زندگی محبوب ایسی دیدہء قدرت میں ہے
ذوقِ حفظِ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے
ذوقِ حفظِ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے
جناب اگر کرپشن سے آپ اپنی ذات کا تحفظ، اپنی ضروریات کی تسکین اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں تو میری نظر میں یہ کرپشن دنیا کے ہر قانون اور ہر شریعت میں بالکل جائز ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ایک ایسی آفاقی حقیقت کا اعتراف ہے کہ جس کے سامنے دنیا کے تمام آئین، تمام ضابطے، تمام آسمانی احکامات، تمام اخلاقی سفارشات اور تمام مذہبی شریعتیں سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہیں۔ ذات کا تحفظ ایک ایسا قانون ہے جو دنیا کے ہر قانون سے مقدم ہے۔ بقا کی جنگ وہ جنگ ہے جو ہر حال میں جائز ہے۔ تحفظِ ذات کا سوال ہو تو جھوٹ جائز، چوری جائز، قتل جائز، کفر جائز، شرک جائز۔۔۔۔۔۔۔ غرض انسان سبھی کچھ خود پر جائز سمجھ لیتا ہے۔ اپنے دفاع کی راہ میں حائل ہونے والی ہر روکاوٹ بے معنی ہے۔ یہ وہ مجبوری جس کے پیشِ نظر بڑے سے بڑا قانون توڑنا روا خیال کیا جاتا ہے اور بڑے سے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنا حلال سمجھا جاتا ہے۔
سو جب ایک پولیس اہلکار نے سرِ عام رشوت کا مطالبہ کرنے کے بعد خجالت آمیز لہجے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی اچھی زندگی گزارنے کا حق ہے تو میں یہ بات کہنے پر مجبور ہو گیا کہ جناب اگر کرپشن سے آپ اپنی ذات کا تحفظ، اپنی ضروریات کی تسکین اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں تو میری نظر میں یہ کرپشن دنیا کے ہر قانون اور ہر شریعت میں بالکل جائز ہے۔
سو جب ایک پولیس اہلکار نے سرِ عام رشوت کا مطالبہ کرنے کے بعد خجالت آمیز لہجے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی اچھی زندگی گزارنے کا حق ہے تو میں یہ بات کہنے پر مجبور ہو گیا کہ جناب اگر کرپشن سے آپ اپنی ذات کا تحفظ، اپنی ضروریات کی تسکین اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں تو میری نظر میں یہ کرپشن دنیا کے ہر قانون اور ہر شریعت میں بالکل جائز ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس پولیس والے کی طرح آپ سب کو بھی میری یہ دلیل بے حد عجیب اور بے بنیاد لگی ہو گی جس کے رد میں تقریریں کی جا سکتی ہیں اور لفاظیوں کا ڈھیر کھڑا کیا جا سکتا ہے لیکن یقین مانیے کہ یہ بات پورے دن کے سورج کی طرح سچ ہے۔ بھلے ہم کھلے عام اس حقیقت کا اعتراف نہ کریں، بھلے ہم اپنے غیر قانونی رویوں کے لیے معذرت خواہانہ انداز اختیار کریں، بھلے ہم لاکھوں بار محفلوں میں اس مذہبی ٹیپ کے مصرعے کی گردان کریں کہ انسان نے اپنے ساتھ کچھ نہیں لے کے جانا لیکن ذات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کرپشن کے جائز ہونے کی دلیل ہر اس پاکستانی کے لیے عام فہم اور دل میں اتر جانے والی ہے جو جانتا ہے کہ اگر اس کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہو گی تو وہ رل جائیں گے۔ وہ پاکستانی جسے ماں کی دوا خریدنی ہے، بچوں کی فیس دینی ہے، گھر کا کرایہ ادا کرنا ہے اور بل اتارنے ہیں۔ وہ پاکستانی جو دفتروں میں سائلوں سے رشوت مانگتا ہے اور وہ جو عدالتوں میں پیشیوں پر اہلکاروں کی جیب گرم کرتا ہے، وہ پاکستانی جو بجلی کا بل زیادہ آنے پر میٹر پیچھے کرواتا ہے اور وہ جو بجلی کی تاروں پر کنڈے ڈلواتا ہے، وہ پاکستانی جو سردیوں میں گیس کی کمی ہونے پر غیر قانونی کمپریسر لگواتا ہے اور وہ جو چالان کرنے کی بجائے موقع پر جرمانہ کے نام پہ رشوت لیتا ہے۔۔۔۔۔لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بقاء کی جنگ کہاں ختم ہوتی ہے اور سہولت اور تعیش کا حرص کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
رشوت لینے والے ہر انسان کو اپنے ضمیر کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر یہ اعتراف کرنا ہوتا ہے کہ وہ ایک گھٹیا، بزدل، کم ہمت اور کمزور ارادے کا مالک انسان ہے جو اخلاقی اور قانونی دائرے میں رہتے حالات کی مجبوریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
رشوت لینے والے ہر انسان کو اپنے ضمیر کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر یہ اعتراف کرنا ہوتا ہے کہ وہ ایک گھٹیا، بزدل، کم ہمت اور کمزور ارادے کا مالک انسان ہے جو اخلاقی اور قانونی دائرے میں رہتے حالات کی مجبوریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ضمیر کی یہ خلش اس نوجوان اہلکار کے جھکے ہوئے سر اور نظریں چرانے کے انداز سے واضح تھی. جب میں نے اس سے کہا کہ وہ کرپشن جو آپ کے ذاتی مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے، بالکل جائز ہے تو اس نے غیر یقینی انداز سے میری طرف دیکھا۔ “لیکن صرف ایک لمحے کے لیے اپنے ذاتی مفادات کا ازسرِ نو تعین کر لیجیے”۔ میری بات ابھی جاری تھی۔ “ایک دفعہ پھر اپنی مادی خواہشات کی اس فہرست کا جائزہ لے لیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے آپ رشوت لینے پر آمادہ ہیں۔ گھر، جائیداد، کاروبار، گاڑی، سہولتیں، آسائشیں، خوشحالی، سیکیورٹی، پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت، امن، انصاف اور اب اس فہرست میں ان اشیاء کی نشاندہی کریں جو آپ اپنے پیسوں سے خریدیں گے اور پھر ان سہولتوں کا بھی تعین کریں جو آپ خرید نہیں سکتے بلکہ جو صرف آپ کا معاشرہ ہی آپ کو مہیا کرسکتا ہے. آپ کو گاڑی چاہیے، لیکن آپ کو سڑک بھی تو چاہیے۔ کرپشن کر کے آپ گاڑی تو لے لیں گے لیکن آپ سڑک نہیں بنوا سکیں گے۔ گاڑی نہ ہوئی تو کام چل جائے گا لیکن سڑک نہ ہوئی تو کام نہیں چلے گا۔ آپ کو گرمیوں میں اے سی چاہیے، لیکن آپ کو بجلی بھی تو چاہیے، اے سی نہ ہو تو کام چل جائے گا لیکن بجلی نہ ہوئی تو بہت مشکل ہو جائے گی کیونکہ کرپشن کے پیسوں سے آپ اے سی تو خرید لیں گے لیکن ڈیم نہیں بنوا سکیں گے۔ آپ کرپشن کے پیسوں سے ہسپتال نہیں بنوا سکیں گے، آپ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے سکول کالج اور یونیورسٹی نہیں بنوا سکیں گے۔ کیا آپ پولیس کی ضرورت نہیں ہے، کیا انصاف آپ کی ترجیح نہیں ہے، اپنے ذاتی مفاد پر ایک دفعہ پھر غور کر لیں۔
ہماری ضروریاتِ زندگی کی بہت کم اشیاء ایسی ہیں جو ہم خود کما سکتے ہیں، ہماری زیادہ تر ضروریات کا بوجھ معاشرہ اٹھاتا ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک اپنے گھر کو بھرنے کے لیے معاشرے کا برباد کر دینا انتہائی خسارے کا سودا ہو گا۔ اور یہ بھی سوچیے کہ ایسے معاشرے جہاں پیسہ کمانے کے لیے انصاف کا خون کر دیا جاتا ہو وہاں افراد ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے اپنے لیے کماتے ہیں۔ پھر اپنے بچوں کے لیے. پھر ان کے بچوں کے لیے اور بچوں کے بچوں کے لیے اور اسی طرح کماتے کماتے مر جاتے ہیں لیکن انہیں تحفظ، سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا”۔
ہماری ضروریاتِ زندگی کی بہت کم اشیاء ایسی ہیں جو ہم خود کما سکتے ہیں، ہماری زیادہ تر ضروریات کا بوجھ معاشرہ اٹھاتا ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک اپنے گھر کو بھرنے کے لیے معاشرے کا برباد کر دینا انتہائی خسارے کا سودا ہو گا۔ اور یہ بھی سوچیے کہ ایسے معاشرے جہاں پیسہ کمانے کے لیے انصاف کا خون کر دیا جاتا ہو وہاں افراد ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے اپنے لیے کماتے ہیں۔ پھر اپنے بچوں کے لیے. پھر ان کے بچوں کے لیے اور بچوں کے بچوں کے لیے اور اسی طرح کماتے کماتے مر جاتے ہیں لیکن انہیں تحفظ، سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا”۔
ہماری زیادہ تر ضروریات کا بوجھ معاشرہ اٹھاتا ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک اپنے گھر کو بھرنے کے لیے معاشرے کا برباد کر دینا انتہائی خسارے کا سودا ہو گا۔
ذرا ان معاشروں کی طرف دیکھیے جہاں کبدعنوانی کا چلن عام نہیں، کیا وہ لوگ ہم سے زیادہ خوشحال نہیں؟ کیا وہ اپنے معاشرے کے لئے قربانی دیتے رہتے ہیں؟ کیا ان لوگوں کو اپنا فائدہ عزیز نہیں ہے؟ نہیں جناب۔ بلکہ وہ لوگ اپنے ذاتی نفع نقصان کو ہم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ معاشرے باہمی مفاد کے اصول پر قائم ہوتے ہیں اور کرپشن دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی جیب کاٹنے کا نام ہے۔ ہمارے معاشرتی اثاثے، ہمارے ادارے، ہماری سڑکیں، ہمارے اسپتال، ہمارے سکول، ہمارے ڈیم، ہماری ٹرینیں اور ہمارے جہاز، یہ سب ہمارے گھر کی چار دیواری کی محدود اور عارضی دنیا کی نسبت بہت زیادہ قیمتی ہیں۔ لیکن ہم وہ بیوقوف ہیں جو ماتھے پر گولی کھا کہ شکر کرتے ہیں کہ آنکھ بچ گئی۔
دس سال. صرف دس سال ہم اپنے معاشرے کو اپنی ترجیح بنا لیں۔ ایمانداری اور فرض شناسی کو اپنا شعار بنا لیں۔ دس سال ہمارے سیاستدان اور سرکاری افسران اپنے گھر کی فکر کو پسِ پشت رکھ کر اپنے اداروں کو بہتر کر لیں۔ دس سال ہمارے تاجر، استاد اور ڈاکٹر ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے لیں۔ دس سال ہماری پولیس اور عدالتیں رشوت لینا چھوڑ دیں۔ صرف دس سالوں میں ہم اپنے گھر اور معاشرے میں وہ سب کچھ حاصل کر لیں گے جو ہماری تین نسلیں ستر سال کرپشن کرنے کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکیں۔