Laaltain

ایک افسانہ ایک حقیقت

6 ستمبر، 2015
میدان جنگ میں اسے مدمقابل فوجوں کے نمائندہ قومی پرچم نظر آئے ۔ ان بلند پرچموں کے نیچے انسانی اعضاء بکھرے ہوئے تھے۔ ہرطرف خون ہی خون نظر آرہا تھا۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ فاتح اور مفتوح کے انسانی اعضاء اور خون کی رنگت میں کوئی بھی فرق نہ کرسکا
دن اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھااور شب کے گہرے سائے پھیلتے جارہے تھے۔ ان سایوں میں دو ر دور تک خاموشی نے بسیرا کرلیا تھا۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور توپوں کی گھن گرج میدان جنگ میں عارضی اور وقتی جیت کے ساتھ ہی بند ہوچکی تھیں۔ بارود کا دھواں ہر جانب نظر آرہا تھا اور محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اس جگہ کا مقدر ایک میدان جنگ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔اس نے اپنے ہوش و حواس سنبھالے ،اٹھ کر اردگرد کے مناظرسے لپٹی ہوئی خاموشی کو محسوس کیا اوراس گھٹن زدہ ماحول میں گہری سانسیں لینی شروع کردیں۔ اس نے ہمت کرکے اپنے بکھر ے ہوئے وجود کو اپنے ہوش و حواس کے ساتھ منسلک کیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ چلنے لگا۔ میدان جنگ میں اسے مدمقابل فوجوں کے نمائندہ قومی پرچم نظر آئے ۔ ان بلند پرچموں کے نیچے انسانی اعضاء بکھرے ہوئے تھے۔ ہرطرف خون ہی خون نظر آرہا تھا۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ فاتح اور مفتوح کے انسانی اعضاء اور خون کی رنگت میں کوئی بھی فرق نہ کرسکا ۔
سب کچھ اس جنگ کی نذر ہوچکا تھا۔
راستے میں اس نے انسانی زندگیوں کو بارود سے اڑانے والے ہیلی کاپٹروں سے اب انسانیت کے نام دی جانے والی امداد کے بڑے بڑے پیکٹ ہوا سے زمین کی جانب آتے دیکھے۔
یہ درد ناک مناظر اس کے درد کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد اسے ایک عارضی طبی امدادی مرکز نظر آیا ۔ یہاں داخل ہوا اور دوسرے فوجیوں کو بھی یہاں موجود پایا ۔ وہ ایک طرف خالی بستر پرلیٹ گیا ۔ جسمانی درد سے کہیں زیادہ اثر ان دلخراش مناظر نے اس کے دل و دماغ پر چھوڑا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے دیکھا کہ جن ممالک نے اس جنگ کے دوران لاشوں کے ڈھیر لگائے تھے انہی کی جانب سے زخمی فوجیوں کے لیے علاج اور امداد کا بھرپور انتظام کیا گیا تھا۔ وہ چکرا کے گرپڑا اور بے ہوش ہوگیا۔ اسے جب ہوش میں آیا تو وہ فوراً وہاں سے نکل گیا۔ وہ سوچ بچار کے گہرے سمندر میں غرق تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت سے دو چار ہوکر وہ بوجھل قدموں کے ساتھ آگے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ راستے میں اس نے انسانی زندگیوں کو بارود سے اڑانے والے ہیلی کاپٹروں سے اب انسانیت کے نام دی جانے والی امداد کے بڑے بڑے پیکٹ ہوا سے زمین کی جانب آتے دیکھے۔ اپنی جنگی ہوس پوری کرنے کے بعد اب انسانیت کے دلفریب مناظر اس کے سامنے پوری طرح عیاں تھے۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ چند ممالک اپنی ہوس اور ہتھیاروں کی نمائش کی خاطر ہی اس پرسکون اور آباد دنیا میں جنگ برپا کرتے ہیں اور پھر لاکھوں کروڑوں معصوم زندگیوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنے ذلت آمیز اور مذموم مقاصدکی تکمیل کرتے ہیں۔
اسے یہ محسوس ہوا کہ دونوں طرف کے ہلاک شدہ فوجی اپنے بکھرے ہوئے اعضاء کے ساتھ یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر ہماراقصور کیا تھا؟
اس کے ٹوٹے پھوٹے سامان میں صرف ایک چھوٹا ریڈیو ہی سلامت رہا۔ کچھ آوازیں سنائی دیں۔ کان قریب لگا کر سنا تو یہ خبر ریڈیو پر پڑھی جارہی تھی کہ جنگ کے بعد دونوں اطراف کے سپہ سالاروں کے مابین جنگ بندی کی شرائط طے پا گئی ہیں۔ اس نے یہ بھی سنا کے متحارب فریقین کی حکومتوں نے جنگ زدہ علاقے کی آبادکاری کے لیے بڑی بڑی کمپنیوں سے تاریخ ساز معاہدہ کیا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے یہ خوش خبری اب ان تمام گھروں کے اندر سنی اور دیکھی جارہی تھی کہ جن کے لخت جگر اس جنگ کا ایندھن بن چکے تھے۔ دنیا بھر کے میڈیا میں یہ جشن برپا تھا کہ آخر کار انسانیت کی فتح ہوئی اور اب ان لاکھوں کروڑوں معصوم سپاہیوں کی لاشوں اور ان کے انسانی اعضاء پر یہ مقام پھر آباد کیا جائے گا۔ اس نے تمام چیزوں سے چھٹکارا حاصل کیا ، ایک لمبی اور گہری سانس لے کر اس نے جنگ زدہ میدان پر ایک نگاہ ڈالی۔ اسے یہ محسوس ہوا کہ دونوں طرف کے ہلاک شدہ فوجی اپنے بکھرے ہوئے اعضاء کے ساتھ یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر ہماراقصور کیا تھا؟ اس دنیا میں موجود وسائل کی تقسیم سے لےکر جھوٹی قوم پرستی اور نمائشی حب الوطنی کے طوق تک ہر پھندا معصوم انسانوں کی گردنوں میں ڈالا گیا ہے ۔ ان سپہ سالاروں اور ہتھیاروں کے سوداگروں نے علاقوں کی آپسی بندر بانٹ اور ہتھیاروں کی نمائش کے لئے صدیوں سے آباد اور پر امن اس دھرتی اور اس کے علاقوں کوجنگ زدہ بنانے کے علاوہ ہمیں اور کیا دیا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *