Laaltain

چند سستے احوال

30 ستمبر، 2015

[vc_row full_width=”” par­al­lax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“1/4”]
[/vc_column][vc_column width=“1/2”][vc_column_text]

چند سستے احوال

 

میں نے شہر پر
زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کر دیا ہے
مگر میرے بھائیو
تمہاری آنکھوں میں شہوت انگیز لال ڈوریوں کو دیکھ کر
مجھے نہیں لگتا میں یہ مقدمہ
جیت سکوں گا
اب قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے
میں نے اپنے کمرے کی دیوار کو
سنگسار کر دیا ہے

 

شب نوشی کی عادت کی ماری ہوئی
ہماری نسل رات پی پی کر
بھیانک ہوگئی ہے
اور ادھر کچھ رات کے خنجر گھنٹے
اپنی لوری دھار
وجود کی شہرگ پر دان کر گئے ہیں
اسکی کاٹ
دھمال ڈال رہی ہے
رات کو میرا دربار اچھا نہیں لگتا
اس میں لگی غموں کی اینٹیں
جھوٹی ہیں
جعلی ہیں
رات صاحبِ کردار ہے

 

ننگا کاغذ
لفظ اوڑھ کر
اور بھی ننگا ہوگیا ہے
شیرنیوں نے اب کی دفعہ
لومڑیوں کے بچے جنے ہیں
یہ بچے لفظ کو لباس نہیں بنا سکتے
ان کی سستی وحشت
ہمارے سیارے کی کنڈلی میں
لکھ رہی ہے
بیٹوں کے ہاتھوں موت

 

میں بہت سے لفظ دفنا چکا ہوں
ان کی ہڈیاں
ابھی تک اینٹھ رہی ہیں
ان کی کوکھ میں سے نکلتے معانی
میرے جاگتے گھنٹوں کی
آسیبیت میں شامل ہوکر
ہجومی بے معنیت کا شکار ہوگئے
اور تمہیں بس یہ شکایت ہے کہ میں نے
ان کے قل پر
بریانی کیوں نہیں بنوائی

 

خدا
خدا خدا کر کے
تھک گیا تھا
ابھی سو گیا ہے ہے کچھ دیر
اس کی خالی کرسی کو
آدمی
آدمی کر رہا ہے
یہ لالچ
خوابوں کی
مشت زنی ہے
کردار
اور صاحبِ کردار میں
گز بھر کا
سمندرانہ فاصلہ ہے

 

کچھ بھی نہیں ہے یار
یہ کائنات ایسے زور لگا رہی ہے کہ جیسے
بچہ جن رہی ہو
اور میں اور تم بس اسی زور سے تنگ آکر
ایک لمحہ آگے بڑھ جاتے ہیں

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=“1/4”]
[/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *