Laaltain

ریاستی راز کا افشاء: ابو زبیدہ کے سیلف پورٹریٹس کی اہمیت (مصنفین: لیزا حجار اور ہادی وائی تربو, ترجمہ: طارق عباس)

17 ستمبر، 2020

یہ مضمون جدلیہ ڈاٹ کام پر 4 جون 2020 کو انگریزی میں شائع ہوا تھا۔

ابو زبیدہ، جو زین العابدین محمد حسین کا فرضی نام تھا، سیاسی بنا پر نظر بند کیا جانے والا پہلا مطلوب شخص تھا، جسے سی آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ ایجنسی (سی آئی اے) کے گیارہ ستمبر کے بعد کا ٹارچر پروگرام ابو زبیدہ کو detainee zero کے نام سے جانتا تھا۔ مارچ 2003 کے اواخر میں اسے پاکستان میں گرفتار کیا گیا اور فوراًبلیک سائٹ (black site )منتقل کر دیا گیا، جو تھائی لینڈ میں سی آئی اے کا ایک خفیہ (ٹھکانہ ) تھا۔ امریکی اہلکاروں کا خیال تھا (جو کہ بعد میں غلط ثابت ہوا) کہ وہ القائدہ میں اعلیٰ سطح کا قائد تھا۔ اور اسی وجہ سے (سی آئی اے کا قیاس تھا کہ) اُس کے پاس خفیہ کارروائیوں کی بے پناہ معلومات ہوں گی۔

تھائی لینڈ میں ٹارچر کے آغاز کے موقع پر ،ابو زبیدہ کے تفتیشی افسران کو واشنگٹن کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں کے برعکس ابو زبیدہ نے زندگی کے بقیہ خاموشی یا ایام قیدِ تنہائی میں نہیں کاٹے۔ 2006 میں سپریم کورٹ نے واشنگٹن کے وعدے کو کالعدم قرار دے دیا جب اُس نے (ہمدان بمقاملہ رمزفیلڈ) Hamdan vs Rumsfeld کیس کا فیصلہ سنایا جس کے مطابق امریکہ کے گرفتار کردہ تمام قیدی ، بشمول اُن کے جو سی آئی اے کی تحویل میں تھے، وہ سب 1949 کی جینیوا (کنونشن) کے Common آرٹیکل 3 کے تحت ہیں، جس کے (مطابق) اُن قیدیوں (پر تشدد) ، ارادی ظلم و زیادتی، تذلیل، اور ذلت آمیز سلوک، یہ سب قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں اور (جنگی جرائم)war crime میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکی صدر جارج بُش نے اس فیصلے کو ناپسند کیا ، تاہم اس فیصلے کے تحت وہ مجبور تھا کہ black sites کو خالی کروائے۔ 2006 کے ستمبر میں ابو زبیدہ، 13 مزید ہائی پروفائل (اعلیٰ سطح کے) قیدیوں کے ہمراہ ، گوانتانامو منتقل کر دیا گیا۔ اور وہ آج تک گوانتانامو میں ہی ہے۔

[divider]تفتیش کا طریقۂ کار[/divider]

مشکوک (یا متوقع مجرم) قیدیوں کو اذیت دینے کی خواہش کے جراثیم 2001 کے اواخر میں ہی نمو پانا شروع ہو چُکے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ “جذبے” ابو زبیدہ یا کسی بھی دوسرے شخص کی گرفتاری سے قبل ہی پنپ رہے تھے۔ بش انتظامیہ (کی) افسر شاہی، (جو اس بات کے قائل ہو چکے تھے) ، کہ جسمانی تشدد اور نفسیاتی تذلیل، دونوں حربے ملزمان سے سچ اگلوانے کے لئے ضروری ہیں ، انہوں نے حکومتی وکلاء کی مدد سے ان “حربوں” کا قانونی ہونا منظور کروایا۔ بدنام زمانہ دستاویز ، امریکی محکمہ انصاف کے (دفتر برائے قانونی مشاورت) کی جانب سے یکم اگست 2002 میں سامنے آئی۔ یہ ابو زبیدہ ہی تھا، وہ پہلا HVD (High Value Detainee) جس کے لئے یہ حربے قانونی طور پر منظور کئے گئے۔

جون 2002 میں، سی آئی اے کے ساتھ معاہدے کے تحت، دو ماہرینِ نفسیات جیمز مچل (James Mitchel) اور بروس جیسن (Bruce Jessen) سے اُن طریقہ ہائے کار کی ایک فہرست کا تقاضہ کیا گیا جو ابو زبیدہ کو “فرمانبردار” بننے پر مجبور کریں۔ ان طریقہ ہائے کار کا مقصد یہ تھا کہ اُن حربوں کی شناخت کی جائے جو اُسے خفیہ کارروائیوں سے متعلق سوالوں کے شافی جواب دینے پر مجبور کر سکیں۔ اپنی خود نوشت Enhanced Interrogation میں (جیمز) مچل وہ فہرست (ہو بہو) نقل کرتا ہے جو اُس نےسی آئی اے کو مہیا کی تھی۔

• توجہ مبذول کرانا : قیدی کو دونوں ہاتھوں سے تیزی کے ساتھ جکڑنا، اس طرح کہ ایک ایک ہاتھ سے گریبان کے دونوں کنارے پکڑے جائیں۔اور اسی رفتار کے ساتھ قیدی کو (تفتیشی) اپنی جانب کھینچے
• دیوار سے لگانا: قیدی کو آگے کی طرف کھینچا جائے اور پھر تیزی اور مضبوطی کے ساتھ ایک مصنوعی (لچک دار) دیوار کی جانب دھکیلا جائے تاکہ اُس کے کندھے دیوار سے جا ٹکرائیں۔ لیکن ایسا کرنے سے قبل اُس کا سر اور گردن ایک تولیے سے ڈھاپنے ہوئے ہوں
• چہرہ تھامنا: تفتیشی افسر اپنی کھلی ہوئی ہتھیلی قیدی کے چہرے پر (دائیں یا بائیں) رکھے، اس طرح کہ اس کی انگلیاں قیدی کی آنکھوں سے دور ہوں۔
• چہرے (پہ) تذلیلی تھپڑ: افسر اپنے انگلیوں میں تھوڑا سا فاصلہ پیدا کرے، اور اُس کا ہاتھ قیدی کی ٹھوڑی اور کان کی لو کے درمیان جا کر پڑے
• بندش یا تحدید : قیدی ایک نہایت تنگ جگہ پر رکھا جائے، جو کہ بالعموم ایک چھوٹی یا بڑی جسامت کا ڈبہ ہو، اور وہاں اندھیرا ہو۔ چھوٹے ڈبےمیں دو گھنٹے جبکہ بڑے ڈبے میں اٹھارہ گھنٹے تک رکھا جا سکتا ہے۔
• حشرات: بے ضرر کیڑے مکوڑے ڈبے میں چھوڑے جا سکتے ہیں۔
• تناؤ کی حالت: قیدی زمین پر بٹھایا جائے اور اُس کی ٹانگیں عمودی حالت میں سیدھی کرائی جائیں۔ اور اُس کے بازو اوپر اٹھوائےجائیں۔ یا اُس کی کمر کو 45 درجے کے زاویے پر جھکایا جائے
• دیوار سے لگا کر کھڑے رکھنا: قیدی کو دیوار سے چار یا پانچ فٹ کے فاصلے پر کھڑا کیا جائے، اور اس کے پیر کندھوں کی چوڑائی جتنے کھلے ہوئے ہوں۔ اس کے بازو دیوار کی طرف بڑھائے جائیں، اس طرح کہ اس نے انگلیوں سے دیوار کو پکڑ رکھا ہو، اور وہ ان انگلیوں سے اپنے جسم کے سارے وزن کو سہار رہا ہو۔ سزا کے اس عمل کے دوران قیدی کو اپنے سر اور پیر کی پوزیشن تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
• سونے نہ دینا: مسلسل گیارہ دن سے زیادہ نہ جگائے رکھاجائے
• واٹر بورڈ: قیدی کو ایک بنچ سے باندھا جائے اور اس کے پیر اس کے سر سے اوپر اٹھائے جائیں اور سر کی حرکت بالکل منجمد کر دی جائے۔ اور افسر اُس کے منہ اور ناک پرکپڑا رکھتا ہے اور منضبط طریقے سے کپڑے پر پانی گراتا ہے۔ سانس کو بیس سے چالیس سیکنڈ کے لئے روکا جائے۔ یہ طریقہ کار ڈوبنے اور دم گھٹنے، دونوں طرح کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

ابوزبیدہ کو ان تمام تفتیشی مظالم سے گزارا گیا۔ اور اس کے علاوہ بھی دوسری “استمراری حالت ” میں رکھے جانے والے طریقے بھی اس پر آزمائے کئے گئے جیسا کہ برہنہ رکھنا اور خوراک میں کمی وغیرہ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ابو زبیدہ کو تجربہ گاہ کے چوہوں کی طرح سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی آزمائش کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تجربہ گاہ تھا۔ اُس کا اور اس کے تفتیشی افسران کا تجربہ ، اس کے بعد پکڑے جانے والے HVDs پر آزمایا گیا۔

[divider]تصاویر اور معلومات کا اخفاء[/divider]

ان خفیہ عقوبت خانوں میں ابو زبیدہ پر ٹارچر کی کوئی بھی تصویر دستیاب نہیں۔ سی آئی اے نے اپنی ظالمانہ تفتیش کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی تھی، لیکن 2005 میں، جب سی آئی اے کا ٹارچر پروگرام کانگریس کی شدید تنقید کی زد میں تھا، ایجنسی نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ ویڈیو ریکارڈنگ ضائع کر دی جائے۔ ایسا اس خوف کے تحت کیا گیا کہ یہ تفتیشی طریقے جو ابو زبیدہ پر آزمائے گئے، ان کے آشکار ہو جانے سے سی آئی اے کے ایجنٹ اور کنٹریکٹرز کو قانونی خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔سی آئی اے کا ٹارچر پروگرام باراک اوباما نے 2009 میں منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں معلومات ایک کلاسیفائڈ اور قومی سطح کا راز ہے۔ ابو زبیدہ اور دوسرے HVDs جو اب گوانتانامو کے Top Secret Camp 7 میں قید ہیں وہ بھی ایک طرح سے کلاسیفائڈ ہیں، اور سی آئی اے نے اُن پر کیا ظلم و ستم ڈھائے، انہیں بھی قومی راز قرار دے دیا گیا ہے۔اوباما کی صدارت کے دوران محکمہ انصاف نے اس کے عوامی بیانات کے مطابق کہ”ہمیں آگے دیکھنا چاہئے نا کہ پیچھے”، ٹارچر سے متعلق مقدمات میں مواخذے کو خارج از امکان قرار دے دیا۔ اور ان یک قلم جنبش فیصلوں کے پیچھے کارفرما ‘حکمت’ تھی کہ مشتبہ دہشت گردوں کو ٹارچر کرنے کی تجویز حکومتی وکلاء کی تھی اور اس وجہ سے وہ ‘قانونی’ تھیں۔ صرف دو افراد کی تفتیش کی گئی جو عراق میں ایک قیدی کے قتل کے ذمہ دار تھے اور بعد ازاں کسی قسم کے الزامات عائد کیے بغیر یہ کیس بند کر دیا گیا جہاں ایک طرف ایذارسانی کے مرتکب افراد قانون کی پہنچ سے دور رہے، وہیں جان کیریاکو کو ایذارسانی سے متعلق زبان کھولنے پر مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ جان کیریاکو ایک ریٹائرڈ سی آئی اے اہلکار تھے جنہیں ابو زبیدہ پر ٹارچر کی تصدیق کرنے پر تیس ماہ کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔

۔2009 میں انٹیلی جنس کی سینٹ سلیکشن کمیٹی نے سی آئی اے کے ملزمان کی حراست اور تفتیشی پروگرام کی تفتیش کے پروگرام پر تحقیق کا آغاز کیا۔ کمیٹی نے 2012 میں 6000 صفحات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی۔ اور اس رپورٹ میں سی آئی اے کے پروگرام اور اس پروگرام کی مفروضہ کامیابی دونوں پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ لیکن بعد ازاں دسمبر 2014 میں نظر ثانی اور کاٹ چھانٹ کے بعد اس رپورٹ کا خلاصہ منظر عام پر لایا گیا۔اور Freedom of Information Act (قانون برائے آزادی معلومات ) کا قانون لاگو ہونے کے بعد بلیک سائٹس سے بہت سی دستاویزات عام کی گئی ہیں

سی آئی اے کا ٹارچر پروگرام جو کہ اب کالعدم ہو چکا ہے، ریاست کے اپنے اقدامات کو اخفاء میں رکھنے کا ایک طویل العمر مظہر ہے۔ ریاستی استبداد جیسا کہ پولیس کے مظالم، ٹارگٹ کلنگ، کبھی کبھار عوام کے علم میں لائے جاتے ہیں لیکن ٹارچر (جس کی قانونی تعریف یہ ہے کہ قیدی ملزم کو ارادتاً ظلم و ستم کا نشانہ بنانا) کو ہمیشہ اخفاء میں رکھا جاتا ہے۔ اور جو ریاستیں مشتبہ قیدیوں کو ٹارچر کرتی ہیں ان کی عمومی روش یہی ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم و ستم کے وجود کا ہی انکار کر دیں۔اور چونکہ تصویر اور ویڈیوز ان جھوٹے دعووں کو عیاں کر دیں گی اس لئے عوامی سطح پر ٹارچر کی دستیاب تصاویر نہ ہونے کے برابر ہیں۔حتیٰ کہ وہ تصاویر اور ویڈیوز، جو موجود ہیں یا تھیں، وہ بھی صرف ٹارچر کرنے والے افسران کے لئے بنائی جاتی تھیں، نہ کہ عوام کےلئے۔

[divider]ابو زبیدہ کے خاکوں کی خاص حیثیت[/divider]

ابو زبیدہ نے گوانتانامو کی بلیک سائٹس میں اپنے تجربات کی قید کے دوران خود سے تصویر کشی کی تھی۔ ان تصویری خاکوں کا ایک مجموعہ 2018 میں ProPublica کو Freedom of Information Act کے ضمنی جواب میں مہیا کیا گیا۔ Freedom of Information Act ایک مقدمہ تھا جو Yale Law School کے (شعبہ برائے آزادی صحافت اور رسائی معلومات) Media Freedom and Information Access شعبہ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ 2019 میں ابو زبیدہ نے اپنے تجربات پر مبنی مزید خاکے عام کیے ۔ابوزبیدہ کے بنائے خاکے اور اس کی زبانی اس پر بیتے واقعات کا بیان ابو زبیدہ کے وکیل Mark Denbeauxنے اپنی رپورٹ How America Tortures میں شائع کئے۔ اس کے بنائے کچھ خاکے Seton Hall University Law School کے طالب علموں نے شائع کئے۔

بالعموم تصاویر کو ٹارچر کا ثقہ ثبوت خیال کیا جاتا ہے تا کہ اس حقیقت سے گزرنے کی ایک دلیل پیدا ہو۔ اس نقطہ نظر کے مطابق، ٹارچر کی حقیقت کا عکاس صرف کیمرہ ہوتا ہے، یا ہو سکتا ہے۔ اور وہ ویڈیوز جو تفتیش کے دوران بنائی گئیں اور بعد ازاں ضائع کر دی گئیں، وہ ایک اچھا عینی ثبوت ثابت ہو سکتی تھیں ۔ اس کے برعکس خاکے ، جو ابو زبیدہ نے بنائے، وہ ثبوت کے طور پر اتنا درجہ نہیں رکھتے جتنا کہ کیمرہ رکھتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ٹارچر کا بہت حد تک شافی ثبوت سمجھے جائیں، انہیں ابو زبیدہ کے فراہم کردہ دوسرے ثبوتوں (جیسا کہ ابو زبیدہ کا زبانی بیان) کا معاون یا پرتَو سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر ان خاکوں کو کم تر درجہ دینا مخصوص معاشرتی روایات کا نتیجہ ہے۔ ابو زبیدہ کی ڈرائنگ ہمیں اس معاملے سے نبرد آزما ہونے کا ایک متبادل فراہم کر تی ہیں۔ اور ان کی افادیت تصویر اور ویڈیوز کے مقابلے میں دو چند بھی نہیں بلکہ سہ چند ہے۔ پہلی یہ کہ جو ویڈیوز منظرِ عام پر آتی ہیں وہ ریاست کی تیار کردہ اور ایڈٹ کردہ ہوتی ہیں تاکہ وہ عوام کو دکھائے جانے کے قابل بنائی جا سکیں۔ بعینہ اسی طرح متنی حوالہ جات بھی سی آئی اے کے نمائندگان اور ٹارچر کرنے والے افسران کے تیار کردہ ہوتے ہیں اور وہ ان کا زاویۂ نگاہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ دستاویزات، جیسا کہ سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ جو کہ سی آئی اے کے اپنے ریکارڈز پر مبنی ہے، دلخراش تصویر کشی کرتی ہے، جبکہ باقی جگہوں پر افسرشاہی کی اصطلاحات کی ملمع سازی سے کام چلایا جاتا ہے، جیسا کہ “واٹر ٹریٹمنٹ بھی کیا گیا” اور “اس پر پریشانی کے آثار واضح تھے” وغیرہ۔ اس کے برعکس ابو زبیدہ کے کھینچے خاکے ٹارچر سے گزرے ہوئے شخص کے ذاتی تجربات کے عکاس ہیں۔

دوم، نام نہاد حقیقت نگاری ٹارچر کرنے والوں کی حقیقت کو منہدم کر ڈالنے والی اذیت کو عیاں کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ Elaine Scarry کا مشہورِ عام مقولہ ہے کہ “درد ،سوائے اس کے کہ وہ کسی نظر آنے والے زخم کا نتیجہ ہو، دوسروں کو نظر نہیں آتا، اور ان کے لئے غیر حقیقی ہوتا ہے۔” اور ایلین کے مطابق نظر نہ آنے والی یہ تکلیف ٹارچر کے دوران مزید بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ ٹارچر سے گزرنے والے شخص کا درد دوسروں کےلئے نظر نہ آنے والا ہوتا ہے۔ ٹارچر کرنے والے کو وہ درد نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن وہ آسانی سے اس کا انکار کر ڈالتا ہے۔

تصاویر اور ویڈیوز کے برعکس، جو ٹارچر کے ظاہری منظر نامے کی درست عکاس سمجھی جاتی ہیں، ابوزبیدہ کے خاکے نہ تو تصویری حقیقیت نگاری کے مظہر ہیں نہ ہی وہ ظاہری ہیئت تک محدود ہیں۔ اس کی ڈرائنگ کا انداز، ہمیں اس ٹارچر سے کہیں زیادہ اشارے دیتا ہے، جو اس کے خاکوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ 2018 میں ProPublica میں شائع ہونے والے خاکوں کا پہلا مجموعہ “عجیب اور آسیب زدہ” قرار دیا گیا اور یہ کہ ان خاکوں میں ان مخلوقات کی ڈرائنگ تھی جو کسی دور از کار دیومالائی روایت کا حصہ تھے۔ اسی وجہ سے ProPublica کے نامہ نگاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ “جوابو زبیدہ دکھانا چاہ رہا تھا وہ کچھ غیر واضح سی شے ہے”۔ اور وضوح کی یہ عدم دستیابی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ٹارچر اور دنیا پر اس کے تباہ کن اثرات کی تصویر کشی ممکن نہیں۔ ابوزبیدہ کے یہ خاکے اس لیے بھی اہم ہیں کیوں کہ یہ مبنی بر حقیقت ہونے اور غیر جانبدار تصویر کشی کا دعوی کرنے کی بجائے ، ٹارچر کی منظر کشی اور اس کی گیرائی کو سمجھنے کے ناممکن ہونے کا اظہار ہیں ۔

سوم تصاویر اور ویڈیوز کی یہ ‘حقیقت پسندی’ فریمنگ ، پردہ پوشی اور بیانیے جیسے عوامل کو ہماری آنکھ اور دماغ، دونوں سے اوجھل رکھتی ہے جو حقیقت کو بہت حد تک پس منظر میں دھکیل دیتے ہیں۔جبکہ ابوزبیدہ کے خاکے اس ظاہر پرست حقیقت کی جھلک سے ماورا ہیں۔ لیکن جیسا کہ Giorgio Agamben کا دعویٰ ہے : “گواہی اپنا ثبوت بعینہ اسی امر سے اخذ کرتی ہے جو موجود نہیں ہوتا”۔ علاوہ ازیں Nicholas Mirzoeff جیسوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ہمیں)حقائق ( کی عدم موجودگی سے بھی )حقیقت( اخذ کرنی چاہیئے ۔ ابو زبیدہ کے کیس میں اُس کے خاکوں کا غیر حقیقی معیار اسے ایک منفرد جلا بخشتا ہے ۔شاید قانونی تناظر میں نہیں بلکہ وسیع سماجی تناظر میں۔۔ناظر کو عکس بند واقعات رونما ہوتے دیکھنے کے مغالطے میں مبتلا کرنے کی بجائے، اس کے خاکے ہمیں وہ دکھاتے ہیں جو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اور اس دوران میں یہ خاکے ہمیں کسی واقعہ کے دکھائے جانے کا عمل دکھا جاتے ہیں جسے W.J.T. Mitchell نے metapicturesکا نام دیا ہے۔

غیر حقیقی اور سررئیل ہونے کے باعث ابو زبیدہ کے خاکے یہ سوال ہمارے سامنے لاتے ہیں کہ اس کی تفتیشی تصاویر اور ویڈیوز کیوں دستیاب نہیں ہیں۔ اس طرح سے دیکھنے کا عمل مشاہدے سے بھی اوپر چلا جاتا ہے اور صرف تشدد تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس امر پر غور کرنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے کہ اُس کی تفتیشی ویڈیوز کیوں تلف کی گئیں یا پھر وہ معلومات جو ریاست کے عہدیداران کے لئے توہین آمیز ہو سکتی تھیں یا فرد جرم عائد کر سکتی تھیں کیوں کلاسیفائی کر دی گئیں۔ Judith Butler کی نظر میں ریاست کی جانب سے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کا یہ عمل Judith Butler قابلِ گرفت ہے اور تشدد کے ان خاکوں کے اندر دیکھا جا سکتا ہے۔

ٹارچر کو نگاہوں سے اوجھل رکھنے کے لئے ریاستیں ان طریقوں کا انتخاب کرتی ہیں جن کے ذریعے ایذارسانی کے حربوں کا کوئی جسمانی نشان نظر نہیں آتا۔ “بے نشان ” ٹارچر کے یہی طریقے ان خاکوں میں دکھائے گئے ہیں: سونے نہ دینا، جسم کو بوجھ کی حالت میں رکھنا، منہ پر پانی گرانا، بکسوں میں محصور کرنا وغیرہ

فکر انگیزی کی یہ صلاحیت ان خاکوں کو، انہیں مصور کرنے کے پیچھے کارفرما ابوزبیدہ کی منشا سے ماورا کر دیتی ہے۔ بہر حال تصویروں کی اپنی بھی ایک زندگی ہے، اپنے مصوروں کے ارادوں سے یکسر مختلف اور منفرد۔ اسی طرح اس کے خاکوں کی طاقت اس امر میں پوشیدہ نہیں ہے کہ ان تصویروں میں دکھایا گیا تشدد دیکھنے والوں میں کیا ردعمل پیدا کرے گا۔ ان خاکوں میں ایسی منفرد خصوصیات کی موجودگی کا تصور جو تصاویر اور ویڈیوز کا خاصہ نہیں، بعض ناظرین کے لیےبے فیضی کا باعث ہے۔ لیکن اگر ایسے ردعمل اکتساب فیض کی راہ میں روکاوٹ خیال کیے جاتے ہیں تو یقیناً غالب سماجی تصورات کو چیلنج کر کے بصری وجدان کی تعریف نئے سرے سے متعین کی جا سکتی ہے ۔

[divider]تصویر اور ویڈیو کیا چھپا سکتی ہے؟[/divider]

یہ عمومی تاثر کہ تصویر اور ویڈیو خاکے سے زیادہ باوزن ہوتی ہیں، اپنے اندر ایک مسئلہ رکھتا ہے۔ اور یہ تصور ریاست کے ہاتھوں تشدد کو دو اہم معنوں میں نظرانداز کیے جانے، بلکہ اس کی موجودگی سے یکسر انکار کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ تصویری ثبوت کی برتری ان کی عدم موجودگی میں دوسرے موجود شواہد کو کم تر قرار دینے میں کامیاب رہتی ہے۔ جیسا کہ مظلوم کا زبانی بیان تصویری ثبوت کے بغیر کم تر اور متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔

دوم، ویڈیو اور تصاویر ٹارچر کے وسیع تر اور منظم استعمال کو پس پشت ڈالتے ہوئےہمیں صرف ان واقعات تک محدود کر دیتی ہیں جو عکس بند کیے گئے ہوں ۔ تشدد کی چند دستیاب تصاویر اور ویڈیوز، مثلاً عراق میں امریکی حراستی مرکز ابو غریب اور برطانوی حراست میں ٹارچر کئے گئے عراقیوں کی ویڈیوز یا تصاویر ، کی بنا پر صرف اُن ادنیٰ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جا سکی، جنہیں تصاویر میں دیکھا جا سکتا تھا۔تصاویر کی بنیاد پر صرف اُن کے خاف مقدمہ چلایا جا سکا جنہیں تصاویر میں دیکھا جا سکتا تھا، اور وہ جو ان مظالم کے احکامات دے رہے تھے، وہ محفوظ رہے۔ اور یوں یہ تصاویر اور ویڈیوز بھی ریاستی تشدد کی بنیادی حقیقتوں پر پردہ ڈالنے کا باعث بن جاتی ہیں۔

لہذاٰ ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تصاویر اور ویڈیوز، خصوصاً وہ جو ریاست کے نمائندگان تیار کرتے ہیں، بآسانی بہت سے حقائق ہماری نگاہوں سے اوجھل کر ڈالتی ہیں۔ اور نتیجتاً تشدد کی شکایات اور الزامات بے معنی ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر کی عدم دستیابی پر ماتم کرنا کافی نہیں، بلکہ ٹارچر اور اس کی پردہ پوشی کے چلن کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل طریقہ ہائے کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ابوزبیدہ کے تیار کردہ خاکے ہمیں بعینہ وہ متبادل فراہم کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *