کتنی ساری باتیں اور خبریں آس پاس آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھ رہی ہیں۔ سمجھ میں آنا دشوار ہو رہا ہے کہ کس کو بڑی خبر سمجھوں اور لفظوں کے پانی میں مدھانی ڈال دوں، کہ شاید اپنے گھسے پِٹے شعور کی ٹِیسوں کا کچھ تو بوجھ ہلکا ہو جائے۔
اس لمبی خبری قطار میں قندوز میں اسپتال پہ امریکی طیاروں کی بمباری پہ اپنے اثر میں “گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ” قسم کی بارک اوبامہ کی معافی؛ بھارت میں مقدس گائے پہ فرضی پھرنے والی چھری کے بعد انسانوں سے ایسا سلوک کہ جو جاں بحق حاجیوں کے جسد ہائے خاکی سےسعودیوں کے “اعلیٰ سلوک” کو بُھلانے باعث بن جائے ؛ این اے 122 لاہور میں چائے کی پیالی میں طوفان؛ کراچی پولیس کی جانب سے گمشدگان کی بازیابی پہ چھپا “افسری معطلی والا اشتہار”، کہ یہ بھی اہم ہے کہ “نا معلوم” کا ایڈیشن 2.0 اشتہاری طور پر ریلیز ہوگیا اور اگر بات گہری ہے تو کتنے ہولے اور ہلکے انداز سے “گہرائی” کھودی گئی؛ اور سپریم کورٹ کا قبلہ غازی ممتاز قادری مدظلہ کی ابدی حیات کے پروانے پہ ایک واضح فیصلہ!
اس لمبی خبری قطار میں قندوز میں اسپتال پہ امریکی طیاروں کی بمباری پہ اپنے اثر میں “گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ” قسم کی بارک اوبامہ کی معافی؛ بھارت میں مقدس گائے پہ فرضی پھرنے والی چھری کے بعد انسانوں سے ایسا سلوک کہ جو جاں بحق حاجیوں کے جسد ہائے خاکی سےسعودیوں کے “اعلیٰ سلوک” کو بُھلانے باعث بن جائے ؛ این اے 122 لاہور میں چائے کی پیالی میں طوفان؛ کراچی پولیس کی جانب سے گمشدگان کی بازیابی پہ چھپا “افسری معطلی والا اشتہار”، کہ یہ بھی اہم ہے کہ “نا معلوم” کا ایڈیشن 2.0 اشتہاری طور پر ریلیز ہوگیا اور اگر بات گہری ہے تو کتنے ہولے اور ہلکے انداز سے “گہرائی” کھودی گئی؛ اور سپریم کورٹ کا قبلہ غازی ممتاز قادری مدظلہ کی ابدی حیات کے پروانے پہ ایک واضح فیصلہ!
حب الوطنی کا بزنس کلاس ٹکٹ تو ایسے ہی ہاتھ آ جائے گا کہ بھارت میں اخلاق احمد کی موت کا ماتم کرتے کرتے بالکل ذکر نہ کروں کہ گوجرہ میں کیا ہوا تھا
بہ روایتِ اردو کالم نگاری، منبر آرائی، عشق کی مفت کی لاٹری اور حب الوطنی کا بزنس کلاس ٹکٹ تو آسانی سے مل سکتا ہے کہ اوبامہ اور امریکہ کی قندوز پہ “زود پشیمان” معافی کے آس پاس اتنی مثالیں جَڑ دوں کہ انسانی حقوق کی امریکی خلاف ورزیاں اور جنگی جرائم ابو غریب جیل کی دیواریں پھلانگ کے گوانتانامو بے جا کے دھوپ سینکیں۔ ایسا ایمان افروز مضمون لکھوں کہ امریکیوں کو یاد آ جائے کہ اونچے ٹاوروں میں لگ بھگ تین ہزار اچھے پیارے انسانوں کی جانیں اپنے ہی ایک وقت کے بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت پالے ہوئے سنپولیوں اور طاقت کی لاشریکیت کی خاطر روح فروشی کی سرمستی میں پالے اژدھوں کے ہاتھوں گئی تھیں۔ پر اسی اژدھے کے نام سے کچھ اور دوسرے رنگوں کی چمڑی والے انسانوں کے “ذیلی نقصان” یا آپ کی اپنی نرم گوئی میں کہیں تو “Collateral Damage” کو آپ نے اپنی اندھی اور کانی حد تک غیر حسابی مساوات کے مطابق دسیوں، سینکڑوں اور ہزاروں سے ضرب دے چکے ہیں۔ اب تو جُھرجُھری سی آنے لگتی ہے کہ کب آئے گا وہ ٹھنڈا موسم کہ آپ کو لاکھوں سے ضرب دئیے بغیر شانتی ہو جائے گی؟
حب الوطنی کا بزنس کلاس ٹکٹ تو ایسے ہی ہاتھ آ جائے گا کہ بھارت میں اخلاق احمد کی موت کا ماتم کرتے کرتے بالکل ذکر نہ کروں کہ گوجرہ میں کیا ہوا تھا، بس اتنا ذہن میں رکھوں کہ لاہور کے بادامی باغ میں صرف بسوں کا اڈا ہی ہوتا ہے اور ہر اڈے کا مینیجر کوئی مجید بٹ ہی ہوتا ہے، باقی وہاں کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس پُرخار یاد کو دفع دور کروں کہ گوجرانوالہ میں ماں کے پیٹ میں ہی ماں سمیت بچہ جلا دیا گیا تھا، لاہور میں “جماعت خانہ” کے ساتھ ایمان کی حرارت والوں نے کیا حرکت فرمائی تھی، کوٹ رادھا کشن میں دو انسانوں کے لئے دوزخ کس نے برپا کی تھی۔ آسیہ بی بی کے ساتھ کیا ہوا، رمشا کنول کس گڑیا کا نام ہے؟ حب الوطنی کا بزنس کلاس ٹکٹ جب ہی کہ ملے گا کہ ان معاملات پہ میں اپنے ضمیر اور اپنے گریبان کے نالے نہ سنوں، ایک گُل بن جاؤں، بس ہمہ تن گوش رہوں۔ البتہ شیوسنا کی کرکٹ کی پچوں کو اکھاڑنے، ہمارے فنکاروں کے گائیکی کے پروگراموں کو “ہندو توا” کے بل بل لے جانے کا ڈھنڈورا پیٹوں؛ مودی کے گجرات کی خوفناک فلم کا احمد قریشی چوعرقہ بناؤں! لیکن یہ مانتے ہوئے کہ آپ سائبر سپیس کے قاری ہیں اور دماغ پہ زور دینا گوارا نہیں کرتے، بالواسطہ کہی بات کو مشکل طرز تحریر جان کے ردکرتے ہو تو کھلے بندوں کہے دیتا ہوں کہ میرے اپنا دیس میری اپنی روح اور میرا اپنا جسم ہے۔ مجھے پہلے اس کے رِستے نا سوروں کا ادراک کرنا ہے کہ کبھی تو علاج اور دوا کا بندوبست ہوسکے۔ مجھے کہیں اور کی، آر پار کی غلاظتیں اور بدبو ئیں سونگھ کے اپنے آس پاس کی بدبو اور تعفن کے احساس کو گہری نیند نہیں سلانا!
حب الوطنی کا بزنس کلاس ٹکٹ تو ایسے ہی ہاتھ آ جائے گا کہ بھارت میں اخلاق احمد کی موت کا ماتم کرتے کرتے بالکل ذکر نہ کروں کہ گوجرہ میں کیا ہوا تھا، بس اتنا ذہن میں رکھوں کہ لاہور کے بادامی باغ میں صرف بسوں کا اڈا ہی ہوتا ہے اور ہر اڈے کا مینیجر کوئی مجید بٹ ہی ہوتا ہے، باقی وہاں کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس پُرخار یاد کو دفع دور کروں کہ گوجرانوالہ میں ماں کے پیٹ میں ہی ماں سمیت بچہ جلا دیا گیا تھا، لاہور میں “جماعت خانہ” کے ساتھ ایمان کی حرارت والوں نے کیا حرکت فرمائی تھی، کوٹ رادھا کشن میں دو انسانوں کے لئے دوزخ کس نے برپا کی تھی۔ آسیہ بی بی کے ساتھ کیا ہوا، رمشا کنول کس گڑیا کا نام ہے؟ حب الوطنی کا بزنس کلاس ٹکٹ جب ہی کہ ملے گا کہ ان معاملات پہ میں اپنے ضمیر اور اپنے گریبان کے نالے نہ سنوں، ایک گُل بن جاؤں، بس ہمہ تن گوش رہوں۔ البتہ شیوسنا کی کرکٹ کی پچوں کو اکھاڑنے، ہمارے فنکاروں کے گائیکی کے پروگراموں کو “ہندو توا” کے بل بل لے جانے کا ڈھنڈورا پیٹوں؛ مودی کے گجرات کی خوفناک فلم کا احمد قریشی چوعرقہ بناؤں! لیکن یہ مانتے ہوئے کہ آپ سائبر سپیس کے قاری ہیں اور دماغ پہ زور دینا گوارا نہیں کرتے، بالواسطہ کہی بات کو مشکل طرز تحریر جان کے ردکرتے ہو تو کھلے بندوں کہے دیتا ہوں کہ میرے اپنا دیس میری اپنی روح اور میرا اپنا جسم ہے۔ مجھے پہلے اس کے رِستے نا سوروں کا ادراک کرنا ہے کہ کبھی تو علاج اور دوا کا بندوبست ہوسکے۔ مجھے کہیں اور کی، آر پار کی غلاظتیں اور بدبو ئیں سونگھ کے اپنے آس پاس کی بدبو اور تعفن کے احساس کو گہری نیند نہیں سلانا!
ایک اور مذہبی تحریک جسے جناب ثروت اعجاز قادری چلاتے ہیں اس نے اپنے لیے روزگار ڈھونڈ لیا ہے کہ وہ ممتاز قادری مدظلہ کی شہادت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی۔ بس اللہ کسی تحریک کو بے روزگار نہ کرے۔
رہی بات منبر آرائی اور “عشق” کی مفت کی لاٹری کی تو جناب قادری کو میں غازی لکھوں، حضرت جانوں، ان کے سائے تک کو زمیں پے نا پڑنے دوں! کہ عاشق کا تو جنازہ بھی دھوم سے نکالنے کے منشور دیئے گئے ہیں۔ پر فوراً غلط ہو جاؤں جو یہ بولوں کہ شہادت اگر ہے مطلوب و مقصود مومن تو پھر یہ ایڈووکیٹ نذیر اختر صاحب اس عاشق بامراد، غازی ممتاز قادری کو گناہوں بھری اس دنیا میں مزید رکھنے پہ مُصر کیوں ہیں؟ کاہے کو اپیلیں دائر کرتے ہیں کہ “سزا” کم کی جائے۔ بھلا یہ خود سے ایک بلاسفیمی نہیں ہے کہ اس “جزا” کو سزا کہا جا رہا ہے؟ بلکہ عرض ہے کہ جو قبلہ ممتاز قادری کو بذریعہ تقاریر جمعہ اس “سعادت” کی طرف لے کے آئے، اور عدالتوں کی پیشی کے دوران پھول کی پتیاں نچھاور کرتے رہے ہیں انہیں بھی ساتھ ہی مطلوب و مقصودِ مومن کی خوبصورت دنیا کی طرف مراجعت کی دعوت دی جائے۔ لیکن ایک اور مذہبی تحریک جسے جناب ثروت اعجاز قادری چلاتے ہیں اس نے اپنے لیے روزگار ڈھونڈ لیا ہے کہ وہ ممتاز قادری مدظلہ کی شہادت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی۔ بس اللہ کسی تحریک کو بے روزگار نہ کرے۔ اس تحریک کے پاس فراغت تھی باقی تو کچھ افغانستان کے کلمے سیدھے کرانے، کچھ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے، کشمیر کو پاکستان بنانے، غزوہ ہند برپا کرنے کے مشن پر مامور ہیں اور کچھ تہران کو عالم مشرق کا جنیوا بنانے کی لیے دن کو رات کئے ہوئے ہیں، کچھ بھارت کو سیکولر اور پاکستان کو عمامہ پہنانے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور سر کھجانے کی فرصت نہیں ان کے پاس، اور اب بچی کھچی سنی تحریک کو بھی کام مل گیا ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔