مرگ مسلسل
باہر ابھی اندھیرا تھا میں معمول سے قبل جاگ اٹھا تھا۔ بستر پر لیٹے میں کھڑکی سے باہر اندھیرے کو گھورنے لگا۔ پرندے بھی ابھی خاموش تھے۔ اجنبیت کی ایک کیفیت مجھ پر طاری تھی، یہ وہی کمرہ تھا جس میں رہتے مجھے دو برس بیت چکے تھے۔ میرے ساتھ رہنے والا،ساتھ کے بستر پر ہمیشہ کی طرح سورہا تھا لیکن آج کچھ مختلف تھا، کچھ بدل چکا تھا۔
میں یہاں کیوں ہوں؟؟
یوں لگ رہا تھا جیسے میں کبھی اس کمرے میں آیا ہی نہیں تھا، یہ ساتھ بستر پر سویا ہوا شخص کون ہے؟ کیا میں اسے جانتا ہوں یا وہ مجھے جانتا ہے؟؟
میں اس صبح کسی اجنبی جگہ جاگا تھا، پھر میں نے خود کو خود میں سے اٹھتے دیکھا۔ کوئی ہوبہو مجھ سا ہی مجھ میں سے اٹھ کر میرے کپڑوں میں ملبوس ہو کر باہر جانے کی تیاری کررہا تھا۔ تیار ہو کر اس نے بستر پر نظر ڈالی ۔۔۔۔ کچھ دیر اس کی نگاہ مجھ پر بھی ٹکی رہی اور پھر وہ سر جھٹک کر دروازے سے باہر نکل گیا۔
میں بستر سے کودکر اس کے پیچھے ہولیا، مجھے اس کا پیچھا کرنا تھا۔ وہ اسی راستے پر ہولیا جس پر چل کر میں روز بس سٹاپ تک جاتا تھا۔ ہر روز کی طرح ہم بس سٹاپ پر کھڑے تھے، ویگن میں سوار ہورہے تھے۔ ہم دونوں ویگن میں تھے ، وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
لبرٹی گول چکر پر ہم دونوں حسب معمول اترے اور سڑک پار کرنے لگے۔ سڑک کے پار پہنچ کر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سڑک کے بیچ منجمد کھڑا تھا۔ میں اسے چیخ چیخ کر پکار رہا تھا، پر میری آواز اس تک نہیں پہنچ رہی تھی ، وہ اپنےآپ میں محو تھا۔ ۔۔۔۔پانچ نمبر ڈائیوو اسے کچل کر جا چکی تھی ، وہ سڑک پرخون میں لت پت پڑا تھا اور گاڑیاں اس کے اوپر سے رواں دواں تھیں۔ درد میرے پورے وجود کو چیر رہا تھا جیسے میری تمام ہڈیاں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکی ہوں اور خون میرے کچلے ہوئے جسم سے ہر سُو بہہ رہا ہو۔
میں فٹ پاتھ پر کھڑا اسے مرتا دیکھ رہا تھا ، اس کا درد میرا تھا لیکن مجھ پر کہیں خون کا کوئی چھینٹا نہیں تھا۔ میں نے منہ موڑا اور اپنے دفتر کی طرف چل پڑا۔
میں یہاں کیوں ہوں؟؟
یوں لگ رہا تھا جیسے میں کبھی اس کمرے میں آیا ہی نہیں تھا، یہ ساتھ بستر پر سویا ہوا شخص کون ہے؟ کیا میں اسے جانتا ہوں یا وہ مجھے جانتا ہے؟؟
میں اس صبح کسی اجنبی جگہ جاگا تھا، پھر میں نے خود کو خود میں سے اٹھتے دیکھا۔ کوئی ہوبہو مجھ سا ہی مجھ میں سے اٹھ کر میرے کپڑوں میں ملبوس ہو کر باہر جانے کی تیاری کررہا تھا۔ تیار ہو کر اس نے بستر پر نظر ڈالی ۔۔۔۔ کچھ دیر اس کی نگاہ مجھ پر بھی ٹکی رہی اور پھر وہ سر جھٹک کر دروازے سے باہر نکل گیا۔
میں بستر سے کودکر اس کے پیچھے ہولیا، مجھے اس کا پیچھا کرنا تھا۔ وہ اسی راستے پر ہولیا جس پر چل کر میں روز بس سٹاپ تک جاتا تھا۔ ہر روز کی طرح ہم بس سٹاپ پر کھڑے تھے، ویگن میں سوار ہورہے تھے۔ ہم دونوں ویگن میں تھے ، وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
لبرٹی گول چکر پر ہم دونوں حسب معمول اترے اور سڑک پار کرنے لگے۔ سڑک کے پار پہنچ کر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سڑک کے بیچ منجمد کھڑا تھا۔ میں اسے چیخ چیخ کر پکار رہا تھا، پر میری آواز اس تک نہیں پہنچ رہی تھی ، وہ اپنےآپ میں محو تھا۔ ۔۔۔۔پانچ نمبر ڈائیوو اسے کچل کر جا چکی تھی ، وہ سڑک پرخون میں لت پت پڑا تھا اور گاڑیاں اس کے اوپر سے رواں دواں تھیں۔ درد میرے پورے وجود کو چیر رہا تھا جیسے میری تمام ہڈیاں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکی ہوں اور خون میرے کچلے ہوئے جسم سے ہر سُو بہہ رہا ہو۔
میں فٹ پاتھ پر کھڑا اسے مرتا دیکھ رہا تھا ، اس کا درد میرا تھا لیکن مجھ پر کہیں خون کا کوئی چھینٹا نہیں تھا۔ میں نے منہ موڑا اور اپنے دفتر کی طرف چل پڑا۔
تحلیل
بسوں کا اڈا تاریکی میں ڈوب کر اپنے شکستہ پن کو تقویت دے رہا ہے۔ زرد بلب کی روشنی اس اندھیرے سے لڑنے کی بے سود کوشش میں جھول رہی ہے، بلب ہوا سے پل رہا ہے۔
“بس ملے گی اس وقت؟ گاوں کے لیے؟”
“بابو بس آخری ٹیم رہ گیا ہے، بارہ بجے نکلے گا۔”
“یعنی ابھی انتظار کرنا ہوگا”
“جی جناب۔۔۔ آج تو شاید آپ ہی اکلوتی سواری ہیں۔”
“پوری بس لے جاو گے اکیلی سواری کے لیے؟”
“لے جانا ضروری ہےچاہے ایک ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے تو جانا ہی ہے تو ساتھ ایک اور سہی۔ ہاہاہا”
بینچ کی لکڑی اپنی اصل رنگت کھو چکی ہے۔ میل اور پیلی روشنی کے اشتراک سے ایک بھورا بینچ میری آنکھوں میں منعکس ہورہا ہے۔ تاریکی اور خاموشی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔لاری اڈا تاریک خلا میں معلق ایک تاریک مگرہموار زمینی ٹکڑے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔
جہاں روشنی کی حد ختم ہوتی ہے اس کے پار کیا ہے؟؟
خاموشی۔
اندھیرا۔
دووجود۔
اور لوہے کا ایک پھٹیچر ڈھانچہ۔
اور یہ سب خلا میں معلق ایک تاریک قطعے پر
“بارہ بج گئے بابو۔ تو آج ہم دو ہی ہیں بس۔ چلو بسم اللہ!”
پھٹے فوم کی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے چھوٹے بلب کی خفیف روشنی میں اس نے پہلی بار غورسے دیکھا ، سیاہ بال، سیاہ داڑھی اور سیاہ لباس۔۔۔تاریکی کے اس مجسم وجود میں اس کی پیشانی، ناک اور اسٹیئرنگ پر چپکے ہاتھ اس قدیمی اور ازلی سیاہی میں ایک زندہ وجود کی موجودگی کی شہادت دے رہے تھے ۔
چارسو پھیلے گھپ اندھیرے میں ہیڈلائٹ تاریکی کے کینوس پر بجری اور تارکول کا راستہ تخلیق کررہی ہے۔ بس اپنی ہی تخلیق کردہ تصویر کو اپنے ہی پہیوں تلے کچل کر اسے تاریکی میں فنا ہونے کے لیے اپنے پیچھے چھوڑتی چلی جارہی ہے۔
کھڑڑ کھڑڑ۔۔۔گرڑ گڑ گڑ۔۔۔کھب۔۔۔۔
“بس خراب ہو گئی بابو!!”
مکمل تاریکی مجھے گھیرے ہوئے ہے، لمس موجودات سے میرا واحد رابطہ ہے۔ ڈرائیور بس سے نکل کر تاریکی میں تحلیل ہو چکا ہے۔ لمس کے سہارے میں نے سیٹ سے دروازے اور سڑک کو محسوس کیا۔
بس میرے باہر نکلتے ہی دھوئیں کی طرح فضا میں تحلیل ہو گئی ہے، دہشت میری سوچ کو جکڑ چکی ہے، میں ساکن کھڑا اپنے وجود کو لمحہ بہ لمحہ اس قدیم اورازلی تاریکی میں تحلیل ہوتے محسوس کر رہا ہوں۔۔۔۔
“بس ملے گی اس وقت؟ گاوں کے لیے؟”
“بابو بس آخری ٹیم رہ گیا ہے، بارہ بجے نکلے گا۔”
“یعنی ابھی انتظار کرنا ہوگا”
“جی جناب۔۔۔ آج تو شاید آپ ہی اکلوتی سواری ہیں۔”
“پوری بس لے جاو گے اکیلی سواری کے لیے؟”
“لے جانا ضروری ہےچاہے ایک ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے تو جانا ہی ہے تو ساتھ ایک اور سہی۔ ہاہاہا”
بینچ کی لکڑی اپنی اصل رنگت کھو چکی ہے۔ میل اور پیلی روشنی کے اشتراک سے ایک بھورا بینچ میری آنکھوں میں منعکس ہورہا ہے۔ تاریکی اور خاموشی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔لاری اڈا تاریک خلا میں معلق ایک تاریک مگرہموار زمینی ٹکڑے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔
جہاں روشنی کی حد ختم ہوتی ہے اس کے پار کیا ہے؟؟
خاموشی۔
اندھیرا۔
دووجود۔
اور لوہے کا ایک پھٹیچر ڈھانچہ۔
اور یہ سب خلا میں معلق ایک تاریک قطعے پر
“بارہ بج گئے بابو۔ تو آج ہم دو ہی ہیں بس۔ چلو بسم اللہ!”
پھٹے فوم کی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے چھوٹے بلب کی خفیف روشنی میں اس نے پہلی بار غورسے دیکھا ، سیاہ بال، سیاہ داڑھی اور سیاہ لباس۔۔۔تاریکی کے اس مجسم وجود میں اس کی پیشانی، ناک اور اسٹیئرنگ پر چپکے ہاتھ اس قدیمی اور ازلی سیاہی میں ایک زندہ وجود کی موجودگی کی شہادت دے رہے تھے ۔
چارسو پھیلے گھپ اندھیرے میں ہیڈلائٹ تاریکی کے کینوس پر بجری اور تارکول کا راستہ تخلیق کررہی ہے۔ بس اپنی ہی تخلیق کردہ تصویر کو اپنے ہی پہیوں تلے کچل کر اسے تاریکی میں فنا ہونے کے لیے اپنے پیچھے چھوڑتی چلی جارہی ہے۔
کھڑڑ کھڑڑ۔۔۔گرڑ گڑ گڑ۔۔۔کھب۔۔۔۔
“بس خراب ہو گئی بابو!!”
مکمل تاریکی مجھے گھیرے ہوئے ہے، لمس موجودات سے میرا واحد رابطہ ہے۔ ڈرائیور بس سے نکل کر تاریکی میں تحلیل ہو چکا ہے۔ لمس کے سہارے میں نے سیٹ سے دروازے اور سڑک کو محسوس کیا۔
بس میرے باہر نکلتے ہی دھوئیں کی طرح فضا میں تحلیل ہو گئی ہے، دہشت میری سوچ کو جکڑ چکی ہے، میں ساکن کھڑا اپنے وجود کو لمحہ بہ لمحہ اس قدیم اورازلی تاریکی میں تحلیل ہوتے محسوس کر رہا ہوں۔۔۔۔
2 Responses
Captivating stuff Faheem. You should write more and frequently.
its is good to read your literature but its not comtemporary.. the first gives glimpses of classical literature whereas the second of progressive literary movement initiated by manto and his associates..Here i will critique it
Marg-e-Musalsal:
1. you could not differentiate between body and soul. How two can go in parallel yet detached. this must happen after accident.
2. title says its recurring phenomenon but not many accident happen at liberty round about. but if you are talking about death even then it does not happen for anyone twice. the title should have been Marg-e-Jadeed.