اٹھارویں صدی عیسوی کے مشہور بدایونی علما میں مولوی عبدالمجید قادری بدایونی کا شمار ہوتا ہے۔وہ علم شریعت و طریقت کے امام تھے اوربیک وقت کئی علوم پر کامل دست گاہ رکھتے تھے۔’شاہ عین الحق ‘ ان کا لقب تھا، جو انھیں اپنے پیر طریقت سید شاہ آل احمد ابولفضل عرف اچھے میاں قادری کی جانب سے خلافت و اجازت کے ساتھ ملا تھا،مولوی عبدالمجید بدایونی اپنے نام سے زیادہ اپنے لقب سے مشہور ہوئے۔ان کی تاریج پیدائش۲۹ رمضان المبارک ۱۱۷۷ھ بمطابق ۱۷۶۳ ء بتائی جاتی ہے ۔لیکن دو اہم مورخین جن میں صاحب تذکرۂ علما ہند اور راقم اکمل التاریخ کا شمار ہوتا ہے،انہوں نے سن پیدائش ۱۷۶۴ ء لکھی ہے،جبکہ ۱۱۷۷ ھ پر یہ دونوں مورخین بھی دیگر تاریخ نگاروں سے متفق ہیں ۔اس ذیل میں جن سات مورخین نے اپنی کتب میں تاریخ پیدائش رقم کی ہے ان میں سے چار حضرات(مثلاً: تذکرۃ الواصلین،مظہر العلماء، تذکرہ علما اہل سنت اورمردان خدا) نے صرف سنہ ہجری بتایا ہے باقی تین (مثلاً:تذکرہ علما ہند،قاموس المشاہیراوراکمل التاریخ) نے ہجری اور سن عیسوی دونوں تحریر کئے ہیں۔
’شاہ عین الحق ‘کی عمر کے متعلق بھی مورخین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے تمام آرا کو نہ شامل کرتے ہوئے اہم
’شاہ عین الحق ‘کی عمر کے متعلق بھی مورخین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے تمام آرا کو نہ شامل کرتے ہوئے اہم
تاریخ نویسوں کے بیانات سے ان کی عمر کے متعلق پانچ آرا ایسی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،مثلاً۔تذکرہ علما ہند۔۸۲سال،تذکرۃ الواصلین ۔ ۸۷ سال،مظہر العلماء۔۸۵سال ،قاموس المشاہیر۔۸۳سال، تذکرہ علما اہل سنت ۔متفق: ۸۵سال،مردان خدا۔۸۶سال،اکمل اتاریخ ۔متفق :۸۵سال۔جن تین مورخین نے ۸۵ سال عمر بتائی ہے انھوں نے ۸۵ سال ۳ ماہ ۱۸ دن لکھی ہے،جس سے یہ مفرضہ قائم ہوتا ہے کہ مصنف مردان خدا نے ۸۵ مکمل اور ۸۶ ویں سال کے ایک بٹہ تین حصے کی بنیاد پر ۸۶ سال لکھ دیا ہوگا ۔پھر بھی۸۲ ،۸۳ اور ۸۷ کامعمہ حل نہیں ہوتا۔اس لئے ۸۶ کا جواز بھی اس طرح پیش نہیں کیا جا سکتا۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جس طرح تاریخ پیدائش میں دو جگہ اختلاف ہے اسی طرح ان کی تاریخ وفات پر بھی مورخین میں صر ف دو جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اولذکر کی طرح سنہ ہجری میں یہاں بھی تمام مورخین ایک زبان نظر آتے ہیں اور سب نے ۱۲۶۳ھ پر لبیک کہا ہے لیکن سنہ عیسوی میں اکمل تاریخ نے دیگر دونو ں مورخین تذکرہ علما ہنداورقاموس المشاہیرسے الگ رائے قائم کرتے ہوئے ان کی تاریخ وفات ۱۸۴۷ ء بتائی ہے ۔جبکہ دیگر دونوں اصحاب ۱۸۴۶ ء پر متفق ہیں۔ہجر ی اور سن کی تواریخ کا موازنہ کیا جائے تو بھی یہ اختلاف رفع نہیں ہوتا۔کیوں کہ سنہ ہجری سے شاہ صاحب کی عمر ۸۶ سال نکلتی ہے اور سنہ عیسوی سے متواتر ۸۲ اور ۸۳ سال سامنے آتی ہے ۔
یہاں اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ سنہ ہجری اور سنہ عیسوی یکساں نہیں ہوتے بلکہ ان میں کچھ دنوں کا فرق ہوتا ہے ،لیکن شاہ صاحب کی اصل تاریخ پیدائش سنہ عیسوی کے مقابلے سنہ ہجری سے زیادہ بہتر انداز میں نکالی جا سکتی ہے ،جس پر تمام مورخین کو اتفاق ہے ۔ لہٰذا مصنف مردان خدا کی رائے سب سے مستند تسلیم کی جا سکتی ہے جس کی ایک اہم وجہ اور ہے ۔جہاں تمام مورخین نے شاہ صاحب کی زندگی کے بہت سے حالات قلم بند کئے ہیں اسی میں ان کا سفر حج بھی مع تاریخ رقم کیا گیا ہے۔جس سفر میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے شاہ معین الحق فصل رسول بدایونی بھی شامل تھے یہاں اس کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اس سفر کی جو تاریج مورخین نے بتائی ہے وہ ۱۲۵۶ ھ بمطابق ۱۸۴۰ ۔۴۱ ۱۸ہے اور پانچ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ شاہ عین الحق کی عمر سفر حج کے وقت ۸۰ برس تھی۔جن تواریخ میں تذکرہ علما ہند،تذکرۃ الواصلین،قاموس المشاہیر، مردان خدا اور اکمل التاریخ کا شمار ہوتا ہے ۔باقی دیگر دو کتب اس عمر کے نزدیک ہیں مثلاً مظہر العلماء نے ان کی عمر سفر حج کے دوران ۷۹ سال بتائی ہے اور تذکرہ علمائے اہل سنت کے مصنف نے سب سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی عمر ۷۸ سال تحریر کی ہے ۔اس طر ح قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے ۸۰ سال کی عمر میں سفر حج اختیار کیا ہوگا اور اس کے ۶ سال بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہوں گے۔ اس طر ح ان کی تاریخ پیدائش ۲۹ رمضان المبارک۱۱۷۷ھ بمطابق اپریل سن۱۷۶۰ ء اور تاریخ وفات ۱۷ محرم الحرام ۱۲۶۳ ھ بمطابق جنوری ۱۸۴۶ ء نکلتی ہے۔