Laaltain

چاند، مُلا اور اسلامی بینکاری نظام کے تانے بانے

18 جولائی، 2015
رمضان اپنے آخری عشرے میں تھا اور جون کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ قبلہ پوپلزئی اور مفتی منیب میں گھمسان کا رن تھا اور ہر بار کی طرح چاند کی ڈھنڈیا پڑی تھی۔ تلاشِ چاند کے اس مہا یُدھ کے دوران شیطان بہت خوش تھا کہ دو ملاؤں کی لڑائی کے سارے نتائج اُسی کے حق میں جاتے نظر آ رہے تھے۔ کسی مرغی کا اگر نقصان تھا اس مرغی کا نام “پاکی پیپل” تھا۔ شیطان کو تو باضابطہ آزادی ملنے ہی والی تھی۔ وہ پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان تھا۔ رمضان میں قیدو بند کی صعوبتیں اس کی آزاد منش طبیعت پہ گہرے اثرات ڈال رہی تھیں۔ اگرچہ رمضان نشریات کے اداکار، موسمی مولوی اورمہنگے داموں اشیائے خوردونوش بیچنے والے سیٹھ ابلیس کی دکانیں با اختیار ڈیلروں کے طور پہ چلا رہے تھے پر وہ اپنے کام خود کرنا فرض شناسی کا پہلا تقاضا گردانتا تھا۔
قبلہ پوپلزئی نے ہر باراپنی مسجد سے “نواں چن” ایک روز پہلے ہی چڑھا دیا تھا جبکہ مفتی صاحب ہر بار کی طرح پوپلزئی پر ناک بھوں ہی چڑھاتے رہ گئے۔ اسی پسِ منظر میں آج ہم نےسوشل میڈیا پر جتنا وقت گزارا گومگو کی کیفیت میں گزارا۔ اپنی حالت کچھ یوں گزری کہ:
روزہ میرے دائیں ہے، تو عید میرے بائیں
اگر آپ کے ابا جی، چچا جان،ماموں میاں یا خود آپ کو ہی کہیں کوئی سچا اور خالص مسلمان ملے تو مجھے خط لکھیے گا، میں پہلی گاڑی سے دوڑا چلا آؤں گا۔ مجھے بچپن سے ہی بہت شوق ہے مسلمان دیکھنے کا
بھئی کعبہ و کلیسا جیسے اونچے درجے کے مخمصے ہماری اوقات کہاں! ہم تو ابھی تک چاند تاروں میں ہی کھوئے ہوئے ہیں۔ ہاں جی، تو آپ نے ریاستی و معاشرتی سطح پر صرف رویت ہلال کا معاملہ “علماءِ کرام” پر چھوڑ کر دیکھ لیا۔ دیکھا نا قوم کس طرح تقسیم ہوگئی؛ شکرِ خدا بجا لائیں کہ یہ “تقسیم” ابھی تک زبانی ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ تقسیم ارتقاء پاکر جسمانی “ضرب تقسیم” کی سطحِ مرتفع تک جا پہنچی تو کسی کی ہڈی پسلی سلامت نہ رہے گی۔
کفر کے فتووں کی “نجکاری” سے بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کیا حال ہوتا ہے جب سہرا گانے کی ذمہ داری اجرتی سخنوروں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ پورے دیس میں اب شاذ ہی کوئی متفق علیہ کیمیاوی ترکیب کا مسلمان رہ گیا ہو۔ ادھر آئیے بات سنیے، کان میرے پاس لائیے! ہاں جی، اگر آپ کے ابا جی، چچا جان،ماموں میاں یا خود آپ کو ہی کہیں کوئی سچا اور خالص مسلمان ملے تو مجھے خط لکھیے گا، میں پہلی گاڑی سے دوڑا چلا آؤں گا۔ مجھے بچپن سے ہی بہت شوق ہے مسلمان دیکھنے کا!
تو جناب بات ہو رہی تھی علماءِ کرام کی۔ اس سائنسی دور میں ہمیں چاند میں الجھانے والے یہ خود ساختہ کراماً کاتبین سودی بنکاری کو اللّہ کے خلاف جنگ قرار دیتے تھے۔ مردِ حق کی اضافی خوبیوں کے حامل مرد مومن ضیاءالحق نے وطن اور اپنے اقتدار کی لمبی آنت پر لاجواب مہربانی کرتےہوئے ملکِ خداداد کو مزید اسلامیانے کا عمل شروع کیا۔ اسی عمل تطہیر کی ایک قسط کے طور پر وفاقی شرعی عدالت بھی قائم کی گئی۔ وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں بینکوں کے اندر موجود نظام کو سُودی قرار دے دیا لہٰذا اس نظام کو جاری رکھنے کی کوئی قانونی منطق باقی نہ رہی۔ مگر بینکوں کے سیٹھوں نے 1991میں سپریم کورٹ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔ سات سال کی مختصر سماعت کے بعد 1998 میں سپریم کورٹ نے سُودی لین دین پر اپیل کے خلاف فیصلہ سنا دیا، بخدا ہم خوش ہوئے کہ اب امن قائم ہو جائیگا اور “مسرت” ملے گی۔
اس پہ مستزاد کئی ایک بینکوں کے متعلق سنا کہ وہاں کے ملازمین پر ریش مبارک بڑھانے اور شلوار قمیض پہن کے بینک آنے جیسے ضوابط لاگو کر دیے گئے ہیں۔
کتنے ہی سود خور بنیوں اور کاروباری سیٹھوں نے دانشور علماء کی مشاورت سے اپنے بینکوں کے باہر لگے پَھٹوں پر اردو اور عربی میں سبز رنگ کی روشنائی سے دھڑا دھڑ نام لکھوالیے۔ انہیں بھی پتا تھا کہ اردو اور عربی اسلام کی زبان نہ صرف قرار پا چکی ہے بلکہ رائج بھی ہے۔ اس پہ مستزاد کئی ایک بینکوں کے متعلق سنا کہ وہاں کے ملازمین پر ریش مبارک بڑھانے اور شلوار قمیض پہن کے بینک آنے جیسے ضوابط لاگو کر دیے گئے ہیں۔ گویا معاشرتی شعور کی روشن سطح کے مدنظر بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں ٹھکا ٹھک تبدیلیاں لائی جا رہیں تھیں۔ متشرع بُلڈوزر اور ٹریکٹر سود کے خلاف جنگ کے لیے جوق دور جوق اور جتھہ در جتھہ خندقیں کھودنے پہ جُت گئے تھے۔
ہم اپنی آنکھوں کو چُنیاں مُنیاں کرکے، بھنووں کا گول دائرہ بنا کے، اپنی ناک کو قوس کی شکل دے کے ہر تبدیلی کو اسی حسابی نظر سے دیکھتے رہے جس طرح ہم شاہد آفریدی کو دائرے کے اندر متعدد بار کیچ آوٹ ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ ہر بار جب کوئی متشرع تبدیل آئی یا گیند آفریدی کے بلے کو چھو کر آسمان کی جانب بلند ہوئی ہم سادہ دلوں نے نفل اور منتیں مان لیں۔ ہر منت کے ساتھ یہ امید بھی باندھ لی کہ شاید اب کی بار دائرے کے اندر موجود کھلاڑی کی ہتھیلی میں سرسوں اگ آئےگی اور آفریدی اور ہماری امیدیں کبھی تو پوری ہوں گی۔
ابھی چند روزپہلے ہم نے قرض کیےلیے ایک ایسے ہی مشرف بااسلام بینک کی ہیلپ لائن پر کال کر ماری تو فون پر اتنی خوش الحانی سے ہمیں اسلام علیکم کہا گیا کہ دل تک ٹھنڈک گئی۔ الجھنوں کی سلجھن کی آس لگی۔ یہ آس سعادت حسن منٹو کے “نیا دستور” کے کرداراستاد منگو کی انقلابی آس کے آس پاس کی ہی تھی۔ کمپیوٹر سے آنی والی ریکاڑد شدہ آواز مختلف ہندسوں کا ورد کرتے ہوئے ہم سے پوچھ رہی تھی کہ:
بتا تیری رضا کیا ہے؟
جب ہم نے روایتی بینکوں کے سود ی جنگی ترانوں کا اردو عربی اصطلاحات سے مزین شرعی بینکاری کے سے تقابلی جائزہ کیا تو اندازہ ہوا کہ معاملہ وہی کا وہی ہے۔
خیالوں ہی خیالوں میں ہمارے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ اب آئے گا قرضہ لینے کا مزا، اب مسرت ملے ہی ملے۔ خواب و خیال کی اس جنت سے ہمیں ایک مردانہ آواز نے اسی طرح جگا دیا جس طرح لڑکپن میں ہم صبح ساڑھے تین بجے بھیگے خوابوں سے بیدار ہوا کرتے تھے۔ اس مردانہ آواز نے ہمارے کانوں میں جب قرضے کے وجوب و فرائض اور مستحبات کا رس گھولا تو ہم سنتے گئے اور سر دھنتے گئے۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کون سے مفتی صاحب ان کے بینک کے مشاورتی بورڈ میں ہیں۔ ان مفتیان میں سے کئی ایک نام سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے علماء کے بھی تھے۔ شرائط و ضوابط اور اردو عربی اصطلاحات کی تلاوت کی پروجد سماعت کے وجد کے بعد کال منقطع کی۔ جب ہم نے روایتی بینکوں کے سود ی جنگی ترانوں کا اردو عربی اصطلاحات سے مزین شرعی بینکاری کے سے تقابلی جائزہ کیا تو اندازہ ہوا کہ معاملہ وہی کا وہی ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق بوہڑ اور کھوتے کےباہمی زمینی ربط میں کوئی انقلابی تبدیلی دیکھنے کو نہ ملی۔
روایتی بینکوں اور نئی شرعی بینکاری میں وہی فرق ہے جو پوپلزئی اورمفتی منیب صاحب کے بیچ ہے۔ بس نام بدلے ہیں، انگریزی کی جگہ اردو اور عربی در آئی ہے۔ کچھ لوگوں کو شرعی مشاورتی بورڈ میں بھاری معاوضے پر نوکریاں ملی ہیں لیکن بینک اب بھی ہمارے جیسے مہاتڑوں کے کام کے نہیں۔ ہمارا کھاتہ مالی طور پر اتنا ہی کنوارہ رہا جتنا انگریز انشاء پرداز سٹیفن لیکاک کا “مائی فنانشیل کیریئر” میں رہا تھا۔ ہمیں تو روایتی اور اسلامی بینکوں میں چاند دیکھنے کی طرح صرف “تقسیم” ہی نظر آئی ہے۔ اس غیر سودی بینکاری کی “ضرب” پڑی بھی تو محض ہمارے جیسے سرمائے کے ضرورت مندوں کے خوابوں اور حسابوں کتابوں پر! اب بھی ہم نے اپنی مالی ضرورت اپنی تین عدد بھینسیں بیچ کے پوری کی البتہ بینکوں کے نئے مالی مشیروں کو رب نے چھپر پھاڑ کے عنایت کر دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *