Laaltain

یکش اور یدھشٹر

24 فروری، 2016

[blockquote style=”3″]

پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندوستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لاشعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندوستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
تاریخی اعتبار سے پران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کرچکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی)کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ یہ انہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھرسے فروغ حاصل ہوا۔ پران اسی دور تجدید کی یادگار ہیں، اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنایا۔
پرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، شو، پاروتی، اُما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سینکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں، ورُن، اگنی، اِندر، مارکنڈے، نارد، دُرواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اُروشی، کَپِلا، راہو، کیتو،کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، اشونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر ختم ہوجاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں، اور جو کسی بھی یُگ یا کلپ میں رونما ہوسکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(گوپی چند نارنگ)

[/blockquote]

مزید ہندوستانی کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

کورو پانڈووں سے سخت حسد کرتے تھے۔ پانڈووں کو نیچا دکھانے کے لیے انہوں نے ایک چال چلی اور انہیں جوا کھیلنے کی دعوت دی۔ بد قسمتی سے پانڈو مال و دولت، زر و جواہر، تخت و تاج سب کچھ ہار گئے۔کورووں سے جوئے میں ہارنے کے بعد پانڈووں کو تیرہ برس کا بن باس ملا۔ بارہویں برس کا واقعہ ہے کہ ایک دن گھومتے گھومتے سب کو بہت پیاس لگی، لیکن پانی کا دور دور تک کہیں نشان نہیں تھا۔ سب سے بڑے بھائی یدھشٹر نے نکُل سے کہا۔

 

“ذرا اس اونچے درخت پر چڑھ کر دیکھو کہیں کوئی پانی کا چشمہ یا تالاب ہے؟”پھر کچھ سوچ کر بولے۔ “لیکن ایسے سنسان جنگل میں کچھ دکھائی بھی تو نہیں دے گا۔ ہاں، اگر کہیں پانی ہوگا، وہاں ہریالی بھی زیادہ ہوگی اور سارس بھی دکھائی دیں گے۔”

 

حکم ملتے ہی نکُل نکل کھڑا ہوا۔ کچھ دور اسے سر سبز درختوں کا جھنڈ دکھائی دیا۔ سارسوں کے بولنے کی آواز سنائی دی، اور سفید سفید بگلوں کی قطار بھی دکھائی دی۔ اس نے واپس آکر بھائیوں کو اطلاع کی۔

 

یدھشٹر نے کہا۔ “اپنا ترکش خالی کرکے لے جائو، اسی میں پانی بھر لاؤ۔ ذرا جلدی آنا۔ مارے پیاس کے گلا سوکھ رہا ہے۔ نکل تیزی سے چلتا ہوا تالاب کے کنارے پہنچا۔ صاف شفاف پانی کو دیکھ کر اس کا دل مارے خوشی کے اچھلنے لگا۔ پانی پینے کے لیے وہ جھکا ہی تھا کہ ایک غیبی آواز سنائی دی۔

 

حکم ملتے ہی نکُل نکل کھڑا ہوا۔ کچھ دور اسے سر سبز درختوں کا جھنڈ دکھائی دیا۔ سارسوں کے بولنے کی آواز سنائی دی، اور سفید سفید بگلوں کی قطار بھی دکھائی دی۔ اس نے واپس آکر بھائیوں کو اطلاع کی۔
“ٹھہرو! یہ تالاب میرا ہے۔ اس کا پانی صرف وہی پی سکتا ہے جو میرے سوالوں کا صحیح جواب دے۔”

 

نکُل کا مارے پیاس کے برا حال تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا، کوئی دکھائی نہ دیا۔ سوچا، شاید وہم تھا۔ غٹاغٹ پانی پینے لگا، لیکن پہلا ہی گھونٹ پیا تھا کہ بے ہوش ہو کر گرپڑا۔

 

ادھر باقی پانڈو نکل کا انتظار کررہے تھے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو یدھشٹر نے سہدیو سے کہا۔ “کہیں نکل راستہ نہ بھول گیا ہو۔ ذرا جلدی سے اس کی خبر لائو اور پانی کا انتظام کرو۔”

 

سہدیو تالاب پر پہنچا۔ دیکھا کہ نکُل تالاب کے کنارے مردہ پڑا ہے۔ وہ گھبرا گیا، لیک پیاس بھی بلا کی تھی۔ سوچا پہلے ذرا پانی پی لوں پھر دیکھتا ہوں کیا ماجرا ہے مگر پانی پینے کے لیے جھکا ہی تھا کہ وہی غیبی آواز پھر سنائی دی:

 

“ٹھہرو! یہ تالاب میرا ہے۔ اس کا پانی صرف وہی پی سکتا ہے جو میرے سوالوں کا صحیح جواب دے۔”

 

پیاسے سہدیو نے مڑکر چاروں طرف دیکھا۔ جب کوئی دکھائی نہ دیا تو وہ بھی پانی پینے لگا۔ مگر پیتے ہی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ ادھر گرمی اور پیاس کے مارے باقی بھائیوں کا برا حال تھا۔

 

نکُل اور سہدیو کے نہ لوٹنے سے سب فکر مندر تھے۔ اب کی یدھشٹر نے ارجن کو بھیجا۔

 

ارجن نے اپنا تیر کمان سنبھالا اور اسی طرف چل دیا جدھر نکُل اور سہدیو گئے تھے۔ اسے خیال ہوا ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ جب تالاب کے کنارے پہنچا تو دونوں بھائیوں کو بے حس و حرکت پڑے دیکھ کر اسے بہت صدمہ ہوا۔ کمان میں تیر رکھ کر وہ چاروں طرف دیکھنے لگا کہ یہاں کون ہے جس نے ان دونوں کو بے جان کردیا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ آخر اس نے بھی جب پیاس بجھانی چاہی تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔ اس کے بعد یدھشٹر نے بھیم کو بھیجا تو وہ بھی وہیں کا ہو رہا۔

 

ٹھہرو! یہ تالاب میرا ہے۔ اس کا پانی صرف وہی پی سکتا ہے جو میرے سوالوں کا صحیح جواب دے۔ میں نے ہی تمہارے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ تم بھی اگر میرے سوالوں کا جواب نہیں دوگے تو تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔
بالآخر تھکا ہارا یدھشٹر چاروں بھائیوں کو ڈھونڈتا ہوا۔

 

خود ہی تالاب کے کنارے پہنچا۔ بھائیوں کی اچانک موت سے اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ پتھر بنا دیکھتا رہا۔ پیاس سے نڈھال تو تھا ہی، آخر وہ بھی پانی پینے کے لیے جھکا۔ فورا غیبی آواز آئی۔ “ٹھہرو! یہ تالاب میرا ہے۔ اس کا پانی صرف وہی پی سکتا ہے جو میرے سوالوں کا صحیح جواب دے۔ میں نے ہی تمہارے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔

 

تم بھی اگر میرے سوالوں کا جواب نہیں دوگے تو تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔”

 

یدھشٹر نے کہا۔ “سچ سچ بتاؤ، تم کون ہوں؟”

 

آواز آئی: ” لیکن پہلے میرے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔”

 

یدھشٹر نے کہا۔ “بولو۔”

 

انسان کو علم ویدوں اور شاستروں کے پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو بڑائی عبادت اور ریاضت سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا سب سے اچھا ساتھی صبر ہے اور انسان بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر عقل مند بنتا ہے۔
یکش: “انسان کو علم کیسے حاصل ہوتا ہے؟ انسان کو بڑائی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ انسان کا سب سے اچھا ساتھی کون ہے؟ اور انسان عقل مند کیسے بنتا ہے؟”

 

یدھشٹر نے جواب دیا۔ “انسان کو علم ویدوں اور شاستروں کے پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو بڑائی عبادت اور ریاضت سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا سب سے اچھا ساتھی صبر ہے اور انسان بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر عقل مند بنتا ہے۔”

 

یکش: “برہمنوں میں دیوتاوں جیسی کون سی باتیں ہیں اور بلند کردار انسانوں جیسی کون سی؟ ان کے آدمی ہونے کا ثبوت کیا ہے، اور ان کی ذلیل حرکتیں کیا ہیں؟”

 

یدھشٹر:”برہمنوں کا وید شاستروں کا پڑھنا دیوتائوں جیسی بات ہے، اور ریاضت بلند کردار انسانوں جیسی۔ موت ان کے آدمی ہونے کی دلیل ہے اور دوسروں کی برائی کرنا اور چغلی کھانا، ذلیل انسانوں جیسی حرکتیں ہیں۔”

 

یکش:”زمین سے بڑا کون ہے؟ آسمان سے اونچا کون ہے؟ ہوا سے تیز چلنے والا کون ہے؟ اور تعداد میں تنکوں سے بھی زیادہ کون ہے؟”

 

یدھشٹر اور یکش کے مابین سوال و جواب
یدھشٹر اور یکش کے مابین سوال و جواب
یدھشٹر: “ماں کا درجہ زمین سے بھی بڑا ہے اور باپ کا آسمان سے بھی اونچا۔ من ہوا سے بھی تیز چلنے والا ہے، اور خیال تعداد میں تنکوں سے بھی زیادہ ہیں”۔

 

یکش: “کون ہے جو سوتے میں بھی آنکھیں نہیں موندتا؟ کون پیدا ہو کر بے حرکت رہتا ہے؟ کس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور کون سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے؟”

 

’ماں کا درجہ زمین سے بھی بڑا ہے اور باپ کا آسمان سے بھی اونچا۔ من ہوا سے بھی تیز چلنے والا ہے، اور خیال تعداد میں تنکوں سے بھی زیادہ ہیں
یدھشٹر:’مچھلی سوتے میں بھی آنکھیں نہیں موندتی۔ انڈا پیدا ہونے پر بھی بے حرکت رہتا ہے۔ پتھر کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور وہم تیزی سے بڑھتا ہے۔”

 

یکش: “دھرم، بڑائی، فضیلت اور سکھ کا مقام کیا ہے؟”

 

یدھشٹر: “دھرم کا مقام دیا یعنی رحم ہے، بڑائی کا دان یعنی خیرات، فضیلت کا سچائی اور سکھ کا مقام نیک کرداری ہے۔”

 

یکش: “سچے انسان کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟ دولتوں میں سے بڑی دولت کیا ہے؟ نفعوں میں سب سے بڑا نفع کون سا ہے اور سکھوں میں سب سے بڑا سکھ کیا ہے؟”

 

یدھشٹر: “سچے انسان کی سب سے بڑی خوبی عفو ہے۔ دولتوں میں سب سے بڑی دولت علم ہے۔ نفعوں میں سب سے بڑا نفع تندرستی او سکھوں میں سب سے بڑا سکھ صبر ہے۔”

 

یکش: “کس چیز کو ترک کرکے انسان ہر دل عزیز ہوتا ہے؟ کس چیز کو چھوڑ کر پچھتانا نہیں پڑتا؟ کس چیز کو تیاگ کر انسان امیر بنتا ہے؟ اور کس چیز سے کنارہ کش ہو کر سکھ پاتا ہے؟”

 

غرور کو ترک کرکے انسان ہر دل عزیز ہوتا ہے۔ غصے کو چھوڑ کر پچھتانا نہیں پڑتا۔ خواہشوں کو چھوڑ کر انسان امیر بنتا ہے، اور لالچ سے کنارہ کش ہو کر انسان سکھ پاتا ہے۔
یدھشٹر:”غرور کو ترک کرکے انسان ہر دل عزیز ہوتا ہے۔ غصے کو چھوڑ کر پچھتانا نہیں پڑتا۔ خواہشوں کو چھوڑ کر انسان امیر بنتا ہے، اور لالچ سے کنارہ کش ہو کر انسان سکھ پاتا ہے۔”

 

یکش: “بہت مشکل سے جیتا جانے والا انسان کا دشمن کون ہے؟ کبھی نہ ختم ہونے والی لعنت کیا ہے؟ اچھا کون ہے اور برا کون؟”

 

یدھشٹر: “بہت مشکل سے جیتا جانے والا انسان کا دشمن غصہ ہے۔ لالچ کبھی نہ ختم ہونے والی لعنت ہے۔ سب جانداروں سے محبت کرنے والا آدمی اچھا اور بے رحم آدمی برا ہے۔”

 

ایسے کئی سوالات یکش نے پوچھے۔ یدھشٹر نے سب کا اطمینان بخش جواب دیا۔ یکش نے خوش ہوکر کہا۔ “میں آپ کی عقل و دانش کا قائل ہوں۔ آپ چاہیں تو اپنے چاروں بھائیوں میں سے کسی ایک کو زندہ کرواسکتے ہیں۔”

 

یدھشٹر نے کہا۔”مہربانی کرکے سانولے رنگ، بڑی آنکھوں، لمبے بازوئوں، چوڑے سینے اور سرو کی طرح لمبے قد والے نکُل کو زندہ کردیجیے۔”

 

یکش نے پوچھا۔”آپ کے بھائیوں میں شہرہ آفاق بھیم اور ارجن بھی تو ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو کیوں نہیں زندہ کرواتے یہ دونوں تو آپ کے سگے بھائی ہیں، نکُل تو سوتیلا ہے۔”

 

یکش، یدھشٹر کی اس بات سے بہت متاثر ہوا۔ یدھشٹر کا بھیم اور ارجن پر نکُل کو ترجیح دینا فرض شناسی کا کھلا ہوا ثبوت تھا۔ اس سے خوش ہو کر یکش نے چاروں بھائیوں کو زندہ کردیا۔ وہ سب ایسے اٹھ کھڑے ہوئے جیسے سوکر جاگے ہوں۔
یدھشٹر: “ہمارے پتا کی دو رانیاں تھیں۔ کنتی اور مادھُری۔ میں کُنتی کا بیٹا ہوں اور نکُل مادھری کا۔ اسی لیے میری گزارش ہے کہ آپ نکُل کو زندہ کردیجیے۔ بن باس کے بعد جب ہم گھر لوٹیں گے تو دونوں مائیں ہمارا سواگت کرنے آئیں گی۔ وہ پانچ میں سے صرف دو کو دیکھیں گی۔ مادھُری جب دیکھیں گی کہ دونوں کنتی کے بیٹے واپس آئے ہی اور ان کے دونوں بیٹے مر چکے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوگا۔اگر آپ نکُل کو زندہ کردیں تو کم از کم دونوں مائیں اپنا ایک ایک بیٹا پاکر ہی خوش ہوجائیں گی۔”

 

یکش، یدھشٹر کی اس بات سے بہت متاثر ہوا۔ یدھشٹر کا بھیم اور ارجن پر نکُل کو ترجیح دینا فرض شناسی کا کھلا ہوا ثبوت تھا۔ اس سے خوش ہو کر یکش نے چاروں بھائیوں کو زندہ کردیا۔ وہ سب ایسے اٹھ کھڑے ہوئے جیسے سوکر جاگے ہوں۔ آخر میں یدھشٹر نے یکش سے درخواس کی کہ وہ انہیں اپنی حقیقت سے آشنا کرائے۔

 

یکش نے کہا۔”میں عدل اور انصاف کا دیوتا دھرم راج ہوں۔ میں سچے اور کھرے لوگوں کو آزمائش میں ڈالتا ہوں۔ جو لوگ فرض شناسی اور حق پرستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایثار اور محبت سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، میں ان پر ہمیشہ مہربان رہتا ہوں اور ان کی دنیا خوشیوں سے جگمگاتی رہتی ہے۔”

 

(ماخوذ از پرانوں کی کہانیاں، مرتبہ گوپی چند نارنگ)

 

لالٹین پر ہندوستانی کہانیوں کا یہ سلسلہ تصنیف حیدر (ادبی دنیا) کے تعاون سے پیش کیا جا رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *