Laaltain

کتھئی آواز کی روشنی

24 اکتوبر، 2016
میں ایک ایسی آواز کو جانتا ہوں، جس کی دھنک میرے روم روم کو بیدار کردیتی ہے۔ کانوں کی لوؤں پر سنسناتی ہوئی اس کی سرگوشیاں، دمکتی ہوئی اس کی گرمیاں اور چہکتی ہوئی اس کی چنگاریاں مجھے اندر سے سرسبز کردیتی ہیں۔یہ آواز کہاں سے پیدا ہوئی،گلے کے اندرون میں پھیلی ہوئی رگوں کی باریک جالیوں تک تو میری رسائی نہیں، مگر تصور کی تنگ و تاریک گلیوں سے ہوتا ہوا، جب میں اس آواز کے ٹنل میں داخل ہوتا ہوں تو چمکتی ہوئی دو آنکھوں کی طرح یہ آواز مجھے ساکت و جامد کردیتی ہے۔یہ صرف آواز نہیں ہے بلکہ ایک ایسا پیرہن ہے، جس نے دنیا کے سارے شور و غل کو ایک ہلکی سی انگڑائی کے زور پر مدہوش کررکھا ہے۔سب رکا ہوا ہے، دھیان بھی اور جسم بھی۔خواب بھی اور شہر بھی۔میں بھی اور خدا بھی۔میں اگر اس آواز کو بیان کرنا چاہوں تو شاید اسے کتھئی رنگ کی ایک روشنی سے تعبیر کروں گا۔ایک ایسی روشنی جسے دنیا نے دیکھا ہی نہیں ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا، باریک دوپٹے یا فون کے جالی دار سپیکر سے چھن کر آنے والی اس آواز نے بھاگتے ہوئے ہرنوں کو فضا میں اڑتے ہوئے روک لیا ہے۔

 

کتھئی رنگ کی روشنی میں ڈوبی ہوئی یہ صدا، اصل میں دودھ ابلتے ہوئے آبشار اور زنگ لگی ہوئی توپوں جتنی خوبصورت ہے۔میں اس کی تمکنت کو بیان کروں تو اپنے ہی دھیان میں ڈوبنے لگوں، اپنی ہی تخلیق کے جال میں لپٹتا جاؤں، جیسے ریشم کا کیڑا آواز کے جال کو دھاگوں میں تبدیل کردیتا ہے، یہ آواز پیدا ہوتی ہے دو لبوں کے ٹکرانے سے، زبان پر پھیلے ہوئے سفید پانی کی لہروں کے تالو کی شفاف اور چکنی چھت کےٹکرانے سے، زبان کا گلابی ناگ اینڈتا ہے، بل کھاتا ہے، پیچھے ہوتا ہے آگے بڑھتا ہے اور گالوں کی لال رنگ دیواروں سے ٹکراکر دوبارہ نئے پانی کی تلاش میں، نئی لہروں کے شور کی پیدائش کی جستجو لیے واپس اپنی تنہائی میں لوٹ آتا ہے۔کتھئی رنگ اور گلابی رنگ، حالانکہ یہ دو الگ رنگ ہیں، مگر اس تماشے میں گلابی اور سفید رنگ کی دھاریوں نے اس خاکی آواز کا لبادہ تیار کیا ہے۔جس میں پائلوں کی جھنکاریں بھی ہیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ بھی، قیدیوں کی کھنکتی ہوئی زنجیریں بھی ہیں، ابلتے ہوئے فوارے بھی، رات کو سنسنان حویلیوں میں بھٹکتی ہوئی چاپیں بھی ہیں، چھتوں پر دھمکتی ہوئی پر اسرار آہٹیں بھی۔آواز کے اس پورے کھیل میں لفظ بنتے نہیں، بگڑتے ہیں، بگڑ کر پھر ایک نیا روپ دھارتے ہیں اور عشق کی تہذیبی وراثت کو چیلنج کرتے ہیں، ٹھنڈے اور خاموش دلوں میں آگ لگاتے ہیں، کودتے پھاندتے ہیں، رقص کرتے ہیں، اوباشوں کی طرح غل مچاتے ہیں، جملے کستے ہیں، دوشیزاؤں کی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر قہقہے لگاتے ہیں، شیروں کی طر ح دہاڑتے ہیں، جگنووں کی طرح چمکتے ہیں۔ دھنک میں سات رنگوں کے مختلف تجربوں سے گندھی اس ایک آواز کا بیان اس لیے بھی مکمل طور پر ممکن نہیں کیونکہ اس کی کوئی تصویرنہیں ہے۔یہ تالابوں میں مچھلیاں پکڑتے ہوئے سفید ہنسوں کی طرح پنجے بھگو بھگو کر پلٹ جاتی ہے، آسمان کی جانب، اونچائی کی طرف۔یہ روز ازل سے گونجتی ہوئی آواز ہے، جس کی سانسوں میں ساری کائنات کا ایک گزشتہ اور خوش رنگ تجربہ گھول دیا گیا ہے۔

 

میں تعمیر و تخریب کے بکھیڑے نمٹاتا، دنیا کی شکست و فتح کے انداز دیکھتا ہوا ایک ایسا باریک نظر والا آدمی ہوں، جو تنہائی کی سیاہ سڑکوں پر یادوں کی دھوپ اور امیدوں کی برف کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے، اپنی بالکنی میں رات کے دو بجے، اڑتے ہوئے چمگادڑوں، چمکتے ہوئے چاند اور پھیلی ہوئی آڑھی ٹیڑھی عمارتوں کے کاغذات پر آخر کار مجھے نیند کے دستخط کرنے پڑتے ہیں۔میں جو اس سکون میں بھی شور کا شکستہ ہوں، درد سے چور، اپنی پچھلی زندگی کا سارا سرمایہ ہاتھوں پر لیے، اور وہ ہاتھ تکیے کے سرہانے پھیلائے سو جاتا ہوں، رات کے کسی پہر ایک آواز مجھے جگاتی ہے۔خوف و دہشت ، امید و بیم اور فتح و شکست کی تمام جنگوں سے دور ایک اور میدان میں یہ آواز مجھے لے آتی ہے۔میرا خالی بستر،زمین سے اٹھ کر داستانوں کے قالین کی طرح مجھے اس گہرے سبز رنگ منظر میں پہنچا دیتا ہے، بھاری پلکوں کےقدم، جیسے تھکن کی زنجیروں کو کھول دیتے ہیں،مایوسی کے فیتے ، احساس ناکامی کی پاپوش سے الگ کردیے جاتے ہیں۔وقت اٹھ اٹھ کر صدائیں لگاتا ہے، اور پھر رنگ کی ایک طویل ، بے جان اور بالکل اجنبی دستک کے ختم ہوتے ہی مجھ میں وہ آواز سفر کرنے لگتی ہے۔یہ کون سا اجالا ہے، جس میں درختوں کی جڑوں سے زیادہ ٹھنڈک ہے، پانیوں کی چمک سے زیادہ روشنی ہے، زلفوں کی دبازت سے زیادہ گہرائی ہے، حسن کی تراوٹ سے زیادہ نمک ہے۔اس وقت میں اس آواز سے فیض کی طرح بس اتنا ہی کہہ پاتا ہوں:
تم مرے پاس رہو
مرے قاتل مرے دلدار مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *