Laaltain

ہم ستارے بن گئے ہیں

16 دسمبر، 2015

[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: اس تحریر کے مندرجات بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں۔

[/blockquote]

(آپ سب نے اپنی زندگی میں بہت سے خطوط لکھے ،پڑھے اور ایک دوسرے کو بھیجے ہوں گےایسے خط بھی جنہیں پا کر شادمانی کی کیفیت ملی ہو گی، اور ایسے خط بھی جن سے ملنے والی اندوہناک خبروں سے آنکھوں سے آنسووں کی پھواریں پھوٹ پڑی ہوں گی، ایسے بھی جنہوں نے دیر تک آپ کی سانسوں کو بے ترتیب رکھا ہو گا۔۔۔۔ مگر یہ خط ایسا خط نہیں ہے۔)

 

میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور صبح گھر سے بغیر ناشتہ کیے نکلا تھا کیوں کہ پاپا کو دفتر جانے کی جلدی تھی اور میں حسب معمول لیٹ ہو گیا تھا۔ سکول کھلنے میں پانچ منٹ تھے جب میں سکول پہنچا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ تھوڑا وقت گزرا تو میں اپنے دوست کے ساتھ کلاس روم میں آگیا۔ اسی اثنا میں فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ کئی بچے چیخ رہے تھے، کچھ بھاگ رہے تھے کچھ رو رہے تھے۔ ایک بندوق بردار شخص ہماری کلاس میں بھی داخل ہوا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کا قد کافی اونچا تھا، اس کی آنکھوں میں مجھے انسانیت کی ذرا برابر رمق نہیں دکھائی دی۔ اس نے اپنی بندوق میری طرف کردی، میں ایک دم ڈر گیا۔ میں نے پہلے کبھی حقیقت میں بندوق نہیں دیکھی تھی۔ اس نے مجھے کلمہ پڑھنے کو کہا، مجھے ڈر لگ رہا تھا، میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کلمہ نہ سنایا تو یہ ڈانٹے گا۔ لیکن اس نے تو کلمہ بھی نہیں سنا اور ڈانٹا بھی نہیں، اس نے گولی چلا دی۔ میں نے دیوار پر اپنے گوشت کے لوتھڑے چپکتے دیکھے، میرا خون گردن پر لکریں بناتا ہوا میری جرابوں تک پہنچ گیا، اور میرے سامنے رکھی ہوئی کتاب میرے خون سے اپنی پیاس بجھا گئی۔ میں نے اپنی جھولی میں اپنے دوستوں کا لہو پھیلتے دیکھا۔ میں نے گولیوں سے چھلنی لاشے دیکھے۔۔۔۔

 

اس نے مجھے کلمہ پڑھنے کو کہا، مجھے ڈر لگ رہا تھا، میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کلمہ نہ سنایا تو یہ ڈانٹے گا۔ لیکن اس نے تو کلمہ بھی نہیں سنا اور ڈانٹا بھی نہیں، اس نے گولی چلا دی۔
ہمارا خون فرش پر بہتا گیا۔ بندوقوں والے ہمارے کلاس روم میں گھومتے رہے۔ ان کے بوٹ ہمارے جمتے ہوئے خون سے لتھڑ چکے تھے اور خون آلودہ بوٹوں کے نشان سارے کمرے میں ثبت ہوتے جا رہے تھے۔ پھر کسی نے آ کر میرے اور میرے دوست کے جسم کو اٹھایا۔ اٹھانے والا زار و قطار رو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد کسی نے میرے جسم سے لٹکے ہوئے خون آلود لوتھڑوں کو دوبارہ ہاتھ سے اپنی جگہ جمانے کی کوشش کی لیکن وہ دوبارہ لٹک جاتے۔ میں نے دیکھا کہ میری ماں رو رہی ہے۔ میں اسے روتا دیکھ کر مزید پریشان ہو گیا۔ میری ماں بار بار میرے بے حس ہونٹوں کو چوم رہی تھی میرے ہونٹ برف کی طرح ٹھنڈے اور ہلکے نمکیں ہو چکے تھے۔ لیکن وہ پھر بھی چومتی گئی۔ مگر وہ رو کیوں رہی تھی؟ اس کا مجھے پتہ نہیں تھا پہلے تو وہ جب بھی میرا ماتھا چومتی تھی، تو مسکراتی تھی! میں چلا چلا کر پوچھ رہا تھا امی آپ کیوں رو رہی ہیں؟ لیکن وہ میری طرف دیکھنے کی بجائے، میرے جسم کی طرف کیوں دیکھ رہی تھی۔ میں آوازیں دے دے کر تھک چکا تھا۔ میری ماں روتی جا رہی تھی۔ یہ میرے جسم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ مجھے کہاں لے جایا جا رہا تھا۔ میری امی میرے ساتھ کیوں نہیں۔ میری چھوٹی بہن کدھر ہے ؟ ابو مجھے کہاں لے جا رہے تھے ؟ میں کلمہ سنانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ میں اونچی آواز میں کلمہ پڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ لیکن کوئی بھی نہیں سن رہاتھا۔۔۔ میں روتا گیا لیکن کوئی بھی آنسو نہیں پونچھ رہاتھا۔۔ امی بھی نہیں۔۔ کیوں کہ۔۔۔۔ کیوں کہ میری موت واقع ہو چکی تھی اور میں اپنے والدین سے اپنے بہن بھائیوں سے بہت دور چاچکا تھا جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ مجھے پتہ چل گیا کہ مجھے بربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

 

اس واقعے کو ایک برس ہو چکا ہے مگر یہ کل ہی کا واقعہ لگتا ہے، جس دن ہم سب آسمان میں ستارے بن گئے۔ اس دن سے ہم سب روزانہ اپنے خاندان والوں کو آسمان سے چمکتے ہوئے ستارے بن کر دیکھتے ہیں۔
اب اس واقعے کو ایک برس ہو چکا ہے مگر یہ کل ہی کا واقعہ لگتا ہے، جس دن ہم سب آسمان میں ستارے بن گئے۔ اس دن سے ہم سب روزانہ اپنے خاندان والوں کو آسمان سے چمکتے ہوئے ستارے بن کر دیکھتے ہیں۔ ہم نے ہر دن اپنے گھر والوں کو آنسو بہاتے دیکھا ہے، میں نے ابو کو سب کو دلاسے دیتے ہوئے اور خود اکیلے میں بارہا روتے دیکھا ہے۔۔۔۔ اور اب جب ایک سال گزر گیا ہے میں اب بھی ہر چہرے کو اداس دیکھ رہا ہوں۔ باجی میرے پرانے عید کے جوتے اور کپڑے اْٹھائے اپنے پلو سے آنسو صاف کر رہی ہے، ماں اب بھی آسمان کی طرف دیکھتی ہے دروازے کی سرسراہٹ پر چونک اٹھتی ہے۔۔۔۔ شاید وہ مجھے ڈھونڈ رہی ہے۔ ماں میں آپ کے سامنے ہوں آپ آسمان کی جانب دیکھیں وہاں جو سب سے چمکتے ہوئے ستارے ہیں وہ ہم سب دوست ہیں، ہم خون میں لت پت ہوکر آسمان میں ستارے بن گئے ہیں۔۔۔۔ ہم سب ستارے بن گئے ہیں۔

 

فقط
آپ کا بیٹا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *