Laaltain

ہمارا مبہم قومی بیانیہ

3 مارچ، 2016
ہماری ریاست خود اپنے ہی ہاتھوں بھڑکائے گئے الاؤ کی زد میں ہے۔ غلط اور مبہم بیانئے پر قائم ہونے والی ریاست کے ساتھ ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ گہری مذہبی بصیرت اور مطالعے سے محروم اور برطانوی جمہوریت کے تصور سے متاثر عملیت پسند لیڈر نے مذہب کا لولی پاپ دکھا کر عوام کی جذباتی سطح پر بے وقوف بنایا۔ انہیں ایسا بلوریں خواب دکھایا جس کی روشنی مسلسل زوال پذیر ہے۔ اپنی (بظاہر) تمام تر جدید سوچ اور وضع قطع کے باوجود سیاسی ضرورت کے تحت نہ صرف اپنا عقیدہ بدلا بلکہ جاگیردارانہ اسلام کا تصور رکھنے والے بہشتی زیور کے مصنف مولوی اشرف علی تھانوی کے مقلد دیونبدی مولوی شبیر احمد عثمانی کو اپنی سیاسی قربت بخشی۔ ابہام کی اڑتی ہوئی اس دھول میں عوام کے حقوق اور ریاست کے لئے سرے سے کوئی واضح ایجنڈا تھا ہی نہیں۔ ریاست کے حصول کا ایجنڈا مکمل ہوجانے کے بعد بھی آئین کی جانب کوئی توجہ نہیں تھی۔ اور پھر ہوا یہ کہ آئین سازی سے اغماض ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتا چلا گیا۔ اور جب آئین بنے بھی تو ان کی حیثیت کاغذی سے زیادہ کبھی کچھ نہیں رہی۔ بلکہ یہ دساتیر بھی طاقتور گروہوں کا ایک حربہ بن کر رہ گئے۔

 

ہماری ریاست خود اپنے ہی ہاتھوں بھڑکائے گئے الاؤ کی زد میں ہے۔ غلط اور مبہم بیانئے پر قائم ہونے والی ریاست کے ساتھ ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
ریاست کی بنیاد میں موجود مبہم بیانیے نے ہمیں مسلسل نقصان سے دوچار کر کے اس کی قلعی کھولی مگر ہم آج بھی اسی بیانیے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کا قیام اس بیانیے کی اندوہناک شکست کا اعلان تھا۔ اور پھر جہاد کے نام پر پنپنے والی دہشت گردی بھی اسی بیانیے سے کھاد حاصل کرتی رہی۔ قانونِ شہادت، حدود آرڈینینس اور توہینِ رسالت کے قانون نے بھی اسی بیانیے سے جنم لیا۔ تاثیر کا قتل اور قادری کی پھانسی اسی بیانیے سے اگنے والے کیکٹس ہیں جس کے کانٹے ریاست کے گلے میں پھنسے ہیں۔

 

عوام کو انسان سمجھا جاتا تو انہیں انسان بنانے کا بندوبست بھی کیا جاتا۔ انہیں جذباتیت کی ڈوز دینے کی بجائے عقل اور دلیل کی تعلیم دی جاتی۔ ٹیکس کے نام پر ان سے لیا جانے والا پیسہ ان کی فلاح پر خرچ کیا جاتا تو آج ہم ایک ایسا ہجوم نہ بنتے جس کا ہر فرد آگ کا بگولہ بنا ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *