Laaltain

کسی صبا رفتار کا بیان

10 ستمبر، 2016
آپ نے کبھی صبا کو دیکھا ہے۔وہ ایک نامعلوم ہستی ہے۔ایک ایسی دنیا جس کےرگ و پے میں برق بستی ہو، جس کی آنکھوں سے روشنی برستی ہو۔میں وقت کے دھارے پر چلتا ہوا نہ جانے کہاں پہنچا ہوں کہ اب یہ جس شخص کا خاکہ میں لکھ رہا ہوں، اس کا نام بیان نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ایک خیالی انسان ہے۔ایک ایسا انسان جس کا وجود ہے بھی یا نہیں۔اس کا مجھے علم نہیں۔بس میں نے اسے اتنی دیر کے لیے تراش لیا ہے، جتنی دیر کی بورڈ کے کپڑے پر انگلیوں کی سوئیاں پڑتی رہیں اور سل کر تیار کردیں ایک ایسا لباس، جس میں شاید ہی کوئی شخص فٹ ہوسکے، سوائے اس کے، جو ہے اور مجھے ملا نہیں اور جو ہوگا بھی تومجھے نہ ملنے کے لیے۔

 

کتھئی اور سرمئی رنگ کی ملی جلی دھجیوں سے اس کا بدن تیار کیا گیا ہے۔چمکتے ہوئے ریشم کے سے پھسلواں کپڑوں کو اس کی جلد تعبیر کرلیا گیا ہے۔
کتھئی اور سرمئی رنگ کی ملی جلی دھجیوں سے اس کا بدن تیار کیا گیا ہے۔چمکتے ہوئے ریشم کے سے پھسلواں کپڑوں کو اس کی جلد تعبیر کرلیا گیا ہے۔قدرت ایک ایسی ہی غلطی کی نمائش میں غرق ہوئی جارہی ہے، جس میں اس شخص کی بغاوتوں کے سارے اوبڑکھابڑ اور آڑھے ٹیڑھے، ترچھے بانکے طریقے موجود ہیں۔وہ کبھی راجستھان کی گرد میں اٹی ہوئی ہواؤں جیسی معلوم ہوتی ہے تو کبھی کیرالا کے جنگلوں کے سر سبز مناظر میں لپٹی ہوئی۔ ذہانت اس کے روم روم میں ہے، اسی طرح جس طرح معصومیت اس کے چہرے کی ہلکی دھاریوں میں رقص کرتی ہے، گال پر بن جانے والے سانولے اور ہلکے گہرے کنویں، جن میں عاشقوں کے دل ڈول بن کر ڈوبتے جارہے ہیں، خوابوں کی تنی ہوئی رسیوں سمیت۔وقت ایک دہلیز ہے، جس پر کوئی گہرے اور چمکتے ہوئے سیاہ رنگ کا سانپ بیٹھا اس خزانے تک پہنچنے سے عمر کو باز رکھے ہوئے ہے۔وہاں عمر نہیں پہنچ سکتی۔وہاں صرف اتہاس کا حسن اور پھیلے ہوئے مستقل کی تابناکیاں پہنچیں گی، جس قدر وہ پہنچ سکیں اور اس دہلیز کو ایک دن یہ گزرے اور آنے والے کل کی دنیائیں ایک ساتھ اپنی چپیٹ میں لے لیں گی اور وہ سانپ ان کے درمیان پس کر رہ جائے گا۔ قطار میں رکھے ہوئے دیپکوں جیسے اس کے دانت اور ملہار ٹپکاتی اس کی میٹھے اور پھیکے لعاب میں دھنسی ہوئی بولی۔ اس کی پتلی گردن، جس پر پسینے پر بہنے والی کاٹ دار نمکین بوندوں نے تین کٹوریاں سی بنادی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے بادلوں کی تین انگلیاں کسی روشن سیارے کی دیوار سے بیل کی طرح لپٹی ہوئی ہوں۔ کندھے، جنگ کے میدان پر ٹھکی ہوئی ڈھالوں کی طرح قدم گاڑے ہوئے، چکنے، سخت اور مٹھیوں کی گرفت سے مچھلی کی طرح نکلنے کی صلاحیت رکھنے والے۔گردن سے ذرا نیچے سینے کے شفاف میدان پر تھپا ہوا ایک کالا تل۔جیسے بہت اوپر سے دیکھنے پر کسی خاکی میدان میں تنہا اپنا وجود سنبھالے کھڑی کوئی چٹان نظر آجاتی ہے، ایک گنجی اور ننگی، کالی چٹان۔جس کی تپش سے الجھنے کی نہ جرات ہو، نہ ہر کس و ناکس کو اسے دیکھ سکنے کی توفیق۔سینہ، جیسے کسی نے دو چھوٹے چھوٹے اپلے، اپنی نئی نویلی بدن کی جھگی پر تھوپ دیے ہوں۔ترنگوں جیسے لمبے ہاتھ،امس جیسی پسیجی ہوئی بغلیں، گلوب جیسا گول پیٹ، آواز جیسی مہین کمر، شبد جیسی عظیم شرمگاہ اور اس پر آس پاس بکھری ہوئی تابناک ہلکی سیاہ پتیاں، ان پتیوں سے بہنے والے سفید رنگ کے گاڑھے اور پتلے پانیوں کی دو نہریں، ان نہروں پر جھکا ہوا ایک چلو، اس چلو کی بڑھتی ہوئی پیاس اور اس پیاس کی بھٹکتی ہوئی سانسیں۔

 

یہ شخصیت محض خواب کے چھلکوں پر زندہ نہیں رہنا چاہتی، اسے حقیقت کے پھل چاہیئں۔نہ ہوں تو یہ انہیں اگانے، سینچے اور سجانے کا ہنر جانتی ہے۔پھل کے لیے ساری محنت کرنے کے بعد اسے توڑنے سے اسے قدرت نہیں روک سکتی، اگر روکنا چاہے گی تو منہ کی کھائے گی
بدن کی اس آخری اوٹ کے نیچے پھیلی ہوئی اور تنی ہوئی دو ننگی ٹانگیں ہیں۔ان ٹانگوں کا قصہ کسی قصہ گو سے سنیے گاکہ ابھی وقت کی نبض ایک شاعر کے ہاتھ میں ہے، شاعر جو اپنی چھلکتی ہوئی نگاہوں کے ساتھ، دھندلائے ہوئے اس منظر پر، اور سجے ہوئے اک بستر پر اس بدن کو خاک ہوجانے سے روک رہا ہے، اس کے دونوں ہاتھ،اس نامعلوم ہستی کے تنور میں اترے ہوئے ہیں، تھمے ہوئے ہیں، اس طرف مٹی کی ایک بھاری بھرکم سطح ہے اور پر غراتی ہوئی آگ کی لپٹیں، ہاتھ جل رہے ہیں،مگر لپٹوں نے اب ان کو اپنی گول گرفت میں جکڑ لیا ہے ۔سارےپور جھلس گئے ہیں، انسانی تماشے کے اس سب سے گرم اور دہکتے ہوئے تنور میں لگی ہوئی روٹیاں جل کر راکھ ہوئی جارہی ہیں۔ادھر نہروں کا زور بھی جاری ہے۔ بادل، دھوئیں کی شفاف لہروں سمیت گھرر گھرر کرتے ہوئے شاعر کے مساموں میں اتر رہے ہیں اور انہیں میں پھوٹے جارہے ہیں۔

 

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کسی شخصیت کے تذکرے میں شاعر کا ذکر کہاں سے آیا۔محترم قارئین! شاعر اور یہ شخصیت کوئی بہت الگ مخلوق نہیں ہیں۔یہ شاعر کا ہی عکس ہے جو اس کے دونوں اطراف موجود ہے، آئینے کے ادھر بھی اور اُدھر بھی۔لیکن اگر آپ اتنےہی جز بز ہیں تو اسی طرف چلتے ہیں۔پھر ذکر ہورہا تھا اسی شخص کا، جس کے بولنے پر محسوس ہوتا ہے، تتلیاں چٹخارے لے رہی ہوں، پھول کیڑوں کی سونڈوں میں اپنے ہونٹوں کے رس اتار رہے ہوں۔ یہ سب ہوتا ہے، اصل میں، اسی دنیا میں ہوتا ہے، مگر نظر نہیں آتا۔خاص طور پر ان کو، جو ایسے لوگوں کو دیکھنا نہیں چاہتے۔اس شخص کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اسے اپنے ہونے کا علم ہے، ہم میں اور آپ میں کتنے لوگ ہیں، جو یہ جانتے ہیں کہ وہ ہیں صرف اسی لیے تاکہ وہ ہو سکیں اور ہوتے جائیں۔ ان کو اپنے ہونے پر نہ کوئی شرمندگی ہے اور نہ کوئی فخر، وہ بس زندگی کے اس شاندار محل کا پورا چکر لگانا چاہتے ہیں۔ بدن کی دھوپ چھاؤں میں کبھی اعتماد کی رسی تھام کر، کبھی دھوکے اور فریب کی چھڑیاں کھاکر چلتے رہنا چاہتے ہیں۔انہیں گرنا بھی اتنا ہی پسند ہے، جتنا چلنا، انہیں ٹھوکر کھانا بھی اتنا ہی اچھا لگتا ہے، جتنا سنبھل کر دامن جھاڑنا۔ وہ دوسروں پر ہنستے نہیں، کسی کی بھی، کیسی بھی خواہش اور کسی کے بھی کیسے وجود پر سوالیہ نشان نہیں لگاتے۔ وہ بس ہر اس شخص کو اس کی زندگی کی حرارت سمیت قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، جس کا پیٹ سانس کی آنکھ مچولی کی وجہ سے پھولنے پچکنے پر مجبور ہے۔

 

، میں اسے صبا کہوں یا صبا رفتار ۔مگر بات یہی ہے کہ وہ گزری جاتی ہے، نگاہوں کے سامنے سے، ٹھنڈک پہنچاتی ہوئی، کانوں میں سچے شہد کی سی سرگوشیاں گھولتی ہوئی مگر ہم جھونکوں کو محسوس کرنے سے عاری لوگ ہیں۔
یہاں سے اب ایک اور قصہ اس شخصیت کے تعلق سے شروع ہوتا ہے، وہ خسارے میں زندہ رہنے والی شخصیت ہے۔ یعنی کہ ہے بھی اور اپنے آپ کو منوانا بھی نہیں چاہتی۔ وہ خود کا بہت نقصان چاہتی ہے،ذہنی طور پر، جسمانی طور پر، جنسی طور پر اور دوسرے جو بھی طریقے کارآمد ہوسکتے ہیں۔مگر اس شخصیت کو پہچاننا بڑا مشکل ہے۔جیسے کہ سفر کرتے کرتے ایک ہلکے سے موڑ پر اچانک دایاں منظر، بائیں منظر میں تبدیل ہوجاتا ہے، اسی طرح اسے سمجھتے ہوئے فلسفی دماغ کے زاویے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔یہ شخصیت محض خواب کے چھلکوں پر زندہ نہیں رہنا چاہتی، اسے حقیقت کے پھل چاہیئں۔ نہ ہوں تو یہ انہیں اگانے، سینچے اور سجانے کا ہنر جانتی ہے۔پھل کے لیے ساری محنت کرنے کے بعد اسے توڑنے سے اسے قدرت نہیں روک سکتی، اگر روکنا چاہے گی تو منہ کی کھائے گی، لیکن قدرت اسے کہاں روکتی ہے، وہ تو اس کی ماں کی طرح پرورش کرتی آئی ہے، اس کی باچھوں کو کھلتا ہوا دیکھ کر وہ بھی مسکراتی رہی ہے۔ یہ تو ایک مصنوعی قدرت ہے، جو انسانی ذہن کی بنائی ہوئی، ترشی ہوئی ہے، جو اسے ذلیل کرنے کی فراق میں خود خوار ہوئی جارہی ہے۔ اس نے صرف اس ایک شخصیت کی بے عزتی پر کمرکسی اور خاک پھانکی ہے، مگر اس کا دل نہیں بھرتا۔ اس کے پاس تو شاید دل ہے ہی نہیں۔دل تو اس کے پاس ہوسکتا ہے، جس کے پاس سینہ ہو،اس لیے دو ہلکے گول گلابی دائروں کی اوٹ میں رکھے ہوئے دل کے سورج تک کون پہنچ سکے گا، جو اس کے سینے تک نہیں پہنچنا چاہتا ہے اور پہنچنا چاہتا بھی ہے تو صرف رات میں۔ اس لیے صرف ان کھردری کھالوںمیں لپٹی ہوئی گولائیوں کو چھو کر اس کی انگلیاں لوٹ آتی ہیں، اس کی مٹھیاں،ان چھوٹے بڑے گول پھلوں کو نچوڑ تو لینا چاہتی ہیں، مگر ان کے اندر نہیں اترنا چاہتیں، جیسا کہ وہ اپنے بچپن میں اترا کرتی تھیں۔ اس کی نوک سے منہ لگا کر،اس میں سے پیار کے ساتھ اپنی محبت کا حصہ نکال کر، اس کے دل تک پہنچتے ہوئے، تبھی تو خون میں دودھ کی تاثیر پیدا ہوجاتی تھی۔اب بھی ہوسکتی ہے، مگر اب شاید اس کےپاس وہ منہ نہیں رہا، جو مذکورہ شخصیت کی چھاتیوں کے اندرون تک پہنچ سکے۔

 

میں نے اس ہستی کو صبا رفتار کیوں کہا؟

 

یہ سوال تو بہرحال ہے، میں اسے صبا کہوں یا صبا رفتار ۔مگر بات یہی ہے کہ وہ گزری جاتی ہے، نگاہوں کے سامنے سے، ٹھنڈک پہنچاتی ہوئی، کانوں میں سچے شہد کی سی سرگوشیاں گھولتی ہوئی مگر ہم جھونکوں کو محسوس کرنے سے عاری لوگ ہیں۔وہ بھی گزر جائے گی اوروں کی طرح اور دنیا نہیں سنورے گی، نہیں بدلے گی۔خاک ہوتی رہے گی، خون ہوتی رہے گی۔مگر اپنے تیورنہیں چھوڑے گی، اپنی شکست نہیں تسلیم کرے گی، محبت کی اہمیت نہیں سمجھے گی۔اب ایک دن تو یہی ہونا ہے کہ وہ محسوس بھی نہ ہوگی، نظر تو خیر آہی نہیں سکتی۔

Image: Duy Huynh

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *