا پسند کرتے ہیں
اپنی ہی دلدلوں میں
یہاں تک کہ کوئی بازو ہمیں پکڑ کر کھینچ نہ لے
اور ہمارے کیچڑ سے بھرے جسموں کو
شاور کے نیچے کھڑا کر کے
دنیا کی ساری بارش ہمارے اوپر نہ انڈیل دے
یہی محبت ہے
کیچڑ کو اجلا کر دینا
مٹی اور پانی کو یک رنگ کر دینا
اور خوابی تھیلے میں گُھس کر سکون کی نیند سو جانا!
بادباں نہ مستول
ہم محبت کے ڈیلٹا ہیں
اور تیرنے کے بجائے ڈوبنا بلکہ دھنسنا پسند کرتے ہیں
اپنی ہی دلدلوں میں
یہاں تک کہ کوئی بازو ہمیں پکڑ کر کھینچ نہ لے
اور ہمارے کیچڑ سے بھرے جسموں کو
شاور کے نیچے کھڑا کر کے
دنیا کی ساری بارش ہمارے اوپر نہ انڈیل دے
یہی محبت ہے
کیچڑ کو اجلا کر دینا
مٹی اور پانی کو یک رنگ کر دینا
اور خوابی تھیلے میں گُھس کر سکون کی نیند سو جانا!
منظومہ!
ایک خواب سے دوسرے خواب میں جانا آسان نہیں ہوتا
جیسے ایک خلا سے دوسرے خلا میں
ایک آگ سے دوسری آگ میں
ایک پانی سے دوسرے پانی میں
ایک بدن سے دوسرے بدن میں
ایک عمر سے دوسری عمر میں
جانے کتنی عمریں اسی ادھیڑ بُن میں گزر جاتی ہیں
اور ہم ایک چھوٹی سی جست بھرتے ہوئے گبھراتے ہیں
آنکھ کھُل گئی تو کیا ہو گا؟
جس طرح پھول کا کِھلنا بہار کی علامت ہے
اس طرح آنکھ کا کُھل جانا ہی محبت ہے
بند آنکھوں سے مرا تو جا سکتا ہے
محبت نہیں کی جا سکتی
محبت موت کا التوا ہے!
محبت زندگی کا اجرا ہے!!
ایک خواب سے دوسرے خواب میں جانا آسان نہیں ہوتا
جیسے ایک خلا سے دوسرے خلا میں
ایک آگ سے دوسری آگ میں
ایک پانی سے دوسرے پانی میں
ایک بدن سے دوسرے بدن میں
ایک عمر سے دوسری عمر میں
جانے کتنی عمریں اسی ادھیڑ بُن میں گزر جاتی ہیں
اور ہم ایک چھوٹی سی جست بھرتے ہوئے گبھراتے ہیں
آنکھ کھُل گئی تو کیا ہو گا؟
جس طرح پھول کا کِھلنا بہار کی علامت ہے
اس طرح آنکھ کا کُھل جانا ہی محبت ہے
بند آنکھوں سے مرا تو جا سکتا ہے
محبت نہیں کی جا سکتی
محبت موت کا التوا ہے!
محبت زندگی کا اجرا ہے!!
Image: Ravshaniya
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
One Response
Apollo And Athena … A Poem Scribbled in the State of Abeyance!
Manzoomeh!
I have seen you many times
passing through the mausoleums
lodges of dervishes
and the annals of history,
walking into the forests,
plains and the interfluves
Seemingly you are younger than I am
but, the feet of your love
are covered with the dust of bygone centuries
and your bust is full of
milky-cosmic lights
God knows,
what galaxies have you come from
what countries and realms you pass through
and what capitals of the world you travel to
but when your soul
wearing a terracotta cloak
step into my waters
then, even the sun-stroked
dehydrated clouds
scattered here and there
like cigarette puffs suspended in the air
learn how to get drenched
It is known only to the cracked soil
on a dried river bed
how big a paradox it is, when
the thirst cannot be quenched by the entire river
We, who can only play with
the paper-boats in a pail of water, envisage
it is the entire ocean itself
and in this short-lived odyssey of ours
become none other than Apollo and Athena…
Ours is no river, no ocean
no masts, no sails belong to us
We are a delta full of love
and instead of swimming
we like to get drowned, rather trapped
in our own bogs, until
someone pulls us out of it
and under the shower
pours all the rain in the world
over our mud-soaked bodies
Love, it is
to wash away it all
till it becomes a slush and then
to get into a sleeping bag
to sleep in peace
Manzoomeh!
It is not a child’s play
to get into one dream from another
like, from one void to another
from one fire to another
from one river to another
from one body to another
from one age to another
Wonder, how many ages pass,
just in this ambiguity
we hesitate, just to take a small leap
what if we wake up
right in the middle of a dream
Just like a blossoming flower
is the harbinger of Springtime
awakening, is the real love
With eyes firmly shut,
one can only die, not be in love
Love, is the abeyance of the end
Love, is the genesis of one’s being!
Poem by Naseer Ahmed Nasir
English translation by Kamran Awan