[blockquote style=“3”]
پروفیسر شہباز علی کی یہ تحریر اس سے قبل ایک روزن پر بھی شائع ہو چکی ہے۔ یہ تحریر لالٹین اور ایک روزن کے مابین مواد کی باہمی تقسیم و شراکت کی مفاہمت کے تحت شائع کی جا رہی ہے۔
[/blockquote]
راول پنڈی کے معروف ترین راجا بازار میں آج سے تقریباً بیس برس قبل “شہزادہ بینڈ” کے نام سے ایک میوزک بینڈ کی دکان ہوا کرتی تھی۔ شہزادہ بینڈ کے مینیجر کو سب “بھیاء جی” کَہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بھیاء جی رہتک حصار کے رہنے والے تھے اور ان کے کچھ رشتہ دار ملتان اور کچھ کراچی میں آباد تھے۔
بھیاء جی مجرّد تھے اور ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آزاد تھے۔ انہیں موسیقی کا شوق ہوا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر راول پنڈی کا رُخ کیا۔ وہ موسیقی تو خیر نہ سیکھ سکے البتہ ایک بینڈ کی مینیجری سنبھال کر فن کاروں کے قدردان ضرور بن گئے۔ بھیاء جی خود بھی ہارمونیم کے دو ایک سُر دبا کر کبھی کبھار گاتے تھے۔ لیکن موسیقی سے لگاؤ کی بنا پر وہ راول پنڈی کے گانے بجانے والوں میں بہت مشہور تھے۔ وہ تمام چھوٹے بڑے فن کاروں کی چائے پانی سے خاطر تواضع کرتے اور ان کا گانا سنتے تھے۔
بھیاء جی مجرّد تھے اور ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آزاد تھے۔ انہیں موسیقی کا شوق ہوا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر راول پنڈی کا رُخ کیا۔ وہ موسیقی تو خیر نہ سیکھ سکے البتہ ایک بینڈ کی مینیجری سنبھال کر فن کاروں کے قدردان ضرور بن گئے۔ بھیاء جی خود بھی ہارمونیم کے دو ایک سُر دبا کر کبھی کبھار گاتے تھے۔ لیکن موسیقی سے لگاؤ کی بنا پر وہ راول پنڈی کے گانے بجانے والوں میں بہت مشہور تھے۔ وہ تمام چھوٹے بڑے فن کاروں کی چائے پانی سے خاطر تواضع کرتے اور ان کا گانا سنتے تھے۔
ان کا گھر کسی پیر کے آستانے کی مانند نظر آتا تھا۔ جہاں ہر وقت ان کے عقیدت مند انہیں گھیرے رکھتے تھے۔
گانے والوں سے بھیاء جی کا تعلق ضرور تھا لیکن انھیں شیخی بگھارنے کی بہت عادت تھی۔ جو فن کار بھی ان کی دکان پر جاتا تو اسے کہتے “ابھی مہدی حسن میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے دو تین سو روپے کی روٹی اسے کھلائی ہے”۔ وہ فن کار اُٹھ کر جاتا تو کوئی اور آ جاتا۔ اُسے کہتے “ابھی اُستاد سلامت علی خاں میرے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔” غرض پاکستان کے تمام فن کاروں کے حوالے سے وہ ایسی ہی گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایک بار میں اپنے کسی دوست کے ساتھ بھیاء جی کی دکان پر گیا تو بھیاء جی نے حسبِ عادت کہا “ابھی طفیل نیازی میرے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔” میں نے آزمانے کی خاطر جھٹ سے بھیاء جی سے فرمائش کر دی کہ بھیاء جی میری طفیل نیازی صاحب سے ملاقات کرا دو۔ بھیاء جی نے کہا! یہ تو کوئی بات ہی نہیں، جب کہو گے ملوا دوں گا۔
ایک روز میں اور میرا دوست وقت طے کر کے بھیاء جی کے ڈیرے پر پہنچ گئے۔ وہاں سے بھیاء جی کو ساتھ لیا اور طفیل نیازی صاحب کے گھر بغیر اطلاع کے دستک دے دی۔ تھوڑی دیر بعد ان کا چھوٹا بیٹا باہر آیا۔بھیاء جی نے اس سے کہا کہ ابو کو کہو کہ بھیاء جی بینڈ والے آئے ہیں۔ کچھ دیر باہر انتظار کے بعد ان کے بیٹے نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ طفیل نیازی صاحب سے بھیا جی کے واقعتا مراسم تھے۔ نیازی صاحب نے ہماری خاطر تواضع کی اور کافی دیر تک ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔ طفیل نیازی صاحب سے میری پہلی ملاقات بھیاء جی کی معرفت ہوئی اور اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا۔ کبھی ٹی۔ وی اسٹیشن پر، کبھی ریڈیو اسٹیشن پر اور کبھی کسی نجی محفل میں۔
طفیل نیازی صاحب انتہائی خلیق، ملنسار اور انکسار پسند انسان تھے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے سے انتہائی پُر خلوص انداز میں ملتے اور اسے اپنے پاس بٹھاتے تھے۔ ان کے گھر پر ہر وقت ملاقاتیوں، دوستوں اور شاگردوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور ان کا گھر کسی پیر کے آستانے کی مانند نظر آتا تھا۔ جہاں ہر وقت ان کے عقیدت مند انہیں گھیرے رکھتے تھے۔ اس پہلی ملاقات کے بعد بھی مجھے کئی بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا لیکن میں نے ان کے رویے میں کبھی کوئی فرق محسوس نہ کیا۔
طفیل نیازی صاحب کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے لوک موسیقی میں کلاسیکی موسیقی کو اس انداز سے سمویا کہ ان کی یہ جدت آفرینی ایک خاص انداز میں ڈھل گئی۔
جہاں تک ان کے گانے کا تعلق ہے تو وہ بھی دل کھول کر سُنا۔ کبھی اُستاد فتح علی خاں (ستار نواز) کی برسی میں اور کبھی آرٹ کونسل کی کسی محفل میں، کبھی کسی کے گھر پر اور کبھی اُستادعبدالقادر پیارنگ صاحب کی برسی میں۔ غرض مجھے ان کا گانا سننے اور انہیں قریب سے دیکھنے کا بہت موقع ملا۔ ان محفلوں میں وہ اپنے مشہور گیت مثلاً “ساڈا چڑیاں دا چنبہ”، “میرا سوہنا سجن گھر آیا”، “میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال”، “دُور جا کے سجناں پیارے یاد آن گے”، “درد اں مار لیا وے میرا دل ڈردا نہ بولے”، “سجناں وچھوڑا تیرا جند نہ سہار دی” وغیرہ گا کر حاضرین کو مسحور کر تے تھے۔
طفیل نیازی صاحب کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے لوک موسیقی میں کلاسیکی موسیقی کو اس انداز سے سمویا کہ ان کی یہ جدت آفرینی ایک خاص انداز میں ڈھل گئی۔ ان کے گانے کا انداز اس قدر پُر پیچ اور مشکل تھا کہ آج تک کوئی دوسرا فن کار ان کے اس انداز کی تقلید نہ کر سکا۔ وہ اپنے اس انداز کے موجد اور مخترع خود ہی تھے۔ انہیں بارہ کے بارہ سُروں پر عبور تھا۔ ایک راگ میں کوئی دھن گاتے ہوئے کسی دوسرے راگ کے سُروں کو چھونا اور اس خوب صورتی سے چھونا کہ سامعین اش اش کر اُٹھیں، انہی کا خاصہ تھا۔ کہنے کو تووہ ایک لوک گلوکار تھے لیکن گاتے وقت کلاسیکی موسیقی کے تمام لوازمات یعنی الاپ، پلٹا، تان، بہلاوا سب ہی پیش کر جاتے تھے۔
طفیل نیازی صاحب کو اگر گانے بجانے والوں کا پسندیدہ فن کار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اُستاد نصرت فتح علی خاں مرحوم کے والد کی برسی (منعقدہ فیصل آباد) میں وہ باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔ برسی کی محفل میں تمام چھوٹے بڑے فن کار بڑے انہماک سے ان کا گانا سنتے اور انھیں نذریں پیش کرتے تھے۔ اُستاد سلامت علی خاں، مہدی حسن صاحب، ملکۂ ترنم نور جہاں غرض کوئی ایسا فن کار نہ تھا جسے طفیل نیازی صاحب کا گانا پسند نہ ہو۔ اُستاد سلامت علی خاں اور مہدی حسن صاحب تو اسلام آباد میں انہی کے ہاں قیام کرتے تھے۔
انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد حاجی رحیم بخش سے حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے میاں ولی محمد کپورتھلہ والے اور پنڈت امرناتھ آف بٹالہ سے کسبِ فیض کیا۔
طفیل نیازی صاحب 1916ء کو مشرقی پنجاب ضلع جالندھر کے ایک قصبے مڈیراں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پکھاوجیوں کے خاندان سے تھا۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد حاجی رحیم بخش سے حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے میاں ولی محمد کپورتھلہ والے اور پنڈت امرناتھ آف بٹالہ سے کسبِ فیض کیا۔ ان کے خاندان کے کچھ بزرگ سکھوں کے ربابی تھے اور گُر دواروں میں بانیاں گایا کرتے تھے۔ ابتداء میں طفیل نیازی صاحب نے خود بھی گُردواروں میں بانیاں گائیں۔
طفیل نیازی صاحب کے دیرینہ رفیق کار، نام ور ادیب ممتاز مفتی صاحب اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“گھر والوں نے طفیل کے تیور دیکھ کر محسوس کیا کہ سارا دھن جا رہا ہے، سوچا آدھا بانٹ دیتے ہیں۔ بچپن کا شوق ہے اسے پورا کر دو شاید کچھ دیر کے بعد سمجھ آ جائے اور پکھاوجیا واپس گھر آ جائے۔ گھر میں طفیل کی بڑی حیثیت تھی اس لیے کہ چار بھائیوں کے گھر میں صرف ایک نرینہ اولاد تھی۔ اس لیے وہ سب کا پیارا تھا۔ لاڈلا تھا۔ سب نے مل کر مشورہ کیا اور طفیل کو امرت سر کے قریب پمبا گاؤں کے گُردوارے میں نوکر کرا دیا۔ وہاں طفیل کے نانا ربابی کی حیثیت سے ملازمت کر رہے تھے۔ پمبا گُردوارے میں طفیل کا کام گرو نانک کی بانی کے بھجن میں سنگت کرنا تھا”۔ (1)
“گھر والوں نے طفیل کے تیور دیکھ کر محسوس کیا کہ سارا دھن جا رہا ہے، سوچا آدھا بانٹ دیتے ہیں۔ بچپن کا شوق ہے اسے پورا کر دو شاید کچھ دیر کے بعد سمجھ آ جائے اور پکھاوجیا واپس گھر آ جائے۔ گھر میں طفیل کی بڑی حیثیت تھی اس لیے کہ چار بھائیوں کے گھر میں صرف ایک نرینہ اولاد تھی۔ اس لیے وہ سب کا پیارا تھا۔ لاڈلا تھا۔ سب نے مل کر مشورہ کیا اور طفیل کو امرت سر کے قریب پمبا گاؤں کے گُردوارے میں نوکر کرا دیا۔ وہاں طفیل کے نانا ربابی کی حیثیت سے ملازمت کر رہے تھے۔ پمبا گُردوارے میں طفیل کا کام گرو نانک کی بانی کے بھجن میں سنگت کرنا تھا”۔ (1)
تین برس تک پمبا گُردوارے میں کام کرنے کے بعد طفیل نیازی صاحب اپنے والد کی معرفت گوندوال گئوشالہ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس پارٹی میں وہ گاؤں گاؤں گھوم کر گئو رکشا کا پرچار کیا کرتے تھے۔ گئو رکشا پارٹی میں تقریباً چار سال گزارنے کے بعد وہ راس دھاریوں کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ راس دھاریوں سے طفیل نیازی صاحب نے ناٹک اور قصہ خوانی کا فن سیکھا۔ کچھ عرصے بعد اسے چھوڑ کر انھوں نے نوٹنکی میں شمولیت اختیار کر لی اور ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور پورن بھگت میں ہیرو کا کردار ادا کیا۔ تھیٹر اور نوٹنکی کی تکنیک میں مہارت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنی سنگیت پارٹی بنا لی اور جگہ جگہ اپنا فن پیش کرتے رہے۔ اسی اثنا میں برصغیر تقسیم ہو گیا اور تقسیم کے بعد طفیل نیازی صاحب ملتان میں سکونت پذیر ہو گئے۔ ملتان میں آباد ہونے کے بعد جب روزی روٹی کی فکر دامن گیر ہوئی تو انہوں نے یہاں حلوائی کی دکان کھول لی۔
ممتاز مفتی صاحب اس حوالے سے لکھتے ہیں:
طفیل نیازی صاحب کو پاکستان ٹیلی وژن پر پہلا گیت گانے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
“پاکستان میں اسے ملتان لے جایا گیا۔ وہ علاقہ نہ رہا، عزیز و اقارب نہ رہے، پروانے نہ رہے۔ وہ ایک بیگانے شہر میں اجنبی کی حیثیت سے آ پڑا۔ جوں توں کر کے اُسے سر چھپانے کے لیے ایک مکان تو مل گیا لیکن گزارے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ آخر زِچ ہو کر اُس نے ملتان میں حلوائی کی دکان کھول لی اور دودھ دہی اور مٹھائی بیچ کر گزارا کرنے لگا۔ چند ایک ماہ بعد ملتان کا ایک پولیس افسر طفیل کی دکان پر آ نکلا۔ وہ طفیل کا پرانا مداح تھا۔ اس نے طفیل کو پہچان لیا۔ بولا ‘طفیل دکان داری کر رہے ہوں۔ نہیں یہ نہیں ہو گا۔ بھئی اپنا کام کیوں نہیں کرتے؟’ طفیل نے کہا اپنا کام کیسے کروں؟ نہ ساز ہے نہ ساتھی۔ پولیس افسر نے مال خانے سے اسے ساز دلا دیے اور اس نے گھوم پھر کر چند ساتھی تلاش کرلیے۔ اس کے بعد پولیس افسر نے ایک سنگیت محفل کا انتظام کیا اور طفیل کو شہر کے لوگوں سے متعارف کرایا۔ یوں طفیل کی سنگیت پارٹی پھر سے وجود میں آ گئی اور ملتان کے گردونواح میں اس کی شہرت پھیلنے لگی۔ (2)
طفیل نیازی صاحب کو پاکستان ٹیلی وژن پر پہلا گیت گانے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ 26 نومبر 1964ء کو جب لاہور ٹیلی وژن نے اپنی نشریات شروع کیں تو لاہور مرکز سے موسیقی کا پہلا پروگرام ذکا درّانی نے پیش کیا۔ اس پروگرام میں طفیل نیازی صاحب نے اپنا مشہور زمانہ گیت “لائی بے قدراں نال یاری، تے ٹُٹ گئی تڑک کر کے” پیش کیا۔ نیازی صاحب نے ستر کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں پی۔ ٹی۔ وی کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں بطور کمپوزر اور گلوکار کام کیا۔ اس پروگرام میں انہوں نے ناہید اختر اور ریشماں کو متعارف کرایا۔ انہوں نے لوک ورثہ اسلام آباد میں بھی بہت عرصے تک بطور کمپوزر کام کیا۔
طفیل نیازی صاحب نے درویشانہ مزاج پایا تھا۔ وہ اولیا اور صوفیا کی درگاہوں پر باقاعدگی سے حاضری دیا کرتے تھے۔ ٹی ۔وی پروڈیوسر بختیار احمد ان کے تصوف سے تعلقِ خاطر کے متعلق لکھتے ہیں:
ہندوستان کے دورے کے دوران طفیل نیازی صاحب نے کپورتھلہ، پٹیالہ، جالندھر، دہلی اور بمبئی میں اپنے فن کا جادو جگایا اور متعدد ایوارڈز حاصل کیے۔
طفیل نیازی کی سنائی اس حکایت سے ظاہر ہے کہ ان پر تصوف کا رنگ کتنا غالب تھا۔ ایک بزرگ کے پاس ایک گنوار آیا اور خواہش ظاہر کی کہ میں اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان سے ملا دیجیے۔ بزرگ ہنس دیے اور کہا ابھی جاؤ تین دن بعد آنا اور اگر تم ایسی چیز ساتھ لے آئے جو دُنیا کی حقیر ترین چیز ہو تو میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ملوا دوں گا۔ وہ شخص واپس آیا اور تین دن تین راتیں اسی شش و پنج میں گزار دیے کہ دُنیا کی حقیر ترین چیز کیا ہے۔ کبھی اسے مکھی کا خیا ل آتا، کبھی کیچوے کا، مگر ہر چیز کا کوئی نہ کوئی اعلی مصرف اسے سمجھ آنے لگتا۔ کبھی خود رو گھاس کا خیال آتا مگر وہ تو جانوروں کا چارہ ہے۔ مٹی تو ہمیں خوراک دیتی ہے۔ آگ کھانا پکاتی ہے، لوہا ڈھالتی ہے، پانی پر زندگی کا دارومدار ہے۔ مچھر تو نمرود کے تکبر کو توڑتا ہے۔ کیچوے سے مچھلی پکڑتے ہیں۔ آخر اسے خیال آیا کہ انسانی فضلہ سب سے حقیر چیز ہے کہ اسے کوئی دیکھنا، چھونا تک گوارا نہیں کرتا لہٰذا اس نے اسے پوٹلی میں باندھا اور لاٹھی پر لٹکا کر بزرگ کے گاؤں کی طرف چل پڑا۔
راستے میں اسے آواز سنائی دی، ‘بھائی مجھے کیوں قید کر رکھا ہے مجھے رہا کرو’۔ اس نے حیران ہو کر ادھر ادھر نگاہ کی آواز بار بار آنا شروع ہوئی تو اس نے دیکھا کہ آواز پوٹلی میں سے آ رہی ہے۔ وہ شخص بولا ‘میں تجھے رہا نہیں کر سکتا’۔ آواز آئی ‘کیوں قید کر رکھا ہے تم نے؟’ بولا اس لیے کہ تم دنیا کی حقیر ترین چیز ہو۔ ایک قہقہہ بلند ہوا اور پوٹلی سے آواز آئی، واہ واہ میں حقیر ہوں، ارے ظالم میں تو ایک خوب صورت سیب تھا۔ میں تو دودھ تھا۔ میں تو شہد تھا لیکن تمھارے ساتھ کیا لگا کہ میں حقیر ترین ہو گیا۔ خوب! ذرا اپنے گریبان میں جھانکو حقیر کون ہے؟ اس شخص نے لاٹھی اور پوٹلی زمین پر پھینکی اور بزرگ کی خدمت میں بھاگا بھاگا پہنچا اور عرض کی: حضور میں حقیر ترین چیز لے آیا ہوں۔ میں خود کو پیش کرتا ہوں۔ کیسی کیسی معرفت کی باتیں کیسے کیسے قصے، کیسے واقعات طفیل نیازی سناتا تھا۔ (3)
طفیل نیازی صاحب نے 1981ء میں بھارت کا کام یاب دورہ کیا۔ یہ دورہ ابتداء میں نجی نوعیت کا تھا اور بھارت کی ایمبیسی نے انھیں صرف ایک ہفتے کا ویزا دیا تھا۔ اس دورے میں ان کے بڑے بیٹے جاوید نیازی بھی ان کے ساتھ تھے۔ بھارت پہنچنے کے بعد جب مہاراجا کپورتھلہ اور مہاراجا پٹیالہ کو ان کی آمد کا علم ہوا تو انھوں نے بھارت میں پاکستان کے سفیر عبدالستار صاحب (سابق سیکرٹری خارجہ) سے درخواست کی کہ نیازی صاحب کے ویزے کی معیاد میں تقریباً تین ماہ کی توسیع کی جائے۔ ان کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے عبدالستار صاحب نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کر کے ان کے ویزے کی معیاد میں توسیع کرا دی۔ اس دورے کے دوران طفیل نیازی صاحب نے کپورتھلہ، پٹیالہ، جالندھر، دہلی اور بمبئی میں اپنے فن کا جادو جگایا اور متعدد ایوارڈز حاصل کیے۔ انہوں نے جالندھر سے کے۔ ایل سہگل ایوارڈ، دہلی سے حضرت امیر خسرو ایوارڈ، کپورتھلہ ریاست کی طرف سے اعزازی شیلڈ اور بمبئی سے اُستادامیر احمد خاں ایوارڈ حاصل کیا۔ اُستاد امیر احمد خاں ایوارڈ انہیں بھارت کے مشہور ستار نواز اُستادولایت خاں نے دیا۔
طفیل نیازی صاحب کے دورۂ بھارت کے دوران “ہندسماچار” نے ان کے فن کے حوالے سے ایک تبصرہ لکھا تھا۔ اس تبصرے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
برصغیر میں لوک گیتوں کی پرمپرا میں طفیل نیازی غالباً سب سے بڑے آرٹسٹ ہیں جو خداداد قابلیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے راگ ودّیا کی اتنی نادر اور نایاب دھنیں تیار کی ہیں جو دو دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی تصور کی جاتی ہیں۔
“برصغیر میں لوک گیتوں کی پرمپرا میں طفیل نیازی غالباً سب سے بڑے آرٹسٹ ہیں جو خداداد قابلیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے راگ ودّیا کی اتنی نادر اور نایاب دھنیں تیار کی ہیں جو دو دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی تصور کی جاتی ہیں۔ آپ کلاسیکل راگ بھی خوب جانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بٹوارے کے وقت آپ بھارت سے پاکستان چلے گئے تھے۔ اس کے بعد اپنی جنم بھومی پر آپ کا پہلا دورہ ہے۔ آپ نے میوزک پنڈت امرناتھ آف بٹالہ اور میاں ولی محمد سے سیکھا۔ اپنے پَری وار کے بزرگوں سے بھی انھوں نے لوک گیتوں کے بارے میں کافی کچھ سیکھا۔ 8 سال کی عمر میں آپ نے جالندھر کے ہر ولبھہ میلے میں گایا تھا۔ یہ میلا شمالی بھارت میں راگ ودّیا کا سب سے پرانا میلا ہے۔ سورگیا کے۔ ایل سہگل نے بھی آپ کو اس میلے میں سُنا اور اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی جیب گھڑی اتار کر آپ کو بطور انعام دے دی”۔ (4)
طفیل نیازی صاحب کو حکومت پاکستان نے 23؍مارچ 1983ء کو حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ عطا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پی۔ ٹی۔ وی ایوارڈ اور گریجویٹ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ انہوں نے معروف ڈرامہ اور افسانہ نگار اشفاق احمد کی ذاتی فلم “دھوپ اور سائے” کا میوزک دیا اور اس فلم میں خود بھی گایا۔ انہوں نے دو پنجابی فلموں “مٹی دا باوا” اور “جیوے لعل” کا بھی میوزک دیا۔
طفیل نیازی صاحب کے شاگردوں میں عارف لوہار، صادق اقبال، حبیب رفیق، ثمر اقبال، نگہت سیما اور بالی جٹی نمایاں ہیں۔ ان کے بیٹوں میں یوں تو سبھی کو گانے کا شوق ہے لیکن ان کے فنی اثاثے کے حقیقی وارث ان کے بڑے بیٹے جاوید نیازی ہیں۔ جاوید نیازی بہت عرصے سے بیکن ہاؤس پبلک سکول اسلام آباد میں بطور میوزک ٹیچر ملازمت بھی کر رہے ہیں۔
طفیل نیازی صاحب نے 21ستمبر 1990ء کو وفات پائی۔ ان کے جنازے میں راقم الحروف کے علاوہ ٹی۔ وی پروڈیوسر عارف رانا، پرویز مہدی، اُستادمحفوظ کھوکھر،سعید مہدی اور بہت سے مقامی فن کاروں نے شرکت کی۔ طفیل نیازی صاحب اسلام آباد کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انہیں فالج ہو گیا تھا۔ اس دوران بہت کم احباب نے ان کی بیمار پرسی اور تیمار داری کی۔
راول پنڈی کے مشہور شاعر اور ریڈیو پروڈیو سر اختر امام رضوی کو دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں طفیل نیازی صاحب نے اپنے دوستوں کی بے رُخی، اکیلے پن اور تنہائی کا شدت سے اظہار کیا تھا۔ اس انٹرویو سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
راول پنڈی کے مشہور شاعر اور ریڈیو پروڈیو سر اختر امام رضوی کو دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں طفیل نیازی صاحب نے اپنے دوستوں کی بے رُخی، اکیلے پن اور تنہائی کا شدت سے اظہار کیا تھا۔
“جنگل بیلوں میں بھٹکتے ہوئے لوک سُروں سے پیار کی پاداش میں مجھے اکلاپے کا بن باس دے دیا گیا ہے۔ شاید اسی لیے تو ریڈیو، ٹی۔وی اور لوک ورثے سے مجھے کوئی بھی دیکھنے نہیں آیا”۔
معروف لوک گلوکار طفیل نیازی نے یہ بات اتنے دُکھ سے کہی کہ اگر اس کی آنکھوں سے اُبلتے ہوئے آنسو اس کی آواز کا ساتھ نہ دیتے تو شاید اس کا کلیجہ پھٹ جاتا۔ گذشتہ چھے ماہ سے صاحب فراش یہ لوک گلوکار جس کو ہم نے حسن کارکردگی کا تمغہ دے کر یہ سمجھ لیا کہ اب زندگی بھر اس کا کوئی حق ہمارے ذمے نہیں، اسلام آباد میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ فالج نے اس کے اعضاء کو سُست ضرور کر دیا ہے لیکن پاکستان کے لیے ذہنی اور عملی طور پر وہ اتنا ہی متحرک ہے جتنا پہلے تھا۔ وہ کَہ رہا تھا، “وہ کہتے تھے تم تو پاکستان کی شناخت ہو اور میں جی اُٹھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ ویسے ہی کَہ دیتے تھے۔ یہی سوچ سوچ کر لمحہ لمحہ مر رہا ہوں”۔ میں اپنے لیے نہیں روتا، تُم بھی فن کار ہو، سوچتا ہوں ایک عمر گزارنے کے بعد زمانہ تم سے بھی یہی سلوک کرے گا تو تم کیا کرو گے؟ ۔۔۔۔۔۔ بابر نے اس کی نظروں کی تاب نہ لا کر منہ پھیر لیا۔ میں بتا رہا ہوں کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے میں بھارت گیا تو انھوں نے مجھے بنگلے، کار، ایک مربعہ زمین اور اعلیٰ ملازمت کی پیش کش کی تھی کہ آؤ چندی گڑھ میں لوک ورثے کا ادارہ بناؤ۔ جس کے جواب میں، مَیں نے ان سے کہا تھا، میرا سب کچھ پاکستان ہے۔ میری آواز، میرا ذوق، میرا شوق سب پاکستان کے لیے ہے۔ میرا مربعہ پاکستان ہے۔ میں اس سے الگ ہو کر کچھ بھی نہیں ہوں، لیکن یار مجھے رونے دو۔ پاکستان والے یہ سب کیوں نہیں سمجھتے ۔۔۔۔۔۔ میں نے تو لوک سُروں اور جذبوں کی کہانیوں کو نئے انداز میں بیان کرنے کا ڈھنگ اسی لوک پریت ہی سے سیکھا ہے لیکن پھر وہی بات آ جاتی ہے:
جَدوں جاچ نئیں سی ٹُرنے دی مینوں سارے چُکی پھردے سَن
جس دن توں ٹُرنا سکھیا اے میں تھاں تھاں ڈگدا پھرناں واں
جس دن توں ٹُرنا سکھیا اے میں تھاں تھاں ڈگدا پھرناں واں
اور اس کے ساتھ ہی بے تاب آنسو اس کی آنکھوں سے تڑپ کر نکلے اور اس کے مرجھائے ہوئے رخساروں پر چمکتی ہوئی دو لکیریں چھوڑ گئے۔ بس جی کچھ نہ پوچھو وہ کسی نے کہا ہے ناں:
آئینے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
ہمدانی نے جلدی سے کیمرا کھول کر اس کا کلوز لینا چاہا تو میں نے دیکھا، مسکرانے کی کوشش میں اس کے خشک ہونٹ ہولے ہولے کانپ رہے تھے جیسے کَہ رہے ہوں:
لا کے محبتاں چناں تُسی بے پروائی کیتی” (5)
حوالہ جات:
1۔ ممتاز مفتی،جل ترنگ، ملتان، فروری 1994ء، ص 20
2۔ ایضاً، ص 21
3۔ بختیار احمد، “کلاسیکل اور لوک گائکی میں ایک منفرد آواز”، نوائے وقت ، روزنامہ ،
راول پنڈی ، 23؍ ستمبر 1992ء
4۔ ہند سما چار، روزنامہ، جالندھر، یکم ستمبر 1981ء
5 اختر امام رضوی، شناخت، اسلام آباد، جون 1990ء، ص 25
1۔ ممتاز مفتی،جل ترنگ، ملتان، فروری 1994ء، ص 20
2۔ ایضاً، ص 21
3۔ بختیار احمد، “کلاسیکل اور لوک گائکی میں ایک منفرد آواز”، نوائے وقت ، روزنامہ ،
راول پنڈی ، 23؍ ستمبر 1992ء
4۔ ہند سما چار، روزنامہ، جالندھر، یکم ستمبر 1981ء
5 اختر امام رضوی، شناخت، اسلام آباد، جون 1990ء، ص 25