ہائے ماں
ہائے ماں دُنیا کتنی ظالم ہے
ہائے ماں کیوں میں ایک لڑکی ہوں
ہائے ماں کیوں میں ایک لڑکی ہوں
جانے اُس روز کیا ہُوا تھا ماں
سوچتی ہوں تو دل دہلتا ہے
سوچتی ہوں تو دل دہلتا ہے
ہلکا ہلکا ابھی اندھیرا تھا
جب میں مسجد چلی گئی تھی ماں
میں نے جھاڑو دیا تھا مسجد میں
پانی رکھا تھا وُضُو خانے میں
جانمازیں بھی ساری تہہ کی تھیں
ہاتھ میں میرے میرا قُرآں تھا
مُلا جی نے بُلا کے مُجھ سے کہا
آج حُجرے میں بیٹھ کے پڑھ لے
جب میں مسجد چلی گئی تھی ماں
میں نے جھاڑو دیا تھا مسجد میں
پانی رکھا تھا وُضُو خانے میں
جانمازیں بھی ساری تہہ کی تھیں
ہاتھ میں میرے میرا قُرآں تھا
مُلا جی نے بُلا کے مُجھ سے کہا
آج حُجرے میں بیٹھ کے پڑھ لے
اتنا تو یاد ہے مُجھے اے ماں
پر مُجھے یہ خبر نہیں کیسے
حُجرے سے گھر تلک میں پہنچی تھی
کیوں میرا جسم ٹوٹا پُھوٹا تھا
کیوں میرے کپڑے داغدار تھے ماں
کیوں میں رو رو کے سر پٹکتی تھی
کس لئے کانپتی تھی ڈڑ ڈر کے
کیوں کسی کے قریب آتے ہی
مُجھ کو لگتا تھا کوئی پھر سے مُجھے
ایک تنگ و تاریک حُجرے میں
بند کرکے ہلاک کر دے گا
پر مُجھے یہ خبر نہیں کیسے
حُجرے سے گھر تلک میں پہنچی تھی
کیوں میرا جسم ٹوٹا پُھوٹا تھا
کیوں میرے کپڑے داغدار تھے ماں
کیوں میں رو رو کے سر پٹکتی تھی
کس لئے کانپتی تھی ڈڑ ڈر کے
کیوں کسی کے قریب آتے ہی
مُجھ کو لگتا تھا کوئی پھر سے مُجھے
ایک تنگ و تاریک حُجرے میں
بند کرکے ہلاک کر دے گا
پر مُجھے صرف یہ پتہ ہے ماں
اب میں جب بھی سپارا کھولتی ہوں
مُجھ کو پھر سے ڈراتا ہے وہ خواب
جُونہی سُنتی ہوں میں اذاں کی آواز
مُلا جی کا ڈراؤنا چہرا
بھُوت بن کے ڈرانے لگتا ہے
تیرا ماتم سُنائی دیتا ہے
میری چوٹوں میں درد ہوتا ہے
اب میں جب بھی سپارا کھولتی ہوں
مُجھ کو پھر سے ڈراتا ہے وہ خواب
جُونہی سُنتی ہوں میں اذاں کی آواز
مُلا جی کا ڈراؤنا چہرا
بھُوت بن کے ڈرانے لگتا ہے
تیرا ماتم سُنائی دیتا ہے
میری چوٹوں میں درد ہوتا ہے
کس طرح میں پڑھوں قُرآن بتا؟
کس طرح میں نماز کو اُٹھوں؟
کس طرح سر اُٹھا کے دیکھوں تُجھے؟
کس سے میں اپنا بچپنا مانگوں؟
کس طرح میں نماز کو اُٹھوں؟
کس طرح سر اُٹھا کے دیکھوں تُجھے؟
کس سے میں اپنا بچپنا مانگوں؟
ہائے ماں دُنیا کتنی ظالم ہے
ہائے ماں کیوں میں ایک لڑکی ہوں
ہائے ماں کیوں میں ایک لڑکی ہوں