Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

نل دمینتی

test-ghori

test-ghori

19 دسمبر, 2015

[blockquote style=”3″]

پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندوستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لاشعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندوستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
تاریخی اعتبار سے پران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کرچکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی)کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ یہ انہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھرسے فروغ حاصل ہوا۔ پران اسی دور تجدید کی یادگار ہیں، اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنایا۔
پرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، شو، پاروتی، اُما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سینکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں، ورُن، اگنی، اِندر، مارکنڈے، نارد، دُرواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اُروشی، کَپِلا، راہو، کیتو،کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، اشونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر ختم ہوجاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں، اور جو کسی بھی یُگ یا کلپ میں رونما ہوسکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(گوپی چند نارنگ)

[/blockquote]

دیوتاؤں کو پہلے سے معلوم تھا کہ دمینتی نل کو چاہتی ہے، چنانچہ سوئمبر میں چاروں دیوتاؤں نے نل کی شکل اختیار کرلی۔
ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے، وسطی ہندوستان میں نِشدھ نام کی ایک ریاست تھی، جس پر راجا نل کی حکومت تھی۔ نل نہایت حسین اور تنو مند تھا، اور بہادری اور دلیری میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ اسپ شناسی کا بھی ماہر تھا، اور رتھ ہوا سے بھی تیز چلا سکتا تھا۔ لیکن اسے چوسر بازی اور جوا کھیلنے کی بری عادت تھی۔ دمینتی ودربھ یعنی بیدر کے راجا بھیم کی اکلوتی بیٹی تھی جس کے حسن اور خوبی کا دور دور تک شہرہ تھا۔ نل اور دمینتی ایک دوسرے کی تعریف سن کر دل ہی دل میں ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ حسن اتفاق سے ایک بار نل کے ہاتھ ایک ایسا ہنس لگا، جس نے جا کر دمینتی کو بتایا کہ نل کے دل میں اس کے لیے کتنی عزت ہے۔ دمینتی تو پہلے ہی نل کو چاہتی تھی، چنانچہ اس نے عہد کرلیا کہ اگر وہ شادی کرے گی تو راجا نل ہی سے کرے گی۔ راجا بھیم نے فیصلہ کیا کہ دمینتی سوئمبر کے ذریعے اپنے شوہر کا انتخاب کرے گی۔ سینکڑوں راجے، مہا راجے اور کنور قسمت آزمائی کے لیے بیدر پہنچے ۔ نل بھی ان میں سے ایک تھا۔ چار دیوتا اگنی، اندر، ورُن اور یم بھی اس سوئمبر میں شرکت کی غرض سے آئے۔ راستے میں نل سے ان کی مڈ بھیڑ ہوگئی۔ انہوں نے نل سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ دمینتی کو بتادے کہ دمینتی ان چاروں میں سے کسی ایک کو شوہر چن لے، ورنہ ہنگامہ ہوجائے گا۔

دیوتاؤں کو پہلے سے معلوم تھا کہ دمینتی نل کو چاہتی ہے، چنانچہ سوئمبر میں چاروں دیوتاؤں نے نل کی شکل اختیار کرلی۔ دمینتی ایک کے بجائے پانچ نل دیکھ کر بہت حیران ہوئی۔ اس نے سوچا ہو نہ ہو اس میں دیوتاؤں کی شرارت ہے لیکن اصلی نل کو پہچاننے میں اسے دیر نہ لگی۔ چنانچہ اس نے انتخاب کی جے مالا اصلی نل کے گلے میں ڈال دی۔ کالی دیوتا سوئمبر میں ذرا دیر سے پہنچا تھا۔ نل کی کامیابی پر وہ بھی حسد کی آگ میں جل رہا تھا۔ چنانچہ سب دیوتاؤں نے مل کر نل سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔

شادی کے بعد نل اور دمینتی نشدھ میں بڑے مزے سے زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کے ایک لڑکا اندر سین اور ایک لڑکی اندرا پیدا ہوئی۔ اس طرح کئی سال گزر گئے۔ ایک دن نل کی غفلت سے حاسد دیوتا کالی کو نل کے حواس پر قابو پانے کا موقع مل گیا، اور نل نے اپنے چچیرے بھائی پشکر سے چوسر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ نل اگرچہ چوسر کا ماہر تھا اور اسے اعتماد تھا کہ جیت اسی کی ہوگی۔ لیکن چوسر پر کالی کا اثر تھا۔ نل کو مات پر مات ہوئی۔ پُشکر چونکہ نل سے جلتا تھا، وہ نل کی ہر چیز ہتھیانے پر تلا ہوا تھا۔ نل بازی ہارتا گیا، حتیٰ کہ تخت و تاج اور مال و دولت ہر چیز ہار گیا۔ نل نے حکومت کا کام پشکر کو سونپ دیا۔ راج پاٹ پر قابض ہوجانے کے بعد پشکر نے اعلان کیا کہ کوئی شخص نل کو پناہ نہ دے۔ غرض نل کے لیے سوائے نشدھ چھوڑنے کے چارہ نہ تھا۔ دمینتی نے بھی ساتھ دیا اور دونوں نشدھ سے نکل کھڑے ہوئے۔

ہنس نے دمینتی کو راجا نل کی پسندیدگی سے آگاہ کیا
ہنس نے دمینتی کو راجا نل کی پسندیدگی سے آگاہ کیا
نل اور دمینتی جنگلوں میں رہنے لگے۔ سارا سارا دن سفر کرتے اور جہاں رات پڑتی، سو رہتے۔ پرندوں کا شکار کرکے پیٹ کی آگ بجھاتے۔ ایک دن جب نل نے پرندے پکڑنے کے لیے ان پر چادر پھینکی تو پرندے چادر لے کر اُڑ گئے۔ اب نل کے پاس تن ڈھانپنے کو بھی کچھ نہ رہا۔ دیوتا نل کو دُکھ پہنچانے پر تلے ہوئے تھے۔ نل سے دمینتی کی پریشانی نہیں دیکھی جاتی تھی۔ وہ بہت سوچتا کہ کسی طرح دمینتی کو اس کے مائیکے بھیج دے۔ آخر ایک دن اس نے دمینتی سے کہا۔

“راج پاٹ سب چھوٹ گیا۔ اب میرے پاس رہ ہی کیا گیا ہے، دکھ ہی دکھ۔ میں چاہتا ہوں تم اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤ اور مصیبت کے یہ دن وہیں گزار دو۔”

دمینتی نے کہا۔ “ہرگز نہیں۔ کتنے ہی دکھ کیوں نہ آئیں، میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی، جس حالت میں آپ رہیں گے، میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گی۔”

نل کی عقل پر حاسد دیوتاؤں کی وجہ سے جنون کا غلبہ تو تھا ہی، اس نے طے کر لیا کہ وہ دمینتی کو چھوڑ دے گا تاکہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے۔ چنانچہ ایک رات موقع پا کر اس نے سوتے میں دمینتی کو اکیلا چھوڑ دیا۔ دمینتی کی آدھی ساڑی پھاڑ کر اپنے تن کو ڈھانپا اور راتوں رات کہیں سے کہیں نکل گیا۔ کچھ مدت کے بعد ایک دن جنگل میں اسے ایک آواز نے چونکا دیا۔ “بچاؤ بچاؤ” نل نے دیکھا، جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں آگ لگی ہوئی ہے اور ایک اجگر آگ میں گھرا ہوا ہے۔ نل نے آگ میں کود کر بڑی بہادری سے اجگر کی جان بچائی۔ اجگر نے کہا تم نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ اس کے بدلے میں تمہاری شکل تبدیل کیے دیتا ہوں تاکہ جب تک تمہارے بُرے دن نہیں پھرتے، تمہیں کوئی پہچان نہ سکے۔ جب تمہاری قسمت ٹھیک ہوجائے گی تو زہر کا اثر خودبخود جاتا رہے گا۔ یہ کہتے ہی اجگر نے نل کو ڈس لیا جس سے نل کا رنگ کالا پڑگیا اور شکل بونے کی سی ہوگئی۔ اجگر نے نل کو بتایا۔

دمینتی کے سوئمبر کا منظر
دمینتی کے سوئمبر کا منظر
“ایودھیا کا راجا رِتو پُرن پانسہ کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، اگر تمہیں اس کھیل پر عبور حاصل کرنا ہو تو اس کے پاس چلے جاؤ۔ اس کے بعد ہی تم اپنے بھائی پشکر سے جیت سکو گے۔”

نل کی عقل پر حاسد دیوتاؤں کی وجہ سے جنون کا غلبہ تو تھا ہی، اس نے طے کر لیا کہ وہ دمینتی کو چھوڑ دے گا تاکہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے۔
چنانچہ نل نے ایسا ہی کیا۔ وہاں سے سیدھا ایودھیا پہنچا، اور راجا رتو پرن کے ہاں رتھ بان کی حیثیت سے ملازم ہوگیا۔ ادھر جب دمینتی کی آنکھ کھلی تو نل کو نہ پاکر وہ بہت گھبرائی۔ “نل”،”نل” پکارتی ہوئی وہ دیوانوں کی طرح بھٹکنے لگی۔ ایک دن خوں خوار اژدہے نے دمینتی کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ اتفاق سے ایک شکاری وہاں آنکلا جس نے دمینتی کی جان بچائی وہ دمینتی کے حسن پر فریفتہ ہوگیااور اسے پکڑنے لگا۔ دمینتی نے بد دعا دی۔ شکاری غیبی آگ کی لپٹوں میں گھر گیا اور جل کر راکھ ہو گیا۔ اسی طرح ایک کے بعد ایک کئی مصیبتوں کا سامنا کرتی ہوئی دمینتی ایک دن ایک ندی کے کنارے پہنچی۔ وہاں اسے بیوپاریوں کا گروہ ملا۔ دمینتی ایک ایک سے نل کے بارے میں پوچھتی لیکن کوئی کچھ نہ بتا سکا۔ اسی اثنا میں ہاتھیوں کے ایک جھنڈ نے بیوپاریوں پر حملہ کیا اور ان کا سامان برباد کردیا۔ انہوں نے سوچا، ہو نہ ہو، دمینتی ہی اس ساری بد نصیبی کا سبب ہے۔ انہوں نے دمینتی کو مارڈالنے کا فیصلہ کیا۔ دمینتی نے بڑی مشکل سے جان بچائی۔ نل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ وپر پور پہنچی۔ یہاں کی رانی نے یہ دیکھ کر کہ دمینتی کسی اچھے گھرانے کی معلوم ہوتی ہے، اس کو مشاطہ کا کام سونپ دیا۔ دمینتی کی اصلیت پر پردہ پڑا ہوا تھا، تاہم وہاں کے لوگ بہت جلد اس کی سوجھ بوجھ اور سلیقہ شعاری کے قائل ہوگئے اور اس کی عزت کرنے لگے۔ دمینتی کی اصلیت بہت دنوں تک راز نہ رہ سکی۔ ایک کندن پور کے وزیر نے، جو کسی کام سے ویر پور آیا ہو ا تھا، دمینتی کو پہچان لیا۔ اس نے بتایا کہ وہ دمینتی ہی کی کھوج میں نکلا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ دمینتی کو اس کے مائکے کندن پور لے گیا۔

نل نے دمینتی کو سوتے میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا
نل نے دمینتی کو سوتے میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا
دمینتی کو ڈھونڈ چکنے کے بعد اب وزیر نل کی تلاش میں نکلا۔ جگہ جگہ گھومتا ہوا وہ ایودھیا میں راجا رتو پرن کے دربار میں پہنچا۔ یہاں اس نے تمام درباریوں سے ایک پہیلی پوچھی، جس کا صحیح جواب صرف نل ہی دے سکتا تھا۔ جب کسی درباری کو اس کا جواب نہ سوجھا تو رتھ بان سے پوچھا گیا۔ رتھ بان کے روپ میں دراصل راجا نل ہی تو تھا۔ اس نے راجا کی اجازت سے پہیلی کا صحیح جواب بتا دیا۔

وزیر نے کندن پور آکر سارا ماجرا دمینتی کو سنایا۔ دمینتی نے کہا، وہ رتھ بان خواہ کتنا ہی بونا اور کالا کیوں نہ ہو، راجا نل ہی ہے۔ اس کو کسی طرح یہاں بلا کر حقیقت معلوم کرنی چاہیے۔ چنانچہ وزیر کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے راجا رِتو پرن کو دمینتی کے سوئمبر کی جھوٹی خبر پر بلا بھیجا۔ وقت اتنا تھوڑا تھا کہ پورے ملک میں سوائے نل کے اس قدر تیز رتھ چلانے والا دوسرا کوئی نہ تھا جو رتو پرن کو رات رات میں ودربھ پہنچا دے۔
نل نے اس کمال سے رتھ چلایا کہ گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے۔ رِتو پرن نل کی مہارت سے بہت خوش ہوا۔ وہ خود ریاضی اور چوسر میں غیر معمولی دسترس رکھتا تھا۔ باتیں ہونے لگیں۔ نل نے رِتو پرن رتھ بانی کے اعلیٰ گُر بتائے اور اس کے بدلے میں رِتو پرن نے چوسر کھیلنے کی باریکیوں اور نکتوں سے آگاہ کیا۔ نل نے رتو پرن کو صبح ہونے سے پہلے ہی ودربھ پہنچا دیا۔ یہ دیکھ کر دمینتی کا شبہ اور بھی گہرا ہوگیا، لیکن نل ابھی بونے کی شکل میں تھا۔ دمینتی نے اس کی اصلیت کا یقین کرنے کے لیے چند اور آزمائشیں کیں، اور بالآخر نل کا پکایا ہوا کھانا چکھنے کے بعد اس کا گمان یقین میں بدل گیا۔ نل پہچانا گیا۔ اس نے دمینتی سے پوچھا۔ “کیا تم واقعی دوسری شادی کرنا چاہتی ہو۔” دمینتی نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ “مہاراج! یہ تو آپ کو یہاں بلانے کا بہانہ تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اتنے تھوڑے وقت میں ایودھیا سے ودربھ سوائے آپ کے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔”

دمینتی کے اذدھے کی جکڑ میں آنے کا منظر
دمینتی کے اژدھے کی جکڑ میں آنے کا منظر
نل بہت خوش ہوا۔ زہر کا اثر خودبخود جاتا رہا۔ نل کو اپنی بدشکلی سے نجات ملی اور وہ اپنی اصلی حالت پر آگیا۔ دمینتی کے پتا، راجا بھیم نے نل کی جمیعت میں ایک بھاری لشکر روانہ کیا تاکہ وہ اپنے غاصب بھائی پشکر سے اپنی سلطنت واپس حاصل کرسکے۔ نشدھ پہنچ کر نل نے پشکر کو پھر سے چوسر کھیلنے کی دعوت دی۔ اب تو نل راجا رتو پرن سے سارے گر سیکھ چکا تھا، چنانچہ جیت گیا۔ پُشکر کو اپنے کیے پر بہت افسوس ہوا۔ نل نے اس کو معاف کر دیا اور اس کے ساتھ خلوص و محبت کا برتاؤ کیا۔ اُجڑا چمن شاداب ہوا اور نل اور دمینتی پھر سے نشدھ پر حکمرانی کرنے لگے۔

(ماخوذ از پرانوں کی کہانیاں، مرتبہ گوپی چند نارنگ)

لالٹین پر ہندوستانی کہانیوں کا یہ سلسلہ تصنیف حیدر (ادبی دنیا) کے تعاون سے پیش کیا جا رہا ہے۔