اس طرح سے آلو فی ایکڑ ایک لاکھ کے خرچ کے بعد 72000 روپے کے فروخت ہوتے ہیں اور یوں چھوٹے کسانوں کو آلو کی کاشت پر 28000 روپے فی ایکڑ خسارہ ہو جاتا ہے۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے آلو 5 روپے کلو کی بات کی تو سمجھ دار سمجھ گئے کہ یہ سیاسی بیان ہے لیکن کچھ سادے ووٹر سبزی منڈی اور بازار کو نکل پڑے لیکن آگے سے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا یہ تو خبر آج کل اور گزرے ہوئے کل میں بہت مقبول تھی لیکن تصویر کا دوسرا رخ کم لوگ ہی دیکھ پاتے ہیں۔ میڈیا پر تو میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں سنی آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ بات سن کر چھوٹے کسانوں پر کیا گزری ہو گی چونکہ آج کل آلو کی فصل اٹھائی جا رہی ہے اور اس فصل پر خرچہ کافی زیادہ ہو جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں خرچے کی فہرست۔
زمین کی تیاری 800، بیج 3000، کھاد ڈی اے پی 3 بوری 12500، کھاد پوٹاش 2 بوری 7800، کھاد یوریا 4 بوری 8000، سپرے 15000، پانی کا خرچہ 6000، باردانہ 90 بوری 14400، منڈی تک کا کرایہ 4500 یہ سب ملا کر تقریباً ایک لاکھ روپے بنتے ہیں جو انتہائی زیادہ ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اگر آلو کی پیداوار اچھی بھی ہو تو 90 بوری کے لگ بھگ ہوتی ہے اور جب کسان آلو فروخت کرتا ہے اس وقت فی بوری 800 روپے سے زیادہ کی فروخت نہیں ہوتی آج کل بھی یہی نرخ چل رہا ہے۔ تو اس طرح سے آلو فی ایکڑ ایک لاکھ کے خرچ کے بعد 72000 روپے کے فروخت ہوتے ہیں اور یوں چھوٹے کسانوں کو آلو کی کاشت پر 28000 روپے فی ایکڑ خسارہ ہو جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ فصل اتنی زیادہ نقصان دہ ہے تو کسان کاشت ہی کیوں کرتا ہے تو اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں یہ فصل کم حیثیت کسان تو اب کاشت کرنے کی ہمت نہیں کرتا اگر ادھار وغیرہ لے کر کر بھی لے تو منہ کی کھانی پڑتی ہے اور جو زیادہ حیثیت کے حامل کاشت کار ہیں وہ اس مرض کا حل یہ نکالتے ہیں کہ آلو کی فصل اٹھائی اور سیدھی سرد خانے میں پہنچا دی۔ ان میں سے بیشتر کے گودام بھی اپنے ہی ہوتے ہیں اور ان کو پیسوں کی ہنگامی طور پرضرورت بھی نہیں ہوتی۔ کسانوں کے مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور یاد رکھیے کہ یہ مسائل صرف اور صرف چھوٹے کسانوں کو ہی درپیش ہیں۔ موجودہ مسلم لیگ نواز حکومت چھوٹے کسانوں کے لیے کسی آسمانی آفت سے کم ثابت نہیں ہو رہی۔
گنے کے کاشت کاروں کی حالت زار بھی ذرائع ابلاغ کی نظر سے نہیں گزری۔ صورت حال یہ ہے کہ پچھلے سال کی فصل کے پیسے ابھی تک ملز مالکان کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ بے چارے کسانوں نے اس بار بھر امید لگائی اور دوبارہ گنا کاشت کر ڈالا۔ وہ کرتے بھی کیا ان کے پاس اور چارہ بھی کیا تھا۔ کسان گنا شوگر ملز میں تقریباً پہنچا ہی چکے ہیں لیکن ابھی تک بیشتر کسانوں کے پیسے ملز مالکان کے پاس ہیں۔ کسان جیب سے پیسے لگا کر گنا کاٹنے، لادنے اور مل تک پہنچانے کا خرچہ ادا کر چکے ہیں لیکن ابھی تک سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا کچھ ملز مالکان نے پیسے ادا کیے ہیں لیکن فی من 10 فیصد کٹوتی کے بعد۔ اس بات کا جواب مچھے آج تک نہیں ملا کہ یہ کٹوتی کس قانون کے تحت کی گئی ہے۔
چاول یا دھان کی فصل بھی منافع بخش نہیں رہی۔ اس کا نرخ پچھلے کچھ سالوں سے مسلسل کم چلا آ رہا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اپنا چاول ہونے کہ باوجود چاول درآمد کیا جا رہا ہے۔
چاول یا دھان کی فصل بھی منافع بخش نہیں رہی۔ اس کا نرخ پچھلے کچھ سالوں سے مسلسل کم چلا آ رہا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اپنا چاول ہونے کہ باوجود چاول درآمد کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب جن منڈیوں میں پاکستانی چاول برآمد کیا جاتا تھا وہاں ہمارے برآمدکنندگان اور حکمرانوں نے اپنی ساکھ اس قدر گرا لی ہے کہ کوئی پاکستانی چاول خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ خادم اعلیٰ نے چھوٹے کسانوں کو 5000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے بنک کے ذریعے امداد دی کیوں کہ کسی کسان کو بھی اس فصل نے فائدہ نہیں دیا۔ اس سے کچھ لوگ بہت خوش تھے لیکن اصل بات یہ نہیں ہے کہ حکومت نے امداد دی ہے، اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومت کسان مخالف اقتصادی پالیسیاں بنا رہی ہے جو چھوٹے کسانوں کا معاشی قتل کر رہی ہیں۔ بازار میں نرخ کم ہوں تو کسان کو نقصان ہوتا ہے اور اگر نرخ بڑھایا جائے تو بھی عام آدمی ہی پسے گا۔ اس کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت ان لوگوں پر توجہ دے اور پیسے لگائے جو اس ملک کے 43 فیصد لوگوں کے لیے روز گار کا ذریعہ ہیں۔ عام کسان یہ نہیں جانتا کہ بیج، کھاد اور بجلی سستی کرنے میں کیا مشکلات ہیں کیوں کہ وہ اتنا علم نہیں رکھتا لیکن اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ مندرجہ بالا تینوں چیزیں سستی کی جائیں، عالمی منڈیوں تک اجناس کی ترسیل یقینی بنائی جائے اور جدید ٹیکنالوجی سے کسانوں کو بہرہ ور کیا جائے۔ چونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس لیے پاکستان کا مستقبل اسی کسان طبقے کی خوشحالی سے وابستہ ہے جس پر گزشتہ آٹھ سالوں سے جمہوری حکومتوں نے بے انتہا ظلم کیا ہے۔ حال میں وزیراعظم نے ایک کسان پیکج دیا ہے جس میں قرعہ اندازی کہ ذریعے ہر گاوں سے دس خوش نصیب لوگوں کو امداد ملے گی کسانوں کے مطابق یہ پیکج مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسانوں کی نمائندگی ایوان نمائندگان اور سیاسی نظام میں نہیں ہے۔ ان کے مسائل اسمبلی میں یا ذرائع ابلاغ پر شاذونادر ہی زیربحث آتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ایک کسان اتحاد معرض وجود میں آچکا ہے اور اس نے کافی کام کیا ہے لیکن کسان کے مسائل پھر بھی حل نہیں ہو سکے۔ یہ کسان اتحاد شوگر ملز پر وڈیروں کی اجارہ داری کسی حد تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے لیکن چھوٹے کسان کی مشکلات پھر بھی کم نہیں ہوئیں۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ چھوٹے کسان جن کے پاس بجلی کا بل دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ گزشہ 2 سالوں سے کس طرح گنے کے پیسوں کے بغیر گزارا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے زمینیں گروی رکھیں، بہت سوں نے بیویوں اور بہو بیٹیوں کے زیورات بیچے اور بہت سوں نے زمینیں ہی فروحت کر ڈالیں اگر یہی صورت حال رہی تو کسانطبقہ مزید زبوں حال ہو گا، اور یاد رکھیے کسان کی بدحالی پاکستان کی بدحالی ہے۔

