Laaltain

مسیحا کا قتل

21 دسمبر، 2015

[block­quote style=“3”]

مدیر کے نام خطوط قارئین کی جانب سے بھیجے گئے خطوط پر مشتمل سلسلہ ہے۔ یہ خطوط نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیے جاتے ہیں۔ ان میں فراہم کی گئی معلومات اور آراء مکتوب نگار کی ذاتی آراء اور ذمہ داری ہیں جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی صورت میں ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔

[/blockquote]

letters-to-the-editor-featured15دسمبر 2015ء آواران کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کر گیا، ایک عظیم انسان تحصیل جھاؤ کو لاوارث چھوڑ گیا۔ ایک ایسا انسان جسے ابھی بہت کچھ کرنا تھا، ابھی اسے اپنی ذمہ داری بہت عرصے تک نبھانا تھی لیکن انسان دشمن قوتوں نے اس سے مزید زندہ رہنے کا حق چھین لیا۔ اس شام جب وہ خدمت کا قرض ادا کرکے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو درندوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر لی تھی۔ وہ گھات لگائے بیٹھے تھے۔ اچانک فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھتی ہے، زمین تڑپتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور آسمان تھرا اٹھتا ہے۔ گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہو کر اس کی روح کو جسم سے الگ کر دیتی ہیں۔ پورا جھاؤ خاموش ہو جاتا ہے۔ زمین خون سے نہلا جاتی ہے۔ آسمان سسکیاں لینے لگتا ہے۔ درندے اپنا کام کر چکے ہیں۔ وہ پورے جھاؤ کو للکارتے ہوئے اپنی پناہ گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہ اپنی منزل پر پہنچ کر فتح کا جشن منانے کے لیے انسانیت کش نعرے لگاتے ہیں۔

 

لیکن اگلے ہی دن ان کا یہ جشن ان کی صفوں میں ماتم بن کر پھیل جاتا ہے جب سرزمینِ جھاؤ اس عظیم انسان کی عظمت کی گواہی دیتی ہے۔ آج تک آواران میں شاید ہی کسی کے جنازے میں انسانوں کا ایسا انبوہ شریک ہوا ہو۔ وہی عید گاہ جو عیدین کے موقع پر خالی صفوں کی شکایت کرتی ہے آج اس عید گاہ میں پیر رکھنے کا جگہ بھی نہیں تھی۔ شہید کا خون اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ انسانیت جیت گئی اور درندگی کوشکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جنازے میں شریک مجھ سمیت ہر شخص کے آنکھوں سے بہتے آنسو اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی تھے کہ انسانیت کبھی بھی مات نہیں کھا سکتی، شکست تو ان کا مقدر ہے جو انسانیت دشمن ہیں، جو نفرتوں کے سوداگر ہیں اور جنازوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ جنازے میں شریک ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر لب پر درندوں کے لیے بدعائیں تھیں۔ انسانیت دشمن عناصر ہار چکے تھے گو وہ ابھی اپنی شکست تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں لیکن انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ وہ جیت نہیں سکے۔

 

مجھے آواران کا زلزلہ 2013ء اب بھی یاد ہے جب وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ آواران کے متاثرہ علاقوں میں انسانیت کی خدمت میں کوشاں رہے۔ چوبیس گھنٹوں میں 4گھنٹے آرام کیا کرتے تھے اور باقی 20گھنٹے ان انسانوں کی فلاح میں مصروف رہے جنہیں ان کی ریاست نے بیرونی طبی امداد سے محروم کر دی تھا
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ڈاکٹر بڑے شہروں، بڑے ہسپتالوں او ر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں ڈاکٹر شفیع جان بلوچ نے آواران جیسے پسماندہ علاقے میں رہنے کا فیصلہ کیا مگر بلوچستان کے حالات ان کی جان لینے کا باعث بن گئے۔ میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا اور بہت ہی قریب پایا۔ ایک ایسا انسان جس نے انسانیت کی خدمت اپنے زندگی کا نصب العین بنا لیا، پھر اسی پر کاربند رہا اور جنون کی حدتک اس کا حق ادا کیا۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن جو قرض مجھ پر ان کی خدمات بیان کرنے کا ہے وہ تمام عمر ادا کرتا رہوں گا۔

 

ڈاکٹر شفیع بلوچ ایک خاص فکر، سوچ اور کردار کے مالک تھے۔ انہوں نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرکے ایک ایسے علاقے کا انتخاب کیا جہاں کوئی بھی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب خود ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے لیکن انہوں نے اس مرض کو اپنے فرض کی ادائیگی میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اپنی ان تھک محنت سے وہ جھاو میں برسوں سے خالی اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو گئے جو یہاں کے لاچار اور بیمار انسانوں کے لیے ایک مصیبت تھا۔ میں نے بہت سے ڈاکٹر دیکھے ہیں لیکن شاید ہی ڈاکٹر شفیع جیسا کوئی لعل کسی ماں نے جنا ہو گا۔ انہوں نے کبھی بھی مال و متاع کی تمنا نہیں کی۔ وہ جھاؤ کے عوام کی نہ صرف اپنے شعبے کی حد تک خدمت کرتے رہے بلکہ ایک سماجی رہنما بھی تھے۔ وہ انسانیت کا کام بلا غرض و لالچ انجام دیا کرتے تھے۔ میں کبھی کبھار ان سے کہتا تھا کہ کوئی کلینک کھول لیں کب تک لوگوں کا مفت علاج کرتے رہیں گے۔ ان کا جواب ہوتا تھا کہ مجھے انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے تسکین ملتی ہے۔

 

میں نے ایسے مریض بھی دیکھے جن کے پاس دوائیوں کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے تو وہ اپنی جیب سے ان کے دوائیوں کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ مجھے اس انسان میں کبھی فرشتوں کا روپ نظر آیا تو کبھی نور الِہی۔ اس نے کبھی بھی مال و دولت کو اپنی کمزوری نہیں بنایا یہی وجہ تھی کہ کئی بڑے ہسپتالوں سے ہونے والی پیشکشیں ٹھکرا دیں۔ ڈاکٹر صاحب نہ دولت کے انبار جوڑ سکےاور نہ اپنا کچا مکان پکا کر سکے۔ میں نے ڈاکٹر برادری کو بڑے بڑے عہدوں کی خواہش کرتے، اونچے اونچے مکان بناتے، VIPگاڑیاں خریدتے، دیہی زندگی کو مسترد کرکے شہروں میں بستے ہوئے دیکھا ہے لیکن ڈاکٹر شفیع کو میں نے سب سے الگ دیکھا، میں نے اسے ہر وقت انسانوں کے دل جیتتے دیکھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لوگوں کو اس سے لگاؤ تھا اور اسے انسانیت سے۔ انسانیت دشمنوں کو ایسے انسان کہاں گوارا ہوتے ہیں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو شہید کر دیا۔ پورے جھاؤ کو یتیم خانے میں تبدیل کردیا۔ اس یتیم خانے میں بڑے، بوڑھے، بچے، مرد سب شامل تھے۔

 

ایک ایسے معاشرے میں جہاں ڈاکٹر بڑے شہروں، بڑے ہسپتالوں او ر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں ڈاکٹر شفیع جان بلوچ نے آواران جیسے پسماندہ علاقے میں رہنے کا فیصلہ کیا مگر بلوچستان کے حالات ان کی جان لینے کا باعث بن گئے۔
مجھے آواران کا زلزلہ 2013ء اب بھی یاد ہے جب وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ آواران کے متاثرہ علاقوں میں انسانیت کی خدمت میں کوشاں رہے۔ چوبیس گھنٹوں میں 4 گھنٹے آرام کیا کرتے تھے اور باقی 20گھنٹے ان انسانوں کی فلاح میں مصروف رہے جنہیں ان کی ریاست نے بیرونی طبی امداد سے محروم کر دیا تھا۔ وہ لوگوں کے دکھ اور تکلیف کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ انسانیت کے لیے بنے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے پاس ہمہ وقت میلہ لگا رہتا تھا۔ وہ اپنی اس زندگی سے خوش اور مطمئن تھے۔

 

گھر سے ہسپتال پہنچنے پہنچتے انہیں دو گھنٹے لگتے تھے۔ یہ دو گھنٹے بھی انسانی خدمت کی انجام دہی میں گزرتے تھے۔ راستے میں کوئی روک لیتا تو نہ نہیں کرتے تھے، اس کے گھر جاتے پورے محلے کے مریض جمع ہوتے سب کا علاج کرتے لیکن تھکاوٹ کو انہوں نے کبھی خود پرغالب نہیں آنے دیا۔میں کبھی تنگ آکر کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے ساتھ سفر کرنا بڑا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ وہ اس بات کو مسکرا کر ہنسی میں اڑا دیتے۔ یہ مسکراہٹ میں نے آخری دیدار میں بھی ان کے چہرے سے عیاں دیکھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ایک پھول سا چہرہ مسکرا کر کہہ رہا ہو کہ میں امر ہو گیا۔

 

واقعی ڈاکٹر شفیع بلوچ امر ہوگئے۔ لیکن جاتے جاتے اپنے جانے کا دکھ اور اپنی یادیں ہم سب کے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے پیوست کر گئے۔ وہ ایک پھل دار اور سایہ داردرخت کے مانند تھے جو تپتے، دہکتے آواران کے لوگوں کو پھل اور سایہ دیتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے یک لخت کاٹ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے خون نے زمین پر پڑتے ہی یہ اعلان ضرور کیا ہوگا کہ انسانیت کبھی ختم نہیں ہوتی، جب تک اس زمین پر انسان باقی ہیں ڈاکٹر شفیع بلوچ جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گےاور انسانیت کی فلاح کا مشن جاری رہے گا۔

 

ڈاکٹر صاحب جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن روحانی طور پر اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہم جب بھی انسانیت کا پرچار کریں گے درندگی کو شکست ہوتی رہے گی اور ڈاکٹر صاحب کی روح کو سکون ملتا رہے گا۔

 

مت سمجھو ہم نے بھلا دیا
یہ مٹی تم کو پیاری تھی
سمجھو مٹی میں سلا دیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *